donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Amanullah
Title :
   Diwane Ghalib Aur Yadgare Ghalib

دیوان غالب اور یادگارِ غالب


محمد امان اللہ

ریسر چ اسکالرایل۔این۔ایم۔یو، دربھنگہ


مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ المعروف مرزا نوشہ اتفاق رائے سے اردو کے عظیم ریختہ گو صاحب کمال گزرے ہیں۔ جن کی پیدائش ۲۷؍ دسمبر ۱۷۹۷ء کو آگرہ میں اپنی نانیہال میں ہوئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد غالبؔ کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے سرپرستی کی۔ ان کی ابتدائی تعلیم کا انتظام نانیہال میں کیا گیا ۔ کسی فیاض نامی شخص سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ گیارہ برس کی عمر کو پہنچتے پہنچتے مرزا غالبؔ شعر کہنے لگے ۔ وہ فارسی شعراء میں سب سے زیادہ متاثر بیدلؔ کی شاعری سے ہوئے اور قصداً ان کی نقل اپنے شعروں میں اتارنے لگے ۔ بیدلؔ کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات کے ساتھ اسلوب کی پیچیدگی پائی جاتی تھی جس کو غالبؔ نے اپنے لئے پسند فرمایا ۔ فارسی کے شاعروں میں وہ عرفی و نظیری کو بھی بہت پسند کرتے تھے ۔ اُردو کے غزل گویوں میں صر ف اور صرف محمد تقی میرؔ کی استادی کے قائل تھے۔ جنہیں مرزا نے کچھ اس طرح خراج عقیدت اپنے شعروں کے ذریعہ پیش کیا    ؎٭ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا٭میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں٭غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

                    

    یوں تو مرزا غالبؔ اپنے سامنے کسی دوسرے شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن اپنے قریبی پیش رووں اورمعاصرین شعرا کے رنگ سخن کو دیکھ کر للچاتے بھی تھے۔ آتشؔ اور ناسخؔ کے تعلق سے غالبؔ کی پسندیدگی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں ۔ وہ مومنؔ خاں مومن کی شاعری کو بھی پسند فرماتے تھے ۔ اپنے قریبی ہمعصر شیخ ابراہیم ذوقؔ سے ان کو معاصرانہ چشمک تھی۔ مرزا کا کلام عوام میں اتنا مقبول نہیں تھا جتنا ذوقؔ کا تھا۔ اس کی وجہ مرزا کے کلام کا نامانوس ہونا بھی تھا۔ غالب کی بیدل پسندی نے انہیں مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں چلنا سکھایا تھا۔ ان کی غزلوں میں فارسیت کے غلبہ کی وجہ سے کلام ادق ہوجایا کرتا تھا۔ سننے والے مرزا کے کلام پر اعتراض کیا کرتے تھے ۔ جس کا جواب مرزا غالب کچھ اس طرح دیتے تھے :

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل٭سن سن کے اسے سخن ورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش٭گویم مشکل ، وگرنہ گویم مشکل

    غالبؔ کو بہت بعد میں چل کر یہ احساس ہوا کہ ان کا کلام ادق فارسی اصطلاحات کی بدولت ترسیل میں ناکام ہوتا ہے تو انہوں نے طرز بیدل میں شعر کہنے کو ترک کر دیا اور سہل ممتنع کو اپنالیا۔ لیکن غالب کا سہل ممتنع بھی ذہانت آزماہی نکلا۔ اس شاعری کو بھی سمجھنے میںلوگوں کو پسینے چھوٹ گئے۔ مرزاؔ غالب نے جس طرح شاعری میں اپنا رنگ سخن اور طرز کلام سب سے علاحدہ ایجاد کیا نثر میں بھی پر تصنع اور پر تکلف آداب اظہار کو اختیار نہ کرکے سیدھے سادے جملوں میں بات کہنی شروع کر دی۔ یہ قول معروف ہے کہ مرزا نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا۔ مرزا غالب کی تصانیف میں دیوان کے علاوہ نثر میں دستنبو، قاطع برہان اردوئے معلی کافی مشہور ہوئیں۔

    مرزا غالب کو زمانہ کی ناقدری کی شکایت رہا کرتی تھی ۔ لیکن جیسے جیسے ان کی شہرت پھیلتی چلی گئی ان کے قدردان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اس امر کی جانب مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ’’یاد گار غالب‘‘ اشارے بھی کئے ہیں۔ غالب کی زندگی میں حالی جیسا قدرداں مل گیا جس کی اپنی شخصیت کم تابناک نہیں تھیں۔ حالی ایک ایسے ادیب، شاعر، مصلح اور مفکر تھے جن کے یہاں روح عصر پریشان نظر آتی ہے ۔ چاہے وہ مقدمہ شعر و شاعری کے تنقیدی مباحث ہو ںیا مدو جزر اسلام نام کی مثنوی ان میں حالی کا ملتہب دل اور بے چین دماغ منعکس نظر آتا ہے۔ یادگار غالب ایسی تصنیف ہے جسے باضابطہ بایوگرافی(Biography)تو نہیں کہا جاسکتا لیکن جو تاثرات تسلسل کے ساتھ حالی نے بیان کئے ہیں ان سے مرز اغالب کی ایسی شبیہ بنتی نظر آتی ہے جو اپنے فن کا یکتا ہے اور جس کو قدرت نے بے پناہ شاعرانہ صلاحیتیوں سے مالا مال کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ غالب بعینہٖ ایسے نہ رہے ہوں جیسے ’’یادگار غالب‘‘ میں دکھائی دیتے ہیں ۔ کیونکہ یہ کمال الطاف حسین حالی کی جادو نگاری کا ہے اور وہ اس معاملہ میں کسی سے کم نہیں خود غالب سے بھی نہیں۔ یہ وہی حالی ہیں جنہوں نے آگے چل کر جدید ادب کے پیدا ہونے کے لئے تخم ریزی کی۔ جونیا ادب بعد میں چل کر پیدا ہوا وہ حالی کا ہر طرح سے مرہون منت ہے۔ اقبال جیسا شاعر حالیؔ کے دبستان کا طالب علم نظر آتا ہے۔ یہاں میرے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ حالیؔ نے ’’تنقید غالب ‘‘ کی بنیاد یادگار لکھ کر ڈالی ۔ ورنہ حالی سے پہلے تذکروں اور تاریخ میں غالبؔ کا ذکر بہت سرسری ملتا ہے۔ مولوی محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں اپنے استاد شیخ ابراہیم ذوق کو غالب پر فضیلت دی ہے۔ لیکن حالیؔ کی یادگار کے بعد غالبیات کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اس کے بعد ایک سے ایک کتابیں غالب کی شاعری کے تعلق سے سامنے آنے لگتی ہیں ۔ ان تمام تنقیدات غالب کا تجزیہ راقم کو مقصود ہے ۔ لیکن سب سے پہلے ’’آب حیات‘‘ کاحوالہ آئے گا کیونکہ آب حیات ایک ایسی ادبی دستاویز ہے جو کلاسک کا درجہ اختیار کرنے کے باوجود جدید دور میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ اس کتاب کا انشا پردازانہ اسلوب جو کلیم الدین احمد کو ناگوار گزرا لیکن بقیہ ادیبوں اور ناقدوں نے آزاد کی انشا پردازی کی تعریفیں کی ہیں۔ تنقید ات غالب کے ضمن میں آب حیات پہلا زینہ ہے۔ اس کتاب میں غالب کا ذکر پانچویں دور کے شاعروں میں کیا گیا ہے ۔ مولوی محمد حسین آزاد مرزا غالب کی شاعری کے تعلق سے رقم طراز ہیں :

’’تصنیفات اردو میں تقریباً ۱۸۰۰ شعر کا ایک دیوان انتخابی ہے کہ ۱۸۴۹ء میں مرتب ہوکر چھپا۔ اس میں کچھ تمام اورکچھ ناتمام غزلیں ہیں اور کچھ متفرق اشعار ہیں۔ غزلوں کے تخمیناً ۱۵۰۰ شعر، قصیدوں کے ۱۶۲ شعر، مثنوی کے۳۳ شعر ، متفرقات قطعوں کے ۱۱۱شعر، رباعیاں ۱۶، ۲ تاریخیں جن کے ۴ شعر۔ جس قدر عالم میں مرزا کا نام بلند ہے اس سے ہزاروں درجہ عالم معنی میں کلام بلند ہے۔ بلکہ اکثر شعر ایسے اعلیٰ درجہ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جب ان شکایتوں کے چرچے زیادہ ہوئے تو اس ملک بے نیازی کے بادشاہ نے کہ اقلیم سخن کا بھی بادشاہ تھا اپنی غزل کے ایک شعر سے سب کو جواب دے دیا:

نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی

    اور ایک رباعی بھی کہی   ؎

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل٭سن سن کے اسے سخن ورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش٭گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل

    ایک دن استاد مرحوم سے مرزا صاحب کے انداز نازک خیالی کا اور فارسی ترکیبوں کا اور لوگوں کی مختلف طبعیتوں کا ذکر تھا۔ میں نے کہا کہ بعض شعر صاف بھی نکل جاتا ہے تو قیامت ہی کر جاتا ہے۔ فرمایا خوب! پھرکہا کہ جو مرزا کا شعر ہوتا ہے اس کی لوگوں کو خبر بھی نہیںہوتی۔ شعر ان کے تمہیں میں سناتا ہوں۔ کئی کئی متفرق شعر پڑھے تھے ۔ ایک اب خیال میں ہے    ؎

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

اس میں کلام نہیں کہ وہ اپنے نام کی تاثیر سے مضامین ومعانی کے بیشہ کے شیر تھے ۔ وہ باتیں ان کے انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں ۔ اول یہ کہ معنی آفرینی اور نازک خیالی ان کا شیوئہ خاص تھا۔ دوسرے چونکہ فارسی کی مشق زیادہ تھی اور اس سے انہیں طبعی تعلق تھا ۔ اس لئے اکثر الفاظ اس طرح ترکیب دئے جاتے تھے کہ بول چال میں اس طرح بولتے ہیں۔ لیکن جو شعر صاف صاف نکل گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ جواب نہیں رکھتے۔ ‘‘

(مولوی  محمد حسین آزاد ’’آب حیات‘‘ صفحہ نمبر ۵۱۴ تا ۵۱۶، پبلشر
 :رام نرائن لال بین مادھو، اشاعت: ۱۹۸۰ئ، ۲۔ کٹرہ روڈ الہ آبادہ)

    مولوی محمد حسین آزادؔ نے مرزا غالب اور ان کی شاعری کا جس قدر جیتا جاگتا نقشہ کھینچا ہے اس کو دیکھ کر یہ نہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہی آزاد ہیں جنہوں نے اپنے استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ کے باب میں مدح سرائی کی ہے اور مبالغہ سے لے کر غلو کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ تنقید اور تذکرہ میں اس قسم کا انداز اٹھارہویں ، انیسویں صدی کے زمانے میں رائج تھا۔ کیونکہ ا س زمانے میں نثر اس قبیل کی لکھی اور پڑھی بلکہ سمجھی بھی جاتی تھی۔ نثر نگاری میں سب سے بڑا انقلاب خود غالب کی مکتوب نگاری کے ذریعہ پیدا ہوا جس میں کسی قسم کے پرتصنع اور پرتکلف انداز تحریر سے دانستہ اجتناب برتا گیا تھا ۔ غالب کے خطوط پہلی ایسی نثر کے نمونے ہیں جن میں جدید علمی نثر کے آغاز کا خاکہ ہمیں نہیں ملتا ہے ۔ یہ وہی نثر ہے جس نے آگے چل کر انشا پردازوں کو متاثر کیا اور ایک ایسے تنقیدی اسلوب کو پیدا کیا جس میں قطعیت کے ساتھ ساتھ کھلاپن ظہور میں آیا۔ مولوی محمد حسین آزاد کے انداز بیان میں یقینا صفائی پائی جاتی ہے ۔ زبان صاف، شستہ اور تمدن آشنا ہے لیکن یہ زبان صرف اپنے انشا پرداز انہ اسلوب کے بل بوتے کھڑی نظر آتی ہے۔ اس نثر کو پڑھنے میں لطف تو آتا ہے لیکن یہ نثر تنقید کی نثر نہیں ہے۔ آزاد کی نثر میں تاثرات ہیں اور کسی قسم کے علمی استدلال کا ا س میں پتا نہیں چلتا۔ اتنا ضرور ہے کہ مرز غالب کے کلام کی جس انداز سے پذایرائی کی گئی ہے وہ ایک تاریخی چیز ہے اور آنے والے زمانہ میں لوگوں نے آزاد کی پیش کی ہوئی رایوں سے اپنے تاثرات کے چراغ جلائے ہیں۔

    مولوی محمد حسین آزاد کے بعد بلاشبہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کا نام سامنے آتا ہے۔ غالبیات کے ضمن میں سب سے پہلا کتابی صورت کا کام مولانا حالی نے ’’یادگار غالب‘‘ لکھ کر انجام دیا۔ یہ کتاب غالبیات کی نہ صرف یہ کہ محرک بن کر سامنے آتی ہے بلکہ شعر فہمی کے نئے آداب بھی سامنے لاتی ہے۔ گرچہ یادگار سوانحی کوائف پر مبنی غالب کی شخصیت کا خاکہ ہے جس کے دو حصے ہیں۔ دوسرا حصہ مرزا کے کلام پر رویویعنی تنقید و تبصرہ سے موسوم ہے۔ اگر سوانح اور تنقیدی کتاب کی بنیادی اساسی تعریف کی روشنی میں ’’یادگار غالبؔ‘‘ کو رکھ کر پڑھا جائے تو مایوسی ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح ایک منظم اور مربوط کتاب نہیں ہے۔ یہ خامی حالیؔ کی دوسری سوانح عمریوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں ان باتوں کی تفصیل کی گنجائش اس لئے نہیں کہ ’’یادگار‘‘ کا مطالعہ یہاں سوانح عمری یا تنقید کی کتاب کی حیثیت سے نہیں پیش کرناہے بلکہ یادگار کی روشنی میں مرزا غالب کی شاعری کے جو ہر معنی کو سامنے نکال کر لانا ہے۔ اگر صرف اس کام کو ملحوظ رکھا جائے تو حالی کی کتاب کی دیگر خامیوں کی طرف ہمارا ذہن ملتفت نہیں ہوتا۔ حالیؔ یوں بھی معمار اولین تھے اور کسی بھی نقاش اول کی پہلی کاوش ہیئت ، معنی اور صورت کے اعتبار سے شاہکار نہیں ہوتی۔ اس قسم کی خامیاں ارسطو اور افلاطون وغیرہ کی ابتدائی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔

    ’’یادگار غالب‘‘ پر اتنے زمانے گزر ے لیکن اس کے ادبی ریفرینس میں آج تک کمی نہیں آئی ہے۔ مرزا غالبؔ اپنے انداز بیان سے جانے جانے والے شاعر تھے۔ حالی کو غالب کی صورت میں ایسا شاعر مل گیا تھا جس کا خاکہ انہوں نے ’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ میں پہلے ہی پیش کر دیا تھا۔ یعنی ایسا شاعر جس کا کلام نیچرل شاعری کے ضمن میں آتا ہو اور حالی نے جس قسم کے تنقیدی مفروضے طے کر لئے تھے ۔ ان پر ان کا کلام جانچ پرکھ پر صحیح اترتا ہو۔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ حالی کی وہ تصنیف ہے جس نے شعر و شاعری کے سلسلہ میں پہلی مرتبہ نظریاتی بحث چھیڑ دی تھی۔ جس قسم کے شاعر اور شاعری کا خاکہ حالی نے پیش کیا تھا وہ غالب کی صورت میں ان کے سامنے موجود تھا۔ یہ معاملہ بہت کچھ انگریزی کے رومانی شاعر ورڈزورتھ  (William Wordsworth) کے Lyrical Ballads کے دیباچہ جیسا تھا جس نے اپنے زمانہ کی اس تنقید اور فکر و نظر کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی جو محض کلاسیکیت کی رٹ لگانے میں مصروف تھی۔ بلاشبہ حالی نے ورڈرزورتھ کے دیباچہ کی طرح اپنے تنقیدی خیالات سے بھی وہی کام لینا چاہا جیسا ورڈز ورتھ نے لیا تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی اپنے اس کوشش میں بے حد کامیاب

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1569