donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Wasiullah Husaini
Title :
   Wali Ansari Ki Ghazlon Ka Range Taghazul Aur Andaze Tafakkur


ولی انصاری کی غزلوں کا رنگ ِ تغزل اور انداز ِ تفکر


 محمد وصی اللہ حسینی

پروفیسر ولی الحق انصاری کا تعلق اس نسل سے تھاجو اب دھیرے دھیرے معدوم ہوتی جارہی ہے۔شہر نگاراں میں اس نسل کے افراد اتنے کم رہ گئے ہیں کہ انھیں انگلیوں پر گناجاسکتاہے۔ایسے لوگوں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ قدیم وجدید کے جامع ہواکرتے تھے۔قدیم صالح کی پاسداری اورجدید نافع سے نفع اندوزی ان کا شیوہ تھا۔وہ نہ تو کلی طور پر مشرق سے بیزار ہوتے تھے اور نہ مکمل طورپر مغرب سے حذر کرتے تھے۔بلکہ فطرت کے اشارے پر ہرشب کو سحر کرتے تھے۔ان کے یہاں روایت اورجدت کا نہایت ہی حسین امتزاج پایاجاتاتھا۔پروفیسر انصاری کی شخصیت اور ان کے علمی وادبی اکتسابات پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ان کے یہاں بھی مذکورہ خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ان کی پیدائش دینی گھرانے میں ہوئی لیکن انھوں نے تعلیم عصری دانش گاہوں میں حاصل کی۔غیر مذہبی لوگوں میں نشست وبرخاست کے باوجود مذہبی امور کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔مشرقی شخصیات کو مغربی زبان میں متعارف کرایا۔ان کی شاعری کا بھی یہی حال ہے ۔یہاں بھی اعتدال وتوازن پایاجاتاہے۔انھوں نے تقریباً جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن کہیں بھی افراط وتفریط نہیں ملے گی۔لکھنوی شعراء میں ان کو اہم مقام حاصل ہے۔

                       

11دسمبر1926کو لکھنؤ کے خانوادہ فرنگی محل میں پیداہونے والے پروفیسر انصاری گوناگوں کمالات وصفات کے حامل تھے۔اس کا ثبوت مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں اور رنگا رنگ نگارشات ہیں۔اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ جن قلم کاروں اور فن کاروں کے یہاں تنوع(Versatility)کا عمل ہوتاہے ان کی تخلیقی قوت کسی ایک نہج پر ٹھہرے رہنے سے روکتی نہیں بلکہ کچھ نہ کچھ نیاکرنے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اظہار وترسیل کے نئے نئے وسائل وذرائع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ان کے اندر کی اضطرابی کیفیت جمود وتعطل اور یکسانیت کو توڑ کر جہانِ نو کی سیر پر مجبور کرتی ہے۔انصاری صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ان کی ہمہ گیر شخصیت کا تقاضابھی یہی تھا کہ وہ ادب کے کسی مخصوص تنگائے سے نکل کر اس کے بحر بیکراں میں غواصی کریں۔چنانچہ انھوں نے اپنے جذبات واحساسات اور خیالات ونظریات کے اظہار کے لئے کئی طرح کے ذرائع (Mediums)اختیارکئے۔انھوں نے نظم ونثر کی متعدد اصناف میں اپنے کمالات کے جوہردکھائے ، جن میں غزل خاص طور سے قابل ِ ذکر ہے۔ہشت پہلو شخصیت کے مالک پروفیسر انصاری نے بھی دیگر شعراء کی طرح شاعری کا آغاز 1942میں غزل گوئی سے کیا۔ غزلوں میں ان کا رنگ وآہنگ بالکل منفرد ہے۔

حکومت ِایران کے انتہائی باوقار ’سعدی ایوارڈ‘سے نوازے گئے  ولی انصاری کی غزلوں میں الگ رنگ ِ تغزل بھی ہے اورنیاانداز ِ ِتفکر بھی۔حسن وعشق کا ذکر ِ جمیل بھی ہے اور مسائل زمانہ کا عکس حسین بھی۔گل وبلبل ،جام وسبو اور لب ورخسار کی خوش بیانی بھی ہے اور انسانی دردمندی ،عصری حسیت اور فکری وتہذیبی انقلاب کی ترجمانی بھی۔ان کی غزلوں میں حسن کی نزاکتیں بھی ہیں اور عشق کی حرارتیں بھی۔ان میں غم ِ جاناں کے ساتھ غم ِ زمانہ کے نقوش بڑے گہرے ہیں۔غم ذات کو غم ِ کائنات بنانے کا ہنر دیدنی ہے۔ان کی شاعری میں ماضی سے استواری،حال سے باخبری اور مستقبل کی آگہی بھی ہے۔تغزل کی  مثال دیکھئے:

شرمارہے ہیں آپ کسی کے خیال سے
ہوتے نہیں ہیں سرخ یہ رخسار بے سبب

ولی کل مجمع خوباں میں ہم نے تجھ کو دیکھاتھا
وہ جس کی بھولی بھالی شکل تھی تجھ کو لگی کیسی؟

کب سے تیرے لطف وکرم پر آس لگائے بیٹھے ہیں
کچھ تو پھینک ادھر بھی ظالم اپنی شوخ نگہ کے پھول

تڑپے ہے روز وشب دلِ ناشاد آجکل
غربت میں آرہے ہو بہت یاد آجکل

حسن آپ کا کچھ اور بڑھادیکھ کے مجھ کو
کچھ اور ہوئے آپ کے رخسار گلابی

ترساکیں جن کی دید کو آنکھیںتمام عمر
وہ شخص روز وشب مری تنہائیوں میں تھا

سابق صدرشعبہ فارسی لکھنؤیونیورسٹی ولی انصاری چوں کہ فارسی ادبیات کے پروفیسر اور اسکالر تھے اس لئے اس کا اثر ان کی شاعری پر نمایاں ہے۔بہت سے الفاظ وتراکیب کو انھوں نے اردو میں متعارف کراکر اردو کے سرمائے میں اضافہ کیاہے۔اس خصوصیت کی وجہ سے ان کی انفرادیت بھی قائم ہوگئی ہے اور ان کے کلام میں حسن بھی پیداہوگیاہے۔پروفیسر شبیہ الحسن نونہروی لکھتے ہیں:

’فارسی کے پروفیسر ہیں اور معانی ومطالب سے لے کر اسلوب ِ بیان کے ان تمام پیچ در پیچ اثرات ومحرکات سے براہ راست واقفیت رکھتے ہیںجنھوں نے اردو شاعری کی توانائی اور حسن میں مسلسل اضافہ کیا۔مزید براں وہ اپنے ذاتی ادراک اور احساس کی ایک ایسی سماجی آگاہیوں سے معمور مگر رنگارنگ دنیابھی رکھتے ہیں جس پر عہد حاضر اور اس کے پیداکردہ مسائل کی چھاپ موجود ہے۔یہی چیز ان کی فنکاری میں ندرت اور افادیت پیداکرتی ہے۔۔۔۔پروفیسر انصاری نے مشاہدات وتجربات کا ایک وسیع خرمن جمع کیاہے اور ان پر نظم کے بجائے غزل کی جمالیات کو بڑی مہارت کے ساتھ عائدکردیاہے۔۔۔ان غزلوں میں فارسی کاکافی اثر موجود ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ جس کا خطرہ ایک فارسی کے پروفیسر سے ہوسکتاتھا۔فارسی تراکیب واسالیب کا موثر امتزاج نہ صرف لطف انگیز ہے بلکہ ریختے کی حسن کاری کی یاد دلاتاہے۔‘‘(1

یہ حقیقت ہے کہ فارسی لفظیات ومصطلحات کے استعمال کی وجہ سے ان کے اردو کلام میں حسن ودلکشی اور انفرادیت پیداہوگئی ہے ،لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ کہیں کہیں غیرمانوس فارسی الفاظ وتصورات کے استعمال سے ان کی شاعری میں ثقالت کا احساس ہوتاہے۔کہنے کو غزل تو تیار ہوگئی لیکن بندش میں لطافت،ترکیب ِ خیال میں رعنائی ،زبان میں لوچ اور بیان میں وہ تاثیر نہ پیداہوسکی جو تغزل کی جان ہے۔فارسی کے اثر کے سبب وہ اپنے اشعار کو الفاظ وافکار کے بوجھل پن سے بچانہ سکے۔

غزل کا اپنا ایک مخصوص رنگ وآہنگ ہے۔یہ اپنے آداب،رکھ رکھاؤ،وضع داری اور تہہ داری رکھتی ہے ۔یہ احساسات وجذبات کی زبان ہے۔پروفیسر انصاری نے اس نفاست ونزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے اندرونی درد وکرب کو بڑی خوبصورتی سے غزل کا پیکر عطاکیاہے۔ان کے یہاں عصری حسیت جابجا تغزل کے پیرہن میں نظر آتی ہے۔

ولی انصاری کی شاعری 1942 سے2009تک کے ارتقائی مراحل سے گذری ۔اس دوران ان کے غزلوں کے چار مجموعے غزالان ِ خیال (1980)شاہدان ِ معانی   (1986)نقوش ِ زیبا  (1994)اور کہکشاں  (2005)منظر عام پر آئے۔اس طویل مدت میں فکری ،تہذیبی اور تمدنی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنھوں نے لوگوں کے افکارونظریات پر واضح نقوش ثبت کئے۔ولی انصاری کے کلام میں ان عصری ارتعاشات اور فکری تغیرات کی آواز بخوبی سنی جاسکتی ہے۔عصری حسیت ،مسائل ِ زمانہ اور حقیقت پسندی کی مثال ملاحظہ فرمائیں:

کون سمجھے کہ ہے کیا رنج ومسرت کیاہے
اٹھتے ہیں شانوں پہ تابوت بھی ڈولوں کی طرح

وہ بیچارہ پیہم خساروں میں تھا
سبب؟یہ کہ ایمانداروں میں تھا

دوستوں کی بے وفائی کی شکایت ہے فضول
باپ بیٹے کا نہیں یہ وہ زمانہ ہے میاں

اگر حلال ہے کھانا خود اپنے بھائی کا گوشت
تو پھر شراب کے پینے میں کیا برائی ہے

مقتلوں میں روشنی کے واسطے
کتنے خرمن ہائے جاں جلتے رہے

عزم وحوصلہ ،جدو جہد،اور ہمت وجواں مردی سے متعلق اشعار ملاحظہ کریں    ؎

رکھاہے تاج سامنے شیروں کے درمیاں
خواہش ہے سروری کی اگر تجھ کو ،جا اٹھا

انھیں شاہیں کو لہودینا پڑے گا اپنا
جو جیاکرتے ہیں دنیامیں ممولوں کی طرح

انھیں کے گھر ہوئے تاراج اعداء
بچانے گھر کو جو نکلے نہ گھر سے

انھوں نے سائنسی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایاہے۔ایساکرتے وقت بھی انھوں نے صرف بیان ِ واقعہ پر اکتفا نہیں کیابلکہ اس میں بھی کوئی نہ کوئی پیغا م ضرور چھوڑاہے۔سائنسی نظریہ ہے کہ زبان سے جو آواز نکلتی ہے وہ فضا میں جاکر محفوظ ہوجاتی ہے۔دیکھئے اس خیال کو انصاری صاحب نے کس طرح اداکیاہے۔

داد جن کی نہ ملی مجھے کل کے لئے
کرلئے شعر وہ محفوظ فضانے میرے

پہلے کبھی انسان کا معبود تھایہ چاند
اب چاند پہ انسان کا نقش ِ کفِ پاہے

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ غزل کی زمین جتنی مشکل ہے ،اسلوب اتنا ہی رواں دواں ہے۔ان اشعار میں اقبال کی فکر اور ان کا انداز بھی صاف محسوس کیاجاسکتاہے۔

ولی انصاری کے کلا م کابالاستیعاب مطالعہ کرنے پر غالب اور اقبال کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔موضوع اور ہیئت دونوں اعتبار سے وہ کبھی غالب کے قریب اور کبھی اقبال کا تتبع کرتے نظر آتے ہیں۔ان دونوں عظیم شعراء کے فکری تصورات بھی انھیں Provokeکرتے ہیں اور ان کے آہنگ بھی اپنی جانب کھینچتے ہیں۔اسلوب میں غالب کی مشکل پسندی اور مواد میں اقبال کی فکری بلندی صاف دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔لیکن جہاں وہ غالب واقبال اور دیگر استاذ شعراء کے ڈکشن سے الگ ہوئے ہیں ایک مخصوص لب ولہجے کا امتیاز حاصل کرلیاہے۔انھوں نے قدیم شعراء کی اتنی زیادہ پیروی کی ہے کہ غیر ہمدرد حضرات ان پر سرقہ اور توارد کا الزام عائد کرسکتے ہیں۔حالاں کہ وہ ’مقلد ِ محض ‘ نہیں تھے بلکہ جہاں ایسا کیاہے کچھ نہ کچھ ندرت پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔علی جواد زیدی رقم طراز ہیں:

 ’’ولی کی خصوصیات شعری پر ہماری ادبی روایتوں کی چھاپ گہری ضرورہے،مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنازیادتی ہوگی کہ ولی کے یہاں روایت ہی روایت ہے۔روایت سے وابستگی کچھ تو عام لسانی ماحول اور خاندانی اثرات کا نتیجہ ہے،کچھ وضعداری ہے اور کچھ فارسی میں رچے بسے ذوق کااثر۔لیکن انھوں نے روایت سے انحراف بھی کیاہے،عملی زندگی میں بھی اور شاعری میں بھی۔۔۔ولی کے یہاں اس رنگ میں جو جوش اور بہاؤ نظر آتاہے اس کو کورانہ تقلید سے ہرگز تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ان کے یہاں ایک غم انگیز مستی،ایک لذت آمیز قلندری،ایک نیم صوفیانہ ترک ِ دنیاتک پہنچ جانے والی نگاہ اور پھربھی کشمیروایران کی حسین فضاؤں میں جذب ہونے والی سرشاری ،جانی پہچانی روایتوں میں بھی وہ عصریت پیداکردیتی ہے جس میں ہماری ادبی فضارچی بسی چلی آرہی ہے۔‘‘ (2

پروفیسر انصاری روایت کی پاسداری ،غالب کی پیروی اور اساتذہ کی مشکل زمینوں میں شعرگوئی کے باوجود کسی مخصوص دبستان ،ادبی اسکول ،تحریک یا ازم سے کامل وابستگی نہیں رکھتے تھے۔ان کا خیال تھاکہ ہر ادبی مکتب ِ فکر میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔نہ کوئی تحریک مکمل طورپر پاک وصاف ہے اور نہ مکمل طور پر خراب۔شعر کی عمدگی کے لئے دبستان سے وابستگی ضروری نہیں ہے،بلکہ کوئی بھی شعر اپنی شاعرانہ طرز ِ اداکے اعتبار سے اچھایابراہوتاہے۔ان کے نزدیک اوریجنل ہونااتنااہم نہیں جتناتخلیقیت اہم ہے۔وہ خود لکھتے ہیں:

’’میں شعر کے معاملے میں کسی اسکول یا تحریک کا قائل نہیں۔میرے تصور کے مطابق شعر میں شاعرانہ طرز ِ اداسب سے لازمی چیز ہے۔میرے خیال میں کسی سنجیدہ شاعرانہ انداز اور پاکیزہ زبان میں پیش کردیناکسی شعرکے معیاری ہونے کے لئے کافی ہے  اور اس معیارکے مطابق مجھے ہر مکتبہ شعر میںاورہر تحریک کے تحت وجود میں آنے والے ادب میں اچھے اوربرے اشعارمل جاتے ہیں۔شعرمیںنئے تجربوں کو میں خوش آمدید کہتاہوں۔‘‘ (3

ولی انصاری کی شاعری کی ایک اور خصوصیت ہے تناقض۔وہ انتہائی فنکارانہ طور پر Paradoxپیداکردیتے ہیں۔کہیں کہیں معروف ومروج الفاظ کو اس طرح برتاہے کہ ان میں نئے معنی پیداہوگئے ہیں۔مثبت لفظ سے منفی اور منفی سے مثبت معنی حاصل کرکے اس کی دنیابدل دی ہے۔اس معنی آفرینی کے ذریعے وہ نہ صرف بعض الفاظ کو جدلیاتی معنی بخش دیتے ہیں بلکہ اپنی قوت اختراع سے اپنی انفرادیت کا نقش قائم کردیتے ہیں۔دیر وحرم اور شیخ وبرہمن کو اردو شاعری میں ہمیشہ نظر ِغلط سے دیکھاگیا۔مذہبی رہنماؤں کو تنگ نظری کی علامت کے طور پر پیش کیاگیا۔لیکن ولی انصاری کے یہاں معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔شیخ وبرہمن کی وسیع القلبی اور خود ولی انصاری کی کشادہ دلی ملاحظہ فرمائیں۔

شادہ واسطے میرے رہے مسجد کے دروازے
کھلارہتارہادائم درِ بیت الصنم مجھ پر

ہمیشہ پیش آئے دوستی سے برہمن مجھ سے
کرم فرمارہے ہردم شیخ ِ محترم مجھ پر

دہر ہے وہ انجمن جس میں ہے مذہب چراغ
اور بڑھے نور اگر مل کے جلیں سب چراغ

تبلیغ ِ نفرت اور مذاہب ،اک اتہام
گھر فتنہ وفساد کے دیروحرم غلط

مہر ووفاسے اس کا کوئی کام ہی نہ تھا
اس سلسلے میں وہ کبھی بدنام ہی نہ تھا

مذکورہ شعر میں لفظ ’بدنام‘ کا محل ِ استعمال قابل ِ غورہے۔
حسن و عشق کے معاملے میں بھی ولی انصاری کا نظریہ سب سے جداگانہ تھا۔دیکھئے اس سلسلے میں ان کا کیاخیال ہے۔

عشق ہمدردی کامل کا فقط ہے اک نام
حسن کچھ بھی نہیں پاکیزہ شمائل کے سوا

حیاکا جس میں رنگ ہو،وفاکا جس میں نورہو
اسی کو سیم بر کہو،اسی کو مہ جبیں کہو

 یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ غزلیہ شاعری میں قدم رکھنے والے شاعرکے لئے کلاسیکی ادب کا مطالعہ بیحد ضروری ہے۔اس کے بغیر اس کی شاعری میں وہ صفات نہیں پیداہوسکتیں جو اچھی شاعری کے لئے لازم ہیں۔کلاسیکیت سے محرومی ،کم علمی یا فیشن کے طور پر آج کل ــ’سپاٹ شاعری ـ‘ کا رواج کچھ زیادہ ہی ہوگیاہے۔جب کہ غزل میں رمزیت اشاریت اور تشبیہات واستعارات میں نادرہ کاری کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔پروفیسر انصاری کا دامن اس دولت سے بھی بھراہواہے۔انھوں نے نہ صرف اردو کلاسیکی ادب کا مطالعہ کیاتھابلکہ فارسی ادبیات کے قدیم وجدید دونوں سرمائے پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں فارسی تراکیب ،نادرتشبیہات واستعارات کی بھر مارہے۔مختلف صنعتوں کا استعمال نہایت چابکدستی سے کیاگیاہے۔تلمیحات کی کثرت ِ استعمال کا تو یہ عالم ہے کہ راقم کو پوری اردوشاعری میں اقبال کے علاوہ کسی کے یہاں تلمیحات کا اتنا زیادہ استعمال نظر نہیں آیا۔یہ ان کی قادرالکلامی کے علاوہ کثرت ِ مطالعہ اور وسعت ِ نظر کا بین ثبوت ہے۔ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے فرسودہ تلمیحات سے گریز کرتے ہوئے نئی نئی تلمیحات کا استعمال کیاہے۔

زہر پیتارہادنیاکو بچانے کیلئے
گرچہ اوتار نہیں پھر بھی ہوں شنکر میں بھی
ہوں کرن آج کی دنیا کی مہابھارت کا
مانگے دشمن بھی تو دے دوں اسے بکتر میں بھی

میرابکتر بھی مرے جسم پہ رہنے نہ دیا
قتل کروایامرا جود وسخانے میرے
مثل سہراب ولیؔ سادہ دلی کے باعث
پاتاہوں سینہ میں اتراہواخنجر میں بھی

گھسٹتاہے وہ جو بندھازین سے
کبھی خود بھی وہ شہسواروں میں تھا

مذکورہ شعروں میں شروع کے تین اشعار میں خالص ہندوستانی ،چوتھے میں ایرانی اور پانچویں شعر میں یونانی تلمیحات کا استعمال کیاگیاہے۔آخری شعر میں ٹرائے کے شہزادہ ہکٹر کی موت کی طرف اشارہ ہے۔

ولی انصاری نے غزلیں بھی خوب کہی ہیں اور نظمیں بھی ۔ان کی غزلوں میں نظم کا رنگ اور نظموں میں غزل کا رنگ نمایاں ہے۔دونوں اصناف سخن ہم آمیز نظر آتی ہیں۔زودگوئی کا یہ عالم ہے کہ عموماً ایک غزل پر اکتفانہیں کرتے بلکہ اسی زمین میں غزل پر غزل کہتے چلے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں دوغزلہ،سہ غزلہ اور چہارغزلہ بھی مل جائیں گے۔ان غزلوں میں غزل مسلسل یا نظم جیسی کیفیت کا احساس ہوتاہے۔حالاں کہ ولی صاحب اگر ان مسلسل غزلوں سے اچھے اشعار منتخب کرکے ایک غزل بنالیاکرتے تو اور بہتر ہوتا۔اس کا احساس دیگر لوگوں کوبھی تھا۔بقول ڈاکٹر جبارعلی رضوان انصاری :’ان کی اسی افتاد طبع پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے ایک معاصر اور لکھنؤ اسکول کے نمائندہ شاعر عمر انصاری (ولادت:1912،وفات:18نومبر2005) کہاکرتے تھے کہ ولی صاحب کی غزل کے اندر ایک بہت خوبصورت پوشیدہ غزل رہتی ہے ۔جس کے انتخاب کی ضرورت ہوناچاہئے۔‘ (4)ان کے موضوعاتی اور ہیئتی نظام کی وجہ سے ان کی غزل گوئی پر نظم گوئی کے اثرات نمایاں ہیں۔

حالاں کہ غزل کی خصوصیت پر غور کریں تو ولی انصاری کے یہاں پائی جانے والی طوالت ایک طرح سے نقص ہے۔ان کا شعری رویہ روح ِ غزل کے خلاف ہے۔کیوں کہ غزل کا حسن تفصیل وتشریح میں نہیں بلکہ اختصار واجمال میں ہے۔اسی لئے غزل کے فن کو قطرہ میں دجلہ اور جز ومیں کل دیکھنے کا فن کہاگیاہے۔ان کی غزلوں میں غنائیت و موسیقیت بھی بہت کم ہے،جس کی وجہ سے ایک طرح کا روکھاپن محسوس ہوتاہے۔پروفیسر صغیر افراہیم نے بالکل درست لکھاہے:
’’غزل کی شاعری غناکی دلآویزی اور شعری موسیقیت کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔لہٰذا شگفتہ اور غنائیہ بحروں کے اختیار کرنے کو مستحسن سمجھاجاتاہے۔گرچہ غزل کے لئے کوئی ایک بحر مقرر نہیں۔جہاں تک غزل میں اشعار کی تعداد کا سوال ہے،پانچ اور بارہ کے درمیان تعداد کو بہتر تسلیم کیاگیاہے۔‘‘ (5)

ان کی غزلوں میں غنائیت وموسیقیت کی کمی کی وجہ مشکل تراکیب،غریب الفاظ اورنامانوس ردیف وقوافی کااستعمال ہے۔اس کے علاوہ بحریں بھی عجیب وغریب انداز کی ہیں۔ان کو ترنم سے پڑھنامشکل ہے۔اس قسم کی غزلیںغورسے پڑھنے پر یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ یہاں آمد کم اور آورد زیادہ ہے۔ایک طرح کی شعوری کوشش نظر آتی ہے۔

امید ورجاء کے ساتھ ولی انصاری کے یہاں یاس وغم بھی پایاجاتاہے ۔دراصل زندگی نا م ہی ہے اچھے برے حالات کے امتزاج کا۔چنانچہ انسان کو زندگی میں کبھی خوشی ملتی ہے تو کبھی غم ۔ولی انصاری بھی دونوں کیفیتوں سے دوچار ہوئے۔البتہ ان کے اشعار میں رجائیت پر قنوطیت کا پہلوغالب ہے۔رجائیت پر ا شعار دیکھئے   ؎

ملاہے جن کو استقلال وعز و دیدہ بینا
اندھیروں کی تہوں میں بھی انھوں نے روشنی دیکھی

کیوں دیکھتے ہیں صرف ببولوں ہی کی طرف
گلزارزندگی میں شجر اور بھی تو ہیں

قنوطیت اور غم انگیزی کی لہریں بھی ملاحظہ کریں   ؎

نغموں میں کسک پاتے ہیں ماتم کی طرح ہم
گھبراتے ہیں خوشبو سے بھی اب غم کی طرح ہم

وہ درد گزیدہ ہیں کہ تریاق کو بھی ہم
چھوتے ہوئے ڈرتے ہیں ولیؔ سم کی طرح ہم

فارسی زبان وادب کی خدمات کے اعتراف میں 1985میں صدرجمہوریہ ایوارڈ سے سرفرازولی انصاری کے یہاں اپنی مٹی سے پیارکا جذبہ شدت سے پایاجاتاہے۔ان کے اشعار میں ہندوستانیت کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ایسے مواقع پر ہندی الفاظ بڑی چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں۔ان کے اس طرح کے اشعار پڑھ کر بے ساختہ نظیر اکبر آبادی اور فراق کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔آیئے آپ بھی لطف اٹھایئے    ؎

ابھریں پروائی کے جھونکوں سے پرانی چوٹیں
زخم تازہ کئے ساون کی گھٹانے میرے

اجڑااجڑاآج ہے جیسے،ویساکب تھاآگے گھر
توجونہیں ہے سریجن،سوناسونالاگے گھر

تو بھی اٹھ اے سونے والے،دیکھ پھٹی پوبھوربھئی
پھرسے جیوت ہوئی دنیا،اٹھی بستی جاگے گھر

ولی انصاری نے بہت سے اساتذہ کے خیال کو اپنے انداز میں شعری پیکر عطاکیاہے ۔اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔اقبال کا شعرہے   ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرودمیںعشق
عقل ہے محو ِ تماشائے لب ِ بام ابھی

ولی انصاری کہتے ہیں   ؎

کرنا تھاجو وہ کرگئے اہل ِ جنوں
مصروف ِ غور وفکر رہے عاقلوں کے جھنڈ

غالب کا شعر ہے   ؎

غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر
کیوں شاہد ِ گل ،باغ سے بازار میں آوے

ولی انصاری نے مذکورہ خیال کو اس انداز میں پیش کیاہے    ؎

گل کی طرح ہوس ِ رنگ وبو نہ ہو
یوں در بدر بہ کوچہ و بازار کیوں نہ ہو

اقبال کا ایک اور شعر ہے    ؎

سمجھتاہے تو رازہائے زندگی
فقط ذوق ِ پرواز ہے زندگی

ولی انصاری اس بات کو یوں کہتے ہیں   ؎

اے بے خبر اسی کا تو ہے نام زندگی
پرواز کی خلش جوترے بال وپر میں ہے

میرؔ کا شعر ہے   ؎

آتے ہیں میر ؔ منھ کو پھلائے خفاسے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفاسے آج

ولی انصاری کہتے ہیں   ؎

نہ صرف بگڑی ہے میرصاحب کی اس ستم پیشہ بے وفاسے
ولی ؔ بھی آتے ہیں اس کوچے سے منھ پھلائے خفاخفاسے

پروفیسر انصاری نے ایک غزل صنعت ِ عکس میں کہی ہے ۔یعنی پہلے مصرعے کو اگرالٹ کر دہرایاجائے تو دوسرامصرعہ بن جاتاہے۔اس قسم کی غزل کہنے کے لئے زبان وبیان پر زبردست قدرت کی ضرورت ہوتی ہے۔دعوی ٰ کیاجاتاہے کہ ایسی غزل کی مثال پوری اردوشاعری میں نہیں ملتی ہے۔(6)ایسی غزل کا حسن یہ بھی ہوتاہے کہ دوسرامصرعہ آہنگ کی دلکشی اور معنی کی برجستگی میں اضافہ کرتاہے  ؎

یادِ رخ ِ مہوشاں ،باعث ِ آرام ِ جاں
باعث ِ آرام ِ جاں ، یادِ رخ ِ مہوشاں

رنج والم تلخیاں،حاصل ِ عمر رواں
حاصل ِ عمر رواں،رنج والم تلخیاں

اک نئی داستاں،ہرسفر زندگی
ہرسفر زندگی،اک نئی داستاں

انجمن گل رخاں،رشک ِ بہشت ِ بریں
رشک ِ بہشت ِ بریں،انجمن گل رخاں

جلوہ حسن بتاں،شمع ِ شبستان ِ دل
شمع ِ شبستان ِ دل،جلوہ حسن بتاں

موت بھی مانگے اماں ،اس نگہ ِ شوخ سے
اس نگہ ِ شوخ سے،موت بھی مانگے اماں

اٹھ کہ چلا کارواں،نیند میں کب تک ولیؔ
نیند میں کب تک ولیؔ،اٹھ کہ چلا کارواں

ولی انصاری کی غزلوں میں کچھ ظاہری خامیاں ضرور ہیں لیکن باطنی خوبیاں بہت زیادہ ہیں۔مجموعی طور پر ان کی شاعری میں حسن کی پرکاری وعشق کی بے قراری کے علاوہ انسانی دردمندی و خرد کی سحر طرازی بھی ہے۔داخلیت بھی ہے اورخارجیت بھی۔دروں بینی بھی ہے دوربینی بھی۔ آپ بیتی بھی ہے جگ بیتی بھی۔گردشِ زمانہ کی جھنکار بھی ہے صالح افکارکی مہکار بھی ۔ کلاسیکیت کی برکت بھی ہے جدیدیت کی افادیت بھی۔ولی انصاری میں آواں گارد بھی ہے اور نشاۃ ثانیہ کا Ethosبھی۔وہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ان کی نظر میں شاعری تنقید ِ حیات ،تعمیر ِ حیات اور تہذیب ِ حیات ہے۔یہ زندگی کی ترجمانی بھی کرتی ہے اور تہذیب وتزئین بھی ۔البتہ یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ ان کی غزلیات میں تغزل پر تفکر کا رنگ غالب ہے۔

دیگر سچے اور حقیقی فن کاروں کی طرح ولی انصاری کی بھی ان کی زندگی میں کماحقہ قدر نہیں کی گئی۔ان کے کلا م میںاس ناقدری کے شکوے کی زیریں لہریں موجود ہیں۔حالاں کہ ادب کے میدان میں انھوں نے جتنی خدمات انجام دی ہیں انھیں فراموش کرنا آسان نہیں ۔خوشی کی بات ہے کہ علمی وادبی حلقوں میں ادھر کچھ حرکت نظر آرہی ہے۔28جنوری 2013کوہمیشہ کے لئے آنکھیں موندلینے والے ولی انصاری نے اپنے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی وہ اب سچ ثابت ہوتی نظر آرہی ہے   ؎

ہم خاک میں ملنے پہ بھی ناپید نہ ہوں گے
دنیامیں نہ ہوں گے تو کتابوں میں ملیں گے

 


حواشی:۔

(1)    انتخابات غزلیات اردوولی الحق انصاری،حرفے چند، صفحہ 24
(2)    فروغ شعلہ دل،پیش لفظ،صفحہ 14
(3)    غزالان  ِ خیال،پیش لفظ
(4)    پروفیسر محمد ولی الحق انصاری ۔بحیثیت اردوشاعر ،صفحہ 121
(5)    اردو غزل :اعجاز واعتبار، ماہنامہ ’ایوان ِ اردو‘نئی دہلی،اگست 2013
(6)    پروفیسر محمد ولی الحق انصاری ۔بحیثیت اردوشاعر ،صفحہ 46

Mohd.Wasiullah Husaini
254,Phool Bagh,Lucknow-226001
E-mail:wasihusaini@gmail.com
Mob: 9307282929

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1091