donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Muhammad Mujahid Syed
Title :
   Ishqe Rasool Aur Iqbal Ki Shayari

عشقِ رسول ؐ اور اقبال کی شاعری 
 
(مجاہد سید (جدہ 
 
 تنقید کی بھول بھلیوں میں گم رہنے والوں یا وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود پر علمی گفتگو کرنے والوں کے لئے اقبال کی شاعری کا ایک پہلو جو انہیں متقدمین ، متوسطین اورزمانۂ حال کے شعراء سے ممتاز کرتاہے وہ عشقِ رسول ؐ ہے۔ اقبال کا دینی اور شاعرانہ مسلک ان ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہے: ؎
مصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست 
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است 
 
اقبال کو ہمیشہ یہ احساس رہا کہ اگر عشقِ رسول ؐ کے تقاضوں کی بجا آوری میں کوئی کمی رہ گئی تو آپ کو روز محشر کسے منہ دکھلائوں گا؟ عبادت ِظاہری سے جہاد تک سب راہ کے پڑائو ہیں بقائے ربی جو آرزو کا منتہی ہے اس کا وسیلہ حضرت سید البشر ؐ کی ذات گرامی ہے کہ جس کی عظمت و حقیقت کا ادراک و اعتراف انبیا کرام ؑ کو معتبر کرتا آیا ہے، اقبال ؔ کی شاہین مزاجی نے اسی طرف پرواز کی ہے اور وہ بالآخر شانِ رفعنالک ذِکرَ ک ،دیکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ 
 
اقبال ؔکے  زمانے میں شاعری کے روایتی اسالیب کے لحاظ سے بڑے بڑے نامور اساتذہ اور نعت گو شعر اء موجود تھے لیکن وحی والہام کی روح کو بتوسط روح محمد ؐ اپنے اندر سمولینے کا حوصلہ اور شرف اقبال ٔکو حاصل ہوا جس نے انہیں دیگر شعراء سے ممتاز اور زندہ و پائندہ بنا دیااور عنفوان ِشباب سے عمر کے آخری حصے تک عشق رسولؐ کی برقی رونے اقبال ؔ کے کلام کو لفظ و معنی کے اعتبار سے دیگر شعراء سے منفرد رکھا ہے۔ اسی قوت ِعشق سے اقبال نے ہر پست کو بالا کردیا اور اسی نورکے طفیل انہیں آفاق و النفس کی حقیقت نظر آئی۔ اقبال کو یقین ہے کہ باغ حجاز کی ہر کلی اسی عشق کے طفیل تر وتازہ ہے۔ یہی عشق  بلبل کو ترنم پر آمادہ اور خیمہ فلک کو استادہ رکھتا ہے۔ تذہب حجازی کے د امن میں جو کچھ ہے سب اسی عشق کا فیضان ہے۔ خلافت الٰہیہ ، آئین جہان بانی حقوقِ انسانی کے ساتھ ساتھ زندگی ضمیرِ انسانی سب اسی روح کے طفیل قائم ہیں۔ اسی کے طفیل اللہ کے بندوں کی گردنوں کو غیر اللہ کی غلامی سے چھڑا کر انہیں حقیقی آزادی سے روشناس کروایا جاسکا۔ اسی چنگاری نے کفر کے خرمن کو جلا کر راکھ کردیا۔اسی عشق کی تکبیر نے یوروپ کی یخ بستہ فضائوں کو گرمادیا۔ اسی عشق کے نمی نے آتشکدۂ پارس کو بجھا د یا۔ اسی عشق کے طفیل ہندستان کے صنم کدوں میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجیں۔ اسی عشق نے اجمیر اور دہلی کے راجپوتوں سے صنم کدے کی خاک کے بجائے مسجد کے دروازے کی مٹی پیشانی پر لگواکر ہوا اللہ ’’احد کہلوایا۔
 
اقبال نے وطن پرستی سے نکل کر نہاد زندگی کی ابتداء لا انتہا الا میں اس عشق کے طفیل دیکھی۔ الاوالا کے عرفان کے لئے ذکر محمدی ؐ ان کے لئے اسم اعظم بنا اور اسی اسم اعظم کے طفیل اقبال ملت بیضا کی حقیقت سے روشناس ہوئے۔ اسی عشق کے طفیل کا فر ِہندی نے امرائے عرب کو حقیقتِ مصطفویؐ اور بولہبی کا فرق بتایا۔ اسی عشق کے طفیل اقبال برہمنیت کی زیر کی کو انگریز کی شاطر عقل کا پابند دیکھ سکے اور انہوںنے دہلیز رسالت ؐ کی گدائی کو خسروی پر ترجیح دی۔ اسی عشق کے طفیل جب ضمیر فلک ٹیلی نام اقبال پر خاش ہوا تو انہوں نے عصر حاضر کی شبِ تاریک میں نبوت کی حقیقت کو ماہ تمام کی طرح دیکھا اور انہیں یقین کامل ہوگیا کہ نبوت زندگی آخرت سے پہلے دنیامیں قوت وشوکت کا التزام پیدا فرما دیتی ہے جو دانش انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی عشق مومن کو حدید ودخان سے مرعوب نہیں ہونے دیتا اور وہ حاضر وموجود سے بیزار ہوکر اپنے لئے ایک نئی دنیا پیدا کرلیتا ہے۔ یہ عشق رنگ ونسل ، ملک وزبان کے تفرقوں سے بلند کرکے مرد ِمومن کو مثلِ کلیم شوقِ نظارہ بخشتا ہے۔ اسی کے طفیل ادائے وید سراپا نیاز ہوکر پوری زندگی کو نماز کی صفت بخش دیتی ہے۔ 
 
اقبال کو چۂ محبوب مدینہ منورہ کا طواف تمام کائنات کو دیوانہ وار کرتے دیکھتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے کہ مخلوق میں وہ کون بدنصیب ہے جواللہ کی رحمت سے بے نیاز رہنا چاہے ، اقبال کو یقین ہے کہ قیامت اس روز آئے گی جب اس عشق میں کمی آجائے گی۔ اے روحِ محمد ؐ (ضرب کلیم کی نظم ) میں ان کی فریاد  ملاحظہ ہو۔ 
شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمدؐ
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
 
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اقبالؔ کو روح ِمحمد ؐ سے یہ جواب ملا تھا کہ عاشق کو اگر عشق کرنا آجائے تو اس کے سارے معاملات خودبخود سدھر جائیں اور اس کے ہر نقش میں رنگِ ثباتِ دوام پیدا ہوجائے۔انہیں معلوم ہوگیا تھا یہی عشق ،مفتی حرم ، امیر جنود ، ابن السبیل ، شاعر وفلسفی ،نکتہ داں اور نکتہ سنج ہے۔ اسی کے طفیل سینے کو سوز ،صدا کو گداز ، دلوں کو کشادگی اوراعمال کو برکت حاصل ہے۔ انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ عاشق کیلئے کوہ ودر یا راہ چھوڑ دیتے ہیں اس کے ہاتھ میں لوہا موم اور پیالۂ زہر آب حیات ہوتا ہے۔ اسی عشق کے طفیل حلقۂ آفاق کی ساری اشیاء اپنی حقیقت عاشق پر اُگل دیتی ہیں۔ عاشق کا شور وسرور ، درد  و داغ، جستجو و آرزو ایک نئی زندگی کاسراغ رکھتے ہیں۔ یہی عشق مومن کو جلال وجمال سے آشنا کردیتا ہے۔ اقبال ؔ کی نظم کے جلال و جمال (ضرب کلیم ) کے اشعار ملاحظہ ہوں:
 
مرے لئے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزیٔ ادراک
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سربسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک
 
بالآخر یہی عشق ضعیفوں کو دارئے لا غالب الا ہو، عطا کرتا ہے۔ یہی عشق کشتۂ سلطانی ملائی و پیر ی کو روشن ضمیری عطا کرکے خلافت الٰہیہ کا اہل کرتا ہے۔ 
 
********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 736