donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Qurratul Ain Haider Ke Afsane Me Samaji Masael Ki Akasi


ڈاکٹر احسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


قرۃ العین حیدر کے افسانے میں سماجی مسائل کی عکاسی

 

    قرۃ العین حیدر ۲۰ ؍جنوری ۱۹۲۷ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم ایک نامور فنکار تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں ہوئی ۔ ۱۹۴۷ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔ جدید انگریزی ادب کا کورس ۱۹۵۲ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے مکمل کیا۔ آرٹ کی تعلیم گورنمنٹ اسکول آف آرٹ لکھنؤ سے اور صحافت کی تعلیم ریجنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنک لندن سے پورا کیا۔

    ۱۹۴۷ء سے پہلے ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اگر ایک طرف سامراجی نظام کے ظلم و ستم اور طرح طرح کے استحصال سے لوگ پریشان تھے تو دوسری طرف جدید تعلیم اور بیرونی اثرات کی وجہ سے قومی بیداری اور سیاسی شعور بھی لوگوں کے اندر پیدا ہورہا تھا۔ کئی اصلاحی تحریکیں بھی قومی بیداری میں نمایاں رول ادا کر رہی تھیں۔ دو عظیم جنگوں نے بھی ملک کے لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ انقلاب اول نے تقریباً ساری دنیا کو سیاسی بیداری سے آشنا کردیا تھا۔ ان ساری وجوہات کا اثر ہندوستان کی تحریک آزادی نمایاں طور پر پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ عوامی جدوجہد میں تیزی آتی گئی اور سامراجی گرفت رفتہ رفتہ کمزور پڑنے لگی۔ بالآخر ۱۹۴۷ء میں انگریزوں کی غلامی ختم ہوگئی لیکن تقسیم ملک کی صورت میں جو ایک بڑا سانحہ پیدا ہوا اس نے انسانیت کی جڑیں ہلادیں ۔ گاندھی جی کے جس عدم تشدد کے اصولوں پر چل کر ملک نے آزادی حاصل کی تھی تقسیم ملک کے بعد دونوں ملکوں نے قتل و خون اور غارت گری کا ایک ایسا روح فرسا منظر پیش کیا کہ ساری انسانی قدریں مجروح ہوکر رہ گئیں۔ تقسیم ملک کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دونوں ملکوں سے ایک دوسرے کے یہاں تبادلہ ہوا۔ مہاجرین کی شکل میں دونوں ملکوں میں ایک بڑی آبادی اپنے اپنے مسائل کے ساتھ داخل ہوئی۔ اپنے آبا و اجداد کی دھڑتی سے بچھڑی ہوئی۔ اپنی جڑوں سے اکھڑی لٹی پٹی اور بدحال آبادی۔ یہ آبادی نئی جگہ ، نئی فضا اور نئی دھڑتی پر آکر اجنبیت کے ماحول میں خود کو پھر سے بسانے اور آباد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان سارے مسائل کا اثر اردو فکشن پر بھی پڑا ۔ چونکہ ہر دور میں ادب نے اپنے مسائل کی عکاسی کی ہے اس لیے اس پر آسیب دور سے اپنے آپ کویہ کیسے بچائے رکھتی۔ یہ سارے مسائل اس عہد کے اردو فکشن میں موضوع بن کر ابھرے ۔ دوسرے فکشن نگاروں کی طرح قرۃ العین حیدر نے بھی اپنے افسانوں اور ناولوں میں ان مسائل کی عکاسی کی ہے۔ چونکہ انگریزی حکومت سے مفاہمت اور روداری برت کر اونچے اونچے عہدے حاصل کرنے والے طبقے کی نئی نسل کے لئے تحریک آزادی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی اس لیے کہ وہ طبقے بذات خود انگریزی حکومت سے جڑے ہوئے تھے۔ قرۃ العین حیدر بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے تحریک آزادی کے دور کے مسائل کو انہوں نے زیادہ کھل کر پیش نہیں کیا۔ ہاں جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں اس بات کو اٹھایا ہے وہ بھی خاص کر اپنے ناولوں میں۔ لیکن جب تقسیم ملک کے بعد طرح طرح کے سانحے پیش آنے لگے تو وہ خود کو خاموش نہ رکھ سکیں۔ وہ فرماتی ہیں:۔

’’تقسیم کے نتیجے میں ایک نئے ملک کا قیام عمل میں آیا ۔ فرقہ وارانہ فسادات بڑے پیمانے پر ہوئے اور بے شمار افراد کو ترک وطن کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ تقسیم اور اس کے بعد کے واقعات کے نتیجے میں بر صغیر ہندو پاک کے عوام کی زندگی جغرافیائی، سیاسی، مذہبی، تہذیبی، علاقائی، لسانی اور نفسیاتی اعتبار سے بے حد متاثر ہوئی۔ انفرادی اور اجتماعی رشتوں کے نئے پہلو ظاہر ہوئے۔ فرقہ وارانہ فسادات اور ہجرت نے وقتی اور دیرپا جسمانی، ذہنی، سیاسی  اور معاشرتی اثرات مرتب کئے۔ ہزاروں زندگیوں پر تقسیم کے اثرات تو پڑے ہی ، ادیب اور فنکار بھی ذاتی طور پر تقسیم سے متاثر ہوئے۔‘‘

 (ہند و پاک میں اردو ناول، ڈاکٹر انور پاشا، ص:۷۳)

    اس دورکے فکشن نگاروں میں شاید ہی کوئی ایسا فکشن نگار ہوگا جس نے تقسیم ملک اور اس کے بعد کے حالات کو موضوع نہ بنایا ہو ۔ تمام فنکاروں نے تقسیم ملک کو ایک غیر فطری حادثہ قرار دیا اور دو قومی نظریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس فہرست میں قرۃ العین حیدر کا نام سرفہرست ہے۔ چونکہ وہ ذاتی طور پر اس حادثے سے بے حد متاثر ہوئی ہیں اس لئے ان کی ذاتی زندگی اور فن پر اس کا سب سے زیادہ گہرا اثر پڑا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے :۔

’’۱۹۴۷ء میں ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی ۔ والد کے انتقال کے بعد یہ میرے لیے دوسرا زبردست ذہنی اور جذباتی حادثہ تھا۔ میں نے افسانے ۱۹۴۴ء سے لکھنے شروع کردئے تھے۔ تقسیم ہند کے صدمے نے ۱۹۴۴ء کے آخر میں ساڑھے انیس سال کی عمر میں مجھ سے ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ لکھوایا جو میرا پہلا ناول تھا اور جسے آج بھی اردو کے چند اچھے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس صدمے کے زیر اثر لکھا۔ ‘‘

 (قرۃ العین حیدر ، آئینہ خانہ میں، ماہنامہ ’’نقوش‘‘ کراچی، ۱۹۶۲ء ، ص:۷۷)

    تقسیم ہند نے ان کے پورے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ جغرافیائی دور کی پابندیوں نے ایک ہی خطے کے باشندوں میں اجنبیت کا احساس پیدا کردیا تھا۔ میل و محبت اور بھائی چارگی کا جذبہ نفرت و حقارت میں تبدیل ہوگیا تھا۔ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب بھی بہت حد تک تباہ ہوگئی تھی۔ رشتوں اور ناطوں کے درمیان سرحد کی ایک لکیر کھینچ دی گئی۔ جو لوگ یہاں رہ گئے انہیں اپنے ہی ملک میں اجنبی کا احساس ہونے لگا۔ قرۃ العین حیدر بھی اس حالات سے دوچار ہوئیں۔ انہیں وہ تمام قدریں مٹتی اور تباہ ہوتی ہوئی نظر آئیں جو انہیں بے حد عزیز تھیں ۔وہ ان قدروں کو بھلا نہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی یادوں کی کسک ان کی بیشتر تخلیقات میں موجود ہیں۔ وہ تقسیم ملک کے خلاف اپنی تحریروں کے ذریعہ احتجاج کرتی رہیں:۔

’’قرۃ العین حیدر نے تقسیم کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا گرچہ وہ پاکستان کے قیام کے بعد کچھ عرصہ کے لئے وہاں گئیں بھی اور ان کا وہاں قیام بھی رہا لیکن وہ ذہنی سطح پر کبھی متحدہ ہندوستان کی گرفت سے خود کو باہر نہ نکال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو خیر باد کہہ کر ہمیشہ کے لئے پھر ہندوستان آگئیں۔ انہوں نے تقسیم کے جواز اور دونوں نظریوں کو کبھی قبول نہ کیا اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور اس تہذیب کی اقدار و روایات کو ہمیشہ ایک آئیڈیل کے طور پر اپنی یادوں میں زندہ رکھا۔ ‘‘

 (ہند و پاک میں اردو ناول ۔ ڈاکٹر انور پاشا، ص:۷۵)

     قرۃ العین حیدر نے تقسیم ملک اور اس سے پید ا شدہ انسانی سماجی اور سیاسی مسائل سے متاثر ہوکر کئی افسانے اور ناول لکھے۔  تقسیم ملک نے ان کے ذہن کو بے حد متاثر کیا تھا ۔ ’’ہائو سنگ سوسائٹی‘‘ میں بھی انہوں نے ملک کی تقسیم اور لوگوں پر پڑنے والے اس کے برے اثرات کو موضوع بنایا ہے ۔ اس سلسلے میں ترنم ریاض فرماتی ہیں:۔

’’تقسیم ہند اور اس سے پیدا شدہ صورت حال قرۃ العین حیدر کا ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ ان کا مشہور افسانہ ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ نو مولود اسلامی مملکت پاکستان کے ابتدائی سیاسی اور سماجی حالات کی گہری تصویر کشی کرتا ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستانی سماج میں جو نئے طبقات ابھر کر سامنے آئے، ان کی سوچ، نفسیات اور طرز عمل کو اس افسانے میں نہایت فنکاری کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی انداز فکر جو اس ملک کے مفاد خصوصی (Vested Interested)کے لئے خطرہ تصور کئے جاتے ہیں، ان کے تئیں مملکت پر جو قہر نازل ہوتا ہے اس کے رونگٹے کھڑے کرنے والی عکس بندی بھی اس افسانے میں نظر آتی ہے‘‘    

(قرۃ العین حیدر، ترنم ریاض، ماہنامہ ’’ایوان اردو ‘‘ دہلی ( قرۃ العین حیدرنمبر

جنوری ۲۰۰۸ء ص:۴۱
    مختصر یہ کہ قرۃ العین حیدر نے ملک کی تقسیم اور ہجرت کے المیوں کو موضوع بناکر بہت سے افسانے لکھے ،خاص طور سے ان کے ابتدائی افسانوں میں بین الاقوامی مسائل جو عالمی جنگ سے پیدا ہوئے تھے جنہوں نے ہماری جذباتی، ثقافتی اور روحانی بنیادوں کو متزلز ل کردیا تھا ، ملک کے تقسیم کے بعد بر صغیر کی معاشرتی زندگی جس اخلاقی زوال اور اقتدار کی شکست و ریخت سے دو چار ہوئی، انسانی رشتوں کی پامالی جس طرح حقیقت بن کر ہمارے سامنے آئی ان کی سچی اور جیتی جاگتی تصویریں ان کے ابتدائی افسانوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔


 


٭٭٭

Ahsan Alam
Mog: Raham Khan, Darbhnaga
Mob: 9431414808

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 573