donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sarwar Alam Raz
Title :
   Razia Kazmi Ki Ghazalia Shayari


 

رضیہ کاظمی کی غزلیہ شاعری

 

سرورعالم راز سرورؔ

 

رضیہؔ کاظمی کا تعلق الہ آباد (یو پی، بھارت) کے ایک نواحی قصبہ کراری کے شرفائے سادات سے ہے۔ شاعری کا شوق ان کو اپنے والد مرحوم سید مومن حسین شعلہؔ کراروی سے ورثہ میں ملا ہے۔غالباً ابتدائی ادبی تربیت بھی انہیں کے زیر سایہ ہوئی ہوگی۔ بہر کیف اپنے ادبی ذوق کو رضیہؔ نے اپنی محنت اور شوق سے مزید جلا دی اور مشق سخن بہم پہنچائی۔ وہ کافی عرصہ سے نیو جرسی (یو ایس اے) میں مقیم ہیں ۔ انہوں نے اُردو کی مختلف اصناف سخن میں شعر گوئی کی ہے لیکن رجحان طبع غزل گوئی کی جانب ہے چنانچہ اب تک ان کی غزلوں کے دو مجموعے ’’صد پارہ ہائے دل‘‘(۲۰۰۹ء) اور ’’لخت ہائے د ل‘‘ (۲۰۱۳ء) شائع ہو چکے ہیں ۔رضیہؔ کی غزلوں پر لکھا ہوازیر نظرتجزیاتی مضمون انہیں دو کتابوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن میں رضیہؔ کی غزل پر چند اہل ادب کی رائے قابل غور وفکر ہے اور یہاں درج کی جاتی ہے ۔

رضیہ کاظمی ایک فطری اور حقیقی شاعرہ ہیں۔ان کے یہاں جو تغزل اور شعریت پائی جاتی ہے وہ اِ س دَور کے کم شاعروں میں ملتی ہے۔ان کے یہاں عشق کی مختلف کیفیات کی ایسی دلکش اور پراثرترجمانی ملتی ہے جو انھیں کا حصہ ہے۔

(شاہ نواز عالم)

رضیہ کاظمی کا کلام عام آدمی کی زندگی کی کشمکش کی اتنی دلکش عکاسی کرتا ہے اور انسانی جذباتیت سے اس طرح لبریزہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے ۔ ان کا کلام کہیں دور نہ جا کر زندگی کے آس پاس گردش کرتا ہے۔

(امتیاز غازی)

’’صد پارہ ہائے دل‘‘ حیات کا حاصل ہے، تجربات اورمشاہدات کا حاصل۔۔یہ داستان فردِ تنہا کی داستان ہے جو ذات اور معاشرے کیماحول کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ماحول زمان ومکان سے مربوط ہے ۔ لہٰذہ ذات، معاشرہ اور زمان ومکاں مل کر شاعرہ رضیہ کاظمی کے اسلوب کے اساسی عناصر قرار پاتے ہیں

(مامون ایمن )

ایسی خیال آفریں رائے کا فطری تقاضہ ہے کہ رضیہؔ کی غزلیہ شاعری کا مفصل اور بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے اور پھر اس کے معنی خیز اور بے لاگ تجزیہ کے توسط سے یہ دیکھا جائے کہ انہوں نے اپنی غزل سے اُردو ادب میں کیا اضافہ کیا ہے اور اُن کا دنیائے اُردو میں کیا مقام ہے۔ درج بالا آرا میں رضیہؔ کی غزل میں تغزل، شعریت ، انسانی تجربات ومشاہدات اور واردات عشق کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ لہٰذہ ان حوالوں سے موصوفہ کی غزل کو پرکھنا اور جانچنا مناسب معلوم ہوتاہے ۔ جہاں تک انسانی تجربات و مشاہدات کا سوال ہے سب ہی ان سے کم وبیش واقف ہیں اور اپنے اپنے طور پر زندگی میں ان سے نبرد آزما بھی رہتے ہیں۔یہی صورت حال وارداتِ عشق کی بھی ہے کہ انسانی زندگی میں اہمیت کے پیش نظرہر شخص ان سے کسی نہ کسی سطح پر آشنا ضرور ہوتاہے۔البتہ تغزل اور شعریت غزل کی ایسی خصوصیات ہیں جن کی تعریف کرنے میں اور پھر ان کے ادراک میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ تغزل ، شعریت اور ان سے متعلقہ نزاکت خیال کی الفاظ میں تفصیل و تعریف اور صورت گری آسان نہیں ہے لیکن مناسب الفاظ کے توسط سے ان خصوصیات کی جانب اشارہ یقیناًممکن ہے۔ غزل میں تغزل مومن خاں مومنؔ کے درج ذیل دو اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے جب کہ میر تقی میر ؔ اور مرزا محمد رفیع سوداؔ کے اشعار شعریت کے اظہار کے لئے دئے جارہے ہیں اور امیر ؔ مینائی کا شعر غزل میں نزاکت خیال کی نشاندہی کرتا ہے۔

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

ورنہ دُنیا میں کیا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

 

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

میرؔ اُن نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

 

کیفیت چشم اُس کی مجھے یاد ہے سوداؔ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

 

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی

بھیجنی ہیں ایک کمسن کے لئے

 

غزل کے لغوی معنی ہیں ’’محبوب سے بات چیت کرنا‘‘۔ اس حوالے سے واردات ومعاملات عشق ہمیشہ سے غزل کے مضامین کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔ شعرا مختلف حوالوں سے اس مضمون کی پیروی کرتے آئے ہیں۔ فرہاد وشیریں اور قیس ولیلیٰ کی داستان سے کون نا واقف ہے؟ ہجر ووِصال کی کہانی، گل وبلبل کا قصہ، بہار وخزاں کی واردات، قفس و صیاد اور آشیاں کے اشارے اور کنایے وغیرہ سب اسی داستان پارینہ کی کڑیاں ہیں۔عشق ومحبت چونکہ ایک فطری اورنہایت دلفریب انسانی جذبہ ہے اس لئے غزل میں اس کا اظہاریہ پہلو بدل بدل کر بیان ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ آلام روزگار، دنیا والوں کی بے رخی، اپنوں کی شکایت، آلام زندگی، غم حبیب اور انسانی زندگی کا ہر جذبہ غزل کے محبوب موضوعات میں شامل رہا ہے۔ ان کو نکال دیجئے تو غزل میں کہنے کو بہت ہی کم رہ جاتا ہے۔ چونکہ رضیہؔ کی شاعری پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے اس میں عاشقانہ مضامین اور انسانی جذبات کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے اس لئے ان کی کتابیں پڑھنے والا ان موضوعات کی طرف فوراً ہی دھیان دیتا ہے لیکنیہ دیکھ کر اسے انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ رضیہؔ کی غزل حسن وعشق کی واردات سے تقریباً بالکل ہی نا آشنا ہے۔ تلاش کیجئے تو کہیں کہیںیہ روداد دکھائی دے جاتی ہے البتہ ایسے اشعار میں جذبہ کی شدت یا رقت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے:

 

نہ پوچھو مجھ سے کہ اب میرا مشغلہ کیا ہے

تمہارییاد سے دل ہم کلام رہتا ہے

آئے نہیں ہیں خود سے،بلائے ہوئے ہیں ہم

اب ہو وہ مہربان کہ نا مہربان ہو

کیا گئے وہ غریب خانے سے

رونقیں لے گئے زمانے سے

یاد دل میں کسی کی آئی ہے

آنسوؤں سے لگی بجھائی ہے

دل کی چھوٹی سی ایک دنیا میں

وسعت زندگی سمائی ہے

اسی طرح رضیہ ؔ جب آلام روزگار یا آلام زندگی کا ذکر کرتی ہیں تو اس میں رونے دھونے یا آنسو بہانے کی کیفیت نہیں ہوتی ہے۔ وہ نرم لب ولہجہ میں اورآسان الفاظ میں اپنے دل کی بات کہہ جاتی ہیں اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ان کا شعر پڑھ کر ذہن ودل میں کسی طرح کا تکد ر یا انقباض پیدا ہو۔یہ ہنر آسان نہیں ہے۔ یقیناًایک دردمند انسان اور پھر شاعرہ ہونے کے ناتے ان کا دل بھی دنیا اور دنیا والوں کی باتوں سے دکھتا ہوگا، انہیں بھی دنیا کی بے ثباتی اور اپنی بے بسی کا احساس کھٹکتا ہوگالیکن وہ ہر قدم پر اپنے جذبات اور اپنا قلم قابومیں رکھتی ہیں اورسیدھے سادے انداز میں اپنی بات کہہ کر خاموش ہوجاتی ہیں۔

کچھ بھی کرنے نہیں دیتےیہ زمانے والے

حد ہے ، مرنے نہیں دیتےیہ زمانے والے

اس کو حال دل مضطر جو سنانا چاہوں

بات کرنے نہیں دیتےیہ زمانے والے

خدایا ! زندگی کیسا سفر ہے

گزرجانے پہ کب اس سے مفر ہے

نہ جانے کیا خبر دی ہے صبا نے

کف افسوس ملتا ہر شجر ہے

اسے صورت گری کی کیا ضرورت

ہر اک شے میں اگر وہ جلوہ گر ہے

دراصل رضیہؔ کی شاعری نہ تو اردو غزل کے روایتی حسن وعشق کی روداد کی بازگشت ہے اور نہ ہی ’’غم حیات، غم آرزو، غم دنیا‘‘ سے زخمی دل کی داستان ہے۔ رضیہؔ کو خواہ مخواہ باتیں بنانا اور پھر مصنوعی آنسو بہانا نہیںآتا ہے۔ ان کی شاعری ایک سیدھی سادی شاعرہ کی سیدھی سادی شاعری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اگرا ن کے اشعار میں ڈوب کر ان کے ساتھ ایک ذہنی سفر کیا جائے تو ان کی غزل اپنی بہت سی ایسی باتیں کھول کر خود ہی سامنے رکھ دیتی ہے جو بصورت دیگر ایک روایت زدہ قاری کی نگاہوں سے گم رہ سکتی ہیں۔ رضیہؔ کے یہاں غالبؔ کی پیچیدہخیالی،میر تقی میرؔ کا تغزل وشعریت، داغؔ کی زبان وبیان کی صفائی،اصغرؔ گونڈوی کا تصوف اور علوئے خیالیاجگرؔ مرادآبادی کا رومانوی انداز فکر وبیان ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ان سب سے بیگانہ ہیں۔ ان کی فکر ایک عام انسان کی فکر ہے، ان کی محبت ایک عام انسان کیمحبت ہے اور ان کے جذبات وخیالات واحساسات ایک عام انسان کے جذبات وخیالات ہیں۔ انہوں نے اسی مناسبت سے آسان ، سادہ اور عام فہم انداز بیان اپنایا ہے ۔ یہی سادگی اور پرکاری ان کی غزل کا خاصہ ہے اوریہی اس کی جان۔ رضیہؔ کی ساد ہ بیانی کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

اک جھلک سی کسی کی پائی ہے

پیاسیوں ا وس سے بجھائی ہے

جب سے اپنوں نے ساتھ چھوڑ دیا

ٹھہری غیروں سے آشنائی ہے

وسوسے کتنے آئے تھے دل میں

دیر آنے میں جو لگائی ہے

ہر ایک کی منزل ہے جدا، راہ جدا ہے

خود بینی و خود رائی فقط راہ نما ہے

اک ایسے چراغاں سے اندھیرا ہی بھلا ہے

مدھم کسی مفلس کا دیا جس سے ہوا ہے

ہر ورق اس کتاب دل کا ہم

کاش اس کو کبھی پڑھا سکتے

جو ہے اعمال نامہ ہاتھوں میں

آنسوؤں سے نہیں مٹا سکتے

رضیہؔ کی سادہ بیانی ان کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں بہت نکھر کرسامنے آتی ہے۔ چھوٹی بحر میں اچھی غزل کہنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ چھوٹی بحر میں بڑی تعداد میں الفاظ اور لمبی لمبی تراکیب استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ کم سے کم الفاظ میں اچھے خیال کامیابی اور اثر پذیری کے ساتھ ادا کرنا اچھی شاعرانہ صلاحیت کا متقاضی ہے۔ رضیہؔ کی اکثر اچھی غزلیں چھوٹی بحروں میں ہی ہیں۔ لمبی بحروں میں وہ اکثر الفاظ کی بھول بھلیاں میں کھو جاتی ہیں اور بھرتی کے الفاظ استعمال کر کے کام چلا لیتی ہیں۔ظاہر ہے کہ بھرتی کے الفاظ کا استعمال غزل کی اثر پذیری اورالفاظ کی نشست وبرخاست کو مجروح کرتا ہے۔ گویا جہاں رضیہؔ کی اچھی غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں وہیںیہ بھی نظر آتا ہے کہ ان کی اکثر غزلیں نسبتاً لمبییا درمیانی بحروں میں ہیں اور سامنے کے مضامین سے ملوث ہو کر اپنی دلکشی اور چست بُنت کھو بیٹھتی ہیں۔کیا ہی اچھا ہوکہ رضیہؔ اس نکتہ پرسوچیں اور چھوٹی بحروں میں غزل گوئی پر مناسب زور دیں۔چھوٹی بحروں کی چند مثالیںیہاں دی جا رہی ہیں جووضاحت کی محتاج نہیں ہیں۔

آندھیوں کا کہیں ٹھکانا ہے

ہر گھڑی زد میں آشیانہ ہے

سنگِ در گھس گیا ، لکھا نہ مٹا

یہ ہی تقدیر کا فسانہ ہے

اب جب کہ آپ ترک تعلق پہ ہیں مصر

کہنے کو کیا رہا ہے سوال وجواب میں

مال و دولت ہو یا کہ نام و نمود

سب چھلاوہ ہیں زندگی کی طرح

ایک مدت کے انتظار کے بعد

وہ ملے بھی تو اجنبی کی طرح

دوسروں کے گناہ دھوتے رہے

دامن اپنا یونہی بھگوتے رہے

صرف تنہائیاں رہیں دم ساز

حال دل اُن سے کہہ کے روتے رہے

ان کو عادت ہے آزمانے کی

اور مجھ کو فریب کھانے کی

جائیں کیوں در پہ بار بار ان کے

بات اوقات ہے گنوانے کی

حشر تک گود میں سلاتی رہی

قبر بھی مامتا کی ماری ہے

جب تک یہ طرز فکروبیان اپنی حدوں میں رہتا ہے اس وقت تک یہ قاری کواچھا محسوس ہوتا ہے۔ رضیہؔ کے یہاں جذبہ کی شدت سے مفقود ہے اور وہ جوکچھ بھی کہتی ہیں دھیمے لب ولہجہ میں کہتی ہیں جس میں زبان اوربیان دونوں نہ صرف سیدھے سادے ہوتے ہیں بلکہ اکثر سپاٹ بھی ہوجاتے ہیں ۔ایسے مقامات پر ان کے جذبات کی صداقت کام آجاتی ہے اور شعر کو سنبھا ل لیتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کے بہت سے اشعار بے اثر اور کمزور ہوکررہ جائیں۔ ذیل میں دئے گئے اشعار اس صداقت جذبات کی جانب نمایاں اشارہ کرتے ہیں:

تنہائیوں میں دل کی دھڑکن ہی ہم نفس ہے

اب وہ ہی ہم نوا ہے اور وہ ہی ہم زباں ہے

بہت تنگ آچکے ہیں آگہی سے

خدایا! دے دے فرصت بندگی سے

ستایا اب کے برس ابر و باد نے ایسا

رہی نہ سدھ بھی ہیں آشیاں بنانے کی

بندھا ہے موت سے یہ رشتۂ حیات ایسا

ہر ا یک دن ہے نیا ابتدا زمانے کی

اب جو مکاں ملا تو مکیں ہی نہیں رہے

پہلےیہی تلاش تھی کہ ایک گھر تو ہو

غالباً مضامین کی قلت اور اشعارکے سپاٹ پن کے پیش نظر رضیہ ؔ گاہے گاہے شوخی اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔غزل میں شوخی کوئی نئی بات نہیں ہے البتہ یہ ایک خطرناک اقدام ضرور ہے کیونکہ اگر قدم ذرا سا پھسل جائے تو شعرکو درجۂ اعتبار سے گرنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔رضیہ اپنی اس کوشش میں خال خال ہی کامیاب رہی ہیں۔ تین اشعار درج ذیل ہیں۔

جنتیں بانٹ رہا ہے زاہد

جیسےیہ بھی کوئی اجارہ ہو

آپ کی خدمت میں اب یہ اطلاعاً عرض ہے

آپ جب تک آئیں گے ہم مل چکیں گے خاک میں

کیا تھا ایک وعدہ پارسائی کا صنم سے جو

پیا کرتے ہیں جام مے بھی اب ہم قبلہ رو ہو کر

لیککنیہ انداز بیان رضیہؔ زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکی ہیں اور جلد ہی وہ ہلکے پھلکے مزاح اور بے مصرف ہزل (یا شاید ایسے اشعار کو ’’گجل‘‘ کی صنف میں شمار کرنا چاہئے) کی درمیانی حد فاصل کو پھلانگ کر یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں:

محنت سے واسطہ نہیں قسمت کے کھیل کا

کھل جائے کس کی لاٹری کب یہ پتا نہیں

واپس پھر ا سمجھ کے یہ راشن کی ہے دُکاں

گھر نامہ بر کو یوں ہی تمہارا ملا نہیں

ہم آدمی ہیں ، جن و ملک، جانور نہیں

شکوہ نہیں جو رنج و الم سے مفر نہیں

چند اغیار ا سے لے اُڑے اغوا کر کے

ہم ابھی لائے تھے تخئیل کنواری ہی تھی

روز افزوں ہیں رضیّہؔ شاعری کی دقتیں

کوئی موضوع سخن باقی کنوارا ہے کہاں

مری آراضئ دل کے ہو دعویٰ دار اب پھر کیوں

بحق مالکانہ خود ہی جب قبضہ تمہارا ہے

خدا معلوم رضیہؔ نے غزل گوئی کے کس اصول کی بنا پر اپنی سنجیدہ غزلوں کی کتابوں میں ایسے اشعارکو شامل کیا ہے۔ ایسے چند اشعار ہی کسی کتاب کے ادبی مقام کو گرانے کے لئے کافی ہیں ۔ رضیہؔ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے اشعار سے مطلق اجتناب کریں۔ دراصل جب انہوں نے غز ل کے روایتی اور معروف مضامین سے پرہیز کر کے اپنے اوپر معنی آفرینی کے تمام دروازے بند کرلئے تو وہ ایسی ادبی قلابازیوں پر مجبو ر ہوگئیں ۔ شاعری انسانی زندگی کی عکاس ہو اکرتی ہے اور انسانی زندگی منسوب ہے جذبات و خیالات واحساسات کی دنیا سے۔ انسان کے بیشتر تجربات و مشاہدات بھی کسی نہ کسی سطح پر اس کے خیالات وجذبات کو مس کرتے ہیں۔ اگر حسن وعشق کی داستانیں، آلام روزگار کے نوحے،غم زندگی، غم آرزو اور غم دنیا کی واردات،اہل دنیا کی کرمفرمائیاں، اہل ثروت وحشمت کے ہاتھوں کمزوروں اور بے کسوں کا استحصال ،انسان پر نازل ہونے والی مصیبتیں، اس کی محرومیاں اور کامرانیاں وغیرہ شاعری سے نکال دی جائیں تو پھر کہنے سننے کے لئے رہ ہی کیا جاتا ہے؟رضیہؔ ان سب مضامین کو اپنی دنیا سے دربدر کر دیتی ہیں اور نتیجہ میں اپنے ہاتھ ملتی رہ جاتی ہیں کیونکہ اس اقدام کے بعد کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا ہے چنانچہ ان کی غزلیں ’’سامنے کے مضامین ‘‘ سے دامن نہیں بچا سکی ہیں۔یہ مضامین ہیں جن کا اور قافیہ پیمائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور جو سیدھے، سپاٹ، بے مزہ اور اکثر بے سود وبے مصرف ہوتے ہیں۔ہر درجہ اور سطح کا موزوں طبع شخص ایسے مضامین نظم کر سکتا ہے۔ ایسا کلام شعریت، تغزل، اثر پذیری، شدت جذبات، ندرت زبان وبیان، معنی آفرینی ،مختصر یہ کہ ہر ایسی خصوصیت سے بے نیاز ہوتا ہے جو غزل کی پہچان اور خاصّہ ہے ۔ کاش رضیہؔ اس خطرہ سے آگاہ ہوتیں اور ان کی غزلوں میں سامنے کے مضامین اس کثرت سے نہ دَر آتے:

شاطر ہے مات دینے میں اوروں کے گو حریف

کب تک پٹوگے تم بھی مگر ذمہ دار ہو

رحم کی اس سے توقع ہے فضول

جانور جو خارج از انسان ہو

جتنے بھی ممکن ہوں پاپڑ بیل لو

دار فانی میں فقط مہمان ہو

ہوتا نہ یہ زمانہ، نہ یہ حادثے اگر

پھرتی زمیں نہ صورت پرکار اک طرف

اپنی پرواز پر تھا ناز جنہیں

آپڑے وہ زمین پر دَھم سے

باتیں کر لیں، مصافحہ بھی کیا

رخ پہ لیکن نقاب باقی ہے

گم کردہ ہوش تھے وہ خبر دار دیکھ کر

نبضیں ٹٹولنے لگے بیمار دیکھ کر

خود بار غم سے سر ہے گراں بار اک طرف

اس اس پہ ذمہ دارئ گھر بار اک طرف

زندگی میں جو لائے کڑواہٹ

تھوکنا ایسی آن کو بہتر

پیشتر کہ گرفت میں آئیں

ہم بڑھا لیں دُکان کو بہتر

اگر غزل گوئی اسی کا نام ہے تو واقعی اوپر لکھے ہوئے آخری شعر پر عمل کرنا مستحسن ہے۔شاعری کی دوکان بڑھائی جائے اور کوئی اور بہتر ، با مصرف کام کیا جائے۔ ایسی فضول گوئی سے تو کسی کابھی فائدہ نہیں ہوتاہے البتہ شاعرہ کے ذوق شعری پرضرور حرف آتا ہے۔ اب تک قاری کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ’’صد پارہ ہائے دل‘‘ اور ’’لخت ہائے دل‘‘ دونوں کتابوں میں اچھے اور قابل ذکر وفکر اشعار کی تعداد بہت کم ہے۔ اس صورت حال کے ایک سبب(یعنی شاعرہ کا غزل کے روایتی موضوعات سے شعوری اجتناب) کی جانب اشارہ بھی کیا جا چکا ہے۔ اس مرحلہ پر ان کتابوں کی ایک اور غیر معمولی کیفیت کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

اس مطالعہ اورتجزیہ کے دَوران یہ انکشاف باعث حیرت ثابت ہوا کہ رضیہؔ کی غزلوں کی کمزوریوں اور خامیوں کی بڑی اکثریت ان کی پہلی کتاب (صد پارہ ہائے د ل: مطبوعہ ۲۰۰۹ء) کی بجائے ان کی دوسری کتاب (لخت ہائے دل: مطبوعہ ۲۰۱۳ء) میں پائی جاتی ہے ۔وہ تلفظ کی غلطی ہو یاوزن کی، شتر گربہ ہو یا ابہام، زبان کی کمزوری ہو یا بیان کی سستی ، تقریباً سب کمزوریاں اور غلطیاں دوسری کتاب میں ہی زیادہ ہیں۔ پہلی کتاب میں تقریباً تمام اشعار موزوں بھی ہیں اور زبان وبیان میں بھی دوسری کتاب کے مقابلہ میں بہت بہتر ہیں۔ یہ صورت حال عام تجربے اور مشاہدے کے یکسر خلاف ہے۔ ہر شاعر کی شاعری وقت ، مطالعہ ،مشق سخن اور تجربے کے ساتھ فطری طور پر بہتر ہوتی جاتی ہے اور اس کازمانی لحاظ سے بعد کاکلام پہلے زمانہ کے کلام سے بہتر اور زیادہ پختہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شاعر اپنا مجموعۂ کلام شائع کراتے وقت اپنا شروع کا کلام کلییا جزوی طور پر رَد کر دیتے ہیں اور بعد کانسبتاً زیادہ پختہ کلام شائع کرواتے ہیں۔ کتاب کی شعری صورت حال اس عام دستور کے خلاف اسی وقت ہو تی ہے جب کوئی خارجی عمل شعر گوئی میں دخل دے کر اسے ایسا کرنے پر مجبور کرے۔ گمان اغلب ہے کہ رضٖیہؔکے پہلے مجموعۂ کلام ’’صد پارہ ہائے دل‘‘ کوانہوں نے کسی دوسرے شاعر کو دکھا لیا تھا اور اس شاعر نے کتاب کی تصحیح کر کے بیشتر خامیاں نکال دی تھیں۔ ’’صد پارہ ہائے دل‘‘ کے مشمولات میں اس گمان کی جانب مضبوط اشارے ملتے ہیں لیکن ان کا ذکر از روئے دیانت دارییہاں مناسب نہیں ہے کیونکہگمان بہر کیف گمان ہے جس کی تصدیق صرف رضیہؔ ہی کر سکتی ہیں جو شاید ممکن نہیں ہے۔

یہاں دونوں کتابوں سے چند غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔بلا مبالغہ اگر سب الفاظ کا احاطہ کیا جائے تو ایک کتابچہ آسانی سے تیار ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ اس غلط نامے کی روشنی میں رضیہؔ اپنی کتابوں پر مستقبل میں گہری نگاہ ڈالیں گی اور اپنے قارئین کو اپنے بہتر کلام سے نوازیں گی۔

(۱) کسی شعر میں ’’شتر گربہ‘‘ کانقص تب پیدا ہوتا ہے جب کسی نفس کو مختلف صیغوں میں بیک وقت پکارا جائے۔ مولانا حسرتؔ موہانی نے اپنی کتاب’’نکات سخن‘‘ میں ایک ہی چیز کے لئے تعظیم وتحقیر دونوں لہجوں کو بیک وقت استعمال کو شتر گربہ سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’آپ اورتم، تم اورتو‘‘ یا ان کے مشتقات و متعلقات سے ایک ہی چیز کو پکارنا۔ رضیہؔ کے اشعار میں اس کی مثال دیکھئے:

امور جن کو نہ انجام دے سکا زاہد

وہ دوسروں کے لئے التزام رہتا ہے

غم نہ کر تھک کر پسِ رہ، رہ گیا تو کیاہوا

اک تھکا ہارا کوئی تم سے سوا مل جائے گا

:امور: کے ساتھ:رہتا ہے: کے بجائے :رہتے ہیں: ہونا چاہئے۔ اسی طرح :غم نہ کر: کے ساتھ :تم: نہیں بلکہ :تجھ: لکھنا چاہئے۔

(۲) رضیہؔ کے یہاں وزن کی غلطیاں کافی تعداد میں ملتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ علم عروض سے واقف نہیں ہیں اور شعر محض اٹکل سے کہتی ہیں۔ اگر عروض کی بنیادی باتیں سیکھ لی جائیں (جوکوئی مشکل کام نہیں ہے) تو ایسی اغلاط سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔

رضیہؔیہ شک وشبہ وہ مرض موذی ہے

لگے جسے بھی چھڑانے میں دیر لگتی ہے

کی تھیں قیافہ شناسیاں تو بہت

سنئے اب کیا جواب باقی ہے

کس نے الٹی اپنے چہرے سے نقاب

شمع محفل ہے کیوں مدھم نہ پوچھ

مرض (ر پر زبر) کو مرض ( ر ساکن) ، قیافہ کو قافہ باندھنا اور شمعِ محفل کو شمع ۔اے۔ محفل باندھنا سراسر غلط ہے۔

(۳) رضیہؔ کی غزلوں میں زبان وبیان کی غلطیاں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بیشتر اتنے سامنے کی ہیں کہ ذرا سے غور وخوض سے یا لغت دیکھ لینے سے دور کی جا سکتی تھیں۔ ہر اچھے کام میں محنت ضروری ہے ۔ شاعری میں بھی سہل انگاری سے نقصان ہی ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف معیار شعر گرجاتا ہے بلکہ خود شاعر کی شعر فہمی اور شعرگوئی پر سے اعتبار کم ہوجاتا ہے۔

آج ہر فتنہ کی جڑ یہ سوچ ہے

سود اپنا دوسرے کا زیان ہو

ہے جو شہ رگ سے کہیں زیادہ قریب

وہ ابھی تک آنکھ کے تل میں نہیں

گماں سے مرض موذی کا ہراک دل میں بسیرا ہے

جلاتے ہیں دئے مسجد میں لیکن گھر اندھیرا ہے

بد عملیوں سے ہی نہ ترے شرمسار دیکھ

ہلچل میں ہو زمیںیہ فلک اشکبار دیکھ

درد دل تھا کبھی بطرز چیخ

اب لبوں پر ہے آہ کی صورت

اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ لفظ زیان کوزان،زیادہ کوزادہ، مرض (ر پر زبر)کو مرض (ر ساکن)، اور بد عملیوں (م پر زبر) کو بد عملیوں (م ساکن) کون سے اصول کے تحت باندھا گیا ہے۔اگر ان الفاظ کو صحیح تلفظ سے ادا کیا جائے تو یہ اشعار ساقط الوزن ہوجاتے ہیں۔ یہ غلطیاں اردو کے ایک عام طالب علم سے بھی صادر نہیں ہونی چاہئیں چہ جائیکہ ایک صاحب کتاب، پختہ مشق اور تجربہ کار شاعرہ سے ان کا صدور ہو۔ آخری شعر میں ’’ بطرز چیخ‘‘ کیا ہی فصیح وبلیغ ترکیب لکھی گئی ہے کہ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ! معلوم نہیںیہ کس زبان کی ترکیب ہے، کم از کم اُردو زبان کی تو نہیں ہے۔ اگر یہ ترکیب درست ہے تو ’’لبِ سڑک، کنار تلیّا، آہ وپکار‘‘ لکھنے میں کیا مضائقہ ہے؟

خرد جنوں کو کیا، کردیا خرد کو جنوں

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

افسوس کہ رضیہؔ کی دونوں کتابوں میں ایسے اشعار کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو یا تو سراسر مہمل ہیںیا جن کی افہام وتفہیم میں قاری کو ایسی ذہنی قلابازیاں کھانی پڑتی ہیں جن سے عہدہ برآ ہونا ہر کس وناکس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ راقم الحروف کی مخلصانہ رائے ہے کہ رضیہؔشعر کہنے کے بعد اس کو کچھ دنوں کے لئے ایک طرف رکھ دیا کریں۔جب دوبارہ اٹھا کردیکھیں گی تو شعر میں کمزورییا خامی نظر آ سکتی ہے یا کم از کم اسے بہتربنانے کے امکانات سامنے آ سکتے ہیں۔ اس مرحلہ پر اگر وہ شعر کی نثر کرلیا کریں تو وہ خود ہی دیکھ سکیں گی کہ وہ اپنے مقصد کو شعر کی صورت میں ادا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ اس کے بعد مزید غور وخوض سے شعر بہتر ہو سکے گا۔

راقم الحروف کی دلی خواہش ہے کہ ہم رضیہؔ کے قلم سے ایسے اشعار تخلیق پاتے ہوئے دیکھیں جن کو پڑھ کر دل خوش اور روح سرشار ہو۔ وہ یقیناًایسے اشعار کہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ضرورت صرف مطالعہ، محنت اور خود احتسابی کی ہے۔ اس مشق کے نتیجہ میں ان کے کلام کا رنگ وہ ہوگا جس کی جھلکیاں ان کی غزل میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ ایسے چند اشعار گنگناتے ہوئے ییہ مضمون ختم کرنا ہر طرح سے مستحسن ہے:

وہ کہ نا کرد ہ گناہوں کی سزا دیتے ہیں

ہم کہ اقرار میں سر اپنا جھکا دیتے ہیں

خدایا کیا کِ یا اس دل میں تخم آرزو بو کر

سدا کرنا ہے اس کی آبیارییونہی رو رو کر

ہر طرف سیل حسن جاری ہے

کلک قدرت کی دست کاری ہے

راضیہؔ دل پہ واردات نئی

کوئی گزری جو بے قراری ہے؟

اس طرح خود پرستی کی جب ہم میں بو نہ تھی

ہررشتہ میں مٹھاس تھی ، غیروں کی بو نہ تھی

ہو ایک ہم نوا جو سمجھ لے نوائے دل

اس کے سوا رضیّہؔ کوئی آرزو نہ تھی

خود ہی آئینہ دار ہے چہرا

جھوٹ بولا نہ جا سکا ہم سے

وہ ہنر کس سے سیکھنے جائیں

پتھروں کو جو موم کرتے ہیں

یہیقین ہے کہ چونکہ رضیہؔ کو زندگی خوش دلی سے گزر کرنے کا ہنر خوب آتا ہے اس لئے وہ آئندہ بھی اچھی اور خوبصورت شاعری سے اپنے قارئین کو محظوظ و مستفید کرتی رہیں گی جیسا کہ وہ خود اپنے ایک شعر میں کہتی ہیں:

کیجئے عمر خوش ادائی سے

زندگی بے ہنر نہیں ہوتی

******

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 850