donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : AMIN BANJARA
Title :
   Vaidik Adab Aur Urdu

 امین بنجارا ؔ

۲۶۷ -جوگی گیٹ‘ جموں (انڈیا)  پن کوڈ: ۱۸۰۰۰۱

موبائل: ۰۸۸۰۳۷۴۷۶۱۷


’’ویدک ادب اور اُردو‘‘


(لفظ اُردو کے نقطۂ آغاز کے بارے میں ایک انکشافی پہلو )

 

    ہندو سماج کے مقدس اور مذہبی صحیفوں میں ویدوں کو ہمیشہ ہی سے ایک اہم‘مقبول اورمرکزی مقام حاصل رہا ہے ۔ اس اہمیت‘ مقبولیت اورمرکزیت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وید ہندو سماج کے مقدس ترین مذہبی صحائف میں شمار ہوتے ہیں اورربّانیت‘ اُلوہیت اور اِلٰہیات کے نقیب تسلیم کئے جاتے ہیں۔ دُوسری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی آئے دِن کی زندگی میں ویدوں کا عمل دخل اُن کے دُوسرے مذہبی صحائف کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے ۔ اپنی قدامت کے لحاظ سے بھی اوّلیت کا شرف چاروں ویدوں ہی کو حاصل ہے ۔ ہندو مذہب کے مقدس صحائف کے نزول یا تخلیق کی ترتیب کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے رِگ ویدوجود میں آیا‘پھر یجر وید‘پھرسام وید اور آخر میں اتھرو وید کی تخلیق ہوئی ۔ بعد ازاں اُپنشدوں‘ شاستروں‘پورانوں‘شروتیوں اورسمرتیوں کی صورتوں میں دیگر مذہبی صحائف معرضِ وجود میں آئے۔اُن سب کے بعد رامائن اور مہابھارت جیسی مذہبی کتابیں ہندو سماج کا سرمایۂ حیات بنیں۔ ہندو مذہب کے محققین‘ ماہرین ‘مفسرین اور شارحین اِس بات پر متفق نظرآتے ہیں کہ ویدکسی اِنسان کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ اُن رحمانی الہامات کا نتیجہ ہیں‘جو ایسے رشی منیوں کو ہوئے جو برسوں سے مراقبے میں ڈُوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے مراقبے ہی میں اُلوہیت کی سچایئوں کو دیکھا‘ اُن پر غوروفکر کیا اور پھر نظم کی صورت میں بیان کیا۔ ویدی ادب کے ماہرین نے اپنی قوتِ رسا اور صلاحیتوں کی بنیاد پرویدوں کی تعریف و توضیح کرتے ہوئے اِس امر کوخصوصیت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ مجموعی طور پرچاروں وید رُوحانی ادب کے ایسے جہاں￿ ساگرہیں جہاں سے نور‘ علم‘ عمل‘آگہی‘ فلسفے‘عرفان‘اَقدار‘اخلاق‘ بصیرت‘بصارت‘تلاش‘تعبیر‘صداقت‘ تہذیب‘ تمدن‘ ثقافت‘مفہوم‘ معانی‘ فکر‘ فن‘ازل‘ ابد‘حق اور فنا کے سبھی سَوتے پھوٹتے ہیں‘ کائنات کے جملہ اَسرار آشکارا ہوتے ہیں اور جن سے مختلف صورتوں میں خالقِ کُل کی وحدانیت کا اِظہار ہوتا ہے۔ رِگ وید بنیادی وید ہے اور باقی تینوں ویدوں کا منبع بھی ۔ اِنفرادی طور دیکھا جائے تو ہر وید ایک مخصوص وصف کا حامل بھی ہے۔ رِگ وید کی تعلیمات میں سائنس(وگیان) کو مرکزیت حاصل ہے جبکہ عِلم (گیان) یجر ویدکا موضوعِ خاص ہے۔ سام وید میں مذہبی رسومات(کرم کانڈ) اور موسیقی (سنگیت) کا ذِکر ملتا ہے اور اتھرو وید کی خوبی یہ ہے کہ اس سے موسیقی اورمعمولاتِ زندگی کے علاوہ اقتصادیات(ارتھ شاستر) ‘سیاسیات اور سماجیات کا بھی علم ہوتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق چاروں ویدوں کے ایک لاکھ منتروں میں سے صرف چار ہزار منتر عِلم سے وابستہ ہیں اور چھیانوے ہزار منتروں کا تعلق زندگی اور موت‘ موت کے بعد کی مذہبی رسومات (کرم کانڈ) ‘علم نجوم‘ علاج معالجے‘ تجارت اور واستو شاستر سے ہے۔ اِسی لیے ہندو سماج میں ویدوں کو دُوسری مذہبی کتابوں پر برتری حاصل ہے اور روزمرہ کی زندگی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے اُنہی سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ۔ میرے خیال میںیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وید ہی ہندو مذہب کی جڑیں ہیں اور دیگر صحائف شاخوں کا درجہ رکھتے ہیں ۔


    ویدوں کا کینوس اِتنا وسیع ہے کہ اُن کی حدود کا تعین نہیں کیا جاسکتا ‘اُن کی تفسیر آسانی سے بیان نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اُنھیں کسی ایک زبان تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذاہب عالم کے دیگر مقدس صحیفوں کی طرح ویدوں کو بھی مختلف زبانوں میں منتقل کرنے اور اُن کی تفہیم و تعبیر کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ویدوں کو کس زمانے یا دَور میں تخلیق کیا گیا‘ اِس بارے میں ویدی ادب کے محققین کی آرأ میں ڈھیروںاِختلافات موجود ہیں لیکن ویدوں کی زبان سے متعلق سب کا اِس بات پر اِتفاق ہے کہ صدیوں تک رِشیوں منیوں کے سینوں میں محفوظ رہنے‘ درس کے طور پراساتذہ سے شاگردوں کی طرف منتقل ہونے اور خاندانی وراثت کی صورت میں پروہتوں کے دِلوں میں محفوظ رہنے کے بعد سب سے پہلے اُنھیں سنسکرت ہی میں قلم بند کیا گیا ۔قدیم بھارتی تہذیب و ثقافت کے مرقعے چونکہ ویدوں میں جا بجا جلوہ گر ہیں ‘اِس لیے بھارت میں بولی جانے والی دیگر زبانوں اور علاقائی بولیوں نے بھی ویدوں کو خود میں سمیٹنے میں تاخیر نہیں کی۔آج ویدوں کے تراجم مختلف زبانوں میں دستیاب ہیں ۔ ہندی زبان میں تویقینااُن کی تعداد بہت زیادہ ہوگی کیونکہ سنسکرت کا کافی سرمایا کسی نہ کسی صورت میں ہندی میں منتقل ہو چکا ہے۔ اُردو کے بارے میں بھی میرا خیال یہی تھا کہ اس میں  ویدوں کے تراجم اور اُن سے متعلق تصنیفات و تالیفات تو کافی ہیں لیکن اُن کے ناموں اور اشاعتوں کے بارے میں معلومات مفقود ہیں اور پھر بازار میں بھی اس طرح کی اُردو کتب نایاب ہی ہیں۔ اب اُردو میں ویدوں اور اُن سے متعلق دستیاب کتب کی ایک طویل فہرست ڈاکٹر اجے مالوی کی کتاب ’’ ویدک ادب اور اُردو‘‘میں جو دیکھی تومجھے بے حد مسرت ہوئی اور فخر بھی ہوا کہ اِس طرح کے مقدس اور آفاقی موضوعات کو اپنی رُوح میں اُتارنے کا جذبہ اُردو میں بدرجۂ اتم موجود ہے ۔


    ڈاکٹر اجے مالوی دور حاضر کے بالغ نظر محقق اور ہندو مذہب کے قدیم ترین صحائف کے تازہ دم پارکھ ہیں۔ ’’ویدک ادب اور اُردو‘‘ اُن کی اہم اور قابلِ تحسین پیشکش ہے جو پہلی بار جنوری ۲۰۰۹ئ؁ میں کتابی صورت میں شائع ہوئی اور ا ب تک اس کے پانچ اڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اس کتاب میں اُنھوں نے رِگ وید‘یجر وید‘سام وید اوراتھرو وید جیسے قدیم ترین اور اُلوہی صحیفوں اور ویدوں کی روشنی میں لفظ’’ اُردو‘‘ کی اِبتدأ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا یا ہے اورتلاش و جستجو کی کئی کڑی منزلیں کاٹنے کے بعد سنجیدہ‘ مستقل اور اِنکشافی نوعیت کام انجام دیا ہے ۔ہندو مذہب کے گرنتھوں اور شاستروں پر اُن کا یہ کوئی پہلا کام نہیں ہے ۔ اِس سے قبل اور بعد میں بھی وہ اِس طرح کے موضوعات پر کافی کام کر چکے ہیں ۔اُن کی پہلی کتاب ’’ اُردو میں ہندو دھرم‘‘ ۲۰۰۰ئ؁ میں شائع ہوئی جس پر اُنھیں ۲۰۰۰ئ؁ ہی میں اُتر پردیش اُردو اکادمی اور ۲۰۰۵ئ؁ میں بہار اُردو اکادمی نے اپنے اِنعامات سے نوازا۔ ۲۰۰۶ئ؁ میں اُن کی کتاب بعنوان’’ شری مد بھگوت گیتا (نغمۂ یزدانی) کی تفسیر و تعبیر‘‘ شائع ہوئی جسے ۲۰۰۹ئ؁ میں بہار اُردو اکادمی نے ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ ’’ ہے رام کے وجود پر ہندوستان کو ناز‘‘ اُن کی ایک اور تصنیف ہے جو ۲۰۱۱ئ؁ میں منظر عام پر آئی۔ ان کتب سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مذہب کے قدیم متون میں ڈاکٹر اجے مالوی کو گہری دِلچسپی ہے۔ اُنھوں نے خود کو اِس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ’’ویدک ادب اور اُردو‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ایک ہندو ہونے کے ناطے یا مذہبی فکر کے زیر اثر اُنھوں نے یہ کتاب لکھی ہے بلکہ اُن کے کام میں تحقیقی زاویوں کا عمل دخل کہیں زیادہ نظر آیا۔ وہ ویدوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے قارئین کو ٹھوس اور مستند معلومات فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


    ’’ ویدک ادب اور اُردو‘‘ تین ابواب میں منقسم ہیں ۔ باب اوّل کا عنوان ’’ویدک ادب‘‘ ہے جو وید کے معانی و مفاہیم‘ویدوں کی تخلیق کا زمانہ‘ویدوں کا خاکہ‘رِگ وید‘یجر وید‘سام وید اوراتھرو وید جیسے ذیلی عناوین سے مزین ہے۔ باب دوم کا عنوان’’ مصدرِ اُردو‘‘ ہے اور اُردو کا ویدی اسطوری ماڈل‘اُردو کا نخشتمثالی پیکر‘ بنیادی توانائی کی نخشتمثالی تحریر‘بنیادی توانائی کی آزادئی دید اور عرفان اور اُردو اِصطلاح کی معرفت عظمٰی اِس باب کے ذیلی عناوین ہیں۔ باب سوم کو مصنف نے’’ اُردو میں ویدوں‘اُپنشدوں اور اُن سے متعلق تصنیفات و تالیفات کی تعداد‘‘ کا نام دیا ہے۔


    باب اوّل میں ڈاکٹر اجے مالوی نے ویدک لٹریچر کے چند لائق و فائق آچاریوں اورسنسکرت کے ماہرین کے حوالوں کو پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ لفظ’ وید‘ سنسکرت زبان کے لفظ ’وِد‘ سے مشتق ہے جس کے معنی علم یا جاننا کے ہیں۔چونکہ یہ چاروں صحائف علومِ ظاہری و باطنی کے مخزن ہیں اِس لیے ویدوں کے نام سے مشہور ہوئے۔ ویدوں کو ہندو سماج میں اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے اور یہ رُوحانیت سے لبریز ہیں۔اُنھوں نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ وید آسمانی صحائف ہیں اوراُن کی تخلیق کسی مخصوص عہد میں نہیں ہوئی بلکہ تین سو رِشی منی ساڑھے سات سو برسوں تک وید کے اشلوکوں کو تصنیف کرتے رہے۔ڈاکٹر اجے لکھتے ہیں کہ ویدک ادب کو سنہیا‘برہمن‘آرنیکا اور اُپنشد میں تقسیم کیا گیا ہے۔ رِگ وید قدیم اور بنیادی وید ہے اور تاریخی لحاظ سے رِگ وید کی تخلیق آریوں نے پنجاب میں کی۔رِگ وید کے منتروں سے تخلیق ہونے والے یجر وید کا ظہور اُس وقت ہوا جب کورو پانچال ریاست میں پہنچ چکے تھے۔سام وید میں گائے جانے والے منترموجود ہیں اورچوتھے وید کو اتھرو رِشی نے لکھا اِس لیے اُسے اتھرو وید کہا جاتا ہے۔ویدوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خدا نے کائنات کی تخلیق کرنے سے قبل اگنی رشی کو رِگ وید‘وایو رِشی کو یجر وید‘آدتیہ رِشی کو سام وید اور انگرا رِشی کو اتھرو وید کی تعلیم دی۔


    ’’ویدک ادب اور اُردو‘‘ میں ڈاکٹر اجے مالوی نے ویدوں کی روشنی میں لفظ’’ اُردو‘‘ کے نقطۂ آغاز کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف بھی ہے ‘ پڑھنے والے کو چونکاتا بھی ہے اور غور و فکر کے کئی نئے دَر بھی وَا کرتا ہے ۔اُنھوںنے اِس کتاب کے دُوسرے باب ’’ مصدرِ اُردو‘‘ میں یہ ثابت کرنے پر کافی قوت صَرف کی ہے کہ اُردو خالصتاً ویدک لفظ ہے کیونکہ ’’اُر‘‘ اور ’’ دُو‘‘ دونوں الفاظ ویدوں سے ماخوذ ہیں۔ یہاں میں نظام صدیقی صاحب کی فکر انگیز تحریر کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جسے ڈاکٹر اجے مالوی نے بھی خاص طور پر پیش کیا ہے۔ نظام صدیقی لکھتے ہیں:

 ’’اُر‘‘ معنی دِل اور ’’دُو ‘‘ معنی جاننا ہے۔ ویدک رِشی اور عارف دِل کو علامتاً رُوح اور جان کے لیے اِستعمال کرتے ہیں۔ در حقیقت رُوح کو جاننا خدا کو جاننا ہے۔ خود شناسی خدا شناسی ہے۔(قرآن) اِس کے دُوسرے معنی دِل دینا اور دِل لینا ہے۔ در حقیقت اُردو کے معنی ہی’’ دِل دو اور دِل لو ‘‘ہے۔‘‘  

    ڈاکٹر اجے مالوی نے اِستدراکی مطالعے کے بعد منطقی اِستدلال کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ دعویٰ باندھا ہے کہ:

 ’’ اُردو زبان کی زِندہ اور دھڑکتی ہوئی جڑ ویدک ثقافت میں موجود ہے۔ اُس کی حقیقی جڑکی تلاش میں ہم کو ویدک تہذیب کی گہرایئوں اور اُونچایئوں میں مستغرق ہونا پڑے گا۔‘‘

    اپنے دعوے کے حق میں اُنھوں نے رِگ وید کے چونسٹھ(۶۴)‘ یجر وید کے دو(۲)‘ سام وید کے دو(۲) اور اتھرو ویدکے دو(۲) یعنی ویدی ادب کے ایسے ستّر(۷۰) اشلوکوں کو مع ترجمہ پیش کیا ہے جن میں لفظ ’’ اُر‘‘ اور ’’دُو‘‘ بطور مصدر اور اُرن‘ اُرو‘اُروو‘اُروہ‘اُوروہ‘اُروریہ‘ اُرورا‘اُروراجتے‘اُروشی‘اُروشی اِڈا‘ اُرانہ‘ اُرا متھیہ‘ اُرجونپات‘ اُروارو‘ اُرویا‘اُروی‘اُروجما‘ اُرو جیوتی‘ اُرودھارا‘اُروویچا‘اُروویچسا‘ دَے‘ دَیتے‘دداتی‘دویوہ‘دویہ‘دِو‘دوا‘دَون‘دتَے‘داتُن‘داتر‘ داشتی‘دانتم‘ داتوے‘ دو‘اور دوَو جیسے مشتق الفاظ ’’دِل‘‘ اور ’’جاننا‘‘ یا ان کے مماثل معنوں میںاِستعمال ہوئے ہیں۔ وہ مدلّلانہ اور فلسفیانہ انداز میں ان اَشہاد کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اُردو (رُوح کو جاننا) خُدا کو جاننا ہے۔ عرفانِ رُوح عرفانِ اللہ ہے۔ معرفتِ نفس معرفتِ رُوح ِ آفاق ہے۔ انڈو ایرانین آریانے جب ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اُن کے رِشیوں (عارف بااللہ ) کے دانشی اور بینشی پس منظر میں محولہ بالا رُوحانی صداقتیں روشن و منوّر تھیں۔ اس مقدس ذہنی پس منظر میں اُنھوں نے لفظ ’’اُردو‘‘ کا استعمال کیا تھا‘ جس کا شعوری اِستعمال وہ پہلوی زبان (پارسی) میں بہت پہلے سے کر تے آرہے تھے۔ ایران جانے سے قبل وہ تُرکستان گئے تھے اور وہ اُردو کو اسی رفیع ترین معنی میں استعمال کرتے تھے اور یہ اُردو لفظ رِگ ویدی عہد سے دسویں صدی تک مسلسل بغیر کسی تغیر کے اِستعمال ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی تمام جدید زبانیں مختلف لسانی تبدیلیوں کے ساتھ دسویں صدی میں وجود میں آئیں لیکن ویدک ادب میں اِستعمال کردہ لفظ اُردو اور امن ( ماورائے دماغ آشتی اور اسلام کے معنی میں )متواتر اِکیسویں صدی تک ہو بہو استعمال ہو رہے ہیں اور خصوصاً اُردو کی یہ مقدّس ویدی اِصطلاح اِکیسویں صدی کے عالمی‘ قومی اور مقامی پس منظر میں حقیقی معنوں میںبین الاقوامی محبوبیت اور مقبولیت کی امین ہو گئی ہے۔ آج پوری دُنیا سمٹ کر عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب کا خورشید نشان اُردوعالمی گاؤں کا جاگتا جگمگاتا ہوا عالمی نشانِ امتیاز بن چکا ہے۔اِس قدیم ترین ویدی پس منظر سے اِکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت تک اُردو کی یہ ہر دلعزیز جوڑنے والی گنگا جمنی رُوح ہر عالَم میں غیر مشروط اِنسانیت کی ہمیشہ علمبردار تھی‘ ہے اور رہے گی۔ لہٰذا یہ اِنصاف کا تقاضا ہے کہ اُردو اِصطلاح کے ضمن میں سوقیانہ لشکر‘ بازار اور کیمپ کی بگڑی ہوئی اِصطلاح قابلِ منسوخ ہے‘جو تُرکی افواج اُردو کی مسخ شدہ شکل میں اِستعمال کرتی تھیں اور جس کو سیاسی مصلحت باختگی کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہوں نے شعوری طور پر قبول کیا اور سیاسی مصلحتوں کے تحت نہایت بد نیتی سے شب و روز تبلیغ کی۔‘‘


    ڈاکٹر اجے مالوی کی اِس تصنیف کا تیسرا باب بھی بڑا اہم اور معلوماتی ہے۔اِس باب میں اُنھوں نے ویدی ادب اور اس سے متعلقہ اُن تالیفات و تصنیفات کا تعارف پیش کیا ہے جو اُردو میں شائع ہوئی ہیں۔میں سطورِ بالا میں تحریر کر چکا ہوں کہ مجھے تو یہی گمان تھا کہ اُردو میں  ویدوں کے تراجم اور اُن سے متعلق تصنیفات و تالیفات ہیں تو سہی لیکن گم نام یا نایاب ہی ہوں گی لیکن اِس باب میں چونسٹھ(۶۴) اُردو کتابوں کے بارے میں پڑھنے کے بعد میرا گمان جاتا رہا ۔ دُوسرے باب کی مانند یہ باب بھی قابلِ مطالعہ اور اِنفارمیٹو ہے ‘بالخصوص اُن لوگوں کے لیے جو ویدی ادب‘فن ترجمہ نگاری ‘ اُردو زبان کی سیکولر مزاجی اور مسلمانوں کی رواداری میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اُن موضوعات سے متعلق لٹریچر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اِس باب کی تیاری میں جو محنت اجے مالوی نے کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے ۔خدا بخش لائبریری پٹنہ‘ رضا لائبریری رام پور‘ سینٹرل لائبریری الٰہ آباد‘ الٰہ آباد یونیورسٹی لائبریری‘بھارتی بھون لائبریری الٰہ آباداور چند ایک نجی کتب خانوں سے رجوع کرنے کے بعدجن چونسٹھ اُردو کتب تک محقق کی رسائی ہو سکی‘ اُن میں وید اور قرآن کا مقابلہ‘وید کا دھرم پرچار‘ صبح اُمید‘ یجر وید(از-لالہ نوندہ پرشاد) ‘ مجموعہ اُپنشد‘ برہم سوتر یا ویدانت سوتر‘ رگ وید آدی بھاشیہ بھومکا(از-سوامی دیا نند سرسوتی) ‘ ویدک تثلیث‘ویدوں کی تعداد‘ ویدانت کلپدرم‘ رگ وید آدمی بھاشیہ بھومیکا(از-لالہ تولا رام) ‘وید آنووچن‘یجر وید کا اُردو ترجمہ دُوسرا ادھیائے‘ ویدک ہند‘وید مت اور قربانی‘وید بھگوان کی حقیقت اور قرآن کی کیفیت‘ ویدانت‘ ویدوں کے ظاہری کندہ‘تحقیق آریا‘ ویدوں کی حقیقت‘ یجر وید کا اُردو ترجمہ(از-مولوی عبدالحق)‘ ایش اُپنشد(از -پرمارتھی جی)‘ کین اُپنشد‘کٹھ اُپنشد(از -سوامی بھولے)‘ پرشن اُپنشد‘ صبح آفرینش (ویدوں کی روشنی میں)‘ویدک پرارتھنا پستک‘کٹھ اُپنشد(از -پرمارتھی جی)‘ویدانت درشن‘ کٹھ اُپنشد(از -سوامی درشنانند)‘ پیام ِ راحت یعنی ایشا واسیہ اُپنشد کے پہلے آٹھ منتروں کا مع شرح ترجمہ‘وید کا سدھانت‘آنند حقیقت‘تاریخ ویدی لٹریچر‘ ویدانت درشن‘ وید اور اس کی قدامت‘اُپنشد گیان امرت‘ رگ وید اور اُپنشد کی روشنی میں‘ ایش اُپنشد(از-وینکٹ راؤ)‘ ارمغانِ وید المعروف رام راج(حصّہ اوّل)‘منڈک اُپنشد‘ ویدک دھرم سوامی دیا نند سرسوتی کے نقطۂ نظر سے‘وید کا تعارف‘شری ایش اُپنشد(از-سوامی پربھو پاد)‘یجر وید(از-آشو رام آریہ)‘ رِگ وید‘سام وید‘ وید اور قرآن‘ایتریہ اُپنشد‘ یجر وید(از-نامعلوم)‘ویدانت پرویشکا‘وید کا بھید‘ ویدک سندھیا‘ویدوں کا بہشت‘ویدک ایشور کی حقیقت‘یجر وید(از-دھرم پال)‘ ویدوں کی حقیقت‘ ویدانت کی پہلی کتاب‘ کینوپ اُپنشد‘مانڈوکیہ اُپنشد‘اُپنشد پرکاش‘یجر وید کا اُردو ترجمہ(از-لکشمن آریوپدیشک)‘یجر وید کا اُردو ترجمہ حصّہ اوّل(از-منشی دیا رام)اور یجر وید(از-دھرم پال) شامل ہیں۔ متذکرہ بالا چونسٹھ کتب میں سے اُنیس (۱۹) کتب کو تصنیف‘ تالیف یا ترجمہ کرنے کا اعزاز جن مُسلم اربابِ قلم کو حاصل ہے اُن میں بشیر شاہ کوٹی‘ مولوی حمیداحمد انصاری‘خواجہ غلام ا لحسنین‘ محمد سلطان‘ مولوی احمد حسین خان‘ مولوی عبدالحق‘ سیّد محمد رضوی تسکین‘ مولوی حبیب الرحمن شاستری‘حکیم احمد‘ اکبر شاہ خان‘ ڈاکٹر شکیل الرحمن‘عبدالرحمن صدیقی‘خالد حامدی‘محمد فاروق خان‘مولوی عبدالصمد رحمانی‘مولوی عبدالحق ودیارتھی‘ حاجی رحیم بخش اور مولوی عبدالمکرم بقا حسین کے نام شامل ہیں ۔ چالیس صفحات پر پھیلے ہوئے اِس باب کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر اجے مالوی نے ان کتب کا سنہ اشاعت‘ پرنٹنگ پریس کا نام اور کتب کا اندارج نمبر بھی دے رکھا ہے تاکہ کوئی اگر اُن کتب خانوں میں جا کے ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہے تو اُسے چنداں دِقّت پیش نہ آئے۔یہ فہرست دیکھنے کے بعد مجھے لگا کہ اگرڈاکٹر اجے مالوی کچھ وقت اور لیتے اور بھارت کے دیگر کتب خانوں کی طرف بھی رجوع کرتے تو ممکن ہے ویدی ادب سے متعلق اُردو کتابوں اور مُسلم مترجمین و محققین کی یہ فہرست مزید طویل ہو تی ‘تاہم پھر بھی وہ تحسین اور تہنیت کے مستحق ہیں کہ اِتنے عمدہ کام کو اُنھوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

     ڈاکٹر اجے مالوی چونکہ ایک نوجوان محقق اور بالغ نظر اُستاد ہیں اِس لیے وہ جانتے ہوں گے کہ تحقیق کے شعبے میں کوئی حرف‘ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ لہجے کی تلخی و ترشی ‘جارحانہ رویہ اور جذباتیت کی بھرمار سنجیدہ معاملات کا وزن گھٹا دیتی ہے۔ مَیں تونئی نسل کو ہمیشہ یہی بات ذہن نشین کر نے کے لیے کہتا ہوں کہ تحقیق کے شعبے میں کوئی کیا کہتا ہے اور کیا سمجھانا چاہتا ہے ‘وہ زیادہ اہم نہیں ہے۔اہم یہ ہے کہ آپ کیامفہوم لیتے ہیں اور آپ کا ردّ عمل کیا ہے۔ تحقیق کے میدان میں کسی کی منفی سوچ اور فساد انگیزی کب اپنی موت آپ مر جائے گی‘ اِس کی فکر نہ کیجئے ۔ فکر اس بات کی کیجئے کہ آپ کس قدر مثبت رُجحانات کے حامل ہیں اور آپ کی امن پروری کب تک زِندہ رہے گی۔ یہ نہ دیکھئے کہ کون کس قدر ہذیانی کیفیت کا شکار ہے۔آپ بس اس بات پر توجہ دیجئے کہ آپ کا لب و لہجہ کتنا شگفتہ‘پُراعتماد اور معنی خیز ہے۔اب ڈاکٹر اجے مالوی بھی نئی نسل کے رہبر کے طور پر اُبھر رہے ہیں تو یقینا اِس طرح کی باتوں پر اُن کا بھی کچھ نہ کچھ ایمان تو ضرور ہو گا ۔   

    بہر کیف ’’ویدک ادب اور اُردو‘‘ اُردو زبان و ادب میں ایک مستحسن اضافہ ہے جس کے لیے ڈاکٹر اجے مالوی والہانہ پذیرائی کا اِستحقاق رکھتے ہیں ۔اُردو زبان کے آغاز کے بارے میں اُن کے نظریات اوراِنکشافات کو فوری طور پرقبول کرنے میں کسی کو قباحت ہو سکتی ہے لیکن اُردو کے تئیں اُن کے اِخلاص اورخیالات کو یکسر ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ لفظ’’ اُردو‘‘ کے بارے میں ماہرین لسانیات کی بہت سی تھیوریاں پہلے ہی سامنے آچکی ہیں اور ممکن ہے آگے بھی آئیں لیکن ڈاکٹر اجے مالوی نے جہاں ویدی ادب کے منظر نامے میں بھارت کی قدیم ترین مذہبی روایات اور تہذیب و ثقافت کے رنگ رُوپ کو اُجاگر کیا ہے وہیںیہ بھی ثابت کرنے کی کامیاب سعی کی ہے کہ وید منتروں کی رُوح میں اُردو سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شاید اِسی لیے پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب اورپروفیسر شکیل الرحمن صاحب ایسی نابغۂ روزگار شخصیات اور ڈاکٹر مشتاق صدف صاحب ایسے جواں سال محقق و ناقد نے اُن کی پذیرائی اور قدر دانی میں فراخ دِلی سے کام لیا ہے۔مجھے اُمید ہے ڈاکٹر اجے مالوی اِس نوع کے تحقیقی کام مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے اور اُردو کا دامن ویدوں‘اُپنشدوں‘شاستروں اور پورانوں کے منتروں اور اشلوکوں سے بھرتے رہیں گے۔

٭٭٭

AMIN BANJARA,
267-JOGI GATE, JAMMU-180001.
 INDIA.
Mobile: 0-8803747617
email: azadfoundationindia@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 610