donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abu Nasar
Title :
   Sirguzasht : Guzre huye daur ki aik suhani kahani

 

’’گزشت‘‘… گزرے ہوئے دور کی ایک سہانی کہانی Sir
 
 
ابو نثر
 
اب بہت کم لوگ ایسے رہ گئے ہیں جیسے شاہ محی الحق فاروقی تھے۔ اپنی مجلسی گفتگو سے محفل کو زعفران زار بنادینا، مگر مبالغہ آرائی سے گریز اور حاشیہ آرائی سے پرہیز۔ نپی تلی بات کہنا، الفاظ خوب سوچ سمجھ کر استعمال کرنا، زبان میں رس اور بیان میں چس… چسکا ہمیں بھی لفظ سازی کا اُنھی سے لگا۔ بات بڑے دھیمے لہجہ میں کرتے تھے، مگر سن کربلند آہنگ قہقہے اُبل پڑتے تھے۔کچھ یہی حال اُن کی تحریروں کا بھی تھا۔ تحریر پُرمزاح ہو یا سنجیدہ، مجلسی گفتگو کے چٹخارے دونوں میں ملتے تھے۔ وہی قصے، وہی کہانیاں، وہی لطیفے اور وہی حاضر جوابیاں۔
 
31دسمبر2011ء کو فاروقی صاحب کراچی میں انتقال کر گئے۔ اکتوبر 2012ء میں اُن کی ’’Sirگزشت‘‘ اُن کے لائق و فائق فرزند تسنیم الحق فاروقی نے مرتب کرکے شائع کردی۔ یہاں بھی وہی عالم ہے۔ کتاب اگر آپ نے شروع کردی تو چھوڑنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کتاب کے دلچسپ نام کی وجہ یہ ہے کہ مصنف نے1951ء میں جب LDC کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا تو وہ ہر شخص کو Sirکہا کرتا تھا۔ اور جب 1992ء میں کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کے ڈائریکٹر فنانس کے عہدہ سے پنشن یاب ہوا تو ہر شخص اُسے Sirکہہ رہا تھا۔ یہ’’ Sir گزشت‘‘ مکمل تو نہ ہوسکی مگر جتنی بھی ہے، خوب ہے۔ کتاب کے تین حصے ہیں۔ حصہ اوّل میں مصنف کے متعلق ڈاکٹر اسلم فرخی، سید محمد منظر سادات پوری، شیخ راشد، سید معراج جامی، راشداشرف، غضنفرعلی خان، احمد حسین اور احمد حاطب صدیقی کے مضامین ہیں۔ حصہ دوم کتاب کے متن پر مشتمل ہے جس کے چھہ ابواب ہیں۔ حصہ سوم میں مصنف کے بڑے صاحبزادے تسنیم فاروقی کا تاثراتی مضمون ہے جو کمال کا خاکہ اور خاصے کی چیز ہے۔ اس مضمون کے بعد فاروقی صاحب کا ایک مضمون، ایک غزل اورایک انگریزی نظم کا (منظوم) ترجمہ ’’تبرکات‘‘ کے نام سے دیا گیا ہے۔آخر میں ڈاکٹر اسلم فرخی کا ایک دلچسپ انشائیہ ’’لال سبز کبوتروں کی چھتری‘‘ شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کا ’’شخصیاتی خاکہ‘‘ ہے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی (اس تبصرہ نگار کے اُردو کے اُستاد) عہد حاضر کے سب سے بڑے خاکہ نگار ہیں۔ اس خاکے میں صرف شاہ محی الحق فاروقی ہی کی شخصیت کی جھلک نظر نہیں آتی، بلکہ یہ خاکہ ایک مجلس احباب کا، ایک روایت کا، ایک تہذیب کا اور ایک ایسے عہد کا خاکہ ہے جو ابھی ابھی گزرا ہے۔ تاہم اس عاجز کا مشورہ یہ ہے کہ آپ یہ خاکہ نہ پڑھیے گا۔ پڑھنا ہو تو اپنی ذمہ داری پر پڑھیے۔ ’’قارئین ہُشیار باش!‘‘ کے طور پر عرض ہے کہ اگرآپ نے یہ خاکہ پڑھنا شروع کردیا تو اختتام تک پہنچتے پہنچتے دل پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔
 
جو سر پہ گزر جائے اُسے سرگزشت کہتے ہیں۔ مگر شاہ محی الحق فاروقی کی ’’Sirگزشت‘‘ یوں سمجھ لیجیے کہ ایک’’ٹائم مشین‘‘ ہے۔ یہ کتابِ مستطاب ہمیں ایک ایسی دُنیا کی سیر کراتی ہے جو ہماری نسل نے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمارے بعد پیدا ہونے والی یعنی موجودہ نسل نے تو اُس دُنیا کا تذکرہ بھی شاید ہی کبھی سنا ہو۔ دلچسپ قصوں سے بھری ہوئی اِس کتاب میں کئی صدیوں کی تبسم بار جھلک موجود ہے۔ زبا ن کاذائقہ ہے اور بیان کا چٹخارہ۔ حیرت انگیز مشاہدات اور علم افزا معلومات۔الغرض یہ ایک ایسی دُنیا کی کہانی ہے جو مصنف کی زبانی سنیے تو کچھ زیادہ ہی سہانی محسوس ہونے لگتی ہے۔
 
کہتے ہیں کہ : ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘۔ یعنی عطر وہ نہیں جس کو عطار بتائے کہ یہ عطر ہے۔عطر تو وہ ہے جو خودپوری فضا کو مُشک بار کردے۔ لیجیے عطر کی شیشی کھلتی ہے۔ صرف چند جھونکے بھی مشام جاں کو معطر کردینے کے لیے کافی ہوں گے۔ پورا ذخیرۂ مشک حاصل کرنے کے لیے www.smhfarooqi.com پرتشریف لے جائیے۔
 
آغاحشر، شیکسپیئر اور سرسید
 
’’اُردو ڈراموں کے شیکسپیئر آغاحشر کا وطن بھی بنارس تھا۔ اور پھر اِسی بنارس میں شیکسپیئر ہی نام کا وہ کمشنر بھی تھا جس سے بنارس ہی میں اپنی ملازمت کے زمانے میں گفتگو کرتے ہوئے سرسید احمد خاں نے کہا تھا کہ ہندوؤں کی اُردو دُشمنی دیکھ کر اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے کبھی متحد نہیں ہوسکتے۔ سرسید احمد خاں جیسے محب وطن کی زبان سے پہلی بار ادا ہونے والے اِس یاس انگیز جملے نے شیکسپیئرکو کتنا ہی چونکایا ہو لیکن سرسید نے وہی کہا تھا جو اُن کی دُوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں، اور آخرکار تحریکِ پاکستان کے سفر میں یہ جملہ ایک سنگِ میل بن گیا۔‘‘ (ص:76
 
افیون کھاؤ ورنہ جنگ کرو
 
’’غازی پور کی ایک اہمیت اس کی افیون کی فیکٹری سے بھی تھی جہاں غالباً پورے ہندوستان سے حاصل شدہ افیون کو آخری شکل دی جاتی۔ ممکن ہے انگریزوں نے غازی پور ہی کی افیون کی کھپت کے لیے چین کو اُنیسویں صدی عیسوی (غالباً 1840ئ) میں بذریعہ ’’جنگِ افیون‘‘ مجبور کیا ہو کہ وہ ہندوستان سے ایک معین اور معتدبہ مقدار میں افیون خریدیں گے۔ یہ جنگ کسی قوم کے استیصال کا ایک بدنما مظاہرہ تھاکہ خود انگلستان کی پارلیمان کے کئی باضمیر ارکان چیخ اُٹھے لیکن سرکاری نمائندوں نے یہ کہہ کر اِس بحث کو ختم کردیا کہ اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر ہم تمباکو نوشی کرتے ہیں تو چینیوں کی افیون خوری پر
 
بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ سچ ہے:
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت‘‘
 
ایک پیسے میں چڑھو، دو پیسے میں اُترو
 
’’بڑھئی کی صنعت پر یاد آیا کہ ہمارے ایک اسامی بڑھئی نے ایک چرخی بنائی ہوئی تھی جسے وہ دسہرے یا اور کسی اجتماعی کھیل کود کے موقع پر میدان میں لگادیتااور بچے اس پر ٹوٹے پڑتے۔ تین چار منٹ کے ایک چکر کے لیے وہ فی بچہ ایک پیسہ لیتا۔ ایک بار میں بھی جابیٹھا لیکن جوں ہی میرا کھٹولا اوپر پہنچا خوف اور چکر سے میری حالت خراب ہوگئی۔ میں نے مطالبہ کیا کہ مجھے نیچے اُتاردیا جائے۔ بڑھئی نے چرخی تو روک دی یا غالباً آہستہ کردی لیکن مجھے نیچے اُتارنے پر آمادہ نہ ہوا۔ نہ میری طفلانہ التجا کام آئی اور نہ میری زمیندارانہ ڈانٹ ڈپٹ۔ وہ ہنستا رہا اور آخر دو پیسے کا وعدہ لے کر اس نے مجھے نیچے اتاردیا۔ نیچے اُتر کر میں نے اسے بڑی کھری کھری سنائی لیکن دو پیسے تو بہرحال دینے ہی تھے۔ آخرمومن کا وعدہ بھی تو کوئی چیز ہوتاہے۔ اس بڑھئی کا نام بھولا تھا لیکن بعض بھولے بھی اپنے مطلب کے لیے کتنے ہُشیار ہوتے ہیں۔ بھولا کی اس دیدہ دلیری اور دریدہ دہنی کے باوجود میں نے اس سے معاشی اور معاشرتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ معاشی تعلقات تو یہ تھے کہ میں اسے گڑ اور تمباکو دیتا رہتا تھا اور معاشرتی تعلقات یہ تھے کہ وہ میرے لیے گلی ڈنڈا بناتا رہتا تھا۔‘‘(ص:127
 
سالے بہنوئی کارشتہ
 
’’ترکوں اور یونانیوں کے درمیان’سالونِکا‘ نامی جزیرہ پر قبضہ کے لیے جب جنگ ہورہی تھی اور پورا یورپ عملی لحاظ سے یونان کا ساتھ دے رہا تھااور اس کے برعکس دُنیا کے مسلمان ترکوں کے لیے صرف دُعائیں کررہے تھے اس وقت برصغیر کے مشہور طنز نگار اکبرؔ الٰہ آبادی مرحوم نے ترکوں کو ایک بہت صائب مشورہ دیاتھا۔ اُنھوں نے کہا کہ جھگڑا تو یہی ہے نا کہ ’سالونِکا‘‘ سے ترکوںکو نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، لہٰذا ترکوںکو چاہیے کہ وہ یونانی لڑکیوں سے شادیاں کرلیں اور پھر کہیں:’’سالونِکا سے اب لو، سالو نکالو ہم کو‘‘۔ (ص: 220
 
قصائی عربی النسل ہیں
 
’’نسبی برتری کے ضمن میں قصائیوں کے دعووں پر مجھے ایک لطیفۂ علمی بھی یاد آیا۔ میرے ایک بزرگ عزیز مولانا ابوالجلال ندوی مرحوم سابق رفیق دارالمصنفین اعظم گڑھ جو خود صدیقی النسل تھے کہتے تھے کہ ہندوستان کی تمام عربی النسل برادریوں بشمول سید، صدیقی، فاروقی وغیرہ کے دعوے ان کے اپنے بیانات اور قدیم خاندانی شجروں پر مبنی ہیں جن میں سے بعض کے غلط ہونے کے امکان کو رد نہیںکیا جا سکتا لیکن قصائیوں کی برادری ایک ایسی برادری ہے جس کے بارے میں گمان غالب یہ ہے کہ یہ لوگ یقینا عربی النسل ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں وہ یہ کہتے تھے کہ اوّل توکسی شخص کا اپنا آبائی مذہب تبدیل کرنا یعنی کسی ہندو کا مسلمان ہوجانا ہی ایک بڑی انقلابی تبدیلی ہے، اور پھر مسلمان ہوجانے کے بعد گائے کا گوشت کھانا جسے وہ پشت ہا پشت سے اپنی ماں سمجھتا آرہا تھا دوسرابڑا نقلابی قدم ہوگا، اور پھر اسے ذبح کرکے اس کا گوشت فروخت کرنا… تو یہ کام کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جس کا پیشۂ آبا سو پشت سے گاؤ خوری ہو اور عربوںکا معاملہ تو شاید سَو پشت سے بھی زیادہ کا ہو۔ سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنے والی قوم کے لیے گائے ذبح کرنا تو ایک مشغلہ کی حیثیت رکھتا ہوگا…مجھے یقین ہے کہ وہ یہ ساری باتیں تفنن طبع کے طور پر کہتے تھے اور قارئینِ Sirگزشت سے بھی یہی درخواست ہے کہ وہ اس نکتۂ تفریحی کو علمِ برادریات (Brotherology)کے مطالعہ میں استعمال نہ کریں۔‘‘(ص ص:252-251
 
اس کتاب کا تعارف نامکمل رہے گا اگر تسنیم الحق فاروقی کے مضمون ’’میرے ابو‘‘کا ذکر چھوڑ دیا جائے۔ تسنیم الحق فاروقی پیشے کے لحاظ سے ’’اداراتی قانون گو‘‘ (Corporate Lawer)  ہیں، اوراُن کا اصل میدان بینکاری ہے۔ مضمون نگاری نہیں۔ مگر اس کتاب کے عطایا میں سے ایک قیمتی عطیہ تسنیم کا شہ پارہ بھی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات ایک ایسے منجھے ہوئے ادیب، انشا پرداز، خاکہ نگار اور اعلیٰ درجہ کے نثر نگار سے ہوتی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ انگریزی کی بھرمار کے ایسے دور میں ہمیں اچھی اُردو نثر بھی پڑھنے کو مل سکتی ہے۔کیا سلاست ہے، کیا روانی ہے، کیا بے تکلفی ہے اور کیا عبارت آرائی ہے۔کاش کہ یہ سلسلہ وہ جاری رکھیں۔ ذرا دیکھیے تو سہی:
 
’’آپ نے کبھی یہ بھی سوچا کہ خود بچہ اپنی زندگی میں پہلی بار سب سے زیادہ خوش کب ہوتا ہے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یہ وہ دن ہوتا ہے جب بچہ پہلی بار اپنے باپ کے جوتے پہن کر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ باپ کے جوتے پہن کر وہ بھی اپنے باپ کی طرح قد میں بڑا اور معزز بن گیا ہے۔
 
’’میں نے بھی جب چلنا سیکھا تو کئی بار پدرِ مہربان کے جوتوں میں گھس کر خود کو اُن کی طرح بڑا محسوس کرنے کی کوشش کی، مگر پھر اس کھیل سے اُکتا گیا، کیوں کہ کبھی سیدھے پیر میں اُلٹا جوتا ہوتا توکبھی یوں ہی بڑے جوتے میرا توازن رکھنے میں ناکام رہے۔ میں پدرِ مہربان کے جوتوں میں پاؤں ڈال کرکبھی ان سا قد نہ حاصل کرسکا۔ ہمیشہ منہ کے بل ہی گرا۔ اگرچہ میں نے ابو کے جوتے پہننے چھوڑ دیے تھے مگر لاشعوری طور پر میری نگاہیں ہمیشہ اپنے ابو کے پیروں ہی میں رہیںاور میں ان کے نقشِ پا میں اپنی منزل تلاش کرتا رہا‘‘۔(ص: 380)
 
اٹھاون برس کی عمر میں جب تسنیم فاروقی ایک دن اچانک اپنے گھر کے گھنے سایہ دار درخت سے محروم ہوگئے تو یہ ’’اٹھاون سالہ یتیم بچہ اچانک ہی بوڑھا ہوگیا‘‘۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اِس اچانک بڑھاپے نے مجھے نئے امتحان میں ڈال دیا۔ اب مجھے اپنے ابو کے جوتے پہننے تھے‘‘۔(ص:381)
 
شاہ محی الحق فاروقی کے سب سے بڑے بیٹے شاہ تسنیم الحق فاروقی نے اپنے ابو کے جوتے ہی نہیں پہن لیے (حسن ظن ہے کہ دیگر تمام قانونی ورثا کی اجازت سے) اُن کا قلم بھی اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ لکھتے ہیں:
 
’’مجھے اچانک خیال آیا کہ میں صرف اپنے ابو کا بڑا بیٹا نہیں، بلکہ وہ میرے ہیرو بھی تھے اور میں اُن کا پرستار بھی۔ایسا پرستار جس نے اپنی اٹھاون سالہ زندگی میں قدم قدم پر اپنے ہیرو سے بہت کچھ سیکھا مگر افسوس کبھی ایک بار بھی ابو سے زبانی اعتراف نہ کیا، نہ کبھی فادرز ڈے پر ابو کو کوئی تحفہ دیا، نہ کبھی کھل کر ابو سے کہا کہ ابو آپ میرے بہت بڑے محسن ہیں اور مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔کیوں نہ اس کتاب کے ذریعے ہی سب کی گواہی میں اس بات کا اعتراف کرلوں کہ ابو آپ میرے ہیرو تھے اور آپ کے بعد میں ادھورا رہ گیا ہوں‘‘۔(ص ص:383-384
 
’’Sirگزشت‘‘ جیساکہ اس تحریر کی ابتدا میں آپ کو بتا دیا گیا ہے، کہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی تھی۔اس کی تشنگی کچھ حد تک تسنیم فاروقی نے دور کرنے کی کوشش کی ہے:
 
’’مجھے اس خیال نے بھی شدت سے ستایا کہ ’’Sirگزشت‘‘ میں ابو کی سرگزشت تو ہے ہی نہیں۔ یہ تو صرف تمہید تھی، اصل سرگزشت کی، جس کا آغاز تو ابو نے بڑے شوق سے کیا مگر پھر اسے مکمل کرنے کا ارادہ ترک کردیا تھا‘‘۔(ص:384)
 
تسنیم فاروقی نے اپنے عظیم المرتبت والد کے بہت سے واقعات اپنے مضمون میں بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیے ہیں جن سے اُن کے ذاتی کردار کے بہت سے روشن پہلو مزید عیاں ہوجاتے ہیں۔ ہم صرف ایک قصہ نقل کرکے یہ سارا قصہ ختم کرتے ہیں:
 
’’یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ابو اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکریٹری تھے۔ لاہور میں نیچے اس کا دفتر تھا اور اوپر کی منزل میں ابو مقیم تھے جو عملی طور پر اس دفتر کے مکمل سربراہ تھے۔ اُس دور میں پین یا بال پین کے بجائے ہولڈر کو روشنائی میں ڈبوکر لکھا جاتا تھا۔ دو قسم کی نب استعمال ہوتی تھی G کی نب اُردو کے لیے اورZکی نب انگریزی کے لیے۔ سردی کی ایک رات مَیں اسکول کاکام کر رہاتھا کہ اچانک میرے ہولڈر کی نب ٹوٹ گئی۔ میں نے ابو سے کہا کہ نیچے دفتر سے مجھے ایک نب لینے کی اجازت دی جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ اتنے نبوں کے ڈبے پڑے تھے کہ استعمال ناممکن تھا۔ ان کو زنگ ہی لگنا تھا۔ مگر مجھے بہت زور کی ڈانٹ پڑی کہ دفتر کی چیزوں پر تمھارا حق کہاں سے آگیا؟نوکر کے ساتھ سخت سردی میں بازار بھیجا گیا کہ جاکر ایک نب خرید کے لے آؤں‘‘۔ (ص :395-396
 
پس نوشت: کتابت میں اغلاط کی بھرمار طبع خواندگی پر سخت گراں گزرتی ہے۔ پوربی زبان سے ناواقفیت بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ ابواب کی تقسیم اگر نمایاں ہوتی اورنئے باب کی نشاندہی کے لیے ایک پورا صفحہ وقف کیا گیا ہوتا تو کتاب کی تزئین میں اضافہ ہوجاتا۔ سرورق دیدہ زیب ہے۔ طباعت بہت عمدہ ہے۔ صفحات 462، قیمت پانچ صد روپئے۔ برقی نسخہ تو جیساکہ اوپر عرض کیا گیا www.smhfarooqi.com سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مطبوعہ نسخہ حاصل کرنے کے لیے سیل فون 0092-321-8291908 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ابو نثر
++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 732