donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Badar Menhdi
Title :
   Jane Ghazal : Taaruf Va Tabsara

 

جان غزل  :  تعارف و تبصرہ
 
بدر محمدی,ویشالی، بہار
Mob:9939311612
 
  اردو غزل میں محبوب کو مختلف ناموں سے مخاطب کیا جا تا ہے۔ مثلاً جان ادا، جان وفا، جان حیا، جان چمن وغیرہ۔ انہی میں ایک نام جان غزل بھی ہے۔ غزل اردو شاعری کی محبوب ترین صنف ہے۔ یہ صنف سخن محبوب سے ہم کلامی کا فن ہے۔ یعنی غزل میں محبوب سے یا محبوب کی باتیں ہوتی ہیں لہٰذا محبوب کو جان غزل کہنا بالکل مناسب ہے۔ مشتاق دربھنگوی نے اپنی اس کتاب کے لئے اسی نام کو منتخب کیا ہے، جس میں غزل گو شاعرات کے کلام کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے کتاب ’’جان غزل‘‘ واقعی اسم با مسمیٰ ہے۔ یہ نام اس لئے بھی موزوں ہے کہ اس میں شاعرات کے چنندہ کلام کو یکجا کیا گیا ہے۔ ان سب نے اپنی اپنی جاندار اور شاندار غزلیں بطور نمونہ کلام اس کے لئے ارسال کی ہیں۔ بعض شاعرات کی نظمیں بھی شاملِ کتاب ہیں ۔اس لئے کتاب کے اولین صفحہ پر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جان غزل شاعرات کی غزلوں اور نظموں کا انتخاب ہے۔ یہ انتخاب مرتب کا نہیں بلکہ شاعرات ہی کا ہے۔ لیکن انہیں جمع کرنا بھی دشوار کن مرحلہ تھا۔ مشتاق دربھنگوی نے اس کے لئے ملک بھر کے اخبارات و رسائل میں مسلسل اشتہارات شائع کرائے۔ شاعرات نے ان کی گزارش پر لبیک کہتے ہوئے اپنی تخلیقات بھیجیں۔ ایس یم ایس اور ای میل کی بھی مدد لی گئی۔ اور یہ کتاب مقامی اور ملک گیر نوعیت کی نہ ہو کر بین الاقوامی حیثیت کی ہوگئی۔ واضح ہو کہ 232شاعرات پر مشتمل اس دستاویز میں بیرون ہند کی شاعرات کی تعداد 29ہے۔ عالمی سطح کے اس شعری گلدستے میں غیر مسلم شاعرات کی تعداد بھی خاصی ہے۔ ان شاعرات میں کہنہ مشق بھی ہیں اور نووارد بھی۔ یہ اندازہ ان کے کلام سے ہوتا ہے۔ ورنہ اس میں کسی کی تاریخ پیدائش درج ہے اور نہ آغا ز شاعری کا سن ۔ کسی کے استاد سخن کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ چاہئے تھا کہ نمونۂ کلام کے ساتھ ان سب کا سوانحی خاکہ بھی شائع کیا جاتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کتاب کی ضخامت بڑھ جاتی۔ قیمت بھی دو سو روپے نہ ہو کر اس سے کچھ زیادہ ہوتی۔ لیکن کتاب کی قدروقیمت دوبالا ہوجاتی۔
 
شعراء کے کلام اور کوائف کو کتابی شکل دینا کوئی نئی بات نہیں۔ ایک شاعر ایک غزل، شعرائے بنگالہ، شعرائے سمستی پور، عندلیبان غزل وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ حکمت شاد (شاہ جہاں پور) اور خالد سرحدی (مالیگائوں) بھی اس طرح کی کاوش میں لگے ہیں مگر کلام شاعرات کے گلدستہ کے سلسلے میں جان غزل پہلی کوشش ہے اور کامیاب کوشش ہے۔ اسے محولہ بالا کتابوں کے خواتین ایڈیشن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 272صفحات پر محیط یہ کتاب 2012میں منصۂ شہود پر آئی ہے۔ اس کا اندازہ پروفیسر منصور عمر اور سفیرالدین کمال کے قطعۂ تاریخ اشاعت سے بھی لگتا ہے۔ اخبار مشرق پبلیکشنز کی یہ پیش کش نسائی ادب کو فروغ دینا اور اس کی طرف لوگوں کی توجہ مرکوز کرانا ہے اردو کے غیر مسلم ادیب، ادب اطفال اور نسائی ادب پر توجہ دینے کی جو بات ان دنوں ہو رہی ہے، اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے مشتاق دربھنگوی نے نسائی ادب کا انسائیکلو پیڈیا پیش کیا ہے۔ اسے انٹرنیٹ جیسی سہولت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر الکٹرانک انٹرنیٹ نہیں پرنٹ میڈیا انٹر نیٹ کے طور پر۔ قارئین اس گلدستہ کے ذریعہ شاعرات سے متعارف تو ہوتے ہی ہیں۔ شاعرات کا باہمی تعارف بھی ممکنات کے دائرے میں آتا ہے۔ کتاب جان غزل قلمی دوستی کا بھی وسیلہ ہے لیکن افسوس کہ کچھ شاعرات نے فون نمبر اور بعض نے اپنی تصویر نہیں بھیجی ہے تاہم جو تصاویر جمع ہوئی ہیں وہ خوش نما مرقع پیش کرتی ہیں۔ ان تصاویر سے پیدا خوبصورتی سر ورق کی جان ہو گئی ہے۔ جتنا دیدہ زیب ٹائٹل پیج ہے۔ اندرونی صفحات بھی اتنے ہی خوب صورت اور خوب سیرت ہیں۔ صوری و معنوی دونوں اعتبار سے کتاب عمدہ ہے۔
 
’’جانِ غزل‘‘ ایک جہانِ غزل ہے اس لئے کہ اس میں کہکشانِ غزل ضوفشاں ہے، اس گلستانِ غزل میں بہارِ غزل انگڑائی لے رہی ہے۔ اس داستان غزل نے شان غزل کو وہ عظمت بخشی ہے کہ آسمان غزل، غزلوں کی قوس قزح سے بھر گیا ہے۔ قدردانِ غزل اس گلدستے کی داد دے رہے ہیں۔ کچھ اس طرح کی بات حلیم صابر نے کتاب میں شامل اپنے سپاس نامے میں کی ہے۔ نسیم فائق اور تنویر پھول کے قطعات بھی اس کے غماز ہیں۔ مگر ان سب سے زیادہ اہم ہے مشتاق دربھنگوی کا مفصل اور مدلل پیش لفظ جو ’’اردو شاعرات: امکانات و اشارات‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس دیباچے میں شاعری، اردو شاعری اور پھر غزل کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ اس میں اردو شعراء کی خدمات اور پھر شاعرات کا تعاون اور شاعرات کو درپیش مشکلات کا تذکرہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، ڈاکٹر رفعیہ شبنم عابدی، شگفتہ طلعت، علیم صبا نویدی اور ڈاکٹر شاداب ذکی بدایونی کی آرا بھی درج کی گئی ہیں۔ اس طرح شاعرات کے روبرو ہونے سے قبل بھرپور پس منظر پیش کیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں رہِ شاعری کی الجھنیں، شاعرات سے چشم پوشی، شاعر اور شاعرہ کی تفریق ختم کرنے اور برابر کا مقام دینے کی اپیل ہے۔ مشتاق دربھنگوی نے پاکستانی شاعرات کے معاملے میں حالات کو خوش گوار بتایا ہے جبکہ ہندوستان میں صورت حال امید افزا نہیں۔ انہوں نے پاکستانی نسائی شاعری کی وکالت کی ہے اور ان کے اوصاف گنائے ہیں مگر موازنہ کی غرض سے نہیں۔ ہندوستانی شاعرات کے تئیں یہ بات خوش آئند ہے کہ وہ اپنے سفر پر سنجیدگی سے رواں دواں ہیں۔ جناب مشتاق دربھنگوی نے ہندوستان کی موجودہ نسائی شاعری پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ان کی غزلوں میں صحت مند نسائیت کارفرما ہے۔ نسوانی جذبات و احساسات اور زبان و بیان کے ساتھ ان کے رنگ و آہنگ بھی سنورے ہیں۔ انہوں نے یہ کہنا چاہا ہے کہ نسائی غزلوں میں نسوانیت کی ترجمانی ہو تو یہ اس کی اصلیت ہوگی۔ یعنی ان کے مطابق ہندوستانی شاعرات میں نسائی لب و لہجہ کی کمی ہے۔ تاہم شاعرات کی غزلوں میں مشتاق دربھنگوی تخیل اور جذبے کے خوبصورت امتزاج کے قائل ہیں۔ ہم عصر شاعرات کے شعری اسلوب، خیالات کا تنوع اور جذبات کا ارتعاش ایسا ہے کہ نہ شور ہے اور نہ اونچی آواز۔ ان سب کا آہنگ دھیمااور سلگتا ہے۔ آج کی جدید ہندوستانی شاعرات غزل کے وسیلے سے اپنے اندر کے محسوسات کو بڑی کامیابی اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں۔وہ غزل کو زندگی کا ترجمان بنانے میں منہمک ہیں۔ ہمعصر شاعرات کی شعری خوبیاں بیان کرنے کے بعد کتاب کی اشاعت کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس سے قبل مغربی بنگال کی نسائی شاعری کو فوکس کیا گیا ہے۔ ریاست بنگال کی شاعرات کا جائزہ لیتے ہوئے مشتاق دربھنگوی نے صورت حال کو روشن اور تابندہ بتایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہاں کی نسائی شاعری میں، نسوانی موضوعات، جذبات و محسوسات کا اظہار، فنکارانہ ہنرمندی، خیالات کا تنوع اور ہمہ گیری کا احساس جاں گزیں ہے۔ مرتب نے مغربی بنگال کی شاعرات کی ذہنی بلوغیت کی بات کی ہے۔ اور کینوس کو وسیع بتایا ہے مگر صوبۂ بہار کے ضمن میں انہوں نے تنگ دلی کا ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ شروعات آشا پربھات سے کی گئی ہے جو بہار کی شاعرہ ہیں۔ ریاست بہار کی تقریباً ڈیڑھ درجن شاعرات کو شامل کتاب کیا گیا ہے۔
 
تقدیم و تاخیر کی شکایت سے بچنے کے لئے جان غزل میں ذکر شاعرات کی ترتیب حرف تہجی پر رکھی گئی ہے۔ ان دنوں اکثر یہی ترکیب اپنائی جا رہی ہے۔ اس کی ترتیب میں ریاست یا ملک کو بنیاد بنانے کی تکنیک بھی اپنائی جا سکتی تھی۔ جان غزل کا انتساب پروین شاکر کے نام ہے، جو نسوانی جذبات کے اظہار کو انتہائی دلکش اور معنی خیز پیرایہ بخشنے والی شاعرہ رہی ہیں۔یعنی پروین شاکر کو ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی چار غزلوں کو پہلے زینے پر رکھا گیا ہے۔ ان کی ولادت اور وفات سے متعلق قطعۂ تاریخ بھی پیش کیا گیا ہے۔ مشتاق دربھنگوی نے کتاب کو پروین شاکر کے نام معنون کر کے انہیں اس لئے آئیڈیل بنایا ہے کہ ان کا تعلق دربھنگہ سے رہا ہے۔ اس شہر کی کئی شاعرات کا تعارف ان کے کلام کے حوالے سے کرایا گیا ہے۔ کتاب جان غزل کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم عصر شاعرات کا تخلیقی کینوس بہت زیادہ کشادہ ہے۔ موضوعات کی رنگا رنگی، غنائی عنصر، شستہ و شائستہ بیانیاتی اسلوب، فکری وسعت، اظہار میں بلا کی روانی، مفہوم و معنی میں شدت مجموعی طور پران کی غزلوں میں پائی جاتی ہیں۔ خواتین شعراء میں نسوانیت بھی ہے اور مردانہ ہمت بھی۔ سچ بولنے کا حوصلہ ، حق بیانی اور راست گوئی ان کے شعروں میں جھلکتی ہے۔ اپنی محکومیت، بے چارگی، مرد کا ظلم و استبداد، دوستوں کی شکایت، قتل و غارت گری کا ذکر ان کے یہاں ملتا ہے۔ آج کی نسائی شاعری میں مقامی تصویر بھی ہے اور عالمی منظرنامہ بھی۔ دعا بھی ہے اور دوا بھی۔جان غزل کی ہر غزل بر زبان غزل ہے۔ ان غزلوں میں سلاست و روانی بدرجہ اتم موجود ہے۔ تجربات و مشاہدات کی سطح پر غزل کی آبرو بچانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ رنگ تغزل سے لبریز جان غزل گلستان محبت کی مصداق ہے۔ اس میں ایک انجمن سی آراستہ ہے۔ اس انجمن کی بعض شاعرات ایسی ہیں جو رسائل میں دیکھی جاتی ہیں۔ ان کا تعارف حیرت کی بات نہیں مگر نئے چہروں سے تعارف یقینا بڑی بات ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہے تو پھر میدان شاعری میں کیوں نہیں۔ ان کے بدلتے تیور کا اندازہ جان غزل کی شاعری سے ہوتا ہے۔ کتاب جان غزل عہد حاضر کی شاعرات کا آئینہ ہے۔ شاملِ کتاب کچھ غزلیں طرحی ہیں اور کچھ غیر طرحی۔ ان میں ردیف و قافیہ کی نباہ بھی ہے اور نئی زمین کی اختراع کا تجربہ بھی۔ کچھ غزلیں غیر مردف بھی ہیں۔تراکیب، رمزو ایما، استعارہ اور علائم نے ان غزلوں میں شاعرانہ لطف پیدا کیا ہے۔ ایسے اشعار کی خاصی تعداد ہے جن سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔ مثلاً
 
تعلیم یافتہ ہوئیں جس دن سے بیٹیاں
بستی میں ایک شخص بھی جاہل نہیں رہا
(عظمیٰ اختر)
میں نے قلم کو اپنا مقدر بنا لیا
میری ہتھیلیوں کو حنا ڈھونڈتی رہی
(سیما زیدی)
آندھی کا کوئی خوف نہ خطرہ ہوائوں کا
میں نے دئے بنائے ہیں سورج کو توڑ کے
(انجم رہبر)
مدتوں بعد میں شیشے کی طرف لَوٹی ہوں
مدتوں بعد مرے شہر میں لَوٹا کوئی
(نغمہ نور)
اپنی راہوں میں تھی گرچہ تاریکیاں
شمع اوروں کے گھر میں جلاتی رہی
(سنجیدہ عنبریں)
اس تبسم فروش دنیا میں
غم کے ماروں کو کون پہچانے
(مہناز وارثی)
 
جان غزل کی تکمیل میں جن حضرات کا تعاون حاصل ہے، اُن سب کا شکریہ مشتاق دربھنگوی نے ادا کیا ہے۔ الغرض چند خامیوں اور نسبتاً زیادہ خوبیوں سے مزین ’’جان غزل‘‘ عہد حاضر کی اردو شاعرات کی دستاویز ہے۔ جب مردم شماری اور ووٹر لسٹ کی درستگی میں لوگ چھوٹ جاتے ہیں تو شاعرات کی دستاویز نا مکمل رہنا فطری ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کے دوسرے ایڈیشن کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح جان غزل کی پہلی جلد خواتین شعراء سے اپنا نمونۂ کلام بھیجنے کی گزارش ہے۔ یہ شعری گلدستہ نئے لوگوں کو شاعرات بنا سکتا ہے اور نو مشق شاعرات کے لئے اصلاح سخن کا بھی باعث بن سکتا ہے۔یہ سب تو مستقبل کی باتیں ہیں لیکن فی الوقت جو اس کی اہمیت و افادیت ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ مختلف شاعرات سے روشناسی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازات کی وضاحت کا وسیلہ بھی ہے۔ اس کے مطالعہ سے ہی ہم جان سکتے ہیں کہ نسیم نیازی (دہلی) اور نسیم نیازی (حیدرآباد) کی شاعری میںکیا فرق ہے۔ بہت ساری وجہوں سے بسا اوقات جان غزل کے اوراق الٹنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا ہر گھر میں اس کی ایک کاپی کا موجود رہنا اچھی بات ہے۔
 
………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 770