donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Reyazul Hashim
Title :
   Dr Payam Azmi Ki Marsiya Nigari

ڈا کٹر پیام اعظمی کی مرثیہ نگاری


ڈاکٹر ریاض الہاشم


( ؔولادت جولائی ۱۹۳۵ ء ) :

        نام سیّد قنبر حسین رضوی اور تخلص پیام اعظمی  ؔہے ۔ قصبہ امباری ضلع اعظم گڑھ ( اتر پردیش ) میں پیدا ہوئے ۔ آج ان کی ذات محتاج تعارف نہیں ۔ اپنی شاعری کے متعلق ان کا خود کہنا ہے کہ :

میر ا  اسکول  نہ دلّی  نہ اودھ   اور  نہ  دکن
ہے   در علم  سے   وابستہ   میرا   رشتہ ٔ  فن
لیتا  ہوں  سیرت  معصوم   سے  اصلاح سخن
سامنے  رہتی  ہیں  کردار  کی  شمعیں روشن

 سانس  رکتی ہے ،  تخیّل کی   نہ لے  ٹو ٹتی ہے
میرے لکھے ہوئے شعروں سے کرن پھو ٹتی ہے


     پیامؔ اعظمی کے مراثی کے مجموعے کا نام ’’ والفجر ‘‘ہے ۔ اس میں کل آٹھ مراثی شامل ہیں ۔ اس میں حسین ؑ اور اسلام (۱۹۶۸ ء ) ان کا پہلا مرثیہ ہے ۔یہاں اس سے پہلے مرثیے کے دو بند پیش کرتا ہوں ۔ ؎

اے ہم نشیں فسانہ ٔ  دین  خدا  نہ  پوچھ
اسلام پر جو وقت مصیبت  پڑا  نہ  پوچھ
کس طرح کاروان صداقت  لٹا نہ پوچھ
بعد رسولؐ دہر میں کیا  کچھ  ہوا نہ  پوچھ

        کہتی  ہے  شام غم  یہ سحر کے چراغ سے
         اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

تاریخ نے  وہ موڑ لیا  تھا  کہ  الحذر     
ظالم  یزید  اور  خلافت کے  تخت پر
آزر کے بندو بست میں تھا کبریا کا گھر
رہزن  کو  حا دثوں نے بنایا تھا راہ بر

        ابلیس  ورثہ  دار  خلیل  و  کلیم  تھا
        شدّاد   اور   نائب  خُلق  عظیم  تھا

    یہی ماحول تھا جبکہ حق کی پا سبانی کے لیے حجاز کی سرزمین سے اس فتنہ کو روکنے کے لیے امام حسین ؑ آگے آئے ہیں ۔ دیکھئے یہ بند  ؎

اٹھے حسین  ؑ عزم شہادت  لیے ہوئے
نانا کی شان باپ کی عزّت لیے ہوئے
ٹھوکر میں ہر غرور حکومت   لیے ہوئے
اسلام کا نوشتہ ٔ   قسمت   لئے  ہوئے

        بولے کہ حق  پہ آنچ بھی آئے محال ہے
        سینہ  سپر  یہ فاتح اعظم  کا  لال  ہے

    اس مرثیے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں از اوّل تا آخر زور بلاغت ، سلاست اور روانی موجود ہے ۔ یہ مرثیہ گرچہ ان کا پہلا مرثیہ ہے لیکن اسی سے ان کے زور کلام و اسلوب بیان کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حق و باطل کی جنگ روز ازل سے ہی دنیا کا مقدر ہے لیکن اس کے با وجود رب کائنات نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ اس جنگ میں حق کی فتح ہوتی ہے اور باطل کی رسوائی ۔

    پیام اعظمی ؔ کا دوسرا مرثیہ ؔ ’’ داستان وفا ‘‘ (۱۹۶۹ء ) میں لکھا گیا ۔’’عورت ‘‘ ۱۹۷۱ء میں ، آنسو ۱۹۷۳ء میں ،اندھیر ااور اُجالا۱۹۷۶ ٗ میں ، قلم ۱۹۷۸ ء  میں ، آخری انقلاب ۱۹۸۰ ء میں اور بدعت ۱۹۸۲ ء کی تصنیف ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور مراثی مثلا ً سجدہ ، نور اور نار ، علمدار حسین ، اہل بیتؑ ، اصحاب اور فضّہ کے عنوان سے لکھے گئے ۔ مرثیہ ’’قلم ‘‘میں قلم کی عظمت کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں ؎

یہ قلم  وہ  ہے جو کو ثر کی روانی مانگے
طبع کا  حُسن تخیّل  کی  جوانی مانگے
فکر جبریل دم زمزمہ  خوانی  مانگے
اس کا مارا ہوا دُ نیا میں نہ  پانی مانگے

        تیغ کام آئی نہ طبل اور علم  کام آئے
        نظر یوں کے تصادم میں قلم کام آئے

    اور ’’ سجدہ ‘‘ کا یہ بند توطنزیہ لب و لہجے کا حامل ہے ۔یہ بند دیکھئے   ؎

آدم ؑ  و نوح ؑ کی عظمت کا نشاں  ہے سجدہ
وجہ  تسکین  ر سول  ؐ دو جہاں   ہے سجدہ

قلب حیدر کے لئے راحت جاں ہے سجدہ
دولت  دامن   خاتون  جناں  ہے سجدہ

        چھوڑ کر  سجدوں  کی  تو ہین  مُحرّ م نہ کرو
        بے  نمازی  ہو  تو  شبیر  کا  ماتم  نہ کرو

    یعنی ’’ سجدے ‘‘ کی اتنی بڑی اہمیت ہے کہ علامہ اقبال ؔکے نزدیک بھی سجدہ انسان کے لئے اخروی نجات کا باعث ہے ۔

 وہ  ایک  سجدہ  جسے  تو گراں  سمجھتا ہے
ہزاروں سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

    مرثیہ ’’ عورت ‘‘ میں پیام ؔ اعظمی نے عورت کی اعلیٰ اور ادنیٰ دونو ں مدارج کا ذکر نہایت بے باکانہ انداز میں کیا ہے ۔

گرمیٔ انجمن کون  و مکاں  ہے  عورت
دل ہستی ہے اگر مرد  تو جاں  ہے عورت
سایہ ٔ  رحمت  رب  دو جہاں ہے عورت
کہیں  بیٹی کہیں زوجہ کہیں ماں ہے عورت

        آسیہ ہے کبھی ، کبھی مریم ہے کبھی سارہ ہے
         اور  رستے  سے  جو بھٹکے تو جگر خوارہ ہے

    پیام ؔ اعظمی کی یہ خوبی ہے کہ وہ اشارے ، کنایے میں پوری بات کہہ جاتے ہیں جس کے ذریعے پوری تاریخ نظروں کے سامنے آجاتی ہے ۔ جس سے ان کے اُسلوب کی انفرادیت اُبھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ اس طرح ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم مرثیہ گو شعرا ء میں ہوتا ہے ۔

(یو این این)


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1348