donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jameel Akhtar Shafiq
Title :
   Main Ghazal Sunayun Hoon Ke zamane Mujhko bhula Na De : Kalim ajiz

میں غزل سنائوں ہوں اسلیے کہ زمانے مجھ کو بھلا نہ دے: کلیم عاجز


جمیل اختر شفیق ؔ تیمی

سیتا مڑھی۔رابطہ:09973234929    

غزل کا یہ مصرع اس قادرالکلام ،نادرالخیال ،منفردالمثال شاعرکا ہے جسے کائناتِ شعروادب میں کلیم عاجز کے نام سے جانا جاتا ہے۔جس کی رحلت سے آج پوی ادبی دنیا سوگوار ہے ،جس کی پرسوز آواز میں ایک مظلوم کی آہ،مجبور کی فریاد اور زخمی انسان کی کراہ احتجاج بن کر سنائی دیتی تھی،جس کی شاعری میں میر کا رنگ،غالب کی آفاقیت ،اقبال کی خودی ،جوش کی بے باکی،جگر کا والہانہ پن صاف طور پر جھلکتا تھا ۔

    فیض احمد فیض نے اپنی زندگی کے آخری انٹرویو میں بڑے پتے کی بات کہی تھی:’’ شاعری وہی معتبر ہوتی ہے جس میں شاعرکے اندر کا انسان بول رہاہو،شاعری ایکٹنگ نہیں حقیقتِ حال بیان کرنے کا نام ہے‘‘۔کلیم عاجز کی شعری ونثری دونوں طرح کی تصنیفات میرے مطالعے میں رہی ہیں ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات واحساسات کو شعری پیکر میں ڈھال کر ایک ایسی کائنات آباد کرتے ہیں جس میں انسانوں کا قافلہ اپنی آنکھوں میں غمِ زمانہ کا درد لیے ماتم کناں دکھائی دیتا ہے،دردوکرب کی پیکر تراشی میں وہ اپنی مثال آپ تھے ان کا مشہورِ زمانہ شعری مجموعہ ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ جن دنوں ناچیز کے مطالعہ میں تھا پڑھتے ہوئے متعدد بارآنکھیں نم ہوئیں ۔اس میں جابجا بلا کی اثرانگیزی،سحر طرازی اور معنی آفرینی نظر آئی۔مجھے یاد آتا ہے میرے ’حفظ’ کے زمانے میں ایک بار شاہد صدیقی نے نئی دنیا کا خصوصی شمارہ نکالا تھا جس کے سرِورق پران کا یہ شعر   ؎

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کروہو کے کرامات کروہو

    جلی حروف میں درج تھا مجھے اس وقت یہ تو پتہ نہیں تھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ کیونکہ اس وقت محدود ذہن وفکر کی تاریک راتوں میں جستجو کا چراغ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا تھا البتہ شعر دل کے نہاں خانوں میں محفوظ رہ گیا ممکن ہے کسی پرانی ڈائری میں بھی ماضی کی بھولی بسری یادوں کا نگہبان بن کر موجود ہو ۔

    2007کی بات ہے جب میرا شعور ادبی فہم وادراک کی راہیں ڈھونڈ رہا تھا، کہیں بھی مشاعروں ،ادبی جلسوں ،کانفرنسوں کے انعقاد کی خبر موصول ہوتی تو اضطراب بڑھ جاتا ،کسی بھی قیمت پر وہاں پہونچ کر ادباء وشعراء کا لفظ لفظ ذہنوں میں قید کرنے کا جنون سرچڑھ کربولنے لگتا ۔اسی بیچ دربھنگہ مشاعرے کی خبر اخبار میں نظر سے گزری ،دل میں ؁پختہ ارادہ کرلیا کہ ضرور مشاعرہ سننا ہے کیونکہ اس کی صدارت شہنشاہِ تغزّل کلیم عاجز فرمانے والے تھے ،میں اور محترم دوست شیخ ثناء اللہ صادق تیمی (اسسٹنٹ پروفیسر جامعتہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ،ریاض) دیوانہ وار چل نکلے۔سفر کیا تھا مانو دودیوانے چلتی پھرتی شاعری بن کر رواں دواں ہوں ۔کبھی چچا غالب کے منتخب اشعار یاد آرہے تھے تو کبھی اقبال کے شعروں کی قرأت جاری تھی ۔فراز،بشیر بدر،ندا فاضلی اور منور رانا کے بھی ان گنت اشعار ایسے زبان زد ہو رہے تھے جیسے فوری طور پر ان سبھوں کی روحیں ہم میں حلول کر گئی ہوں۔اس طرح سفر کی طویل مسافت ہم دونوں نے کیسے طے کرلی پتہ ہی نہیں چلا  ؎

میرا ماضی ادب سے روشن ہے
میں بھی غالب کے گھر میں رہتا ہوں

    سچ پوچھیے تو اس مشاعرہ کو سننے سے زیادہ’’ثانیِ میر ‘‘ کہاجانے والا اپنے عہد کا ہر دلعزیز ،قابلِ قدر ،ممتاز اور صالح طبع شاعر کلیم عاجز کو قریب سے یکھنے کی تمنّا انگڑائی لے رہی تھی کیونکہ ’’زندہ قومیں اپنے بزرگوں سے صرف ٹوٹ کر محبت ہی نہیں کرتی ہیں بلکہ ان کے قدموں کے نقوش کو بھی قرطاسِ دل پہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھتی ہیں ‘‘ شفیع مسلم ہائی اسکول میں شب بھر چلنے والا وہ تاریخی مشاعرہ صبح تک اہلِ دربھنگہ کے ذوقِ سلیم کی نمائندگی کررہا تھا،سامعین بزرگ شاعر کلیم عاجز کو سننے کے لیے استقامت کی آہنی دیوار بن کر ڈٹے رہے اور جب وہ اپنے سوز میں نغمہ سراء ہوئے تو دور دور تک سنّاٹا چھاگیا ۔حددرجہ نقاہت کے باوجود آواز کی نغمگی ،لفظوں کی بے ساختگی ’لہجے کا تنوّع  باقی تھا ۔سالو ںبیت جانے کے باوجود سماعت سے ٹکڑانے والا ان کا یہ شعر  ؎


ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی  

   
           جب ذہن کے اسکرین پر نمودار ہوتا ہے تو طبیعت ہشاش ہو کر رہ جاتی ہے۔کسی صاحب نے ان کے ایک شعر کے حوالے سے بڑا پرلطف سنایا تھا جو انہوں نے کبھی ہندوستان کے سیاسی پسِ منظر میں کہا تھا پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:کلیم عاجز ایک بار پٹنہ یونیور سیٹی کی سیڑھیوں سے نگا ہیں نیچی کیے اتررہے تھے،ہاتھ میں بیساکھی تھی،قدم لڑکھڑائے،پھر سنبھل گئے ۔کچھ دور کے فاصلے پہ کھڑے ایک شوخ طیعت لڑکے کو شرارت سوجھی اس نے ان کی طرف مخاطب ہوکر ان ہی کا مشہورِ زمانہ شعربلند آواز میں دہرایا   ؎

رکھنا ہے کہیں پائوں تو رکھو ہو کہیں پائوں
چلنا ذرا آئے ہے تواترائے چلوہو

     عاجز مرحوم نے سن کر اس کی طرف دیکھاپھردلنواز تبسّم فرمایااور بولے بدمعاش !دیکھتے ہوئے بیساکھی ؟ اگرپڑگئی ناتو بولوگے ’’لگائے چلو ہو ‘‘۔جہاندیدہ ،درویش صفت ،صالح افکارونظریات کے حامل اور گوناگوں صفات سے مزین شخصیت کا نام تھا کلیم عاجز۔’’شاعر ہوکر بھی وہ ان اخلاقی بھونڈے پن سے تاعمرکوسو ں دور رہے جن سے ایک شاعر ہمیشہ مہذّب اشخاص کی غیرت مند آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھتا رہتا ہے ‘‘۔

بلاتے کیوں ہو عاجز کو بلانا کیا مزہ دے ہے
غزل کمبخت کچھ ایسی پڑھے ہے دل ہلا دے ہے

    ادھرمہینوں سے دل میں یہ اشتیاق ابھر رہاتھا کہ ان سے براہِ راست ملاقات کی جائے کئی پروگرام وغیرہ کے حوالے سے پٹنہ جانے کا اتفاق ہوا لیکن اسے میری بے حسی کہیے یا ذہنوں پہ سوار غمِ حیات کا بوجھ کہ مجھے یہ شرف حاصل نہ ہو سکا جس کا تا عمر ملال رہے گا ،اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

(یو این این)

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 529