donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Aleem Khan Falki
Title :
   Urdu Media Par Aik Encyclopedia Numa Kitab


اردو میڈیا پر ایک انسائیکلو پیڈیا نما کتاب


ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز کی تازہ تصنیف ’’اردو میڈیا کل آج اور کل‘‘ پر ایک تبصرہ


مبصر: ڈاکٹر علیم خان فلکی، جدہ۔


ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز کی یہ تصنیف دراصل ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے کچھ ترمیمات کے بعد انہوں نے شائع کیا ہے۔ عام طور پر ڈاکٹریٹ کے مقالے عام فہم نہیں ہوتے، صرف خواص کیلئے یا پھر بعد کے آنے والے ریسرچ اسکالرز کیلئے ہوتے ہیں۔ عوام انہیں ہدیۃً لے کر مروتاً شلف میں سجا لیتی ہے اور اُسے برسوں پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی لیکن فاضل جن کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے انتہائی سادہ اسلوب میں فصاحت و بلاغت کا غیر ضروری رعب ڈالے بغیر ایک عام آدمی کو ایک ایسا معلوماتی خزانہ دیا جسے جاننا ہر ایک کیلئے ضروری ہے۔ میڈیا کی شُد بُد رکھنے والے چند لوگوں کیلئے یہ یقینا ایک معمولی اور سطحی کوشش ہے لیکن ان عام لوگوں کیلئے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو کمپیوٹر یا موبائیل پر صرف ای میل، فیس بک یا واٹس اپ Click کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں جانتے ان کیلئے یہ ایک آسان انسائیکلوپیڈیا ہے۔ مصنف نے غیرمعمولی محنت اور تحقیق سے یہ ثابت کیاہے کہ جس طرح آکسیجن پورے کرہ ارضی کو گھیرے ہوئے ہے لیکن نظر نہیں آتی اسی طرح میڈیا ہماری زندگی کے ہر ہر شعبہ کو گھیرے ہوئے ہے جسے عام انسان محسوس نہیںکرتے۔ بالخصوص مسلمان، میڈیا کی طاقت سے بے بہرہ ہیں۔ جسکے نتیجے میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کا وجود بھی پسماندہ ہے اور امیج بھی۔

فاضل حسین کی تحقیق کئی اہم انکشافات سے بھرپورہے۔ جیسے کہ انہوں نے ہندوستان کی مردم شماری اور لسانیات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ کئی ریاستوں میں اردو داں طبقہ کے افراد کی تعدادا گرچہ لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہے لیکن حکومت نے بددیانتی کے ساتھ تعداد کو کھٹا کر چند ہزار دکھائی ہے۔ اور باقی کو ہندی کے کھاتے میں ڈال کر ہندی بولنے والوں کو تعداد کو کہیں کا کہیں بتادیا۔ ورنہ عالمی طور پر اردو کا مقام دسواں ہوناچاہیئے تھا لیکن سرکاری جھوٹ کی وجہ

                    سے اکیس پر چلاگیا۔

جنگ آزادی میں عظیم قربانیاں دینے والے صحافیوں کی ناقابل فراموش خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے فاضل حسین نے چند اہم انکشافات کئے ہیں جن سے نئی نسل قطعی ناواقف ہے۔ ہندوستان میںجنگ آزادی کی جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں مسلمانوں کا تذکرہ سرے سے غائب ہے۔ جبکہ جنگ آزادی کا آغاز اور اس کی معراج مسلمان صحافیوں کی مرہون منت ہیں۔ مثال کے طورپر فاضل حسین نے محمدحسین آزاد کے والد محمدباقرایڈیٹر و بانی اردو اخبار دہلی کا دردناک تذکرہ کیا کہ ستمبر 1857 میں کس طرح انہیں توپ کے گولے کے ذریعہ سزائے موت دیکر شہید کیاگیا۔ ایسے کئی صحافی علماء و مفکرین نے جنگ آزادی میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیئے۔ اور ایسے وقت میں پیش کئے جب پاکستان کا نہ وجود تھا اور نہ اُس کا تصور تھا لیکن بدقسمتی سے ہندوستان کے فرقہ پرست مورخین اور نصابِ تعلیم کے ذمہ داروں نے تمام مسلمان شہیدوں اور غازیوں کے تذکروں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر ایسی تاریخ تیار کردی جس سے ظاہر ہوتاہے کہ سوائے اشفاق اللہ خان اور حولدارعبدالحمید کے کئی مسلمان کے جنگ آزادی میں حصہ نہیں لیا۔ الغرض فاضل حسین کی یہ تحقیق جنگ آزادی میں مسلمانوں کے رول پر روشنی ڈالنے والی تحقیق ہے۔


فاضل حسین کے مطابق 1820 کے لگ بھگ اردو اخبار و رسائل کے اجرا کا آغاز ہوا۔ جس طرح آج انگریزی یا علاقائی زبانوں کے اہم اخبارہی نیشنل میڈیا کا درجہ رکھتے ہیں اس وقت سے لے کر آزادی تک اردو اخبارات کا وہی مقام رہا۔ اگر اردو اخبارات و رسائل نہ ہوتے تو جنگ آزادی میں اتنے ہندو اور مسلمان سپاہی نہ ملتے۔ لیکن مسلمان تغیرات زمانہ کے ساتھ نہ چل سکے۔ رفتہ رفتہ ریڈیو پھر ٹی وی اور کمپیوٹر اورآج انٹرنیٹ نے میڈیا میں بھونچال پیداکردیا جس سے مسلمان واقف نہیں تھے اس لئے اس دوڑ میں پیچھے رہنے کہ وجہ سے انہیں فراموش کردیاگیا۔ البتہ فلمی دنیا میں بقول فاضل حسین کے اردو کا آج بھی راج ہے۔ ٹی وی سیریل ہوں کہ فلمیں، گیت ہوں کہ ڈائیلاگ اگر یہ زندہ ہیں تو محض اردو کی وجہ سے، لیکن سرکاری تعصب اور اردو کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ان فلموں اور سیریل کو ہندی کا سرٹیفکیت دیاجاتاہے۔

فاضل حسین نے یہ قابل توجہ نکتہ پیش کیا ہے کہ اردو کے ساتھ ناانصافی کا ہرجگہ رونا بھی مناسب نہیں۔ آئین کے مطابق کئی ایسی مراعات حاصل ہیں جو نہ صرف اردو بلکہ ہر اقلیتی زبان کو حاصل ہیں، اسے سرکاری طور پر نافذ کرنے، اسکول میں اردو کے ٹیچرز کا تقرر کرناہے۔ لائبریری کیلئے فنڈ حاصل کرنے اور ایسے کئی مراعات ہیںجو اردو والں کو بھی حاصل ہیں لیکن اردو بولنے والے خود غفلت کا شکار ہیں جو ان کے قائدین ہیں وہ خود بھی یا تو ناواقف ہیں یا پھر ان فنڈز کا استحصال کرلیتے ہیں اور عوام کو خبر بھی نہیں ہوتی۔

فاضل حسین کی یہ تحقیق اردو میڈیا کے عروج و زوال کی ایک عبرتناک داستان ہے۔ 1820 کے زمانے کے ’’آگرہ اخبار‘‘، جام جہاںنما‘‘ سے لے کر الہلال اور البلاغ اور آج کے مصنف تک جو

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 60ہزار کاپیاں شائع کرکے سرِفہرست ہے۔

فاضل حسین نے ان تمام ادوار کا جائزہ لیتے ہوئے یہ تحقیق پیش کی کہ کس طرح اردو میڈیا نہ صرف اخلاقی و معیاری طور پر بلکہ مالی،سیاسی اور سماجی طور پرتنزلی کا شکار ہوتاگیا۔ عہدحاضر کی اردو صحافت کا جو فاضل حسین نے جائزہ پیش کیا اس سے انکار اس لئے بھی نہیں کیاجاسکتا کہ وہ خود ایک صحافی ہیں اور ساتھ ساتھ اخبار کے مالک بھی ہیں۔ صحافت ان کیلئے محض ایک پیشہ نہیں بلکہ اہم ایمانی تقاضہ ہے۔ چونکہ مسلمان امت دوسری امتوں پر’’ گواہ‘‘  بناکر پیش کی جائے گی اس لئے انہوں نے اپنے  ہفت روزہ کا نام بھی ’’گواہ‘‘ ہی رکھا۔ نہ کبھی کسی سیاسی پارٹی کے حق میں جانبداری دکھائی نہ کسی مسلک یا گروہ کے حق میں۔ ان پر مفاد پرستوں نے مقدمات بھی دائر کئے لیکن فاضل حسین ’’سچ تو مگر کہنے دو‘‘ (یہ ان کے مستقل کالم کا نام ہے) پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اپنی برادری کے حرکات و افعال کے بے نقاب کرنے میں کوئی تکلف یا مصلحت اندیشی سے کام نہیں لیا اور وہ تلخ حقائق پیش کئے جو کہ مسلمانوں کی میڈیا میں تذلیل کا سبب ہیں۔ مثلاً یہ کہ آج کے اخبار مالکان یا صحافی زیادہ تر خود یا تو اخبار کی سرخیوں میں رہناچاہتے ہیں یا سیاست میں قدم جماناچاہتے ہیں۔ اس کیلئے لازماً انہیں کسی نہ کسی پارٹی کی نظرِ کرم درکارہوتی ہے جسے حاصل کرکے وہ غیرجانبدار نہیں رہ سکتے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف صحافت کا معیار گرتاہے بلکہ ان کا اعتبار بھی جاتارہتاہے۔ دوسری زبانوں کے اخبارات کے مقابلے میں اردو اخبارات کا معیار گھٹیاہے۔ صحافیوں کا انتخاب ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ کم سے کم تنخواہ قبول کرلینے والے کو بطور صحافی مقررکیاجاتاہے۔ اگر چہ کہ اردو اخبارات کی آمدنی میں روزافزوں اضافہ ہوتاجارہاہے لیکن مالکان اخبار مفت کے مضامین شائع کرنے کے خوگر ہیں۔ ایک ہی رپورٹرکو کرائم بھی، سیاست بھی، کھیل کود اور بزنس پیج بھی دیکھنا پڑتاہے۔ اخبارات کی کمائی صرف سُلگتے ہوئے موضوعات سے ہوتی ہے۔ اس لئے ان میں کوئی ترقیاتی موضوعات، معیشت یا سائنس پر نہیں ہوتے۔ مشہور لیڈروں کی تقریریں ان کے پاس سب سے اہم خبر ہوتی ہے۔ مالکان کی آمدنی تو خوب ہوتی ہے۔ بالخصوص رمضان، بقرعید اور میلاد کے موقعوں پر یا الیکشن کے موقع پر یہ خوب کماتے ہیں لیکن اسکا عشرعشیر بھی صحافیوں کو نہیں دیتے جس کی وجہ سے حقیقی اردو صحافیوں کی تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ انٹرنیٹ سے خبریں اور مضامین لے کر شائع کرنا اور پیشہ ور صحافیوں کی خدمات نہ لے کر پیسہ بچانا عام اخبارات و رسائل کا مزاج ہے۔ اس کا فائدہ آر ایس ایس ذہن کے لوگ اٹھارہے ہیں جو اردو اخبارات و رسائل چلاکر ایک طرف اردو صحافیوں کو بھرپور معاوضہ بھی دے رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے مفادات کو حاصل کرنے مسلمانوں کو ان کے کلچر مذہب اور اصل ایشوز سے گمراہ بھی کررہے ہیں۔ فاضل حسین نے ایسے گمراہ کن اخبارات و رسائل کی نشاندہی کی جہاں اردو صحافی بہت خوش ہیں۔

فاضل حسین نے ایک اوراہم نکتہ یہ بھی پیش کیاکہ اردواخبارات جگہ بھرنے کیلئے عالمِ اسلام جیسے سعودی عرب، فلسطین، پاکستان وغیرہ کی خبروں کو خوب جگہ دیتے ہیں جب کہ ان ملکوں میں کبھی کسی ہندوستانی مسلمانوں کی خبروں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کو ان ملکوں کی اتنی تفصیلی خبروں کی ضرورت ہے۔ کئی کالم نگار عالمِ اسلام پر مضامین لکھ کر کچھ داد اور دو چارہزار کمابھی لیتے ہیں لیکن یہ وقت کے زیاں اور فضول گوئی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ ممالک خود اپنے ملک کے صحافیوں کو نہیں پڑھتے تو ان کے مضامین کیا خاک پڑھیں گے۔ ان حالات میں جس قسم کے اردو داں صحافی وجود میںآرہے ہیں اور جس قسم کی اردو میڈیا میں بولی جارہی ہے، فاضل حسین نے اس کا جو تفصیلی جائزہ لیا ہے اس پر علیحدہ سے ایک مزاحیہ مضمون لکھا جاسکتاہے۔

فاضل حسین نے ایک اور افسوسناک پہلو یہ اُجاگر کیا کہ آر ایس ایس ذہن کے اخبارات جو بیک وقت کئی زبانوں اور مختلف ریاستوں سے ایڈیشن نکالتے ہیں وہ اردو کے بھی ہمدرد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اردواخبارات میں وہ پوراپورا مسالہ ہوتاہے جو اردو قاری کو پسندہے۔ مثال کے طور پر ’’انقلاب‘‘ جو جاگرن گروپ نے خریدلیاہے۔ اس میں سرخیوں سے لے کر چھوٹی خبر تک مسلمانوں کی ہمدردی کی خبریں ہوتی ہیں۔ ان پر ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کو اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگینی کے ساتھ پیش کیاجاتاہے جتنا نشیمن، دعوت یا سیاست و منصف میں پیش کیاجاتاہے۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیںکہ آر ایس ایس کا اخبارہونے کے باوجود مسلمانوں کی تائید میں لکھ رہاہے۔ نادان مسلمانوں کو یہ خبر نہیں کہ یہی خبریں جو مسلمانوں کی تسلی کیلئے ہوتی ہیں دوسری زبان کی کسی بھی اخبار یا TV پرنہیں پیش کی جائیں،کیونکہ ان اخبار مالکیان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اخبارات و رسائل پڑھنے والاا س بات سے بے خبر ہے کہ نیشنل میڈیا میں اس کا کیاامیج ہے۔ اور انہ ااس میں احتجاج کرنے یا نمائندگی کرنے کی جستجو یا شعور ہے۔

فاضل حسین نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہر اس گوشے کا جائزہ لیا جس میں اردو کاماضی، حال اور مستقبل عیاں ہے۔ مذہب ،ادب، سائنس، اطفال، خواتین، کھیل کودوغیرہ تمام شعبوں میں اس وقت اردو میڈیا کہاں کھڑاہے۔ آگے کیا امکانات ہیں اس کا بھرپور جائزہ لیاگیا۔ کئی اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے رہنمائی کرنے والی ویب سائٹس کے پتے بھی دئیے گئے ہیںمیڈیا سے ناواقف لوگوں کیلئے ایسی کئی اصطلاحات بھی معنوں کے ساتھ پیش کی گئی ہیں جن سے واقفیت قارئین کو فائدہ دے سکتی ہیں۔

یہ کتاب ہدیٰ پبلکیشنز نے شائع کی جو ھدیٰ بک ڈپو یا دفتر رہنمائے دکن حیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ مزیدمعلومات کیلئے مصنف سے 9395381226 پر رابطہ کیاجاسکتاہے۔ 419صفحات پر مشتمل یہ انمول خزینۂ معلومات کی قیمت صرف 250/-روپئے رکھی گئی ہے جوکہ بہت مناسب ہے۔

ڈاکٹر سیدفاضل حسین پرویز کی یہ کاوش قابل مبارکبادہے۔

(یو این این)


ڈاکٹرعلیم خان فلکی

صدرسوشیوریفارم سوسائٹی آف انڈیا، جدہ۔

کتاب ملنے کا پتہ:     ھدیٰ بک ڈپو، پرانی حویلی، حیدرآباد۔

    ۲)     75/2RT, Sayeedabad Colony,
Hyderabad-59
Ph: 09395381226                        

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 770