donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Javed Jamil
Title :
   Secular Hindustan Ka Khwab

 

"سکیولرہندوستان کا خواب’’مسلم --  منزل‘‘ مقصود اور نقشہء راہ 
 
(مسلم وزن آف  سکیولر انڈیا -- ڈسٹینیشن اینڈ روڈ میپ)
 
از ڈاکٹر جاوید جمیل
 
 ٢١ مئی کو میرے اپروچ پیپر، "مسلم وزن آف انڈیا" کی رونمائی کے بعد سیاسی، سماجی اور ملی شعور رکھنے والی سرکردہ شخصیت میں پیپر کے تئیں جس دلچسپی کا اظھار کیا جا رہا ہے وہ میرے لئے یقینا بَِاعث اطمینان ہے کیونکہ میں نے اس پیپر کو تیار کرنے میں حد درجہ محنت اور مشقت کی ہے- خوشی کی بات یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکا، یوروپ، آسٹریلیا اور عرب ممالک میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی اس پیپر کو تاریخی کارنامہ قرار دیا ہے- انٹرنیٹ سے جڑے افراد کو تو پیپر کی تفصیلات سے کافی آگاہی ہے، لیکن عوام تک ابھی اس کی تفصیلات اور اہمیت نہیں پہنچی ہے- اس ٣٥٠ سے زیادہ صفحات پر مبنی پیپر کی مکمل حقیقت تو اسے پورا پڑھ کر ہی سمجھی جا سکتی ہے لیکن اس مضمون میں میں چند اہم نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا-
 
  یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمان ہر شعبہ میں پسماندگی کے دور سے گزر رہے ہیں - خواہ سماجی سطح پر ہوں یا اقتصادی اور سیاسی سطح پر، مسلمانوں کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے- مسائل کی ایک طویل فہرست ہے، اورسماجی اور اقتصادی نقطہ نظر سے انکا وجود ہی خطرہ میں نظر آتا ہے-پچھلے کچھ سالوں سے سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ کمیشن کی رپورٹوں پر بحث جاری رہی ہے مگر یہ بحث سیاسی دانو پیچ کا شکار ہو گئی ہے –
 
  مسلمانوں کا خود اپنے محبوب ملک میں کیا رول ہونا چاہیے، ایک ایسے ملک میں جو اقتصادی میدانوں میں زبردست ترقی کی رہ پر گامزن ہے، انکا نصب العین کیا ہونا چاہیے اور اسکو حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے، اور اسلامی اصولوں اور آئین ہند کے دائروں میں رہتے ہوے ترقی کا کون سا ماڈل اختیار کیا جانا چاہیے، یہ سب وہ خصوصی سوال ہیں جن پر میں نے اپنے اپروچ پیپر میں بحث کی ہے-اس اپروچ پیپر میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے قومی مقاصد اور ترقی کے طریقہ پر مسلم زاویہ نگاہ پیش کیا گیا ہے- اسکے دو انتہائی اہم مقاصد ہیں:١- ہندوستان کے مقاصد_ ترقی کا ایک مسلم پس منظر اور مسلم زاویہ نگاہ پیش کرنا اور مسلم اور اسلامی نقطہ نظر سے اسکا تجزیہ کرنا  اور٢- مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی اقامت و استحکام کااسلامی اصول و ضوابط، ہندوستانی کلچر اور ملکی مفادات کے دائرے میں ایک جامع، ہمہ جہتی  اور مفصّل منصوبہ پیش کرنا-
 
 مسلمانوں کی اس ملک میں ٣ حیثیتیں  ہیں- آئینی نقطہ نظر سے وہ اقلیت ہیں اور اس بنیاد پر ان تمام حقوق کے تقاضے کا حق رکھتی ہے جو ملک کا آئین اقلیتوں کو دیتا ہے- اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر جایز حربہ  استعمال کر سکتے ہیں.مسلمانوں کی دوسری حیثیت ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی ہے- اور اس حیثیت کی بنیاد محض نسل یا فرقہ کی نہیں ہے- بلکہ ان کو یہ مکمل احساس ہونا چاہیے کہ بحیثیت مسلمان انکے کچھ مخصوص عقائد اور نظریات ہیں جو انکے دین کا لازمی حصّہ ہیں- انکا دین انھیں حرام اور حلال کی تمیزسکھاتا ہے، اخلاقی اقدار اور اعلی کردار کی تعلیم دیتا ہے، اور سکھاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات پوری انسانیت کو تحفظ فراہم  کرنے اور انکوہر قسم کے استحصال، ظلم اور برایوں سے دور کرنے کے لئے ہیں- ایک مخصوص نظریہ رکھنے کی بنیاد پر انکا فرض بنتا ہے کہ  ہندوستان کی عوام کی توجہ ان اخلاق و کردار کی پامالیوں کی طرف دلائے جو دوسرے بہت سے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی سماجی، خاندانی اور اخلاقی اقدار کی پامالی کا سبب بنی ہی ہیں- اس مقصد سے انھیں ہندوستان کے دوسرے مذھبی فرقوں کو ساتھ لیکر ملکگیر تحریک چلانا چاہیے-اپروچ پیپر میں تفصیل کے ساتھ اعداد و شمار کی روشنی میں ان مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے-
 
انکی تیسری حثیت میں وہ اس اکثریت کا حصہ ہیں جو غریب  ، نادار اور مجبور ہے- اس حثیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے- مسلمانوں کے بیشتر مسائل وہی ہیں جو ملک کی ٩٠ فیصد آبادی کے ہیں- اور اگر مسلمان غربت اور استحصال کے خلاف جد و جہد کرے تو یقینا اسے ملک اور ملت دونوں کو زبردست فائدہ پہنچےگا-
 
میں نے ملک کے ترقیاتی منصوبوں اور انکے مقاصد پر مسلم نقطۂ نگاہ سے بحث بھی کی کی ہے اور ملک کی موجودہ سمت کا تجزیہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے - بلخصوص اقدصادی غیرمساوات، انسانی اقدار کی پامالی، سماجی برائیاں اور انکی مذموم تجارت اور اقتصادی قوتوں کی اجارہ داری کا ایک  تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے- 
 
ا پیپر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور تقریباً سبھی مسائل پر گفتگو کی گئی  ہے خواہ وہ مذہبی اور مذہبی تعلیم سے متعلق ہوں، عصری علوم سے ، یا اقتصادی مسائل (بشمول کورپورٹ سیکٹر، درمیانی اور چھوٹی صنعتیں)، شہری اور دیہی سطحوں پر ترقی، میڈیا، سماجی مسائل، اسلامی حدود میں خواتین کے حقوق، صحت سے متعلق مسائل - ان مسائل کے لئے حکومت اور خود مسلمان ورور کے ذمہ دار رہے ہیں-  -اپروچ پیپر ان نظریاتی مدعوں پر بھی ایک تجزیہ پیش کرتا ہے جن سے ملک و قوم دوچار ہے- اور ایک ایسا خاکہ پیش کرتا ہے جس میں نظریاتی پوزیشن  برقرار رکھتے ہوئے عملی اقدامات کئے جا سکیں-٦- 
 
 ذیل میں پیپر کے چند خصوصی نکات درج ہیں:
 
اس پیپر میں یہ تجزیہ کیا گیا ہے کہ ملک کی ترقی مکمّل نہیں ہو سکتی جب تک (١) اس میں تمام طبقات بدرجہ اتم شامل نہ ہوں، (٢) ملک کی تمام قوموں کی معقول حصّہ داری نہ ہو اور کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ اسکو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے  (٣) یہ ترقی تمام صوبوں اور علاقوں پر محیط نہ ہو، (٤) یہ شہری اور دیہی علاقوں پر یکساں توجہ نہ دیتی ہو (٥) یہ اس بات کو یقینی نہ بناتی ہو کہ ترقی کا ماڈل اخلاقی اقدار اور ہنوستان کی ملی جلی ثقافت اور سماجی امن و چین کو پامال نہیں کریگا –
  -یہ کوشش کی گئی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو،اعداد و شمار اور زمینی حقائق کی روشنی میں مناسب حل پیش کئے جائیں جن سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے ملک کا فائدہ ہو-
-اس میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی ارتقا اس انداز میں ہو کہ وہ صرف اعداد و شمار کے اعتبار سے  اقتدار کا حصّہ نہ بنیں بلکہ ملک کی تمام پالیسیوں میں موثر انداز سے ایک قابل قدر کردار ادا کر سکیں.
- اس پلان میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اس نہج پر ہو کہ وہ ایک ایسی متحرک قوم کے طور پر ابھر کر سامنے آے  جو عالمی فکر رکھتی ہو. ہر میدان میں اپنی چاپ چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہو جو زیادہ صحت مند، پر امن، انصاف اور مساوات پر مبنی ہو اور جس میں حرام و حلال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہو-
 - اس میں پیش کے گئے خاکہ کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
 
(١) اپپلایڈ اسلامکس یعنی تطبیق اسلام کو اسلامی مدارس میں ایک باضابطہ شعبہ کے طور پر داخل کیا جائے- اس  شعبہ کے تحت عالمی سطح پر چل رہی پالسیوں اور پروگراموں اور جدید فلسفوں کا اسلامی اصولوں کی روشنی میں تنقیدی تجزیہ  کیا  جائے اور اسلامی اصولوں کی مدد سے متبادل  ماڈل اور پروگرام پیش کئے جائیں- تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی غیر اسلامی پروگرام یا پالیسی خاموشی کے ساتھ ملک یا سماج میں داخل نہ ہو سکے اور باطل نظریات، تحریکات اور پروگراموں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جا سکے-
 
2- جدید تعلیم کے مسلم اداروں میں بھی اس  شعبہ کو داخل کیا جائے اور اسلامی اقتصادیت، اسلام اور سائنس، صحت کا اسلامی ماڈل، جیسے موضوعات پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ علوم_ اسلام کے  ماہرین عصر_ حاضر سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں اور بہتر دنیا کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر سکیں اور جدید نظام کی کمزوریوں سے انسانیت کو نجات دلا سکیں- (٢)  اسلامی فقہ کے دائرے میں رہتے ہوے مساجد کو ایسے اسلامی مراکز میں تبدیل کیا جائے جو اخلاقی اور سماجی معاملات میں مسلمانوں کی بھرپور اصلاح اور رہنمائی کر سکیں-
 
 (٣) تعلیمی ڈھانچہ کو اعلی ترین معیار پر استوار کیا جائے، اعلی تعلیمی اداروں کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا جائے جنمیں اخلاقی طور پر بہترین انسان بننے کی تربیت کے ساتھ ساتھ اعلی ترین  جدید  تعلیم فراہم کی جائے جو کسی طرح بھی دوسرے اداروں سے کم نہ ہوں- ساتھ ہی پرائمری اور سیکندری تعلیم پر توجہ دی جائے-
 
4-ایک عوامی کارپوریٹ انڈیا ((Corporate  Peoples    India) 
 کے قیام کا منصوبہ جس میں مسلمان بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں- مسلمان ١٨ کروڑ کنزومر ہیں اس لئے کارپوریٹ سطح پر کاروبار کی کامیابی یقینی ہے- کارپوریٹ سیکٹر میں بڑے پیمانہ پر شمولیت کے بغیر اس کارپوریٹ دنیا میں اقامت و استقامت ممکن نہیں ہے- اسلامی داروں میں رہکر دولت کی پیداوار پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے-
 
(٥) ساتھ ساتھ درمیانہ اور چھوٹی صنعتوں اور تجارت (ٹریڈنگ) کے تمام دوسرے میدانوں پر بھی توجہ کی ضرورت ہے-اور ان سرگرمیوں کو دیہی اور شہری سبھی  علاقوں میں ترقی دیے جانے کی ضرورت ہے-  
(٦) اسلامی بنکنگ اور دوسرے اسلامی فائنینشل اداروں کے قیام اور انکی کامیابی کے لئے مستقل جد و جہد جاری رہنی چاہیے-
(٧) ہر سطح پر صحت کے ڈھانچے کو مضبوط کئے جانے کی ضرورت ہے جس میں زیادہ سے زیادہ مسلم ڈاکٹرس اور پیرامیڈیکل اسٹاف شریک  ہوں تاکہ مسلم آبادیوں کا معیار صحت  بہتر سے بہتر بنایا جا سکے- مسلم علاقوں میں پی ایچ سی اور دوسرے صحت کے ادارے قائم کرانے کے لئے جد و جہد ہو-
(٨) مسلم علاقوں مے طہارت اور صفائی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دی جائے- ہر شہر میں Peace  colonies  قائم کی جائیں جن میں جدید آرکیٹکٹ کے ذریعے تمام جدید سہولیات مھیا کرائی جائیں جو مسلمانوں کی مذہبی،  ثقافتی اور سماجی ضرورتوں کو پورا کر سکیں اور انکا معیار_ زندگی بہتر سے بہتر ہو سکے-
 
(٩) دیہی اور شہری ترقی پر یکساں زور دیا جائے-چھوٹے چھوٹے نئے شہر قائم کئے جائیں تاکہ بڑے شہروں میں بیشتر آبادی جمع نہ ہو جائے-  
(١٠) ہندوستان میں ایک ذمّہ دار  میڈیا کے قیام میں مسلمان نمایاں طور پر اپنا کردار ادا کریں جو ہندوستان کے کلچر اور اخلاقی قدروں کا پابند ہو اور امن و سلامتی اور خیر سگالی کے اصولوں  کو فروغ دے - (١١) ان جی ا و  (NGO ) سیکٹر کا صحیح استعمال کر کے اسکو عوام کی سماجی اور اقتصادی استقامت کے لئے  اور استحصال اور برائیوں کے خلاف تحریک کا آلہ بنایا جائے اور مسلمان اس کار_ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں-  
 
(١٢)اسلامی دائروں میں رہکر خواتین کے حقوق اور تحفظ کے تمام انتظامات کئے جائیں اور انکی سماجی اقامت کا اسلامی خاکہ تیار کیا جائےجس میں انکے سماج میں نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت پیدا  کرنے کا پلان ہو اور ساتھ ساتھ مغربی نظام کی خباثتوں سے تحفظ بھی یقینی بنایا گیا ہو-
(١٢) غلیظ اقتصادیت  کے خلاف ایک کل مذہبی متحدہ محاذ  کا قیام تاکہ سبھی مذاہب کے لوگ غلیظ اقتصادیت کے تمام پہلوؤں (حرام افعال کی تجارت، اقتصادی غیر برابری اورر استحصال، بعد عنوانی) کے خلاف متحد ہو کر تحریک  چلا سکیں-   
 
(١٣) ایک ایسے علمی سیاسی نظام کی تعمیر جس میں یکسانیت کی بنیاد پر  تمام ممالک سے بہتر تعلقات ہوں، بالخصوص ہنوستان اور مسلم ممالک کے تعلقات کے مثبت اثرات پر توج-
 َ-اپروچ پیپر میں مسائل کی نشاندہی سے زیادہ توجہ مسائل کے حل پر دی گئی ہے- اور مختلف میدانوں سے متعلق ١٦٠ سے بھی زیادہ تجویزات پیش کی گئی ہیں- اس میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ مقاصد کے حصول کے لئے ملت   اسلامیہ اور حکومت دونوں کو ملکر کام کرنا ہوگا- لیکن سب سے زیادہ ذمّہ داری خود مسلمانوں کی ہے کہ وہ اپنی ترقی کے لئے انتھک محنت کریں، مناسب حکمت عملی تیار کرکے  منظّم طریقہ سے اسکو عملی جامہ پہنائیں اور جہاں جہاں حکومت پر دباؤ کی ضرورت ہو اسمیں کوئی ڈھیل نہ برتی جائے-
 
  حکومت سے مطالبات میں صرف مسلمانوں سے متعلق مطالبات نہیں ہیں بلکہ ایسے مطالبات بھی شامل ہیں   جنکا تعلّق پورے ملک کی عوام سے ہے- انمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
 (١) آئین میں “fundamental prohibitions”  (بنیادی منکرات) کی شمولیت تاکہ سماجی  برائیوں اور غلیظ اقتصادیات کا مقابلہ کیا جا سکے-اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو تقویت مل سکے-
(٢)“Right to Health” (حق صحت) کی بنیادی حقوق کی فہرست میں شمولیت تاکہ صحت کو دیگر تمام امور پر فوقیت حاصل ہو سکے- 
 (٣) ایسی پالیسیوں پر عمل درامد جن سے ملک میں اجگر کی شکل اختیار کرنے والی اقتصادی نابرابری( economic disparity ) میں نمایاں کمی لائی جا سکے اور ایسی ٹیکس پالیسی اختیار کرنے پر زور جس سے  ٹیکسوں کی اکثریت امیروں سے وصول کی جائے نہ کے غریب عوام سے جیسا کہ موجودہ صورت_ حال ہے-
 
(٤) ہر سطح -- حکومت، کارپوریٹ، این جی او وغیرہ -- پر بد عنوانی کے خاتمہ کے لئے ایک مضبوط لوک پال بل سمیت موثر اقدامات کے جاہیں-
(٥) آبادی کے تناسب کے حساب سے مرکز اور صوبائی حکومتوں میں مسلم وزرا کی شمولیت ہونی چاہیے، پارلیمنٹ اور اسسمبلیوں میں بھی آبادی کے تناسب سے نمایندگی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور مختلف سیاسی پارٹیاں  ان پارٹیوں کو پچھلے انتخابات میں ووٹوں کی بنیاد پرمسلمانوں کو ٹکٹ فراہم کرے - (ہندووادئ پارٹیوں کو چھوڑ کر دیگر سبھی پارٹیوں میں مسلمانوں کے ووٹ کا تناسب انکی آبادی میں تناسب سے زیادہ ہوتا ہے-)
 
(٦) سول سروسز، فوج، اور دوسری انتظامی امور سے متعلق سروسز میں مسلمانوں کی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں -  Equal Opportunities Commissionکا قیام جلد از جلد کیا جآیے٠   
(٧) حکومت  مسلمانوں کو نوکریوں میں  کم از کم ١٠ فی صد رزرویشن فراہم کرے جن کا ٧٥ فی صد پسماندہ طبقات کے لئے مختص ہو- (کسی بھی ایسے دوسرے فارمولہ پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے جو مسلمانوں کو قبول ہو اور آئین ہند میں جس کی گنجایش ہو سکے-.)   
(٨) مسلم شہری علاقوں اور مسلم دیہاتوں تک اچھی سڑکوں  کے ذریعے رسای، بجلی کی فراہمی اور صاف پانی اور صفائی ستھرائی کو یقینی بنائے جانے پر زور-
(٩) کم از کم ٢٠  فی صد بجٹ مسلم این جی او کو فراہم کے جانے کا مطالبہ تاکہ فلاحی اسکیموں کا براہ راست فائدہ مسلمانوں کو پہنچ سکے- NGO  اسلامی کونسلنگ سنٹر ہر شہر میں قایم کریں جن کے ذریعے فقرا اور نشے میں مبتلا افراد اور جسم فروشی میں ملوث خواتین کو باہر نکالکر انھیں نی زندگی گزارنے کے لئے پروگرام چلائے جائیں. اور صحت کے سلسلے کی تمام کوششیں مسلم دیہی اور شہری علاقوں میں ہوں- اور  دیگر کمزور طبقات  کے لئے بھی مراکز کا قیام ہو-   
Prevention of Communal and Targeted Violence (Access to Justice and Reparations) Bill, 2011” بلا تاخیر منظور کیا جائے
(١١) اسلامی فائنینس کے لئے حکومت تمام ضروری اقدامات کرے-
 
ہم بھول گئے ہیں کہ ہماری اپنی خوبیاں اور کمزوریاں ہیں جو ان خوبیوں اور کمزوریوں سے مختلف ہیں جو دوسرے ہمارے اندر دیکھتے ہیں- ہمارے اپنے مخصوص نظریات ہیں، اپنا ایک طرز فکر ہے اور اپنے نسب العین حاصل کرنے کا اپنا طریقہ ہے- دنیا کا ہمارا اپنا ایک منفرد خواب ہے- افسوس ہے کہ ہم نے اپنے اس خواب کا اظھار کرنا ترک کر دیا ہے- اس ملک میں ١٨ کروڑ مسلمان ہیں- اتنی بڑی تعداد کا یہ تقاضا ہے کے ہماری پلاننگ بھی اتنی ہی بڑی ہو اور اسکے لئے ہم ملکی سطح پر اتنے بڑے پیمانے پر جد و جہد بھی کریں- 
 
 مسلمانوں کے خوابوں کا ہندوستان ایک ایسا ملک نہیں ہے جو دوسروں پر ظلم   کرے، دنیا پر اپنی اجارہ داری قایم کرنے کی کوشش کرے اور غیر اخلاقی قدروں کو بڑھاوا دے- بلکہ انکے خوابوں کا ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو امن و انصاف کے تمام تقاضوں پر کھرا اترتا ہو، جہاں اخلاقی اور خاندانی اقدار کی قدر ہوتی ہو جہاں ملک کی عوام کے ساتھ بلا امتیاز مساوات کا سلوک کیا جاتا ہو- مجھے امید ہے کہ مسلمان اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جنگی پیمانہ پر جد و جہد کرینگے اور حکومت اور دیگر ہم وطن انکا ساتھ دینگے- چونکہ اسی میں ملک کی عوام کی بھلائی ہے- ہمیں اس ملک کو مضبوط بنانے میں ہر طرف سے تعاون کی ضرورت ہے- اگر ہم مضبوط ہوئے تو ملک مضبوط ہوگا اور اگر ہم کمزور رہ گئے تو یہ ملک بھی ترقی کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا جس کا خواب ہندوستان کا ہر باشندہ دیکھتا ہے-
  مسمانوں کو معلوم ہے کہ کچھ  بنیادی اختلافات کے باوجود بیشتر ملکی عوام اسی طرح سوچتی ہے جس طرح مسلمان سوچتے ہیں- اس لئے انھیں امید ہے کہ وہ تمام اہل- وطن کے ساتھ ملکر اپنے خوابوں کے ہندوستان کی تعمیر کر سکتے ہیں-
++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 777