donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Azad Ghazl Meri Nazar Me


آزاد غزل میری نظر میں


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


سید سجاد بخاری ایک پُر وقار، با ادب شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی ادبی خدمات اور ندرتِ خیال کا اظہار ’’آزاد غزل کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ سے لیا جاسکتا ہے۔ واقعی موصوف کی یہ تصنیف قابلِ تحسین ہے اور انہوں نے آزاد غزل پر اپنا معروضہ پیش کرنے سے قبل غزل کی فنی لوازمات کے ساتھ ساتھ قطعہ، واسوخت، مستزاد، تضمین، ریختی کے فنی پہلووں پر تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور قاری کے ذہن کو تذبذب سے بچالیا ہے۔ سجاد بخاری کا ایک نئی صنف سخن کو پروان چڑھانے کی طرف راغب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ادب کو صرف نئے زاویۂ نظر سے دیکھنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اہلِ سخن و اہلِ ادب کو ایک نئی راہ کی طرف گامزن ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں خواہ اس میں مناظر عاشق ہرگانوی، دیگر استادِ سخن کی حوصلہ افزائی کیوں نہ ہو۔

بقول ابواللیث صدیقی:

    ’’ ہر ذہن اور با شعور فن کار فطرتاً روایت شکن ہوتا ہے اس کی یہ صلاحیت اس کو آنکھیں کھولنے اور گردو پیش کو دیکھنے پر آمادہ کرتی ہے اور بے کار چیزوں سے انحراف اور نئی چیزوں کی تخلیق پر مجبور کرتی ہے‘‘۔

آزادغزل کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ’’پڑھنے کے بعد راقم الحروف کو یہ احساس ہوا کہ
 ’’آزاد غزل کو مظہر امام نے جنم دیا، عاشق ہرگانوی نے سینے سے لگایا، علیم صبا نویدی نے اسے آنکھوں پہ بٹھایا، دیگر شعراء و  نقّاد نے اس کی مشعلِ راہ سے اپنا اپنا سفر شروع کیا‘‘۔

صنفِ آزاد غزل کے ہیں بانی مظہر
اور عاشق ہیں نئے صنف سخن کے رہبر
ہیں علیم اردو ادب کے شہہ پر
کاش ساقیؔ کو ملے آزاد غزل کا عنبر

آزاد غزل کے محاسن و معائب پر کئی نقادوں اور ادیبوں نے اپنی گراں قدر رائے سے نوازا ہے ۔صنفِ آزاد غزل پر راقم الحروف کا خیال ہے کہ ...............پرندِ غزل، قصیدوں کی جھنڈ سے آزاد ہوکر مختلف فضائوں میں چہچہاتی، مسکراتی اپنی اصلی رنگ و روپ میں پہنچی تو اہلِ سخن کو خیال آیا کہ اس پرندے کے پر کتر کر اس کے پروں سے دوسرے اصناف کو تراشا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہیں پروں سے آزاد غزل کی صنف کو بھی تراشا گیا اور مصرعے کو چھوٹا یا بڑا کرنے کے عمل کو آزاد غزل کا نام دیا گیا لیکن اس کی سمت متعین نہ ہوسکی۔

مبتدی شاعر کبھی کبھی ایسے مراحل سے گزرتا ہے کہ اپنے خیالات و جذبات کو پیش کرتے وقت اگر وہ مخصوص ـ’لے ‘  میں نہ ہو تو آزاد غزل کے مصروعوں میں ڈھل جاتے ہیں، یہ ایک غیر شعوری لائحہ عمل ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آزاد غزل کہنے کی راہ سے ہر مبتدی شاعر کا گزر ہوتا ہے۔ اسی آزاد غزل کو ہم پابند غزل کا آئینہ لگا کر اصلاح کریں تو وہ پابند غزل کے رنگ و روپ میں زیب و زینت کے ساتھ آراستہ ہوجاتی ہے اگر ہم آزاد نظم یا غزل کا آئینہ لگا کر اصلاح کریں تو اسے آزاد نظم یا غزل کا نام دے سکتے ہیں الغرض یہ ہماری نقطۂ نگاہ پر منحصر ہے۔

’’آزاد غزل کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ‘‘ میں موصوف سے چند اغلاط، شعوری یا لا شعوری طور پر سرزد ہوئی ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

غزل کے اوزان و بحور کے تعلق سے لکھتے ہوئے صفحہ نمبر 16میں لکھا گیا ہے کہ بحر کامل زحاف اضمار کے بعد بحر ر جزبن جاتی ہے یہ غلط ہے کیوںکہ بحر کامل میں زحاف اضمار کو عمل لایا جائے تو بحر ہزج کاروپ اختیار ہوجائیگا۔

نوٹ  : اضمار سببِ ثقیل کے دوسرے متحرک کو ساقط کرنے کو کہتے ہیں متقاعلن کے سبب ثقیل کے دوسرے حرف ’’ت‘‘ کو ساقط کرنے پر مفاعلن عمل میں آئیگا۔

بحر کامل مثمن سالم

متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن   (۱)
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن   (۲)
بحر رجز متفاعلن آٹھ بار
بحر ہزج مثمن مقبوض
مفاعلن آٹھ بار

اسی طرح بحر رمل مسدس محذوف ابتر کو بھی غلط درج کیا ہے، ہونا یہ چاہئے تھا۔

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن  (۱)
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن  (۲)

صفحہ نمبر ۱۷(Page No.17) میں بحر خفیف کے زحافات کو غلط درج کیا گیا ہے اسی طرح صفحہ نمبر ۶۰(Page No. 60)  میں علیم صبا نویدی کی آزاد غزل کے ارکان بھی غلط درج کئے گئے ہیں ہونا یہ چاہئے تھا۔

مفاعیلن مفاعیلن فعولن
فاعلن فعولن فعولن

مصرعہ ثانی کا پہلا رکن مقبوض کی وجہ سے فاعلن ہوا ہے۔
ان اغلاط کے سوا کتاب کا ہر جملہ تحقیقی و تنقیدی مضامین سے لبریز مختلف ادیبوں و نقادوں کی آراء سے زینت تحسن کی حدود کو پار کرچکا ہے۔


:۰:۰:

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 448