donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Nazm Teen Sawal Samaji Be Hisi Aur Karb Ki Ghamaz


محمد ثقلین ضیغم ؔ کے تین سوال


نظم ’’تین سوال‘‘  سماجی بے حسی اور کرب کی غماز


حسنین ساحرHassnain Sahir................


 
    سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی میں تہلکہ مچا دیاہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام کمالات انسانی ترقی کے شاہد ہیں۔ اسی ترقی کا ہی ثمر ہے کہ معاشرہ مختلف طبقوں میں منقسم ہو گیا ہے۔ جو قومیں مہذب ہونے کی دعویدار ہیں، طرح طرح کے معاشرتی مسائل سے دوچار ہیں۔ تہذیب ِنو کے تمام تر دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔ سماج کا دانشور اور باشعور طبقہ ایک عمیق اذیت کا شکار ہے جسے سماج کے مسائل کا حل کسی نہج پر نظر نہیں آتا۔ ایسی تمام تر صورتحال نے ایک عصری بے حسی کو جنم دیا ہے۔ جہاں خلوص و مروت کنگال و پامال نظر آتے ہیں۔  ہر عہد کا ادب اپنے عصری مزاج کا ترجمان ہوتا ہے۔ ہمارا ادب بھی اپنے عصری رجحانات سے متاثر ہوا ہے۔ خصوصاْ فن شاعری میں اس کے شواہد بکثرت پائے گئے ہیں۔ بہت سے شعرا نے انہی موضوعات کا اہتمام کیا ہے جن میں ایک نام محمد ثقلین ضیغم ؔکا بھی ہے۔
 
     ان کے فکری کینوس میں موضوعات کا ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ جس میں رومان، حزن وملال، ہجرووصال، سماجیات اور زیست کی پرآشوب کیفیات جیسے احساسات ملتے ہیں۔ ثقلین ضیغمؔ کا مستقل حوالہ غزل ہے لیکن انہوں نے نظم میں بھی بھرپور انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔ ان کی آزاد نظموں میں موسیقیت و آہنگ کا خصوصی التزام ہے۔ ان کے ہاں عصری رجحانات پورے کروفر کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کے کلام میں جملہ اسلوبیاتی لطافتیں بھی ہیںاور فکری و فنی نفاستیں بھی ۔وہ اشعار کے پردے میں معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے لیے ایک احساسِ خیر خواہی رکھتے ہیں۔ان کے مجموعہ کلام ’’شب سرخاب‘‘ سے یوں تو کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیںجو ان کی فکر اور عصری رجحان کی غماز ہیں لیکن یہاں ان کی ایک نظم جس کا عنوان ہے ’’تین سوال‘‘ خاص طور سے موضوع بحث ہے۔
 
     اکثر سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد جواب طلب کرنا نہیں، بلکہ احساس کے نئے دریچے وا کرنا ہی مقصود ہوتا ہے۔ نظم ’’تین سوال‘‘ ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے جس ے حقائق سے حسب سرشت چشم پوشی تو روا رکھی جا سکتی ہے لیکن انہیں جھٹلانا شاید ممکن نہیں۔ایک شاعر یا تخلیق کار تو ہمیشہ سے اپنی حساس طبع کے پیش نظر سماجی احتیاج کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے۔ ثقلین ضیغمؔ بھی سماجی بے حسی اور کرب سے دل برداشتہ ہو کر سراپا سوال ہوئے۔زیر بحث نظم کا پہلا سوال ملاحظہ ہو:


            کبھی تاریک گلیوں کے
            وہ بوسیدہ مکانوں کی
            ٹپکتی چھت کے نیچے ،زندگی کو تم نے دیکھا ہے؟


    جب انسان زندگی کے تلخ حقائق کو بہ نظر غائر دیکھتا ہے تو اسے مصائب و آلام کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے۔ ان کے مقابلے میں خوشیاں بہت حقیر نظر آتی ہیں۔ پھر انہیں انسانیت مغموم اور اداس دکھائی دیتی ہے۔ ثقلین ضیغمؔ بھی اسی کائنات کا حصہ ہیں۔ وہ بھی غم و آلام کا کثرت سے مشاہدہ کرتے ہیں اور سراپا سوال بن جاتے ہیں۔ ان کا یہی انداز ان کی نظم ’’تین سوال‘‘ سے جھلک رہا ہے۔بحیثیت مجموعی ان کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو ان کے سخن سے صبح درخشاں کی بات ملتی ہے۔ وہ تمام سماجی مصائب و آلام کا مداوا چاہتے ہیں۔اسی حوالے سے ان کے چند دعاعیہ اشعار ملاحظہ ہوں:


            مدتوں سے دل ہوس کی  ظلمتوں میں گم  رہا
            اب  ذرا   صبروقناعت  کی  ضیا کر  دیجیے
            امت مرحوم  کے  فرزند  ٹھہرے  بے بصر
            علم و حکمت کے سبھی در  ان  پہ  وا  کر دیجیے
            آدمیت کے لیے جس میں ہو جینے کی  تڑپ
            وہ  دل  پر درد  ضیغمؔ  کو  عطا  کر  دیجیے


    ان کے ہاں کرب و آشوب کے حوالے ذاتی نوعیت کی بجائے کائناتی نوعیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ بنی نوع انسان کو دعوت فکر دیتے ہیںکہ وہ اپنی ذات کے حصار میں ہی مقید نہ رہے بلکہ سماجی وسعتوں کا ادراک کرے۔ اس لیے ان کی فکر میں ہمہ گیریت کے ساتھ ساتھ گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں سماجی رویوں کا گہرا شعور ملتا ہے۔ وہ سماج کے دوہرے رویوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور اسے انتہائی موثر طریقے سے بے نقاب کرتے ہیں۔وہ آنکھیں جو خواب دیکھنے کی مستحق ہیں، وہ بے نور اور حسرت و یاس کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں۔دوسروں کو سکول جاتے دیکھ کر نہ جانے کتنے شکوے اور کتنی حسرتیں زبان پر دم توڑ دیتی ہیں۔ پیٹ کی بھوک ہر چیز پر حاوی ہو جاتی ہے۔مفت تعلیم اور کتابوں کی فراہمی خوش آئند ہے لیکن جن کی آنکھوں کے خواب ہی مر چکے ہوں، جن کے ذہنوں پر بھوک اور بدحالی کا خوف سوار ہو، انہیںبھلا ایسی خبروں سے کیسے بہلایا جا سکتا ہے :

            کبھی کُوڑے کے ڈھیروں پر
            بسا اوقات اپنا رزق چنتے
            پھول چہرے تم نے دیکھے ہیں؟



     سماج کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا بھی خردمندی کی دلیل ہے۔ اس سے اس امر کی صراحت ہوتی ہے کہ ثقلین ضیغمؔ انسانی نفسیات کا بھی عمیق ادراک رکھتے ہیں۔ان کے ہاں روح عصر کی بھرپور ترجمانی پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں غم دوراں، غم ذات کی حدود کو پھلانگتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے افکار کے آئینے میں حیات اور سنسار کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔  اپنے مشاہدات کو اظہار کے سانچے میں ڈھالنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک نباض کی مانند صورت حال کا تجزیہ کرنے کے بعد زیبِ قرطاس کرتے ہیں۔

    صنف نازک کو مختلف قسم کے سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حقائق سے کون انکار کرسکتا ہے کہ کتنے ہی   ارمان سینے کے اندر دم توڑ  دیتے ہیں۔کتنے ہاتھوں کو پیلا رنگ دینے کی تمنا، حسرت میں بدل جاتی ہے۔ اورسہاگن ہونے کے انتظار میں کتنے سروں میں چاندی اتر آتی ہے۔ کتنی ہی زندگیاں سماج کے فرسودہ رسم وراج کی نظر ہو جاتی ہیں۔ ثقلین ضیغمؔ ؔنے نظم ’’تین سوال‘‘ کے تیسرے اور آخری سوال میں  بنت حوا کی  نارسائیوں، محرومیوںاور مجبوریوں کی داستان اختصار اور جامعیت کے ساتھ سمو دی ہے :



             کبھی ہاتھوں کو پیلا رنگ دینے کی تمنّا میں
            سیہ بالوں کی چوٹی پر


    نظم ’’تین سوال‘‘ اس بات کی غماز ہے کہ ثقلین ضیغم ؔ  تلخیِ حیات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں اور اسے عصری تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے تخیلات میں روح ِعصر تمام آشوب زدگیوں کے ساتھ سمو دی ہے۔ انہوں نے زندگی کی تلخیوں کا بھرپور اظہار کیا ہے جس سے یہ امر پایہء تکمیل کو پہنچتا ہے کہ وہ دردمند جذبوں کے امین ہیں۔ زندگی کی ناہمواریوں اور نا آسودگیوں پر ان کا دل کڑھتا ہے اور وہ مجبورِنوا ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان کے یہ خیالات ان کے ذاتی تجربات کا حاصل ہوں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے مشاہدات کا حاصل ضرور ہیں۔ ان کے شعری تخیلات سے ان کے مشاہدات کا عکس جمیل ملتا ہے۔ ان کے ہاں فکری و فنی بلوغت کے شواہد ملتے ہیں۔ جن میں ان کی شعری ریاضت کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی فکری سنجیدگی کا اندازہ ان کی مذکورہ بالا نظم سے بخوبی لگایا جا سکتاہے۔


٭٭٭


حسنین ساحر
ایم فل سکالر، پاکستانی زبانیں و ادب،AIOUاسلام آباد۔موبائل نمبر:0333-5443633

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 725