donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Hafeez Banarsi Ke Sheri Maslak


حفیظ بنارسی کا شعری مسلک


شمیم قاسمی

 

پروفیسرحفیظ بنارسی کے انتقال پرملال کی خبرجب میرے ایک مخلص دوست نے موبائل پردی تو میںچونک پڑا۔ درد و ملال کی ایک لہر سی اٹھی اور غیر ارادی طور پر میری آنکھوں کو نم کر گئی۔ ہمارا عہد ماتم گزاری کاتو نہیں لیکن اب اتنا بے حس بھی نہیں کہ ہم اپنے لوگوںیا شعر وادب کے حوالے سے اہم شخصیات کے رخصت ہوجانے پربھی ’’پتھر دل ‘‘بن جائیں ’’کل نفسٍ ذائقۃ الموت‘‘ کی بازگشت تو ہماری سماعتوں کاخرد افروز حصہ ہے۔ آج ان کی توکل ہماری باری ہے۔ روز ازل سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم پرایک تسلسل سے کوہ گراں ٹوٹتے رہیں گے لیکن ہم وہ زندہ قوم ہیںکہ ہر حال میں راضی بہ رضا کے قائل ہیں۔’صبر ایوبی‘ تو ہمارے لئے سنت آبائی ہے۔ ان اللہ مع الصابرین۔ سچ پوچھئے توایک پل یقین ہی نہیں ہوا کہ……؟

صبح کی چائے کی چسکی لیتے ہوئے حسب معمول تازہ اخبار پڑھ رہاتھا کہ پروفیسر موصوف کی رحلت کے تعلق سے ایک سرخی پر نظرٹک گئی اورایک بار میں پھر اداس ہوگیا:

کوئی توہے جو دھڑکتاہے زندگی بن کر
کوئی تو ہے جو ہمارے دلوں کے اندر ہے

 حضرت حفیظ بنارسی کی موت ایک عہد کی موت ہے۔ ان کی شخصی اورادبی زندگی کا بغورمطالعہ نئی نسل کے لئے یقینا مشعل راہ ثابت ہوگالیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری نسل نے اپنے بزرگوں، پیش روئوں کو اپنا آئیڈیل کم ہی بنایا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے اپنی’’علاحدہ شناخت ‘‘ قائم کرنے کے جنون میں ہم نے بہت کچھ کھودیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے تو تازہ کارنسل کے ہمارے چند شعرا وادبا ایک ایسے ادبی نظریہ کابگل بجارہے ہیں جس کے زیر دام آتے ہی ہماری ادبی و تہذیبی دنیا کا جمال وجلال بے معنی سا ہوکررہ جائے گا ۔ یہ مخصوص نظریۂ ادب ہمارے وراثتی سرمایوں اورزندگی آشنا مشرقی اقدار کی نفی کرتا ہوا سا ہے۔ ہمارے اطراف اپنی خود پسندی اورخودجوازیت کے زعم میں چند ایسے مخصوص فن کار بھی پورے نیٹ ور ک کے ساتھ سرگرم سفر ہیں جو اپنے دوری و نزدیکی پیش روئوں کے طرز اظہار اوران کے نظریہ فکر وفن کو فرسودہ بلکہ متروک سمجھ کر گھاس نہیں ڈالتے اور صرف اپنے اوراپنے گروپ کے کچے پکے لکھے کوہی’تازہ‘ اور’عمدہ‘ مال قراردیتے ہیں اور چونکہ یہ اسٹبلشمنٹ کے ٹول بنے ہوئے ہیں اس لئے عالم کاری کے زیر اثر ا ن کی ادبی چمتکاری کا دور دورتک شہرہ ہے۔ یوں اور ا س طرح’’من ترا حاجی بگویم تو مراحاجی بگو‘‘ کا سلسلہ دراز ہے۔ اپنے بزرگوں کی نگارشات ، ان کے فکر وفن پرلکھنے والے اب تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ’خیال خاطر احباب‘ کے طور پر اگرکوئی کچھ لکھ دے تو یہ الگ بات ہے۔

ہم میں سے بیشتراپنی ڈفلی اپنا راگ بجانے کے کچھ یوں عادی ہوگئے ہیں کہ مت پوچھئے۔ ہمارے ایک شاعرنے تو یہاں تک کہہ دیا:

مری پہچان کا تازہ وسیلہ
مرے اجداد کی تردید سے ہے

اب یہ واقعی تردید ہے کہ اس میں تکذیب کاپہلو بھی چھپا ہے؟ سوچنا چاہئے۔ کیا اسی ذہنی رویہ کانام رد تشکیل ہے؟… اگرایسا ہے توپھر جہان شعر و ادب کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ … تو کیا ہم جہان دیگر میں رہتے ہیں- ’’ہم چومن دیگر نیست‘‘ کی شکارایک مخصوص نسل یاایک مخصوص ادبی گروپ کی مضبوط اورثمر آورPRکے بارے میں مزید کیا لکھوں۔ بہرحال، یہ سچ ہے کہ موجودہ ادبی ماحول نہایت غیر صحتمند ہورہاہے۔ چہارجانب اقرباپروری اورمخصوص ادبی نظریوں کی عینکیں لگاکر Give and takeکابازار گرم ہے۔ جنوین فن کار گوشہ نشینی اختیا رکرنے پرمجبور ہیں۔ ہمیںبڑی سنجیدگی اورمتانت کے ساتھ موجودہ ادبی چیلنجز کوقبول کرناہوگا۔ بزرگوں اورپیش رو شعرا و ادبا کی ادبی خدمات کااحترام کرنا ہوگا۔ ہمیں سرجوڑ کر یہ سوچنا ہی ہوگاکہ جب جڑ ہی نہیںتو پھنگی کیسی؟ اپنے موقف کی مزید وضاحت کیلئے ہندو پاک کے محترم ناقد دانش ور جمیل جالبی کی مندرجہ ذیل عبارت کا استعمال میں سمجھتاہو ں کہ یہاںپرغیر ضروری نہیں:

’’کوئی شاعر، کوئی فن کار خواہ وہ کسی بھی فن سے تعلق رکھتاہو تن تنہا اپنی کوئی مکمل حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی اہمیت اس کی بڑائی تو اسی میںمضمر ہے کہ مرحوم شعرا و فن کاروں سے اس کارشتہ ہے؟ اس کو الگ رکھ کر اس کی اہمیت متعین نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لئے اسے مرحوم شعرا وفن کاروں کے درمیان رکھ کر تقابل کرناپڑے گا۔‘‘

’خود پسندی‘ اور’خودجوازیت‘ کے زعم میں مبتلا ادب کے خودساختہ سیانوں کو میرے خیال سے ان سطورکو بغورپڑھنا چاہئے۔ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ماضی کے حوالے کے بغیر ہمارا حال اورمستقبل غیر واضح اور بے وزن ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بزرگوں، پیش روئوں، اساتذہ فکر وفن کی طویل ادبی خدمات کاخندہ پیشانی سے اعتراف واظہا رکریںاورمیدان ادب و شعرمیں ان کے نقوش پاکو باعث مبارک جانیں:

دنیا ہمارا لطف سخن لوٹتی رہی
سننے کو ہم ترستے رہے بول پیار کے

(شمیم قاسمی)

مبارک باد کے مستحق ہیں وہ حضرات جوسماجی اعتبار سے 'VIP'میںشمارہوتے ہیں اورجوحکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکربھی اپنے اساتذہ، مدرسہ اور اسکول کے زمانے کے مولوی اور گروکودیکھ کر کرسی چھوڑدیتے ہیں۔ با ادب ان کے سامنے نظر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ ہر چند کہ اب ایسے سعادت مند حضرات کی تعداد انگلیو ںپر گنی جاسکتی ہے۔ بہرحال، یہ مقام مسرت ہے کہ ایسے افراد آج بھی ہمارے درمیان ہیں جو اپنے استاد اورسینئر شاعر وادیب کا احترام کرنا جانتے ہیں۔ بہ طور مثال روز نامہ’قومی تنظیم‘‘ پٹنہ مورخہ ۱۸ جون ۲۰۰۸ میں شائع شدہ پروفیسر حفیظ بنارسی یعنی اپنے استاد محترم کی روح کو خراج عقیدت پیش کرنے کایہ والہانہ انداز’قابل رشک ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہونہار، باوقار طالب علم، حفیظ صاحب کے چہیتے شاگردکوئی  اورنہیں ہمارے زمانے کے عالم گیر شہرت یافتہ ماہر نفسیات و سماجیات اور سابق وائس چانسلر ، مگدھ یونیورسٹی پروفیسر شمشاد حسین ہیں۔ ایک عظیم ترطالب علم کا اپنے محترم استاد کے تئیں نذرانۂ عقیدت کا یہ اظہار یہ۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ ہمارے دل کی بھی آواز ہے۔ ممنونیت بھرا یہ قلبی اظہار دراصل بشری نیکیوں کے زمرے میں آتاہے۔
شاید ایسے ہی کسی موقع پرعلامہ اقبال نے کہاتھا:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میںدیدہ ورپیدا

اب ملک کے کسی گوشے یا ادب کے کسی مخصوص کونے سے یہ آواز اٹھے کہ حفیظ بنارسی کون؟ توسند رہے کہ ایوان غزل میں ایک بے حد نمایاں اورادبی طورپر کئی معنوں میں ہمہ جہت اورپرکشش شخصیت کانام ہے حفیظ بنارسی۔شہر سخن آرا، سہسرام( شاہ آباد) کی نئی نسل کے مربی کانام ہے حفیظ بنارسی۔ شہرآرا کے کئی ادبی و سماجی اداروں کے روح رواں کا نام رہاہے حفیظ بنارسی۔ عالمی رابطے کی زبان انگریزی کے استاد کانام ہے حفیظ بنارسی۔ ایک مستند استاد فکر و فن اور شاعر دوراں کو کہتے ہیں حفیظ بنارسی!

جی ہاں یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے استاد شاعر حفیظ بنارسی کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ غالباً پہلی بار ۱۹۷۱ء میں وہ ایک نجی تقریب میں سہسرام تشریف لائے تھے۔ ان کاقیام ڈاکٹروسیم شاہ، دائرہ محلہ میں تھا۔’’ کچھ سوچ کے پروانہ محفل میں جلاہوگا‘‘ کو دیکھنے کی تمنا لئے میں بھی بھیڑ میں شامل تھا۔ یاد آتاہے کہ انہوں نے بڑی شفقت سے میری پیٹھ تھپتھپائی اورمیرے ٹوٹے پھوٹے اشعار کو سراہاتھا۔ ان دنوںمیں انٹر کاطالب علم تھا۔ بیرونی شعرا سے ملنے کا بڑااشتیاق رہتاتھا۔ تب میںنے ڈائری میں فخر یہ لکھاتھا کہ’’میں نے حفیظ بنارسی کو دیکھا اوران کی سرپرستی میں اپنی غزل سنائی‘‘ وہ بھی دن یاد ہے۔ غالباً ۱۹۷۸ء کازمانہ تھا۔ تب میں بے روز گاری کاشکارتھا۔روزانہ اردواخبارات میں 'Wanted'کاکالم پڑھاکرتاتھا۔ میرا کوئی مستقبل نہیں تھا۔ تلاش روز گار کے سلسلے میں پٹنہ راجدھانی کابرابر چکر لگایا کرتاتھا۔ ان ہی دنوں ریڈیو اسٹیشن پر میری ملاقات استاد شاعرحفیظ بنارسی سے ہوئی۔ دوپہر کا کھانا میں نے ا ن کے ساتھ ہی ہوٹل میں کھایا۔ میرے ناگفتہ بہ حالات سے وہ واقف ہوئے تو میری کافی ہمت افزائی کی اور حوصلہ دیا۔ اسی دوران ایک روز ایس۔ پی۔ جین کالج کے شعبہ اردو میں ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جس میںیہ اطلاع درج تھی کہ یوتھ فیسٹیول بہار کے ادبی و ثقافتی پروگرام میں شمولیت کے لئے میر انام منتخب کیاگیا ہے۔ پٹنہ میں جب میں شریک پروگرام ہواتومعلوم ہوا کہ حضرت حفیظ بنارسی اردو پروگرام کے کنوینر ہیں۔ پھر میںنے جب  ان کا نیاز حاصل کیا توانہوںنے فرمایاعزیزم! اس تقریب میں شرکت کا آپ کو مناسب معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ میں تین دنوں تک پٹنہ میں رہا۔ اس درمیان ان کی وسیع القلبی بیان سے باہر ہے۔ واپسی میں معاوضہ کی رقم سے میری جیب واقعی گرم تھی۔ میرے ساتھ جن شعرا و ادبا نے شرکت کی تھی ان میں شمیم فاروقی، شان الرحمن، شاکر آروی، پروفیسر شاکر خلیق،معصوم شرفی وغیرہ کے اسم گرامی ذہن میں محفوظ ہیں۔ غالباً یہ پروگرام اس زمانہ کے وزیر مملکت محکمہ تعلیم کمدرنجن جھا کی سرپرستی یا کوششوں سے عمل میںآیا تھا۔ بظاہر یہ گفتگو زیر مطالعہ تحریر میں غیر ضروری محسوس ہوگی لیکن میں اسے نئی نسل کے تئیں پروفیسرموصوف کی بے لوث اپنائیت کاناگزیر حصہ محسوس کرتاہوں۔ بقول حفیظ:

دیر و حرم میںآج ہے موضوعِ گفتگو
میری جبیں کاذکر، ترے سنگِ در کی بات

پروفیسر حفیظ بنارسی غالباً ۱۹۹۵ میںمہاراجہ کالج، آرا سے بہ حیثیت پروفیسر، شعبہ انگریزی اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے بہ طریق احسن سبک دوش ہوئے اوربقیہ زندگی کے شب و روز اپنے آبائی وطن بنارس میں گزارے لیکن بہار والوں کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ حسب ضرورت عظیم آباد کی ادبی نشستوں میں بہ طور خاص آل انڈیا مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت حفیظ بنارسی ہمارے عہد کا ایک باوقار نام ہے۔ ان کی علمی لیاقت اور سدا بہار شاعری سے ایک پوری نسل فیض یاب ہوتی رہی  ہے،جس کا اعتراف نہ کرنا ہماری ادبی بدنیتی ہوگی۔ اپنی پرکشش شخصیت اورمترنم شعری لہجے کی وجہ کر ایک زمانے میں موصوف کا نام مشاعرہ گاہ میں امڈی ہوئی بھیڑ کا سبب ہوا کرتاتھا اورجب انہیں زحمت سخن دی جاتی تو تالیوں کے شور اور’’واہ… واہ…‘‘ سے ایسا معلوم ہوتاکہ جیسے پوراپنڈال ہوائوں میں معلق ہے۔ اورسامعین حضرات پرتو جیسے ایک وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی :

لہو کی مئے بنائی دل کا پیمانہ بناڈالا
جگر داروںنے مقتل کو بھی مے خانہ بناڈالا
چلواچھا ہوا دنیا حفیظ اب دورہے ہم سے
محبت نے ہمیں دنیا سے بے گانہ بناڈالا

جان لیوا سچ بھی یہی ہے کہ تقریباً ۵۰ برسوں سے شعر وادب کے ساتھ ساتھ اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ۷۵ سال کی عمرعزیز پاکر ۱۶ جون ۲۰۰۸ کو اپنے آبائی وطن بنارس( یوپی) میں حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ یوں واقعتا دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوگئے:

اسی خاک سے ہے جنم لیا یہیں خاک ہوں گے حفیظ ہم
کہ علاوہ اس کے نجات کا کوئی راستہ بھی بچانہیں

سبھی جانتے ہیں کہ پروفیسر موصوف کی زندگی کابڑاحصہ آرا، پٹنہ میں گزرا اورپھر ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی اپنے پائوںمیں رخت سفر باندھے رکھا اوروقفہ وقفہ سے بنارس، پٹنہ، آرا، دہلی وغیرہ شہر علم و دانش کا دورہ کرتے رہے۔ اورنہ صرف اپنے متعلقین، عزیزوں اورشاگردوں نے انہیں تمام عمر اپنی آنکھوں پر بٹھائے رکھابلکہ ان کے ایسے مداحوں کی بھی قابل ذکر تعداد ہے جن کے نام سے وہ واقف بھی نہیں تھے

 مختلف شہروں میں قیام کرتے اور ایک بے حد قابل رشک سماجی زندگی گزارتے ہوئے بالکل آخری لمحوںمیں کاشی کی دھرتی کو گلے لگایا:

رخصت کی گھڑی جب آپہنچی تب ہم کوحفیظ احساس ہوا
ہم آب رواں کے ماتھے پر کچھ نقش  بنانے آئے تھے

حضرت حفیظ بنارسی سچ پوچھئے توہمارے عہد کے ایک باوقار، خوش گلو شاعر ہی نہیں بلکہ ایک معتبر استاد شعر وفن بھی رہے ہیں۔ ان کے جیسی مقبولیت ا ن کے بیشتر ہم عصروں کونصیب کہاں۔ آرا۔ سہسرام کے حوالے سے ان کے معاصرین شعرا میں پروفیسر انیس امام، ش۔ م۔ عارف ماہر آروی، تاج پیامی ، سیف سہسرامی اور ظفر رضوی کاکوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ بہرحال،موصوف کی شاعری خود کو قارئین اورسامعین کے درمیان متعارف کرانے کے ہنر سے حد درجہ ہم آہنگ ہے۔ غزل کی ناز برداری کا سلیقہ کوئی ان سے سیکھے اور یہ ریاض ہنر کے بغیرممکن بھی نہیں۔ ہرچند کہ ان کی شعری کاوشیں اختراع پسند نہیں لیکن شعر اور غیر شعر کی نمایاں پہچان کے ساتھ ساتھ ان کی بیشتر غزلیں جمالیاتی قدروں کی پاس دار ہیں۔ موصوف بنیادی طور پر کلاسیکی رچائو اور روایت کے شاعر ہیں۔ بہ طورمثال محض چند اشعار دیکھیں:

وہی غمزہ وہی شوخی وہی اندازِ لطیف
نگہِ یار غزل خواں ہے غزل کے اندر
کچھ غمِ دل کی حکایت ہے بہ عنوانِ جنوں
کچھ حدیثِ غم ِ دوراں ہے غزل کے اندر

ستم ڈھاتے ہولیکن لطف کاانداز ہوتا ہے
اسی اندازنے دنیا کو دیوانہ بناڈالا

ہر آئینہ کے رخ پہ غبارِ ملال ہے
چہرے سے آشکارہے جو دل کا حال ہے

دستورکچھ عجب ہے محبت کے شہر کا
دل کو ملیں سزائیں نظر کا قصور تھا

حفیظ بنارسی کی شاعرانہ عظمت اوران کی شعری لفظیات کے جلال و جمال کوسمجھنے کیلئے ان کے اطراف کی ادبی فضا اوران کے نزدیکی پیش روئوں کے شعری مزاج کو نظر میںرکھناہوگا۔ میں تو انہیں جانشین جگر مرادا ٓبادی تصورکرتاہوں کہ ان کا شعری رویہ و مسلک جگر کے قریب تر ہے۔ جگر کی شعری لفظیات اوران کے طرز سخن کا بغور مطالعہ کریں تو کئی معنوں میں یہ بات زیادہ باوزن محسوس ہوگی کہ جگر مرادآبادی کا جانشین حفیظ کے سوا دوسرانہیںہے:

فردوس کی خاطرہے نہ جنت کے لیے ہے
سجدہ جو ہمارا ہے محبت کے لیے ہے

بلاشبہ وہ خالص محبتوں کے شاعرتھے۔ان کی ’دوشیزۂ غزل‘بڑی چھوئی موئی سی ہے۔ کہیں کہیں تو طفل دل کے ہاتھوں وہ کافی بے بس دکھائی دیتے ہیں:

کوئی چراغ اندھیروںمیں جب نہیںجلتا
کسی کی یاد کا جگنو چمکنے لگتاہے

موصوف کے اس خوب صورت شعر کی قرأت کے اول لمحوںمیں نشور واحدی کا ایک شعرذہن کے د ریچے سے جھانکنے لگتاہے۔ جس کا تقابلی جائزہ میر امنشانہیں بلکہ یہ ثابت کرناہے کہ پروفیسر موصوف کامتذکرہ شعر فکری ندرت لئے غیر موافق حالات میں زندگی کا استعارہ ثابت ہوا ہے جب کہ نشورصاحب کے شعرمیں روایتی مضمون باندھاگیا ہے۔ ہر چندکہ یہ زیادہ مقبول ہے:

دیا خاموش ہے لیکن کسی کادل توجلتاہے
چلے آئو جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے

کہتے ہیں کہ اچھی اوردل سے نکلی ہوئی شاعری کی یہ بھی ایک خوبی ہے کہ وہ پہلی قرأت میں ذہن و دل کو تروتازہ کردے، روح کو گرما دے اور پھر دھیرے دھیرے شعور کا حصہ بن جائے، کچھ  یوں کہ مطالعہ کی آسودگی کا احساس دیر پارہے اور بقول مالک رام’’اچھی شاعری میں شاعرکی شرافت نفس جھلک اٹھتی ہے۔‘‘ اس نقطۂ نظر سے بھی حفیظ بنارسی کی شاعری با م عروج کو سرکرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

مختصریہ کہ ’’سفیر شہر دل‘‘ (کلیات حفیظ: پیش کش ڈاکٹرعبید الرحمن) کے صفحات پر بکھرے بیشتر موتیوں جیسے نازک خیال اشعار ساز دل کو نغمہ سرائی پراکستاتے ہیں۔ ان اشعار میں ترسیل وابلاغ کاکوئی مسئلہ نہیںبلکہ تادیرایک بے نام سی کیفیت اورنشاط وانبساط کی فضا قائم رہتی ہے۔ بغیر دماغ پرزوردیے یہاں وہاں سے محض چنداشعار لے کر میں نے اپنی اس گفتگو کوایک سمت و جہت دینے کی سعی کی ہے۔ ورنہ سچ تویہ ہے کہ کلیات کاکہیں سے بھی اٹھاکر مطالعہ کریں آپ کو ایک ذرا بھی شعر فہمی ہو توپھر مطالعہ کی تازگی کا احساس ہوگا۔ گلہائے معنی کی طلب لئے بہت دیر تک اور بہت دور تک جانے کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ میر اایساماننا ہے کہ موصوف بنیادی طو رپر غزل پرست شاعرہیں تو ظاہر ہے کہ حسن پرست بھی ہیں اور اسی حوالے سے ہزار جلوے اس جلوہ نما کے دیکھتے ہیں:

بھولے گا کوئی کیسے حفیظ اس کی گلی کو
کعبے میںبھی کاشی کی گلی یاد رہے گی

پروفیسر حفیظ بنارسی کی شاعرانہ عظمتوں کا تعین بہرحال ان کے معاصر شعراکی شعری کائنات کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے کرناہوگا۔ موصوف کی شاعری عصری صداقتوں اور عصری آگہی سے بے گانہ تو نہیں لیکن میرا ایساماننا ہے کہ واردات قلب ونظرکا جمالیاتی اظہار یہ ہی بنیادی طور پر ’سفیر شہر دل‘ کے خالق کا شعری مسلک ہے۔ ہر چند کہ ان کی شعری لفظیات روایتی ضرور ہیں لیکن ا ن کی عصری معنویت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ موصوف کے یہاں سماجی ومذہبی مسائل، سیاسی اتھل پتھل کاگہرا ادراک و انکشاف تو ہے لیکن ان سب پر’واردات قلب‘ کا عنصر غالب ہے۔ کہاجاسکتاہے کہ حفیظ بنارسی کی شاعرانہ کشکول میں غم ذات اور غم کائنات کی تمام سرحدیں ایک دوسرے میںمدغم ہیں، پیوست ہیں چنانچہ جہاںجہاں کلام حفیظ میں برہنہ گوئی ، راست کلامی ، بلکہ اسلوب سخن کی بلند آہنگی ہے اسے واردات قلب و نظرکی شدت کے تناظرمیں پرکھناہوگا۔ موصوف کی شخصی اور شعری شخصیت میں خلوص و اپنائیت کاجوخمیر شامل ہے اسی خمیر سے ان کا شعری جہان ہرعہدمیں سرسبز اور شاداب رہے گا  ۔یوں ایک مخصوص نظریہ ادب اورلب و لہجے کی چمک دمک کے شکارتازہ کاراذہان جوچاہیں تواپنی تخلیقی اڑان کوایک نئی سمت و جہت سے ہم آشناکرانے کے پروسس میں ’سفیر شہردل‘ سے استفادہ کریں۔ اس حقیقت پسندی کے ساتھ کہ ادب وشعرکی زندہ شعری روایات کا مطالعہ کئے بغیر ہم خود کو جدید، مابعدجدید یا جدت پسند ثابت نہیں کرسکتے اور بقول پروفیسر حفیظ بنارسی:

جدیدیت کی وہی تواساس رکھتے ہیں
بہ طرز نو جو روایت کا پاس رکھتے ہیں

 (زبان وادب: ۲۰۰۸)

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 661