donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Saadullah Khan Sabeel
Title :
   Urdu Ki Zarbul Misl Shayari

 

اردو کی ضرب المثل شاعری 

 


سعد اللہ خان سبیل 

 


    اصناف سخن میں غزل کو جومقبولیت حاصل ہے وہ کسی اور صنف سخن کو نہیں ہے۔ اس کی مقبولیت کی اہم ترین وجہ اس کا اختصار اور اس کی ہیئت ہے اگرچہ کے غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ہے اور زمانہ قدیم میں یہ صنف صرف خواتین کے حسن کی تعریف کرنا ان کے لب ورخسار یا پھر گل و بلبل تک محدود تھی۔ شعراء اپنے کلام میں عورتوں کی تعریف کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے شائد اسی لئے شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ نے کہا تھا۔ ؎

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
ہائے بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

    لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ غزل کے مضامین میں بھی فرق آگیا ہے فی زمانہ اس صنف میں تمام تر موضوعات کا احاطہ کیا جارہا ہے۔ اب غزل میں مذہبی ، سیاسی ، سائنسی ودیگر مضامین کو بھی بہتر انداز میں باندھا جارہا ہے۔ تاہم غزل کا اپنا رنگ ہے جو اس کو دیگر اصناف سے الگ کرتا ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے دومصرعوں میں شاعر اپنا مدعا بیان کرجاتا ہے۔ بعض مصرعے خودکئی اشعار پر بھاری ہوتے ہیں ان میںاکثر ضرب المثل بھی بن چکے ہیں زیر نظر مضمون میں ہم قارئین کی معلومات اوردلچسپی کے لئے چند ایسے ہی مصرعوں کو مکمل شعر کے ساتھ پیش کرتے ہوئے تفہیم شعر کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ 

مصرعہ: عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں 

مکمل شعر :

عمر گزری ہے اسی د شت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں


تفہیم :

    اس شعر کے پہلے مصرعہ کو اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی اپنے تجربہ اور قابلیت کا اظہار کرنا چاہتا ہو۔ یہ  شعر میراانیس کا ہے۔ انیس کے پڑدادا میر ضاحک ان کے دادا میر احسن اوران کے والد میر خلیق نے مرثیہ نگاری میںکمال پیداکیا تھا مرثیہ نگاری میں عموماًداستان گوئی کے علاوہ جنگ وجدال کے مناظر کو پیش کیا جاتا ہے۔ بالخصوص کربلا کے واقعہ کو اس صنف میں بیان کیاجاتا ہے ، میرا نیس کہتے ہیں کہ واقعہ ، کربلا اور اہل بیت کی توصیف بیان کرتے ہوئے پانچویں نسل آچکی ہے۔

مصرعہ : خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے 

مکمل شعر :

قدم رک رک کے اٹھتے ہیں کمر بل کھا ہی جاتی ہے
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے

تفہیم

    اس شعر کامصرعہ ثانی ضرب المثل ہے اگر کوئی شخص تونگر ہو اور اپنی شان وشوکت جاہ وحشمت کے بل پر اکڑتا ہے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس مصرعہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ جب کسی کے پاس عقل وفراست ہو علم و عمل ہو تو اسے شدت سے اس کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے حصار میں قید ہوکر مست ومگن رہتا ہے۔

مصرعہ:جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا 

مکمل شعر: 

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

تفہیم :

    اس شعر کا دوسرا مصرعہ ضرب المثل ہے یہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ظلم وزیادتی کی انتہا ہوجائے اور تمام گواہان خاموش رہیں مظلوم کی آہ سننے والا کوئی نہ ہو تو پھر ایک وقت ا یسا آئیگا جب خود قاتل کا طرفدار مقتول کی تائید میں کھڑا ہوجائے گا اورظالم کا منہ توڑ جواب د ے گا۔

مصرعہ : سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

مکمل شعر 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

تفہیم : 

    یہ شعر امیر مینائی کا ہے اس کا مصرعہ ثانی کافی مقبول ہے۔ وہ لوگ جو نرم دل ہیں معاشرہ میں پھیلی بے چینی اور کسمپرسی کو دیکھ کر جن کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ غربت ،لاچارگی ، بے بسی اورمحرومی کو دیکھ کر جن کا دل غم سے بھرجاتا ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔

مصرعہ : بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے 

مکمل شعر :

نکلنا خلد سے آدم کاسنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

تفہیم : 

    یہ شعر اردو کے ممتاز شاعر اسداللہ خان غالب ؔ کاہے جس میں صنعت کا استعمال ہواہے۔ حضرت آدم کا جنت سے نکالا جانا تو مشہور ہے لیکن ہم سے زیادہ شائد بے عزت ہوکر دنیامیں کوئی اور تیری محفل سے نہ نکلا ہوگا۔ 

مصرعہ :اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 

مکمل شعر : 

دل کے پھپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے 
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 


تفہیم : 

مندرجہ بالا شعر کا دوسرا مصرعہ کافی مشہورہے۔ جب کبھی خود اپنوں سے نقصان ا ٹھانا پڑے اورانسان تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے تو اس وقت اس مصرعہ کو دہرایا جاتاہے۔ شاعر کامدعا ہے کہ جن پر ہم کو بھروسہ تھا وہی ہمارے لئے مصیبت کاسامان بن گئے۔ 


مصرعہ :لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا 

مکمل شعر :

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا


تفہیم : 

    یہ شعر ترقی پسند ممتاز شاعر مجروح ؔ سلطان پوری کا ہے۔ اس شعر کا مصرعہ اول اکثر استعمال میں آتا ہے۔ جب کسی کام کے آغاز کے لئے ہمت بندھانا ہو یاکسی کام کی تحریک د ینا ہو تو اس مصرعہ کو دہرایا جاتا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرکام آغاز کے و قت چھوٹا معلوم ہوتا ہے جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے اس میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور یہ کام عظیم ہوجاتا ہے۔ 


مصرعہ : میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

مکمل شعر :

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں 
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے


تفہیم : 

    یہ شعر جگر مراد آبادی کا ہے جس کا دوسرا مصرعہ ضرب المثل ہے۔ اس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی خود کو دنیاوی جھمیلوں سے دور رکھتے ہوئے صرف پیار محبت اور خلوص کا پرچار کرنا چاہتا ہے۔ وہ نہ تو کسی کی غیبت سنتا ہے اورناکسی کی برای کرنا پسند کرتاہے۔ 


مصرعہ: بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے 

مکمل شعر :

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے


تفہیم : 

    یہ شعر فانی بدایونی کا ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرعہ کافی مشہور ہے لوگ اس وقت اس کا استعمال کرتے ہں جب کسی کام کے مشکل ہونے کا ثابت کیا جاناہو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کام ہوتے ہوتے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے کوئی بھی کام آسانی سے مکمل نہیں ہوتا۔ 


مصرعہ : برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر 

مکمل شعر : 

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر


تفہیم : 

    یہ شعر علامہ اقبال کی طویل نظم شکوہ جواب شکوہ کا ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرعہ ضرب المثل ہے۔ مسلسل ایک قوم یا ایک ہی شخص پر مصیبت کے پہار ٹوٹ رہے ہوں تو مایوسی کے عالم میں اس مصرعہ کو پڑھا جاتاہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنوں کے ساتھ تو معاندانہ رویہ ہے لیکن دوسروں کے ساتھ اخلاص کا اظہار ہورہاہے۔ 

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 678