donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Noorul Islam Nadvi
Title :
   Kalim Ahmad Ajiz Ki Shayari Me Dardo Gham

کلیم احمد عاجز ؔکی شاعری میں درد وغم

 

 نورالسلام ندوی


دردوغم اور الم ویاس کا موضوع اردو شاعری کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے،غزل کے ابتدائی ادوار سے لے کر آج تک اس پر لکھا جاتا رہا ہے اور بہت کچھ لکھا گیا ہے،اردو شاعری کا دامن اس سے خالی یا تنگ نہیں ہے۔لیکن ایک غم وہ ہے جو روایتی اور مصنوعی ہے ،محبوب اور محبوب کی محبت ،اس کا پیار،اس کا غم،اس کا دردسب خیالی اور فرضی ہوتے ہیں۔دوسرا غم وہ ہے جس سے انسان کو خود واسطہ پڑا ہو ،غم انسان کا اپنا ذاتی تجربہ ہو،زندگی اور زندگی کی سر گزشت ہی غم ہواور وہ غم ،غمِ ذات سے آگے بڑھکر غمِ حیات بن گیا ہو، تو پھر یہ غم شاعر کو اور شاعر کے کلام کو بلند مقام عطا کرتا ہے۔ایک فنکار، ایک شاعر ،ایک ادیب اسی وقت باکمال بن سکتا ہے جب وہ غمِ جاناں کو غمِ دوراں اور غمِ دوراں کو غمِ جاناں بنا دے۔کلیم احمد عاجزؔ ایسے ہی شاعر ہیں جن کے یہاں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا حسین امتزاج ملتا ہے،وہ بنیادی طور پر دردوغم کے شاعر ہیں ،اور ایسا دردوغم جس میں ان کا کوئی دوسرا شریک سفر نہیں۔یہاں فنکار خود ہی دردوغم کی آگ میں جلتا اور جھلستا ہے،غم کی بھٹی میں تپتا اور تڑپتا ہے،مگر کہیں نہ چیخ ہے نہ پکار ،نہ شور ہے نہ شعلہ ،بلکہ نہایت صبرو شکیبائی سے وہ اسے جھیلتا اور برداشت کرتا ہے۔

کوئی عاجزؔ کا شریک سوزِ غم بنتا نہیں
یوں تو جو آتا رہا وہ مہر باں بنتا رہا

٭٭٭

اس انجمن میں ہم بھی عجیب وضعدار ہیں
دل ہے لہو لہان ،جبیں پر شکن نہیں

آج سے تقریباً ۶۵برس قبل ۱۹۴۶ء کے فسادات میںکلیم عاجز ؔ کی پیاری ماں اور بہن شہید ہوگئیں،اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال کی تھی،اس اندوہناک واقعہ نے ان کی زندگی کی خوشی اور خوشحالی چھین لی ،دنیا ان کے لئے تاریک ہو گئی ،وہ غم سے نڈھال ہوگئے،انہوں نے جتنا غم سہا اور جتنا زہر پیا وہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔کلیم عاجزؔ انہیں واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں :

کلیجہ تھام لو رودادِ غم ہم کو سنانے دو
تمہیں دُکھا ہوا دل ہم دِ کھا تے ہیں دکھانے دو
٭٭٭
کتنا دکھ ،کتنی جفا،کتنا ستم دیکھا ہے
ہم نے اس عمر میں ایک عمر کا غم دیکھا ہے
٭٭٭
ایسی حالت میں بھی دل ہے کہ جئے جاتا ہے
کون سا درد نہیں کون سا آزار نہیں

پروفیسر کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ غزل شاعری کی روح ہے، اس کی جان ہے،شاعری کی اصل دلکشی اور رعنائی اسی سے ہے،اور غزل کا رشتہ غم سے بہت قدیم اور مستحکم ہے۔وہ غزل جس میں غم کی دھیمی دھیمی آنچ نہ ہو ،درد کا نرم نرم احساس نہ ہو ،کرب کی ہلکی ہلکی گونج نہ ہو وہ غزل خوبصورت غزل نہیں بن سکتی۔جبب شاعر غم آلودہ ہوتا ہے،زخم خوردہ ہوتا ہے،دردوکسک سے اس کا دل رنجیدہ ہوتا ہے تو اس کی غزل میں رنگ آتا ہے ،نکھار آتا ہے،دلکشی آتی ہے ،رعنائی آتی ہے،جاذبیت آتی ہے اور اس کے فن میں جمال آتا ہے۔

کلیم عاجزؔ کی غزلوں میں درد وغم کا سیلاب ہے ،آنسوئوں کی برسات ہے،آہوں کی بھر مار ہے۔ میرؔ سے لے کر فانی ؔ بدایونی تک سبھوں کے یہاں غم کا اظہار ملتا ہے ،لیکن کلیم عاجزؔ کے یہاں غم کی جو شدت ہے وہ کہیں دوسری جگہ نہیں ملتی ،کلیم عاجزؔ کی شاعری در اصل ان کی آپ بیتی ہے اور آپ بیتی ان کی شاعری ہے،انہوں نے اپنے دل کے زخموں کو غزل کے سانچے میں پھول بنا کر پیش کیا ہے اور ایسا پھول جس کی آبیاری خون دل سے کی گئی ہے۔ یہ خوبصورت غزل ملاحظہ فرمایئے:

رونے نہ دیجئے گا تو گایا نہ جائے گا
درد اتنا تیز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
اب پیار کے فریب میں آیا نہ جائے گا
گھر ہی کہاں رہا کہ جلایا نہ جا ئے گا
کہتے ہیں کس ادا سے چھری پھیرتے ہوئے
کیا ہوگا وہ لہو جو بہایا نہ جائے گا
ان کی وہ بات کہ دوں گر سب کے سامنے
سر مرے مہر باں سے اٹھایا نہ جا ئے گا
تڑ پانا ہے اگر تو تڑپتے رہو کلیم
جاگا نہ جائے گا تو جگایا نہ جائے گا

عاجز کی المیہ شاعری کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ وہ شدت غم میں بھی خلوص وصداقت کا اظہار کرتے ہیں ،کہیںدشمنی اور انتقام کا جذبہ نہیں ہے،اخلاق ورواداری کی بات کرتے ہیں ،انسانی ہمدردی کی پاسداری کرتے ہیں ،الفت ومحبت کا چراغ روشن کرتے ہیں ،چمن میں آگ لگانے والوں کو چراغ کی روشنی پہنچاتے ہیں اور ان کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں ۔غم میں بھی انسانیت کے ساتھ ایسی ہمدردی اردو غزل میں کلیم عاجزؔ کے علاوہ اور کہاں ملے گی۔ان کی غزلوں کے چند اشعار دیکھئے:

اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست کہ دشمن کا گھر ملے
٭٭٭
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں ایک چراغ جلا دیا
٭٭٭
اندھیرا کر دیا ہے ہوس نے زمانے میں
روشن کرو چراغ کہ اب شام ہو گئی

کلیم عاجزؔ اپنی شاعری کی غمناکی اور المناکی کے بارے میں خود تحریر فرماتے ہیں :
’’میری شاعری کی غمگینی ،الم آفرینی ،اس میں لہجہ کا جودھیما پن ہے ،اس میں جو نازک نازک سے آبگینے کے پگھلنے کی کیفیت ہے ، اس میں جو نرم نرم پھپھولوں کے پھوٹنے کا آہنگ ہے،اس میں جو زخموں کے رسنے کی سرسراہٹ ہے،یہ مریضانہ پن نہیں ہے ،ان میں صحت مندی ہے،ان میں جینے اور جلانے کا وہ حوصلہ ہے جو بڑی سے بڑی للکار والی شاعری میں بھی نظر نہیں آتی‘‘۔

(وہ جو شاعری کا سبب ہواص۱۶۳)

بلا شبہ کلیم عاجز ؔ کی شاعری ان کی آپ بیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر مورخ کے سامنے کلیم عاجز ؔ کی پوری زندگی نہ ہو تب بھی وہ صرف ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر ان کی زندگی کا حال لکھ سکتا ہے۔لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداً ان کا غم ذاتی المیہ بنا رہا ، رفتہ رفتہ اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی ،دل کی کیفیت بدلتی چلی گئی ،جب وہ اپنے گرد وپیش کے حالات و واقعات کو دیکھتے ،سماج میں بسنے والے کسی بھی فرد کو غم میں مبتلا دیکھتے تو ان کو اپنا غم یاد آجاتا اور وہ اس طرح دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھنے لگے،کسی پر مصیبت آتی ،غم کا پہاڑ گرتا تو ان کا دل فوراً جاگ جاتا اور زخم ہرا ہوجاتا ،گویا کلیم عاجزؔ کے درد وغم میں آفاقیت ہے ،عالمگیریت ہے،وہ اپنے زخم کے آیئنے میں دوسروں کے زخم کو دیکھتے ہیں اور دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھتے ہیں ۔اس بات کو ان سے اچھا اور کون جان سکتا ہے،چنانچہ اس سلسلے میں وہ رقم طراز ہیں:

’’تعمیر آرٹ کا بنیادی مقصد ہے ،انسان کے گھائو دیکھے نہیں جاتے ،میں نے اپنے گھائو کے آیئنے میں دنیا کے گھائو دیکھے ہیں ،دونوں کی ہم آہنگی نے مجھے رُلایا ہے ،اگر مجھے گھائو نہ لگتے تو شاید مجھے دنیا کے گھائو نطر نہیں آتے ،مجھے اپنے گھائو سے پیار ہے ،لیکن دنیا کے گھائو سے دکھ ہے ،جی چاہتا ہے سارے گھائو مجھے لگ جائیں،دنیا کا چہرہ صاف ستھرا ہو کر نکھر آئے۔

مرے دل کو ہے جنوں سے بڑی اعتقادی
ترے سامنے اسی نے مجھے جرأت سخن دی

یہی احساس فن ہے ،لیکن فن کیسے بنتا ہے اور کیسے بنا مجھے پتہ نہیں ،اگر اپنا ہی زخم شعر بن سکتا تھا تو ۱۹۴۶ء کے بعد فوراً شعر کہنے لگتا مگر ایسا نہیں ہوا ،درمیان میں پانچ چھہ سال کا وقفہ ہے ،اس زخم نے مجھے آنکھیں عطا کیں،اور وہ نظر بخشیں جن سے میں اوروں کے زخم دیکھنے کے قا بل ہوا ،اور زخموں نے آپس میں ربط پیدا کیا اور یہ فن کے لئے راستہ بنا ،اسی ترتیب کا نام غمِ دل اور غمِ روزگار کا امتزاج ہے ،غمِ جاں اور غمِ جاناں کا شتراک ،گمِ عشق ا ور غمِ روزگار کا اتحاد ہے،بغیر اس امتزاج ،اشتراک اور اتحاد کے دیر پا فن وجود میں نہیں آسکتا‘‘

 (وہ جو شاعری کا سبب ہوا ۔ص:۷۵۔۱۷۴)

کلیم عاجزؔ ہندوستان کے ہیں ،ان کی اب تک کی عمر اسی سرزمین پر گزری ہے ،اور گزر رہی ہے،انہوں نے غلام ہندوستان کو بھی دیکھا اور آزاد ہندوستان کو بھی ،انہوں نے ملک میں سیکڑوںفسادات ہوتے دیکھا،بستیوں کو اجڑتے اور برباد ہوتے ہوئے دیکھا ،سماج سے کٹ کرکبھی نہیں رہے،شتر مرغ کی طرح حالات سے اپنا چہرہ نہیں چھپایا ،بلکہ ہر چیز کو اور ہر آنے ولے کل کو غور سے دیکھتے ہیں ،وہ یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ملک میں فرقہ پرستی کا زہر پھیل گیا ہے ،ہر طرف خوف وہراس اور بد امنی کا ماحول ہے،افواہوں کا بازار گرم ہے،غنڈہ گردوں کا بول بالا ہے،دہشت گردی کے نام پر مظلوموں اور بے قصوروں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں ،قانون کی خلاف ورزی کرنے  والے سر عام گھوم رہے ہیں اور بے قصور لوگ جیل کی آہنی سلاخوں میں سڑ رہے ہیں ،ان چیزوں کو جب وہ اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ان کا سینہ چھلنی ہو جاتا ہے ،دل بھر آتا ہے ،آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے ہیں اور پھر سینے کا زخم ،دل کا درد آنکھوں کا آنسو باہر نکل آتا ہے،اور یہ سب ایک ساتھ غزل کے سانچے میں ڈھل کر نکلتے ہیں ۔ایسے ہی دکھ بھرے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تمہاری زلفوں میں شکن والے نہیں ہیں ہم
کہیں گے بات سیدھی ،پیچ وخم والے نہیں ہیں ہم
گلوں کی طرح ہم نے عمر کانٹوں میں بسر کی ہے
ہیں اہل ناز،لیکن ناز کے پالے نہیں ہیں ہم

کلیم عاجز ؔ کا مکمل دیوان پڑھ جایئے،آپ کو ہر جگہ دکھے دلوں کی صدا اور شکستہ دلوں کی آواز سنائی دے گی ،ان کا لب و لہجہ غمناک ہے ،دردو کرب سے بھر پور ہے،سوزو گداز میں ڈوبا ہوا ہے،اس کے اندر اتنی رقت اور دلآویزی ہے کہ آپ کا دل بھی بھر آئے گا اور آپ کی آنکھیں بھی اشکبار ہو جا ئیں گیں ،ان کی غزل کی یہ ایک اہم خاصیت ہے کہ پڑھنے والا خود یہ محسوس کرتا ہے کہ گو یا یہ بھی میرے دل میں ہے۔یہ غزل دیکھئے:

مری شاعری میں نہ رقص جام ،نہ مئے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں،وہی دل جلوں کی کہانیاں
یہ جو آہو ونالہ ودرد ہیں ،کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں ،یہی میری رات کی روانیاں
یہ مری زباں پہ غزل نہیں ،میں سنا رہا ہوں کہانیاں
کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں
کبھی آنسوئوں کو سکھا گئیںمرے سوز دروں کی حرارتیں
کبھی دل کی نائو ڈبو گئیں مرے آنسوئوں کی روانیاں
ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں
ابھی مصلحت کا گزر کہاں ،کہ نئی نئی ہیں جوانیاں
یہ مرا بیاںیہ گفتگو ہے مرا ،نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھے کہ پھر کہ نہ سکو گے ایسی کہانیاں

جہان اردو کا یہ نیر تاباں،گلستان سخن کا میر ثانی ،دبستان عظیم آباد کی آخری نشانی ،قدیم تہذیب وثقافت کا امین اورپرانی وضعداری کا حامل۱۵ فروری کی صبح ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کی آنکھوں سے او جھل ہو گیا۔آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے ۔

(یو این این)

***********************


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1129