donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Iqbal Ki Nazam Shikwa

اقبال کی نظم شکوہ

 

شاھنواز فاروقی

 

اقبال کی نظم ’’شکوہ‘‘ کو کئی اعتبار سے ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اردو ادب کے معروف نقاد اور استاد پروفیسر کرار حسین نے سلیم احمد کی کتاب ’’اقبال ایک شاعر‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ وہ شکوہ کے قائل نہیں تھے اور اس بات کو اپنے صاحبِ ذوق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے، لیکن ان کے بقول، سلیم احمد کے تجزیے سے وہ شکوہ کی اہمیت کے قائل ہوگئے۔ بلاشبہ فنی اعتبار سے شکوہ اقبال کی بڑی نظموں میں شامل نہیں… لیکن عقیدے، تہذیب، تاریخ اور برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی نفسیات کے تناظر میں شکوہ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ شکوہ کی شاعرانہ اہمیت کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اگر شاعری جذبے کی شدت کا بیان ہے تو شکوہ میں جذبے کا دریائے نیل بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن شکوہ کی شاعرانہ اہمیت کا یہ واحد پہلو نہیں۔


شکوہ شائع ہوئی تو برصغیر کے روایتی مذہبی حلقوں میں بھونچال آگیا۔ روایتی علماء کے ایک طبقے نے شکوہ کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، یہاں تک کہ بعض مفتیانِ کرام نے تو اقبال کے خلاف کفر کے فتوے بھی جاری کردیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کی ’’شکوہ‘‘ خدا سے شکوہ ہے اور ہمارے علماء کے ایک طبقے کے نزدیک یہ بے باکی بلکہ دریدہ دہنی کی انتہاء تھی۔ بھلا کہاں خالق اور کہاں مخلوق…! اس تصور کا دبائو اتنا زیادہ تھا کہ خود اقبال بھی اس کے زیراثر تھے۔ اگرچہ انہوں نے شکوہ لکھی اور جذب کی پوری شدت اور صداقت کے ساتھ لکھی، مگر انہوں نے اسے لکھتے ہوئے اپنے منہ میں خود خاک ڈالی ہے اور کہا ہے   ؎


جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو


لیکن افسوس کہ مفتیانِ کرام نے اقبال کے ’’خاکم بدہن‘‘ کو دیکھا ہی نہیں۔ انہوں نے ساری توجہ اقبال کی ’’جرأت‘‘ اور ’’تابِ سخن‘‘ پر مرکوز کردی اور منہ سے جھاگ اڑانے لگے۔ حالانکہ اقبال کی جرأت اور تابِ سخن میں جتنی صداقت تھی اتنی ہی صداقت ان کے خاکم بدہن میں بھی تھی۔ اقبال نے نظم کے آغاز ہی میں شکوہ کی ایک اور ’’معذرت‘‘ پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے   ؎


ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم


اقبال کے ان اشعار کے دو پہلو اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی چیز شاعری اُس وقت بنتی ہے جب وہ اس طرح شاعر کے باطن کا حصہ بن جائے کہ اس کا اظہار سانس لینے کی طرح ناگزیر ہوجائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ امتِ مسلمہ کی مجموعی صورت حال اقبال کے لیے کوئی خارجی حقیقت نہیں رہی تھی، بلکہ وہ ان کے داخل کا حصہ بن گئی تھی… اور امتِ مسلمہ کی حالت ِزار میں ایسی تکلیف تھی کہ اقبال اپنے شعور کی پوری قوت کو صرف کرکے بھی اس کے اظہار کی خواہش اور اظہار کے عمل پر قابو نہیں پاسکتے تھے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے کسی شخص کے ایسا زخم لگے کہ وہ چاہ کر بھی اپنی چیخ کو نہ روک سکے۔ اقبال کی شکوہ ایک تخلیقی، تہذیبی اور تاریخی چیخ ہی تو ہے۔ مگر یہ بات علماء کو سمجھ نہیں آئی۔ اس کی وجہ وجودی یا Existential تھی۔ علماء امتِ مسلمہ کی حالت سے لاعلم یا بے نیاز نہیں تھے، مگر امت کی حالتِ زار ان کی عظیم اکثریت کے لیے ایک ’’خارجی حقیقت‘‘ تھی۔ وہ اقبال کی طرح ان کے ’’بطونِ ذات‘‘ کا حصہ نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قصۂ درد سنانے کو ’’مجبوری‘‘ اور اپنی نظم کو ’’نالہ‘‘ اور اس کے اظہار کو ’’معذوری‘‘ قرار دیا ہے۔ چونکہ امت کی حالت علماء کے لیے وجودی مسئلہ نہیں تھی اس لیے وہ امت کی حالت کی شدت ہی کو نہیں اقبال کی ’’مجبوری‘‘ اور ’’معذوری‘‘  کو بھی نہیں سمجھے۔ یہی مسئلہ خدا کے ساتھ اقبال کے تعلق کے حوالے سے بھی سامنے آتا ہے۔


غور کیا جائے تو علماء اور اقبال کے تعلق باللہ میں ایک جوہری فرق ہے۔ علماء کا تصورِ خدا میکانکی ہے… اور اقبال کا تعلق نامیاتی یعنی Organic۔ چنانچہ علماء کا تعلق جامد ہے اور اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی، جبکہ اقبال کا تعلق گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ علماء اللہ تعالیٰ کا ایسا ادب کرتے ہیں جو انہیں خدا سے دور کردیتا ہے، لیکن اقبال کے تعلق میں ادب سے زیادہ اظہارِ محبت ہے، چنانچہ اقبال شکوہ کرکے خدا سے اور بھی زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اقبال کو ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا ہوا تو وہ اس کی تفہیم کے لیے علوم و فنون میں نہیں جاگھسے۔ انہوں نے امت کی حالتِ زار کی سماجی یا معاشی توجیہہ نہیں کی۔ انہوں نے اس سلسلے میں دنیا سے بھی رجوع نہیں کیا۔ انہیں فریاد کے لیے اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی حقیقت نظر آئی، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات۔ یہ صورت حال بجائے خود اللہ تعالیٰ سے اقبال کے تعلق، ان کی اللہ تعالیٰ سے قربت اور ان کے اللہ تعالیٰ پر انحصار کی مظہر ہے۔


اقبال نے شکوہ میں جہاں خدا سے تعلق کی ایک نئی جہت دریافت کی ہے اور تعلق کی ایک نئی سطح کو چھوا ہے، وہیں انہوں نے شکوہ کے وسیلے سے اپنی پوری تاریخ کو آواز دی ہے اور اسے مسلمانوں کے شعور اور ان کے باطن کا حصہ بنایا ہے۔ اس تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں   ؎


ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر؟
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا!


اقبال نے شکوہ کے بالکل آغاز ہی میں مسلمانوں کے خدا سے تعلق کی نوعیت کو ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس دنیا کو توحید کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والے مسلمان ہیں، ورنہ مسلمانوں کے سوا دنیا میں جتنی امتیں اور ملتیں تھیں وہ توحید کو فراموش کرچکی تھیں۔ خدا کے ساتھ امت کے اس تعلق کی نشاندہی کے بعد اقبال نے بتایا ہے کہ مسلمانوں نے توحید کو عام کرنے کے لیے کیا کیا۔ ان کے بیان کا یہ سلسلہ اس بند پر آکر ختم ہوتا ہے   ؎


صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے سجایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دلدار نہیں


اقبال اس بند کے بعد اس مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ مسلمانوں میں اگر کچھ کمزوریاں درآئی ہیں تو کیا ہے، دوسری امتوں میں تو مسلمانوں سے کہیں زیادہ بڑی خرابیاں موجود ہیں، پھر بھی ہم غلام بن گئے ہیں اور دوسری طاقتیں ہماری آقا بن بیٹھی ہیں۔ اقبال نے شکوہ میں یہ مسئلہ بھی اٹھایا ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود مسلمان آج بھی اللہ، اس کے رسولؐ اور اللہ کی کتاب سے جڑے ہوئے ہیں۔


ہمیں حیرت ہے کہ شکوہ پر اعتراض کرنے والوں ہی نے نہیں، شکوہ کو پسند کرنے والوں نے بھی یہ بات نوٹ نہیں کی کہ شکوہ میں اقبال اللہ تعالیٰ سے اتنے قریب ہوگئے ہیں کہ اقبال کا شکوہ نظم کے اختتام تک ’’دعا‘‘ بن گیا ہے۔ اقبال جذبے کے مصلّے پر بیٹھے ہوئے رقت کے ساتھ کہہ رہے ہیں   ؎


مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کردے
مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کردے
جنسِ نایابِ محبت کو پھر ارزاں کردے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کردے


اقبال کی یہ دعا شکوہ کے آخری بند میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے   ؎


چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اُسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خُم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری


شکوہ کے آغاز اور اختتام کو دیکھا جائے تو تقابل یا Contras کی ایک عجیب صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے۔ شکوہ کے آغاز میں اقبال کو محسوس ہورہا تھا کہ ان کے شکوے کا مواد ایسا ہے کہ اس کے اظہار کے لیے بسم اللہ کے طور پر ’خاکم بدہن‘ یا ’میرے منہ میں خاک‘ کہنا ناگزیر ہے، لیکن نظم کے اختتام تک آتے آتے یہ صورت حال پیدا ہوگئی کہ اقبال جذبے کے مصلّے پر بیٹھ کر اپنے خدا سے دعا مانگنے لگے، یہاں تک کہ ان کے شکوہ کا آخری بند ’’سجدۂ عشق‘‘ ادا کرنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت ِحال خدا سے اقبال کے بے پناہ تعلق کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن شکوہ کا یہ پہلو نہ اقبال کے معترضین کو نظر آتا ہے، نہ ان کے عاشقوں کی نظر اس پہلو پر جاتی ہے۔ لیکن یہاں شکوہ کی ایک اور معنویت کی نشاندہی ضروری ہے۔

سلیم احمد نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’’اقبال ایک شاعر‘‘ میں لکھا ہے کہ شکوہ مسلمانوں کے دل کے چور کا اظہار ہے۔ یعنی اقبال نے شکوہ میں جو کچھ کہا ہے مسلمان اسے محسوس تو کرتے تھے مگر اسے کہنے کی جرأت اور صلاحیت دونوں ان کے پاس نہیں تھیں۔ اس طرح شکوہ برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات کی تہذیب یا کتھارسس کا ذریعہ بنی ہے۔ البتہ اقبال کی اس بے مثال نظم کا کمزور پہلو یہ ہے کہ اقبال صرف مسلمانوں کے سیاسی زوال کو ان کا پورا زوال سمجھتے ہیں، حالانکہ انہوں نے اپنی نظم میں خود یہ بات کہی ہے کہ مسلمانوں کا خدا، اس کے نبیؐ، اللہ کی کتاب یعنی قرآن اور اللہ کے دین سے تعلق ٹوٹا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اصل متاع بھی یہی چیزیں ہیں اور ان کی قوت بھی۔ چنانچہ مسلمانوں کا سیاسی اور معاشی زوال ایک جزوی زوال ہے۔ معلوم نہیں اقبال کے شعور میں زوال کا یہ مفہوم ہوتا تو ان کے شکوے کی نوعیت کیا ہوتی! بلکہ یہاں تو سوال یہ بھی ہے کہ اس شعور کے ساتھ وہ شکوہ لکھتے بھی یا نہیں…؟

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 882