سعید الظفر صدیقی کی شاعری کا انتخاب ’’درد چھپا کر رکھا ہے‘‘
شفیق احمد شفیق
سعید الظفر صدیقی کا شعری مجموعہ ’’در دچھپا کر رکھا ہے‘‘ ان کی چھٹی تصنیف ہے۔ یہ شعری مجموعہ ان کی شعری کے تمام مجموعوں کا انتخاب
ہے۔ اس میں صرف غزلیں ہیں۔ اس کے بعد بھی ان کی ایک کتاب ’’محبت سنبھال کر رکھنا‘‘ منظر عام پر آچکی ہے۔ گویا وہ سات شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ جس شاعر کے سات شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور عمر بھی بفضل خدا ایک سال کم ستر ہے اس کی کہنہ مشقی اور مشاہداتی پختگی میں کس کو کلام ہو سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ صرف کہنہ مشق ہی ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سخنوری اور سخن سازی بے کیفی، اکتاہٹ اور کلیشے کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تازگی، تنوع اور فکری توانائی کا فقدان ایسی شاعری کا مقدر بن جاتا ہے۔
زیر نظر شعری انتخاب کے شاعر سعید الظفر کی شاعری کے دامن میں بے کیفی، اکتاہٹ اور کلشیے کے داغ دھبے نہیں ہیں۔ وہ اپنے مطالعاتی سفر کو تازگی سے ہمکنار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سماجی، سیاسی، تاریخی اور تہذیبی قدروں کے اچھے جاذب اور پارکھ بھی ہیں۔ ان کی شاعری صرف ان کی ذات کے گرد طواف نہیں کرتی بلکہ ذات کے حصاروں اور دائروں کو توڑتی ہوئی کائنات کی وسعتوں میں آزادانہ سانس لیتی ہوئی کبھی سبزہ زاروں، ندیوں اور جھیلوں کی کیفیتوں اور منظروں کو جذب کرتی ہے تو کبھی دشت و صحرا کی ویرانی سے دست و گریباں ہوتی ہے۔ ان کی شاعری صرف بہار کی شاد مانی، وصل کی کامرانی اور ساحل کی آسودگی کاہی منظرنامہ نہیں پیش کرتی بلکہ پت جھڑ کی کر بنا کی، ہجر کی غمنا کی اور بھنور کی بے لگامی و بے رحمی کی تصاویر بھی دکھاتی ہے۔ ان کے یہاں ہجر کے ساتھ ساتھ ہجرت کا بھی کرب منعکس ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بے زمینی کا احساس زیاں ایک خاص انداز میں ان کی شاعری میں جاگزیں ہے۔ انسانی دکھ درد، المیے، قتل وغارت گری کے خلاف شدید احساسات ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ لیکن مشتعل کر دینے والے لہجے میں نہیں بلکہ شاعرانہ اوصاف کے ساتھ۔ خاص طور سے کراچی کے تناظر میں ان کے اندر جو رد عمل ہوا ہے وہ بھی اثر آفرینی کا حامل ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ان کا تخلیقی سفر ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ فعال اور سر گرم رہتے ہیں، شاعری میں بھی اور عملی زندگی میں بھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی شاعری نے ان کو ایک مکمل شاعر بنا دیا ہے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
|