donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Ghazal Aik Maqbool Sanfe Sukhan

  غزل ایک مقبول صنف سخن


رضیہ کاظمی الہ آبادی


نیو جرسی

 

    زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
    کہ میرےنطق نےبوسےمری زباں کےلئے


قصیدہ کا یہ شعرتجمّل حسین خاں کےلئےہے مگراب مسلسل میری زبان پر غزل کے لئے آرہا ہے۔ رشید احمد صدّیقی صاحب نے غزل کو شاعری کی آبرو کہا ہے۔غزل اردو شاعری کا حسن ہے۔ اس کا زیور ہے۔ بلکہ اس کی روح ہے۔ اس کی گردن زدنی کرنا گویا روح کو جسم سے جدا کردینا ہے۔ غزل ایک فن لطیف ہے۔ فنوں لطیفہ ہمیشہ کسی تہذیب کی برتری کی نشان دہی کرتے ہیں۔


اردو شاعری کی چار معروف اصناف سخن  قصیدہ،مرثیہ ،مثنوی اور غزل میں غزل ہی سب سے زیادہ ممتاز و مقبول صنف ہے۔ان سب اصناف کا ایک وافر ذخیرہ ادب میں موجود ہےلیکن اگر دیکھا جائےتو ان میں غزل کا پلّہ سب سے زیادہ بھاری نکلے گا۔ اردو نےجتنے شاعر غزل میں پیدا کئے کسی اور صنف میں نہیں۔ قصائد میں سودا،غالب اور مومن کے صرف چند اشعار،مراثی میں میر انیس کےاورمثنوی میں صرف دیاشنکرنسیم کےکچھ اشعار ہی زبان میں ضرب الامثال کا مقام لےسکےلیکن غزل کے ہزارہا اشعار اس صورت میں زبان زد خاص وعام ہیں۔مثنوی گوئی صرف داستان گوئی کے عہد رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔ ْقصائد کا دامن  سلاطین کی حکومتوں کے عروج وزوال سے وابستہ رہا ہے۔ مرثیہ نگاری کو شاہان اودھ کی سرپرستی نےپروان چڑھایا لیکن غزل ولی دکّنی سے لے کر آج تک فی زمانہ مقبول رہی ہے۔ غالب کے اس خیال کے باوجود کہ


بقدر شوق نہیں حرف تنگنائےغزل
کچھ اورچاہئےوسعت مرےبیاں کےلئے


ان کی شہرت و ناموری کی ضامن صرف ان کی غزلگوئی ہی تھی۔
یہاں تک کہ عبد الرحمٰن بجنوری نے ان کے غزل کے دیوان کوالہامی کتاب کا غزل کا درجہ دیا ہے۔بقول غالب؛


دیکھنا تقریر کی لذّت کو جو اس نے کہا
میں نےیہ جانا کہ گویا یہ بھی میرےدل میں ہے


 یہ داخلی کیفیت صرف غزل ہی پیش کر سکتی ہے اورکوئی دوسری صنف نہیں۔ ایک غزل گو شاعر صرف دو مصرعوں میں وسیع سےوسیع ترخیالات ایک کوزہ میں دریا بند کرنے کی طرح پیش کردیتا ہےاوروہ سامع کے دل کو صرف چھوتے ہی نہیں بلکہ بعض اوقات بے چین بھی کر دیتے ہیں۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسےیہ ٹھیک اس کےدل کی بات ہے۔ یہی غزل کی سب سے بڑی خوبی ہےجو اسے دوسرے اصناف سخن سے ممیّزوممتاز کرتی ہے۔


غزل کی اور بڑی خوبی جس سے دوسری اصناف عاری ہیں وہ ہے اس کی رمزیت واشاریت۔غزل گو شاعراشارے اشارے میں صرف ایک شعر میں حیات وکائنات کے رموز وحقائق کی اس طرح عقدہ کشائی کردیتا جسکے لئے اکثر کئی کئی صفحات درکار ہوتے ہیں۔ غزل کی اور دوسری خصوصیات اس کی شعریت،نغمگی،یا غنائیت اور اسکا اختصار بھی ہےجو اسے دوسری اصناف سےممتاز بنانے میں معاون ہے۔


غزل کےلغوی معنی حکایت بایارگفتن یعنی محبوب سےباتین کرنا کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس میں عشقیہ مضامین زیادہ بیان کئے جاتے ہیں لیکن اکثر اشا رتاً و کنایتاًً بھی ۔ یہ ہمیشہ اپنے لغوی معنی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس نے مختلف موضوعات کا احاطہ  بھی کیا ہے۔


اس مختصر مضمون میں مجھےغزل کی ساخت،اور اس کی تاریخ کے بجائے صرف اس کی ادبی حیثیت کو زیر تحریر لانا ہے۔ مجھے یہ دیکھنا ہےکہ اتنی خوبصورت اور کار آمد صنف ہونے کے باوجود بھی اسےانقلاب سے آزادی تک بر صغیر میں ٹھکرایا کیوں گیا۔۱۸۵۷ کے ناکام انقلاب سے پہلےاودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ مٹیا برج جلا وطن کردئے گئے تھے۔حکومت سے معزول کرکے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ رنگون بھیجے گئے۔ یہ غزل گو بادشاہ وہاں اپنی غربت کا اس طرح ماتم دار رہا ع


لگتا نہیں ہیے جی مرا اجڑے دیار میں
  پھر اسی غزل کےمقطع میں اپنی بدنصیبی کا رونا روتا رہا
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


بر صغیر پر انگریزوں کا تسلّط ہوا۔ اکثر باشندے تو تقدیر پر شاکر ہوکے بیٹھ رہے مگر کچھ ا شخاص اپنی سیا سی اور ملکی ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے لگے۔ بعض انگریزوں کے علوم وفنون کے قائل ہونے لگے۔ مسلمانون میں اس طرز فکر کی سب سے بڑی نمائندگی کرنے والے سر سیّد احمد تھے۔ انھوں نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اس کام کو سر انجام دینےکی کوشش کی۔ان کےحامیوں میں مولانا محمّد حسین آزاداورمولانا حالی بھی تھے۔محمّد حسین آزاد دراصل سر سیّد کی طرح  نثر نگار تھے مگر حالی ایک شاعر تھے جو سرسیّد کے پیغامات کو موثّر طریقہ سے عام مسلمانوں تک بخوبی پہنچاسکتےتھے اورانھوں نے اس کام کو بہت اچّھی طرح انجام بھی دیا۔


ایک فاتح قوم کا اثرمفتوح قوم کے طرز معاشرت کے ساتھ ساتھ اس کے زبان و ادب پر بھی ہوتا ہے۔ یہاں انگریزی زبان کا مزاج اردو سے بالکل مختلف تھا جو اس پر تو اثر انداز نہ ہوسکالیکن اد ب پر ہونا لازمی تھا۔ انگریزی شاعری میں نظمیں لکھی جارہی تھیں۔ ہومر اور ورجل کی رزمیہ شاعری کا دور گزر چکا تھا ورڈسورتھ اور کولرج کی نیچرل ،کیٹس اور شیلی کی جذباتی اور ٹینیسن کی بیانیہ شاعری کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔ غزل جیسی کسی صنف کا کہیں نام ونشان بھی نہ تھا۔عشقیہ سانیٹس کی ساخت غزل سے بہت مختلف تھی۔ایک منفرد خیال چودہ لائنوں میں پورا کیا جاتا تھا۔


ہم اپنی سہولیت کےلئے کسی زبان کےادب کی دو قسمیں کرسکتے ہیں۔ ایک تفریحی  دوسرا افادی یا مقصدی۔ سر سیّد اور ان کے نظریہ کے حامیوں کے حساب سے غزل اور قصید ہ افادیت  سے عاری تھے۔ ان کے ذریعہ براہ راست قوم کو اصلاحی پیغام نہیں دیا سکتا تھا ۔اس لئے ان لوگوں نےان دونوں اصناف کی مخا لفت اور انگریزی شاعری کے اتّباع میں ایک نئے طرز کے مشاعرے کی شروعات کی۔


مولانا محمّد حسین آزاد نےکرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں انجمن پنجاب کے نام سےلاہور میں ایک علمی وادبی سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس سوسائٹی ہی میں ایسے نئے طرزکے مشاعروں کی شروعات کی گئی جن میں مصرع طرح کے بجائےموضوعات پر طبع آزمائی کی جاتی تھی۔ یہا ں سے اردو شاعری میں نظم گوئی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہیں حالی نے کچھ اچّھی نظمیں جیسےبرکھا رت،امّید،اور انصاف وغیرہ لکھیں۔اس کے بعد چپ کی داد ،مناجات بیوہ اور مدّ وجزراسلام لکھ کرقوم کی اصلاح کا حق تو پوراکیالیکن اپنےدیوان پر مقدّمہ[مقدّمۂ شعر وشاعری ]لکھکر نیچرل شاعری کے نام پرغزل وقصیدہ کی خوب دھجّیاں اڑائیں۔دھیرے دھیرے ان دونوں اصناف پر اس کے منفی اثرات نظر آنے لگے۔ان سےبیزاری کا اظہار عام ہونے لگا ۔ پھردو دو عالمی جنگیں۔برصغیر میں انگریزی حکومت کے خلاف جدّو جہد میں مختلف تحریکیں۔ ان سب وقتی اور ہنگامی حالات نےنظم کے لئے نئے موضوعات دئے۔ شاعری پروپگنڈا  کا ذریعہ بن کر رہ گئی۔ ایسا محسوس ہونے کہ غزل اب آخری سانسیں لینے والی ہے۔اس مشکل دور میں اصغر،جگر،فانی اور حسرت نے اس کے مردہ جسم میں پھر سے سانسیں پھونکیں۔ اس احیائےغزل کے سلسلہ میں ان شعرأ کو عناصر اربعہ کام نام دیا گیا ۔ ۱۹۴۷ میں ہندوستان آزاد ہوا۔پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔وقتی بحران ختم ہوا تو لوگوں کا دھیان پھرغزل کی افادیت کی جانب منتقل ہونے لگا۔چھوٹے پیمانہ پر نشستیں اور پھر بڑے اور یہاں تک کہ عالمی وبین الاقوامی مشاعروں کا انعقاد عمل میں آنے لگا۔ کئی اچّھے غزل گو شعراء وگلو کاربالی وڈ سےمنسلک ہوئےجنھوں نے اس کی ترویج و اشاعت میں بہت معاونت کی۔ غیر متعصّب ہندی داں طبقہ بھی اس کی طرف متوجّہ ہونےلگا۔ ہندی شاعری میں اب تک دو ہی مصرعوں میں مکمّل ہونےوالی صنف کا فقدان تھا۔ دوہےاخلاقی  اور صوفیانہ خیالات کے حامل ہوا کرتے تھے۔ اب غزل کو گجل کہنے والی عوام بھی بڑے چاؤ سےغزل کی محفلوں میں شریک ہونےلگی۔ آج اردو کش سیاسی لیڈر بھی  اپنی تقریروں میں  غزل کی بیساکھی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ بقول غالب؛


منظور ہے مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر


اب اگر اردو عالمی زبان وادب میں جگہ بناسکتی تو میرے خیال میں صرف غزل کی  بدولت۔آج ہمارے پاس وقت کی کمی ہے ۔ تھوڑی سی فرصت میں ایک اچّھا شعر ہماری تفریح کا ذریعہ بن سکتا ہےاورتفریح بھی صحت کے لئے ایک لازمی جز قرار پاچکی ہے۔ حالی کا اعتراض اس وقت کا تقاضا تھا لیکن آج اس کی ترویج موجودہ دور کی ضرورت ہے


آج بھی کچھ اشخاص حالی کی ہمنوائی میں غزل کے طرحی مشاعروں پر روک لگانے کے مشورے دیتے ہیں۔ دراصل کوئی فن برانہیں  بلکہ برا ہے تو اس کے فنکار کا فنّی شعور۔ ابلیس معلم الملکوت ہوکےعلم کے غلط استعمال سے مردود ہوگیا توتحصیل  علم کےخلاف علم بغاوت بلند کرنا عقلمندی تو نہیں ۔ میرے خیال میں غزل کی طرحی نشستوں اورمشاعروں پر روک لگانے کے بجائےطرحی مشاعروں کی نشستوں کے ساتھ ساتھ ایسی نشستیں بھی منعقد کی جائیں جن میں اس صنف کی خامیوں اورخوبیوں کواجاگرکیا جائے،ان پر مباحثے ہوں اور اصلاح کے طریقے سجھائے جائے جائیں۔ اس کے علا وہ دوسری اصاف نظم ونثر کی نشستیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔


میرے خیال میں اردو زبان کی بقا کا سب سے پر اثر ذریعہ غزل کی اشاعت ہے۔اگر اس پر زیادہ پابندی لگائی گئی تو اردو یقیناًزوال پذیر ہوجائے گی۔ اس کے ترقّی کی راہ میں روڑے اٹکانا اردو زبان وادب سے کھلی دشمنی ہے


رضیہ کاظمی الہ آبادی
نیو جرسی


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1023