donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sayeed Rahmani,Odisa
Title :
   Global Gayon Ka Numayinda Shayar - Dr. Fariyad Azer

گلوبل گاؤں کا نمائندہ شاعر۔ ڈاکٹر فریاد آزر


(سعید رحمانی اڑیسہ (کٹک


اس میں شک نہیں کہ نئے عہد نے ہم پر خوش حالی اور عیش و عشرت کے در وا کئے ہیں سائینس ارو ٹکنولوجی نے مادی ترقیات کو تیز رفتاری عطا کی ہے ۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے مگر بایں ہمہ ان سائنسی دریافتوں اور فکری جدتوں نے مادی پیش رفت کے پہلو بہ پہلو روحانیت کو بھی مجروح کیا ہے ۔ اطمینان‘ قلبی سکون اور راحت جیسی بے بہا دولت آج قصۂ پارینہ نظر آتی ہے ۔ یہ سب اس لئے کہ اعلیٰ اقدار کی پامالی ‘تہذیب کی شکست وریخت‘ خود غرضی اور منافقت جیسی علتیں ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کررہی ہیں۔ آج کا انسان کبھی ذات کے محفوظ جزیرے میں قید نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی انتشار کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں خود کو نامساعدحالات سے متصادم پاتا ہے۔


اس بحران میں سانس لینے والی نسل زندگی کے چوراہے پر کھڑی آگے کا راستہ متعین کرنے میں منہمک نظر آتی ہے ۔ اس نسل کے فنکاروں میں جنہوں نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے آس پاس اپنے تخلیقی وجود کا ثبوت دینا شروع کیا ان میں سے بیشتر کی شاعری اپنے عہد کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے جس میں عہدِحاضر کے مختلف چہرے عکس ریز ہیں انہی فنکاروں میں ڈاکٹر فریاد آزرایک اہم نام ہے ۔ وہ خالصتاََ غزل کے شاعر ہیں۔ عصری شعور کی حامل ان کی غزلیں سماجی ‘ معاشی اور نفسیاتی رویوں کے ہر رخ کی ترجمانی کے ساتھ بالخصوص امت مسلمہ کی حالتِ زار کا المناک پہلو پیش کرتی ہیں ۔ ان غزلوں سے ان کا فکری اخلاص مترشح ہے جن میں سماجی شعوراور اسلامی فکر کی ایسی فضا بندی ہوئی ہے جس سے ان کی غزل گوئی کے وسیع تر امکانات روشن نظر آتے ہیں۔


ان کا حقیقی نام سید فریاد علی ہے اور ادبی دنیا میں ڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے معروف ہیں۔ بنارس میں ان کی ولادت ۱۰جولائی۱۹۵۶ء ؁کو ہوئی۔ انٹر میڈئٹ وہیں سے کیا اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آگئے۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے‘ جواہر لا ل نہر ویونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ ان ماس کمیونیکیشن میڈیا‘اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سردست دہلی میں قیام ہے جہاں وہ درس و تدریس کے معززپیشہ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کا اچھاتجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ماہنامہ انٹر نیشنل اردو میڈیاکی ادارت سے تین سال تک وابستہ رہے۔ فی الحال ماہنامہ ’’عاکف کی محفل ‘‘کے مدیر اعزازی ہیں اورادب ڈاٹ کوم کے موڈریٹرکی حیثیت سے اپنا ایک ادبی ویب سائٹ بھی چلا رہے ہیں جس کے ہزاروں ممبر ساری دنیا میں موجود ہیں۔


انھیں یوں تو بچپن سے شاعری کا شوق رہاہے مگر اس کا باقاعدہ آغاز۱۹۷۸ء ؁ میں کیا۔ پہلے ساجن پردیسی مرحوم سے اصلاحیں لیں اورآخرمیں پروفیسرعنوان چشتی مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ اب ماشاء اللہ وہ اس مقام پر ہیں کہ دوسرے ان سے کسب فیض کر رہے ہیں۔ یو ں تو طالب علمی کے دور سے ہی ان کی تخلیقات شاعر، شب خون، آہنگ، سب رنگ، ادب لطیف،افکار( پاکستان )جیسے مقتدر رسائل کی زینت بننے لگی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ بیشتر رسائل میں نظر آتے ہیں اور اپنی ایک منفرد شناخت بھی بنا ئی ہے تصنیفات میں بچوں کا مشاعرہ کے علاوہ دو(غزلیہ )شعری مجمو عے کے خزا ں میرا موسم اور قسطو ں میں گزرتی زندگی منظر عام پر آکر خراج تحسین وصول کر چکے ہیں اور ابھی ابھی ان کا تیسرا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں منظرِ عام پر آیا ہے جو دراصل پہلے دو مجموعوں کا ایک جامع انتخاب ہے ۔ اس انتخابی مجموعہ کوپیش کرنے کا عمل اس نقطۂ نظر سے لائق تحسین ہے کہ ان کی نمائندہ تخلیقات یکجا نظرآئینگی۔ جو لوگ تحقیقی امور جڑے ہیں وہ اگر آزرؔ صاحب پر کچھ لکھنا چاہیں تو اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔آزر صاحب کی شاعری کے متعلق لب کشائی سے پہلے میں ڈاکٹروزیر آغا صاحب کا یہ قول پیش کرنا چاہوں گا۔’’ شاعروہی اچھا ہے جو اپنی مہر بند شخصیت میں روزن بناکر خود کو لامتناہیت کے لمس سے آشنا کرے‘‘ ۔ ڈاکٹر فریاد آزر کی غزلوں میں واحد متکلم اگر چہ اپنی ہی ذات کے خول میں نظر بندآتا ہے ۔بنظر غائر دیکھا جائے تو وہ اپنی ذات کے اندر محدود نہ رہکر ہر دور کے معاشرے کا ایک ایسانمائندہ فرد ہے جس کی نظیر مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے ریگستا نوں میں کھڑے اس شخص سے دی جا سکتی ہے جو ہمدردی اور خلوص کی چادر سے محروم ہے ۔ دونوں مجموعوں کے بیشتر اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی وسطی زندگی جہد مسلسل میں گزری ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ کے صحرا میں مدتوںآبلہ پائی کے کرب سے دوچار رہے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ ان کے کچھ اشعار میرے اس گمان کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ مثلاََ


وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی نکالے گا جان قسطوں میں
*
(۲)

تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
*
تمام قرض ادا کرکے ساہوکاروں کا
بچاہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
*
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرایہ دار ہوکر رہ گئے
*
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
*
سب میں کرایہ داروں کے پائے گئے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا


ان اشعار سے ظاہر ہے کہ آزر صاحب کی زندگی میں جو کڑے لمحے آئے ہیں ان میں بے گھری کا کرب سب سے نمایاں ہے۔ بنارس سے دہلی ہجرت اور پھر دہلی میں مستقل قیام کے دوران ان کی ذاتی زندگی میں اچانک قیامتِ صغرا کی زبر دست ہنگامہ آرائی بھی ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔شخصیت اور شاعری کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے یا اس کے اپنے جو مشاھدات وتجربات ہوتے ہیں انہیں اس طرح شعری لباس عطاکرتا ہے کہ فردیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ فریاد آزر چونکہ ایک حساس انسان ہیں اس لئے عصرِ حاضر کی قہر سامانیاں ان پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی شاعری انسانیت کو درپیش مسائل سے مکالمہ آرائی کرتی نظر آتی ہے ، آج کی صارفیت اور عام گیریت کی اندھی دوڑ میں جبکہ اخلاقی قدریں اور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں۔ انسانیت کا قتلِ عام جاری ہے ایسے میںآزر صاحب نے اپنی شاعری سے نوک نشترکا کام لینے کی عمدہ کوشش کی ہے ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جنمیں عہدِحاضر کا منظر نامہ قاری کو لمحۂ فکریہ عطا کرتا ہے۔


گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی
پھر آکے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
*
اب اس کی روح میں شیطان بس گیا آزرؔ 
وہ جسم گاؤں سے انسان لیکے آیا تھا 
*
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
*

آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوں میں استواری نہیں رہی۔ اگر دنیا سکڑتی جارہی ہے تو فرد سے فرد کی دوری بھی بڑھنے لگی ہے ۔ اس فکری بعد اور ذہنی فاصلہ نے انسان کو اپنی ذات کے خول میں بند کردیا ہے ۔ تنہا ئی اس کا مقدر بن چکی ہے ۔ چنانچہ شناسالوگ بھی نظر پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کہ منھ اور کان 


(۳)


رہتے ہوئے بھی انسان گونگا اور بہرا لگتا ہے اور تو اور شہر ایک ایسا طلسم خانہ بن چکا ہے جس کی حدود میں قدم رکھتے ہی لوگ پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔۔


وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے پہچانتا کوئی نہیں
*
پہلے تو اس نے شہر کو بہرا سمجھ لیا 
پھر یوں ہوا کہ خود کو ہی گونگا سمجھ لیا
*
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جا تا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے


اب ذرا دنیا کی تیز رفتاری اور خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ جدید دور کہ یہ کرشمے بھی دیکھیں کہ کمپیوٹر نے اب بچوں کی کتابوں کے بستہ کی شکل لے لی ہے۔ اوزون کے سوراخ سے درآنے والی بنفشی شعاعوں کا حملہ بھی ہونے لگا ہے جس سے عمل تنفس کا متاثر ہونا یقینی ہے اور لمحوں میں صدیوں کا فاصلہ طہ کرنا کوئی محیرالعقول بات نہیں رہی۔


ننھا کمپیوٹر ‘ قلم ‘کاپی‘ کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جا ئیں گے بستے جدید
*
ورنہ ہم سانس لینے کو ترس جائیں گے
سطح اوزون کو فضلات سے آزادی دے
*
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
*


اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے جس جدید معاشرے کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوشگوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے ان کی اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے ۔ عہدِ حاضرمیں اسلا م مخالف طا قتوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب آج عالم اسلام جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ ہرذی فہم کیلئے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ ایسے میں ایک قلم کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے تلوار کا کام لے اور اسلام مخا لف سازشوں کا پردہ چاک کرے۔ آزر صاحب نے اس فریضیہ کو بحسنِ خوبی نبھایا ہے ۔ اس ذیل میں انہوں نے انگنت شعرکہے ہیں۔ کہیں تلمیح سے کام لیا ہے تو کہیں ایماےئت سے اور کہیں کہیں برملا اظہاربھی ہے ۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اشعار کا حوالہ پیش ہے۔


دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی اولادہے
*
کربلاہو کہ‘ فلسطین ‘ کہ ہو بوسینیا
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے

(۴)
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
*
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
*


آزر صاحب کی شاعری سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مروجہ یکسائی فکر کی عام روش سے ہٹ کرانہوں نے جو اشعار کہے ہیں ان میں مواد اور ہیت کے درمیان فاصلہ کو انہوں نے جس کامیابی سے طے کیا ہے اس سے ان کی فنی اور فکری بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی وہ راہِ اعتدال سے متجاوز نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل تراکیب اور دورانہ کار استعارات سے عمداََ گریزسے ابلاغ وترسیل کامسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہی وہ محاسن ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری قاری کے انجذاب توجہ کا باعث بنتی ہے۔ان کے ہاں کچھ اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیں جنہیں ان کا شناس نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاََ ان کا یہ اولین شعر دیکھیں۔


ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
*


بیشتر اشعار میں انکی ایسی سوچ بھی کار فرما ہے جس سے ان کے فکری ارتفاع اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ خصوصاََ لفظوں کو انہوں نے جو کثیرالجہتی عطاکی ہے اس کے سبب ان کی شاعرانہ آواز اپنے ہم عصروں میں دور سے پہچانی جا سکتی ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار دیکھیں۔


ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑ نے کی زندگی
*
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
*
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر 
و ہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی 
*
سب کی آنکھیں رکھی تھیں گروی میرے دشمن کے پاس 
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا

اس میں شک نہیں کہ آزر صاحب حرف کے مزاج داں ہیں اور ان کا کلام صلابتِ فکری اور شعری بصیرت کا نمونہ اس کے ساتھ ساتھ جدید حسیت ،سماجی شعور اور اسلامی افکار سے وابستگی کے سبب ان غزلوں میں جو دلکش فضا بندی ہوئی ہے وہ انکی شعری جہات کے وسیع ترامکانات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے گلوبل گاؤ ں کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر فریاد آزؔ ر نے وقت کے محضر نامہ پر اپنے فکرو فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں ان کی شناخت لکیر وں کے ازدحام میں بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔


****

Comments


Login

You are Visitor Number : 541