donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Kalim Ahmad Ajiz
Title :
   Ein - Kiski Aawaz Hai Yeh


 
 
کلیم احمد عاجزؔ
پٹنہ، بہار
 
ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کی آواز ہے یہ؟
 
       چونکا دینے والی باتیں نہ ہوں تو دل کی بند راہیں بند کی بند رہیں۔ آنکھیں دیکھتی ہیں یا کان سنتے ہیںتو دل کی کیچلی اتر جاتی ہے ، زندگی تر و تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ اکثر خواب سے بیداری کا سبب بن جاتا ہے۔ دل کے اندر تخلیق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ایسے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہر بار میری تھکی ہوئی زندگی انگڑائی لے کر تازہ دم ہو گئی۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میں واشنگٹن میں تھا تو عمرہ کے لیے جانے کی بڑی تیز طلب ہوئی۔ مگر عمرہ کا ویزا مجھے ہندوستان ہی میں لینا چاہئے تھا۔ یہ نہیں ہو سکااور مایوسی اور امید کے ساتھ سعودی سفارت خانے میں حاضر ہوا۔ وہاں ایک چونکا دینے والی بات ہوئی کہ میرے ایک دوست مدثر صدیقی مل گئے جو سفارت خانے میں قانونی مشیر تھے۔ بولے ویزا میں دلوا دوں گا۔ ایک میڈیکل سرٹفکٹ لے آؤ۔ سفارت سے وابستہ ایک امریکن لیڈی ڈاکٹر ہے وہی سرٹفکٹ دیتی ہے۔ میں اس امریکن لیڈی ڈاکٹر کے آفس میں پہونچااور سرٹفکٹ کی درخواست دے کر دوسرے کمرہ میں منتظر تھا۔ تھوڑی دیر بعد پکار ہوئی۔ میں گیا تو لیڈی ڈاکٹر اپنے ٹیبل پر میری درخواست پر جھکی ہوئی میرا  نام زور سے پڑھ رہی تھی۔
 
’’کلیم احمد عزیز‘‘۔  میری زبان سے اردو میں نکل گیا  ’’کلیم احمد عزیز نہیں کلیم احمد عاجزؔ‘‘
میں ہمیشہ ایک ہی لباس میں رہتا ہوںشیروانی پاجامہ ٹوپی۔ خواہ امریکہ ہو ، کنیڈا ہو ، انگلینڈ ہو ، عرب ہو۔
امریکن لیڈی ڈاکٹر نے چونک کر سر اٹھایا اور بولی ’’آپ کون؟‘‘
 
ارے یہ امریکن ڈاکٹرنی اردو میں بول رہی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے کہا ’’ہندوستان کے پٹنہ شہر کا رہنے والا ہوں‘‘۔ وہ بولی’’ ارے آپ پٹنہ کے رہنے والے ہیں؟ میں پٹنہ کے ہولی فیملی اسپتال میںدس سال رہ چکی ہوں۔ میں نے وہیں اردو سیکھی یہ بہت پیاری زبان ہے‘‘۔
 
اب بتائیے ، اس سے زیادہ چونکنے والی بات میرے لیے اور کیا ہو سکتی ہے؟ تقدیر پر اور اردو  زبان پر میرا ایمان تازہ ہو گیا۔
 
ابھی میں قطر سے واپس آرہا ہوں۔ میرے ایک میزبان جو دربھنگہ کے ہیں، ندوتہ العلما سے فارغ عبدالرحمٰن فریدؔ صاحب، مجھے لے کر مسجد ظہر کی نماز میں پہنچے۔ وہاں ایک عرب رومال اور توپ میں ملبوس میرے قریب آیا۔’’ السلام علیکم کیسا مزاج ہے؟  بتائیے‘‘۔ بہر حال میں نے گرم جوشی سے معانقہ کیا۔ میرے میزبان نے فرمایا ’’یہ اردو کچھ بولتے ہیں اور بولنا چاہتے ہیں اور سیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
 
مشاعرہ گاہ میں غزل خوانی ہونے لگی تو ایک جوان کی غزل سن کر پھر میں چونکا۔ 
’’ارے یہ اکیسویں صدی میںاُنیسویں صدی کی زبان میں یہ نوجوان غزل پڑھ رہا ہے؟ یہ جرأت اور یہ صلاحیت اس جدیدیت کے دور میں کیسے ہوئی!‘‘
 
  میں ہندوستان، عرب، امریکہ، کنیڈا انگلینڈ میں ہندوستانی پاکستانی شعراء کو برابر سنتا رہتا ہوں۔ ان جوانوں کا مزاج ایک خاص ذوق ،نہج اور نظریہ کا پرورش یافتہ ہے اسی نہج اور نظریہ کا ترجمان ان کا کلام ہوتا ہے۔ وہ ایک خاص سر چشمے سے کسبِ فیض کرتے ہیںاور اسی سرچشمہ کومستقبل کی شاعری اور ادب کا آدرش سمجھتے ہیں۔  میں اُن کا حوصلہ بڑھاتا ہوں گھٹاتا نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آنے والے زمانے یہ کام کر دیں گے۔ اُن کو اپنی ناکامی کا احساس ہوگا۔ ابھی تو چڑھتا شباب ہے۔ تو میں افتخار راغبؔ  صاحب کا کلام سن کر چونکاکہ اس عہد میں یہ آواز، یہ لہجہ اور یہ تیوَر اور یہ کلاسیکل اسلوب اس جوان کے ذوقِ شعر میں کیسے داخل ہو گیا؟
 
اکیسویں صدی کے نقارہ خانے میں یہ طوطی کی آواز کیسے سما گئی؟ یہ ہمت اسے کیسے ہوئی، کون سا اعتماد  اسے اس دور میں سہارا دے رہا ہے۔ میں نے سمجھا کہ یہ سہارا خارجی نہیں داخلی ہے۔ یہ اعتماد اس کی روح میں مسند نشیں ہے کہ اردو کا یہ اصلی لہجہ اور تیور ہے یہی دوامی ہے یہی جاودانی ہے۔  چالو لہجہ کرتب ہے پینترہ ہے وقتی ہے اور ہنگامی ہے۔ مگر لہجہ اور تیور بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے کلاسیکل دور کے مطالعوں میں ڈوبنا پڑتا ہے اور ڈوب کر نکلنا پڑتا ہے۔ ڈوبنا کون چاہتا ہے سطح پر تیرنا سب چاہتے ہیں۔ لیکن تیرنے سے گوہر کہاں ملتا ہے۔
 
میرؔ نے صدیوں پہلے کہا تھا اور آج تک رٹ رہے ہیں اور جھوم رہے ہیں۔
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا
کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
 
میں بھٹکتا رہا کسی کے لیے
(اور کوئی ڈھونڈھتا رہا مجھ کو  (راغبؔ
چین اک پل نہیں مجھے راغبؔ
(ہو گیا ہے نہ جانے کیا مجھ کو  (راغبؔ
اب کس کے دل میں کرب ہے۔ اب یہ باتیں کون بولتا ہے۔ ایسی باتیں بولنی لوگ شروع کر دیں گے تو پھر بہار  آ جائے گی۔ لوگ گلے ملنے لگیں گے۔ آنکھوں میں چمک بڑھ جائے گی اور دل کا رقص عام ہو جائے گا۔
جڑ گیا شیشہ بھروسے کا مگر
رہ گئے ہیں بال کچھ باریک سے
بے سبب راغبؔ تڑپ اٹھتا ہے دل
دل کو سمجھانا پڑے گا ’ٹھیک سے‘
یہ  ’’ ٹھیک سے‘‘  ہزاروں سال کے بعد آتا ہے۔ نرگس کو بہت رونا پڑتا ہے۔
میں اپنے بدن میں بے ٹھکانہ
مل جائے مجھے پناہ کوئی 
قدامت سے جدیدیت تک کا سفر ایسی چابکدستی سے کرنا ہر شخص کے بس کا نہیں۔ کہ
 ’’جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا‘‘
میں سب کی بھلائی چاہتا ہوں
ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی
سو سال پہلے بادشاہ  نواب کے مکان میں  ہفت روزہ مشاعرہ ہو رہا تھا۔ شادؔ کے شاگرد بیتابؔ عظیم آبادی نے ایک طرح پر یہ شعر پڑھ دیا۔
سبیلِ ساقیِ کوثر نثار ہے جاری
پکار ہے کہ کوئی بادہ خوار باقی ہے؟
سب نے اس طرح پر اپنی غزلیں چاک کر دیں کہ اس شعر کے بعد اس طرح پر کون غزل پڑھے گا۔
’’پکار  ہے  کہ  کوئی  بادہ  خوار  با قی  ہے؟‘‘   ’’ہے  میر ا  بھی  خیر  خواہ  کوئی‘‘  دونوں ایک قبیلے کے ہیں۔ اور  ’’ کسے کہ کشتہ نشد از قبلیۂ ما نیست‘‘
اک صورت اتارنا غزل میں
لفظوں کا پسینہ چھوٹ جانا
کس درجہ سرور بخش تھا وہ
اُس کوچے میں جھوٹ موٹ جانا
آج تک مصحفیؔ کا یہ شعر لوگ پڑھتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں۔ 
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا
میں نے بہت سے شعر راغبؔ کے انتخاب کئے ہیں مگر ان پر لکھنا مری فرصت کے اوقات سے باہر کی بات ہے۔
 
افتخار راغبؔ کے متعلق میں ایک بات اور کہہ دوں۔ وہ بات اب شاید نو جوانوں میں کسی پر صادق آتی ہو۔ وہ یہ کہ ان میں فطری جوہرِ شاعری ہے۔ وہ شاعری پر محنت کریں نہ کریں اگر شغل ہی جاری رکھیں گے تو ان کے سامنے کشادہ اور افتادہ راہیں خود بخود نمایاں ہوتی رہیں گی۔ انھیں فطری طور پر زبان و بیان اور اسلوب پر گرفت نظر آتی ہے۔ یہ بہت خوش نصیبی کی بات ہے ۔ وہ ہمیں کم سخن نظر آئے۔ کم سخنی کی ایک اہم شناخت اس بات کی ہے کہ وہ یانحل باتوں پر قابو دے دیتی ہے۔ بے محل باتیں اس سے چھنٹ جاتی ہیں۔ کم سخنی باتوں کواندر اندر تولتی پرکھتی چھانٹی رہتی ہے اور اپنے اندر کی  فنّی بھٹّی میں ڈالتی رہتی ہے۔ اسے پکاتی اور پختہ بناتی رہتی ہے۔ جب محل اور موقع آتا ہے تو بول دیتی ہے اور وہ بات باوضع با محل تراشیدہ اور سڈول بن کر سامنے آجاتی ہے۔
 
یہ بالکل معمولی اشعار ہیں ان میں خیال اور تجربے کی گہرائی نہیں ہے۔ لیکن یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ یہ قافلہ نہیں ہے پیش خیمہ ہے۔ قافلہ تو پیچھے آ رہا ہے۔
انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو
الجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو
کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوش بو
ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو
یہ بولی ایک بہت ذہین بچے کی ہے ۔گفتار کا یہ اسلوب کلاسیکل ہے جو اب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ 
ایک غزل ہی سن لیجیے۔ لگتا ایسا ہے کہ بہ محنت نکل آئی ہے لیکن بے محنت نہیں نکلی ہے۔اس محنت میں کچھ اور عوامل لگ گئے ہیں جن کا شاعر کو خود پتہ نہیں ہے۔
کہا کہ آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے
وہ بولے جی نہیں سچ مچ جہان ایسا ہے
کہا کہ آئیے بس جائیے مرے دل میں
وہ بولے آپ کے دل کا مکان ایسا ہے؟
کہا کہ پھولوں میں کیا خوب دل ربائی ہے
وہ بولے کیوں نہ ہو جب باغبان ایسا ہے
کہا کہ آپ کے جیسا کوئی حسین نہیں
 
وہ بولے آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے
کہا کہ آپ کے آنچل سی کوئی چیز ہے کیا
وہ بولے تاروں بھرا آسمان ایسا ہے
کہا کہ آپ تو راغبؔ کو بھی بھلا بیٹھے
وہ بولے وقت ہی نا مہربان ایسا ہے
 
بہت سے اشعار میرے انتخاب میںرہ گئے ہیں۔ اب فرصت نہیں ہے۔
راغبؔ کی آواز چوٹ کھائے ہوئے دل کی آواز نہیں ہے مگر 
’’جمالِ ہم نشیںدر من اثر کرد‘‘
 
کلیم احمد عاجزؔ
 
*************
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 591