donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azeez Belgaumi
Title :
   Aalmi Anware Takhleeq : Ilmi wa Adbi Tajalliyat Ka Besh Baha Makhzan


’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘

 ! علمی و ادبی تجلیات کابیش بہا مخزن


 عزیز بلگامی

 


مشہور افسانچہ نگار ڈاکٹر ایم اے حق صاحب کا نام افسانچوں کی دُنیا میں ایک معتبر نام تسلیم کیا جاتا ہے۔ اب موصوف ادبی صحافت کی دُنیا میں قدم رکھ رہے ہیں، بلکہ رکھ چکے ہیں۔موصوف کی زیر ادارت موسمِ گرما کا خوبصورت رسالہ’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘ جاذب نظر سرِ ورق کے ساتھ منظر عام پر آچکا ہے۔ عالمی ہے توظاہر ہے اِس میں بھارت کے علاوہ برطانیہ(لندن)، جرمنی، کناڈا اور پاکستان جیسے ملکوںکی بجا طور پرنمائندگی ہوئی ہے۔رسالے منظر ِ عام پر تو آئے دِن آتے ہی رہتے ہیں۔اگر کسی نیے پن کے بغیر محض اپنے ذوقِ ادارت کی تکمیل کے لیے ، کوئی رسالہ نکالا جاتا ہے تویہ رسالوں میں ایک اِضافہ تو ضرور ہوگا، کوئی کارنامہ نہیں ہو گا، اور اِس کے علاوہ اِس کی کچھ حیثیت نہیں ہوگی۔ وہ پہلو کیا ہیں جو’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘ کو نیے پن کا حامل بناتے ہیں،اِس غرض کے لیے آئیے رسالے پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس نیے پن کے ساتھ یہ عالمی ادب کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ اگرچہ،عزیز بلگامی نامی ایک طالب علم کے نام سمیت،ادبی دُنیا کے بہت سارے قد آور نام رسالے میں شامل کرلیے گیے ہیں، یہ اُن کا بڑپن ہے ، ورنہ سچی بات تویہ ہے کہ رسالہ تنہا ڈاکٹر ایم اے حق صاحب کی کاوشوں کا مرہونِ منت ہے،اور بڑی محنت سے موصوف نے اِس کی سیر ت و صورت گری کی ہے۔ پہلے شمارے میں ہی ۲۸ شعری تخلیقات شامل ہیں، جن میں آزادحمد، نعت، منظومات اور غزلیات شامل ہیں۔لیکن اِسے بھی نیا پن نہیں کہا جاسکتا۔ اِس میں منی کہانیاں، افسانچہ، انشائیہ ، افسانہ اور مقالے ہیں…تو کیا ہوا…اِس میں کون سی نئی بات ہے، دیگر رسالوں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے ! اِسے بھی تو نئی بات کہنا مشکل ہے۔ ہم نہیں… لوگ کہیں گے۔آخر اِس میں نیا پن کیا ہے؟ اِسی سوال کا جواب دینے کی کوشش یہ چند سطور ہیں۔ !

ہم نے اِس رسالے کے سر ورق اور حق صاحب سے ٹیلی فونِک گفتگوئوں کے پس منظر میں نئی بات یہ دیکھی کہ یہ کوئی ہفت روزہ نہیں ہوگا ، نہ ماہنامہ، نہ سہ روزہ ،نہ سہ ماہی ہوگا، ششماہی بھی نہیں ہوگا ،بلکہ یہ ایک ’’موسم نامہ‘‘ ہوگا، جو سال میں تین مرتبہ بدلتی رُتوں کے تغیر آمیز ادبی رُجحانات کے جلو میں منظر عام پر آئے گا اور نیے موسموں کی خوشبوئیں اپنے ساتھ لائے گا۔ہمیں محسوس ہوا کہ اِس کا نیا پن یہی ہے ۔

دوسرا نیا پن یہ محسوس ہوا کہ یہ محض ایک رسالہ نہیں ہوگا،بلکہ ادبی معاشروں کی ایک نئی تحریک بن کر اُبھرے گا،جِس کے اجزائے ترکیبی میں کئی انقلابی اقدامات شامل ہوںگے ، مثلاً ، خطوط نویسی کی تجدید،جس کا ’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘ نے بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔ جدید دور کے جدید مراسلاتی ذرائع ،کس طرح خطوط نویسی کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں،یہ حقیقت سب پر عیاں ہے۔ پوسٹ کارڈ تک لکھنے کا اب کوئی روادار نہیں۔ رسالہ کے پیش نظر یہ اہم مقصد ہوگا کہ احباب کو خطوط نویسی کی ترغیب دلائی جائے گی ،بلکہ مہم چلائی جائے گی اورخطوط نویسی کے سلسلے میں احباب کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ بہترین خط کو رسالے میں جگہ دی جائے گی، اور خط نویس کے اعزاز کا موقع نکالا جائے گا۔رسالے کا یہ عزم رسالے کو نیا پن بخشتا ہے۔سوال یہ ہے کہ خطوط نویسی میں ایسی کیا بات ہے کہ اِس کو کسی رسالے کے ذریعے اِتنی اہمیت دی جائے۔؟اِس کا جواب ایک اور سوال میں مضمر ہے، کہ غالب کے خطوط اِس قدر کیوں مشہور ہوئے، اور اِن کی ادبی حیثیت کیوں کرادبی دُنیا میں مسلّم بن گئی؟۔کہتے ہیں کہ کسی سیاست دان کے لیے اُس کا ایک فون کال ایک سوVotes  کا وزن لیے ہوئے ہو تا ہے، لیکن جب وہ ایک خط لکھتا ہے تو اِس کے اِس ایک خط کا وزن اِس قدر ہو گا کہ اُس کے لیے ایک ہزارVotes کھینچ لائے گا۔ جتنی سچی بات یہ سیاست کی دُنیا کے لیے ہے اُتنی ہی سچی یہ ادب کی دُنیا کے لیے بھی ہے۔کسی رسالے کا ایک قاری اپنے مدیر سے ایک مراسلے کے ذریعہ جو گفتگو کرے گا، وہ کئی اعتبار سے اُس کے ۱۰۰ فون کالس یا ہزار ایس ایم ایس پر بھاری جائے گا۔ادب کے مختلف پہلوئوں پر بحث کے دروازے کھلیں گے، اُردو ادب بھی دُنیا کی ترقی یافتہ زبانو ں کی طرح خود کو رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگ کر پائے گا۔لیکن افسوس کہ اب لوگوں کی اُنگلیاں اپنے موبائل فون کی اسکرین پر ہر پل تھرکتی نظر آتی ہیں اور پین اب جیب میں بھی نظر نہیں آتا، کجا کہ اُنگلیوں کے درمیان بھی تھما ہوا نظر آئے۔دراصل مغلوب اقوام کی زبان،اِسے بولنے اور لکھنے والے ادیب وقلمکارکبھی غالب اقوام کی زبانوں اور اِن کے خدمت گاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔سبب یہی ہے کہ اِن کے ہاتھ میں قلم نہیں۔اللہ نے بھی اپنی کتاب میں’’علم بالقلم‘‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔یعنی، یہ دُنیا کا دستور ہے کہ جس قوم کے ہاتھ میں قلم ہے وہ دُنیا پر چھا جاتی ہے۔ لیکن اگر اُردو والے، چاہیں تو مغلوبیت کے زمانے میں بھی دو وجوہات کی بنا پرترقی کی بلندیاں طے کر سکتے ہیں،اولاً، اُنہیں ایک ایسی زبان قدرتاً میسر ہے ، جس میں تاثیر و تاثر کی طاقت اُس کے اندرون میںInbuilt موجود ہے۔ثانیاً،یہ زبان کوئی مقامی زبان نہیں، کسی ریاست کی بھی زبان نہیں،ممکن ہے پاکستان کی سرکاری زبان ہو، لیکن اِس کو ہم اب دُنیا کے گوشے گوشے میں موجود پاتے ہیں، المختصر، اُردو کا منظر نامہ اب عالمی سطح تک وسیع ہوگیا ہے۔بس قلم کی ایک تھوڑی سی حرکت ہمارابھی اور اُردو زبان کا بھی کام کردے گی۔قلم کے بارے میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ روشنائی، دوات، نِب یا Parker Penجیسی کسی نفیس شے تک محدو دہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے لیپ ٹاپ کا Keyboardبھی اب بلاشبہ جدید دور کا قلم ہے۔ یہ وہ آسانیاں ہیں جو جدیداُردو قلمکار کی خدمت کو حاضر ہیں، بشرطیکہ وہ اِس کے اِستعمال میں دلچسپی دکھائے ، اِس حد تک کہ وہ زمانے کی رفتار کے شانہ بہ شانہ چلنے ، بلکہ دوڑنے کی حالت میں آجائے۔ ڈاکٹر ایم اے حق اِس حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ، اُن کے بقول خطوط نویسی اِس کو پُر کر سکتی ہے۔ اور نئی نسلوں کے لیے اِس میں دلچسپی کا بھر پور سامانا رہے گا۔

تیسری بات جو رسالے کے نیے پن کی غماز ہے، وہ یہ کہ، رسالے کا اگرچہ ایک مدیر ضرور ہوگا ،لیکن اداریہ پر اُس کی اجاراداری نہیں ہوگی بلکہ وقفے وقفے سے ادارتی بورڈ کے ارکان ،’’ گوشۂ ادارتی بورڈ‘‘ کے تحت ، اداریہ لکھتے رہیں گے اور رسالے کی ہمہ گیریت اور تنوع ظاہرکرتے رہیں گے۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ادب کے مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ مجلسِ ادرات،اپنے قارئین کے مختلف طبقات کو اپنے تجربات اورExpertiseکے حوالے سے اُس سے زیادہ اور وہ بھی کچھ پیش کرپائیں گے جو عام حالات میں اِنفرادی طورپر کسی مدیرِ رسالہ کے بس کی بات نہیں ہوتی۔نئی نسل میںادبی رُجحانات کو فروغ دینے کے لیے یہ کام ایک مخصوص اسکیم کے تحت انجام پائے گا۔یعنی، ادارتی بورڈ کے کسی ممبر کے ذریعہ شمارے میں شائع شدہ جملہ معاونین میں سے کسی ایک کا نام قرعہ اندازی کے ذریعہ نکالا جائے گا ۔جس خوش قسمت معاون کے نام کا قرعہ نکلے گا اُنہیں ادارے کی جانب سے دعوت دی جائے گی کہ ادب کے حوالے سے اپنے خیالات کا آزادی کے ساتھ اِظہار کریں اور جو بھی تحریر اُن کی اِس ضمن میں موصول ہوگی، اُسے ہم اگلے شمارے میں ـ’’ مجھے بھی کچھ کہنا ہے‘‘ کے زیر عنوان اُن کے مختصر تعارف اور رنگین تصویرکے ساتھ شائع کریں گے۔جن لوگوں کے نام نکلتے چلے جائیں گے، اُن کے نام اس اسکیم میں موجود افراد کی فہرست سے کم ہوتے رہیں گے، تاکہ نیے معاونین کو موقع دیا جاسکے۔ مثال کے طور پراِسے اِس طرح سمجھا جا سکتا ہے،کہ اِس وقت پہلے شمارے میں جو۱۶ معاونین موجود ہیں، اِن میں سے کسی ایک کا نام قرعہ اندازی کے ذریعہ نکالا جائے گا۔پھردوسرے شمارے میں۱۶ معاونین اور پہلے شمارے کے باقی بچے ۱۵ معاونین یعنی کل ۳۱ معاونین میں سے کسی ایک کا نام قرعہ اندازی سے نکالا جائے گا۔اس طرح ایک معاون کو تین سال تک قرعہ اندازی میںحصّہ لینے کے مواقعے ملتے رہیں گے۔یہ انوکھی اِسکیم یقینا ادبی دُنیا میںایک فضا بنائے گی۔ اور نئی نسلیں اِس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے موقف میں آجائیں گی۔ 

چوتھی اور آخری بات،یہ کہ ظاہر ہے یہ جب ’’عالمی‘‘ انوارِ تخلیق ہے تو اِ س میں فی الواقع عا  لمیت کی جھلک ضرور نظر آنی چاہئے، جیسا کہ ہم نے اِبتدا میں عرض کیا ، اِس وقت اِ س میں چار ممالک کی نمائندگی نظر آتی ہے۔ چنانچہ مستقبل کے ’’موسم ناموں‘‘ میں قارئین دیکھیں گے کہ اِس میں لکھنے والوں میں اب عالم کے مختلف خطوں کے ادیب و شعراء شامل ہوں گے۔مختلف اصناف میں تخلیقات کا ایک سلسلہ شروع ہوگا۔اور دُنیاکے مختلف ملکوںسے زیادہ سے زیادہ نام اِس کے صفحات پر جگمگارہے ہوں گے۔احبا ب سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

جن پہلوئوں سے ’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘کا نیا پن ہم نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے اُمیدکے اِس کے مطالعہ کے بعد ہمارے قارئین پرمزید کچھ اورنیے پہلو ضرور کھلیں جواِس کی عالمی رسائی پر دال ہوں گے۔اور نتیجتاً اُن کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اِن کے بارے میں خطوط کے ذریعے اپنی آراء سے اربابِ رسالہ کو اوررسالے کے قارئین کوآگاہ کرائیں گے۔ 

خدا کرے کہ یہ رسالہ واقعی عالمی ادب کے اُن رجحانات کا فی الواقع علمبردار بن جائے ، جن سے عالمِ اِنسانی کے ذوقِ سلیم کا حقیقی سامان فراہم ہو۔اور اِنسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشارمختلف ممالک کے ادیب و شعراء اِس میں اپنی تخلیقات کو شائع فرما کر فخر محسوس کریں۔
محترم ڈاکٹرایم اے حق صاحب کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے دُعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِن کے عزائم کو مزید بلند فرمائے اور کچھ کرگزرنے کی اُن کی اپنی دُھن میں مزید گہرائی اور استحکام عطا فرمائے اور’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘کوعلمی و ادبی تجلیات کابیش بہا مخزن بنائے۔ آمین۔


Azeez Belgaumi
43/373 Gapalappa layout
Bhuwaneshwari Nagar Park Cross
M K Ahmed Road
Kempapura
Hebbal Post
Bangalore 560024
azeezbelgaumi@hotmail.com

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 515