donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razi Mujtaba
Title :
   Francicy Shayari Ka Irteqayi Safar

 

فرانسیسی شاعری کا ارتقائی سفر
 
رضی مجتبیٰ
 
چوں کہ میں نے فرانسیسی زبان سیکھی ہے اور فرانسیسی ادب کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے اس لیے ایک مہربان اور عزیز دوست کی فرمائش ہے کہ میں اپنے اس کالم میں ذرا سلسلہ وار فرانس کی شاعری اور اس کے ارتقائی سفر پر ایک نگاہ ڈالوں۔ فرمائش سر آنکھوں پر، اور یوں بھی مجھے یہ موضوع ذاتی طور پر پسند ہے۔ چناں چہ ہم اس سلسلے کے پہلے کالم میں تو فرانسیسی شاعری اور اس کے ادوار اور رجحانات کا ایک خاکہ مرتب کریں گے، اس کے بعد فرانس کے نمائندہ شعرا پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ گفتگو متعدد کالموں تک جائے گی، لیکن یکسانیت سے بچنے کے لیے ہم درمیان میں دوسرے موضوعات بھی شامل کرتے رہیں گے، یعنی وقفے وقفے سے اس موضوع پر کام کریں گے۔
فرانسیسی شاعری کے اس مطالعے میں وہ شاعری بھی شامل ہے جو فرانس کے باہر مگر فرانسیسی زبان میں لکھی گئی۔ یہی نہیں، بلکہ اس میں وہ شاعری بھی شامل ہے جو فرانس کی کسی بھی علاقائی زبان میں لکھی گئی۔ چوںکہ شاعری لفظوں سے کی جاتی ہے، اور شاعری کا ایک آہنگ اور اس میں الفاظ کے در و بست کا ایک ردھم ہوتا ہے، لہٰذا فرانسیسی شاعری کو بخوبی سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے فرانسیسی بحور اور اوزان کا جاننا لازم ہے، لیکن اس کے لیے ہم عروض کی تکینکی باریکیوں میں نہیں پڑیں گے، بس ایک سیدھا سا اصول سمجھ لیں گے۔ ویسے فرانسیسی شاعری کا نظامِ عروض انگریزی زبان سے بالکل مختلف ہے۔ فرانسیسی شاعری میں جس چیز پر زور دیا جاتا ہے، وہ ایک حرف میں پائے جانے والے ارکان ہیں۔ مثال کے طور پر اردو میں پانی دو ارکان پر مشتمل ہے: پا اور نی۔ جدید فرانسیسی شاعری کی پہچان prosody یعنی عروض کے حوالے سے یہی ہے۔ بس ہم اس وقت اس سے زیادہ تکنیکی تفصیل میں نہیں پڑیںگے اور نہ ہی اس کی ایسی کوئی خاص ضرورت ہے۔ البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ فرانسیسی شاعری کی کوئی اکیس اصناف یا ہیئتِ ترکیبی (forms) ہیں، جو بیلیڈ، افسانوی یا اساطیری نظم سے شروع ہوکر Ode پر ختم ہوتی ہیں، اور ان میں آخر الذکر ایک غنائیہ اور مقفّیٰ نظم کی صورت ہوتی
ہے۔
 
اس مختصر تمہید کے بعد ہم فرانسیسی شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے۔ جیسے کہ ہر ملک کی ادبی روایت میں دیکھا گیا ہے، فرانسیسی ادبی روایت میں بھی سب سے پہلے جو ادب پایا جاتا ہے، وہ شاعری ہے یا شاعرانہ شکل رکھتا ہے۔ نثر قرونِ وسطیٰ کے تقریباً اختتام پر فرانس میں پروان چڑھی۔ قرونِ وسطیٰ میں فرانسیسی شاعری پر جنوبی فرانس کے ان شعرا کا اثر غالب رہا جو troubadors کہلاتے تھے۔ یہ شعرا پراونسل زبان میں گیت لکھتے اور سناتے تھے۔ یہ گیت رئوسا، سورمائوں اور ان کی محبوبائوں سے متعلق ہوتے تھے۔ ان شعرا میں بلا کی تخلیقی صلاحیت تھی اور انھوں نے شاعری میں نئے نئے تجربات کیے اور کامیاب رہے، لیکن جس صنف میں انھوں نے کمال حاصل کیا، وہ تھی عشقیہ شاعری جو اصل میں دربار سے نسبت رکھتی تھی۔ ان کے بارے میں اگر تفصیلی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پراونسل ادب پڑھنا ہوگا۔
 
تاہم تیرھویں صدی کے اوائل میں فرانسیسی شاعری ان پراونسل شعرا کے اثر سے بڑی حد تک عاری نظر آتی ہے اور اس پر جو ہسپانوی اور عرب شاعری کا اثر تھا، وہ بھی اب معدوم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی جگہ تیرھویں صدی کی فرانسیسی شاعری میں ہم جو نیا پہلو دیکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس پر جو مذہبی رنگ چھایا ہوا تھا، وہ سیکولرزم میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس زمانے کے مشہورِ زمانہ شاعر گیلوم دموشو کی شاعری پڑھ کر اس قلبِ ماہیت، کسی حد تک اس کی نوعیت اور ضرورت کا بخوبی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ پندرھویں صدی میں فرانسیسی شاعری باغیانہ ہوگئی تھی اور اس کا سبب روایت پرستی کی انتہا تھی۔ اسی زمانے میں فرانس کے کچھ شاعروں نے بڑے شاعر کی حیثیت سے ابھرنا شروع کردیا تھا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں فرانسیسی شاعری میں خطیبانہ انداز بہت نمایاں ہے۔ اسی زمانے میں فرانسیسی شاعری سانٹ کی طرف راغب ہوئی اور اس کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اس صدی کے آخر میں فرانسیسی شاعری خانہ جنگیوں، قنوطیت، تلخی اور کڑواہٹ کا شکار ہوئی، لیکن جنگ کی ہول ناکیوں کے زیرِ اثر اس زمانے میں ایگریپا داونیئے جیسا شاعر پیدا ہوا جس کی جنگ سے متعلق نظم ’’الم ناکیاں‘‘ کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔
فرانس کی کلاسیکی شاعری سترھویں صدی اور اٹھارویں صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جب ہم اس شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک بات پر بہت زور دیتی ہے، اور وہ ہے دیانت داری اور دیانت دار انسان۔ ویسے تو اس زمانے میں شاعری کو ہر مقصد اور ہر طرح کے احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی لیے، اس زمانے کی شاعری کا ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی اہم واقعے یا واردات سے متعلق نظر آتا ہے، مثلاً شادی، ولادت یا جنگ میں فتح و کامرانی وغیرہ۔ یا پھر کسی الم ناک واقعے، مثلاً موت یا جنگ میں شکست اور اس کے تخریبی اثرات وغیرہ۔ کلاسیکیت کا یہ رُجحان فرانسیسی شاعری پر رومانیت پسندی سے کچھ پہلے تک رہا۔ ویسے اس کے اثرات انقلابِ فرانس تک نظر آتے ہیں۔ کلاسیکی شاعری اپنی ہیئت کے اعتبار سے سانٹ سے الگ تھی۔ اس دور کی شاعری زیادہ تر مقفّیٰ بندوں سے متشکل ہے۔
 
انیسویں صدی کی فرانسیسی شاعری پر ابتدا ہی سے رومانیت پرستی مسلط رہی۔ یہ شاعری جن شعرا سے منسوب ہے، ان کے نام ہیں: وکٹر 
ہیوگو، الفانس لا مارٹین اور جرارڈ دنروال۔ رومانوی شاعری کافی دیر تک بیسویں صدی کی شاعری پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے رہی… حتیٰ کہ حقیقت پسندانہ شاعری اور علامت پسند شاعری پر بھی۔ رومانیت پسندی کے دبستان کا ہیرو وکٹر ہیوگو کو سمجھا جاتا ہے۔ وہ شاعری، ڈرامے اور فکشن میں بھی یدِطولیٰ رکھتا تھا۔ دیگر شعرا جو اس دبستان سے منسوب تھے، وہ تھے: الفرڈ دوینئی، تھیو فیل گوتیئے۔ تھیوفیل کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فن برائے فن یا ادب برائے ادب کا نمائندہ تھا اور اس کا ادبی اور شعری مزاج جمالیات پرستی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ اسی طرح ایک اور اہم شاعر تھا الفرڈ د موسے جس کو ہم رومانی یاسیت کا پیمبر کہہ سکتے ہیں۔
 
انیسویں صدی کے وسط میں شعرا کا ایک ایسا گروپ پیدا ہوا جس نے شاعری کو معروضیت سے ہم آہنگ کرنے کی ٹھانی۔ شعرا کے اس گروہ کو پاناسینز(Parnassians) کا نام دیا گیا۔ اس گروہ میں شامل شعرا ہیں: لوکونت د لیزل، تھیو دور دبان ویل، کوتیول میندیس، سیولی پرودھوم۔ فرانسوا کوپیے، جوز ماریا دایریدیا اور پال ورلن جس نے تھیو فیل گوتیئے کے جمالیاتی نظریے کے تحت جو شاعری کی اس میں حرف و بیاں کے سلسلے میں وہ کسی بھی رطب و یابس پر مصلحت اختیار نہیں کرتا تھا۔ اسی طرح بودلیئر نے جو شاعری کی، اس میں زندگی اور حقیقت کو ہر التباس سے معرا کرنے کی ان تھک کوشش کی۔ اس ضمن میں اس نے زندگی کے مکروہ ترین پہلوئوں کو بھی شاعری کے موضوعات میں شامل کرنے سے گریز نہیں کیا۔ اگرچہ اپنے انتہائی تجزیے میں اس کا یہ انداز رومانیت پسندی سے جا ملتا ہے۔ بہرحال بودلیئر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے جذبات کی شدت کو کبھی داخلیت زدہ نہیں بننے دیا۔ اس کی رومانیت بہت ہی عمیق تھی اور یہ کہنے میں مجھے کوئی تأمل نہیں کہ وہ بائرن کے اینٹی ہیرو سے بے حد متاثر تھا۔ ہم بودلیئر کی شاعرانہ حیثیت اور اس کی شاعری سے متعلق گفتگو بالتفصیل آگے چل کر کرنے والے ہیں، اس لیے فی الحال اس کے متعلق مزید کچھ لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو رومانیت پسند شعرا نے فرانسیسی شاعری کی جہت نمائی ایک ایسے انداز سے کی کہ جس کے اثرات فرانسیسی ہم عصر شاعری کو بھی محیط ہیں۔
 
بیسویں صدی کی فرانسیسی شاعری کا سب سے اہم اور بڑا نام گییوم اپولونیر ہے جس نے بودلیئر کی طرح وہ شاعری کی جو شہری زندگی سے تعلق رکھتی ہے، ایسے موضوعات پر شاعری جیسے کہ ہوائی جہاز،آئفل ٹاور اور شہری خرابے۔ اور ایک اور کارنامہ یہ کیاکہ اپنے Calligrams کے ذریعے شاعری کو مصوری کی تحریک کیوبزم سے ہم آہنگ کردیا۔ رامبو اور پول کلودیل کی آزاد نظموں سے متاثر ہوکر اس نے اسے اپنی مذہب کی تبدیلی کی پراسرایت کی شرح و تعبیر کے لیے بھی استعمال کیا۔ اس دور کے دوسرے اہم شعرا کے نام یہ ہیں: پال ویلری، میکس جیکوب، پییئر شاں ژوو، والیری لاربو، وختر سیگالین اور لیوں پول فارگ۔
 
پہلی جنگِ عظیم نے مشہورِ زمانہ تحریک ڈاڈا ازم کو جنم دیا۔ اس تحریک کی ولادت سوئزرلینڈ کے ایک کیفے میں 1916ء میں ہوئی۔ یہ چوں کہ فرانسیسی شاعری سے متعلق ایک تعارفی کالم ہے، اس لیے ہم کسی بھی ادبی یا شعری تحریک کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ البتہ اس کا تذکرہ تاریخ کا ایک اٹل تقاضا ہے۔ گزشتہ سطور میں پیش کیے گئے مختصر خاکے سے کم سے کم اس امر کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ فرانسیسی شاعری کا ارتقائی سفر طویل اور پیچیدہ ہے۔ اس سفر میں فرانسیسی شاعری نے زبانی پڑھی ہوئی شاعری سے تحریری شاعری بننے تک کئی مشکل مرحلوں کو سر کیا۔ یہی نہیں، بلکہ اب تو وہ Hypertext کی منزل کو پہنچی ہوئی ہے۔ ہم اسے مافوق التحریر کہہ کر اس وقت تو آگے بڑھتے 
ہیں۔ اِن شاء اللہ بعد کے کسی کالم میں اس کی نوعیت پر تفصیلی بحث کریں گے۔
فرانسیسی شاعری کے مزاج کے حوالے سے جو بات اہم ترین ہے، وہ یہ کہ اس کی یہ قلبِ ماہیئت دراصل بدلتی ہوئی سوسائٹی کی مرہونِ منت ہے۔ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی ادب کی نئی نئی ہیئتوںکو جنم دیتی ہے۔ یہی کچھ فرانس کے ادب اور شاعری کے ساتھ بھی ہوا۔ فی زمانہ انٹرنیٹ کی ایجاد نے ہائپر ٹیکسٹ اور ہائپر میڈیا کو شاعری میں نت نئے تجربے کرنے کی ترغیب دے رکھی ہے۔گو شاعری نے سائنسی اور ٹیکنالوجیکل اثرات قبول تو کیے لیکن شاعری چاہے وہ فرانس کی ہو یا کسی اور دیس کی، اگر شاعری ہے تو وہ جس چیز کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتی، وہ ہے اس کی شاعرانہ خصوصیت۔ اگر کسی زبان کی شاعری ایسا کرنے سے قاصر رہے تو اس کے بارے میں صاف اور قطعیت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اور چاہے جو کچھ بن گئی ہو مگر شاعری ہرگز نہیں رہی۔ شاعری زبان کو بالعموم جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اسی لیے آج کی فرانسیسی شاعری میں زبان کے جمالیاتی استعمال، وزن اور قافیہ بندی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ اس صدی تک پہنچتے پہنچتے فرانسیسی شاعری ایذرا پائونڈ کے اس فارمولے کی مذہبی حد تک پابند ہوگئی ہے کہ:
   1۔ خواہ وہ داخلی ہو یا خارجی، جس شے کو بیان کرنا، براہِ راست اور بلاواسطہ بیان کرنا۔
2۔ایسا کوئی لفظ قطعاً نہیں استعمال کرنا جس کا موضوع سے براہِ راست تعلق نہ ہو۔
3۔ اوزان کو نظم کی سطور کی موسیقی کا ساتھ دینا چاہیے نا کہ ان کے کسی جزوی پہلو کا۔
ایذرا پائونڈ کے اس فارمولے نے پیکر تراشوں پر ایک نیا دریچہ کھول دیا اور اب وہ اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ اس کا اہل سمجھنے لگے کہ وہ روایت سے ایک ’’دوستانہ مخاصمت‘‘ رکھ سکتے ہیں، مگر یہ بات پوری سچائی کی آئینہ دار نہیں ہوگی اگر ہم نئی نسل کے شعرا کی آج کی فرانسیسی شاعری کو پڑھیں۔ یہ شاعری نہ ایذرا پائونڈ کی سنتی ہے نہ ورڈز ورتھ کی، نہ اور کسی کی۔ نئی نسل کی شاعری کو بہت سے نقاد گونگی شاعری قرار دیتے ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ شاعری موسیقی سے جتنی قریب ہے، کسی زبان کی شاعری کبھی اتنی قریب نہ ہوئی ہوگی۔
 
بظاہر تو یہ ایک ابسرڈ بغاوت نظر آتی ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ لکھا ہوا کوئی لفظ نہ تو بے معنی ہوسکتا ہے نہ مہمل۔ اس بات کو گہرائی میں جاننے اور دل سے ماننے کے لیے آپ کو سررئیلزم (Surrealism) اور ڈاڈازم (Dadaism)کو بہت استغراق سے پڑھنا ہوگا۔ یہ وہ تحریکیں ہیں جو انسان کے لا شعور سے ابھریں اور انسان کا شعور تو شاید کبھی ابسرڈ نظر آئے لیکن لاشعور کبھی ابسرڈ نہیں ہوتا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو یہ بات یا تو ییٹس نے یا پھر لورکا نے کہی ہے کہ انسان کی ذمہ داریاں خوابوں میں جنم لیتی ہیں!
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 881