donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. M. Salahuddin
Title :
   Darbhanga Times : Raushni Ka Istaara

دربھنگہ ٹائمز : روشنی کا استعارہ


ڈاکٹر ایم ۔ صلاح الدین


’’ اکثر رسائل نکالنے والوں کے بعض مخفی یا ظاہری مقاصد یا ارادے ہوتے ہیں جیسے فلاں فلاں ( یا دوستوں ) کو آگے بڑھانا یا فلاں فلاں کو نیچے گرانا ۔ ان بنیادی مقاصد کے لئے ہر شمارے میں کی مضامین ، تبصرے ، نوٹس اور خطوط کی اشاعت لازمی ہوتی ہے ۔ اس سے الگ ، پورے ادبی ماحول میں کسی قبلہ یا قبلہ نما کی تلاش میں اکثر ہمارے مدیران کرام ایک مرکز ( یعنی شخصیت ) پر ایجاب و قبول کی رسم ادا کرلیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ پوری ادبی دنیا کے قبلہ وکعبہ کی توصیف میں پچاس صفحات او راس کے مخالفین کی قدم میں پچیس پچاس اوراق نہ صرف کئے جائیں تو ماحول سازی کا اصلی فریضہ کیسے پایہ تکمیل کو پہنچے گا ۔ ‘‘

( صفدر امام قادری ، تصنیف ’’ نئی پرانی کتابیں ‘‘)

بجا کہا ہے ، معدود چند کے علاوہ اردو ادبی رسائل کی باڑھ اسی نہج پر جاری ہے ۔ ایسے میں رسالہ ’’ دربھنگہ ٹائمز ‘‘ کا تازہ شمارہ (جنوری تا مارچ ۲۰۱۵) دیکھا تو لگا کہ ع ‘چراغ رنگ نوا ، اب کہیں سے روشن ہو ، کا انتظارختم ہوا ۔ اس کے مشوملات بتاتے ہیں کہ اس کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر نے خود کو امڈی باڑھ اور اس کے متذکرہ بالا صفات کے حوالے نہیں کیا ہے بلکہ مروجہ عمومی روش سے الگ ڈگر پکڑی ہے ۔ اب دیکھیں کہ متذکرہ شمارہ میں چار جدید شعراء کے فکر وفن پر نئی فکر کے قلمکاروں نے گفتگو کی ہے ’ گوشہ ‘ کے تحت ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی پر مقیمان امریکہ سرور عالم راز سرور ،ڈاکٹر عمرانہ نیر نشتر اور دہلی کے حبیب سیفی کی نگارشات ہیں ۔ ان نگارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ برقی اعظمی کے اس احساس :

جو اہل فضل وہنر تھے وہ تھے پس پردہ
زمانہ ساز تھا جو بھی دیدہ ور جاتا

نے انہیں جنبش قلم کی تحریک دی ہے ۔ برقی کے شعری مجموعہ ‘‘ روح سخن ‘‘ کے حوالے سے قدر شناسی کی معقول کوششیں سامنے آئی ہیں ۔ ان میں برقی کی طرف سے زمانہ کے نظر پھیر لینے کا درد کہیں کہیں غلو کا دامن تو تھامتا نظر آتا ہے ۔ تاہم مضمون نگاروں کی ناقدانہ بصیرت کا پرتو صاحب موضوع اور صاحب نگارش کے تئیں قاری کو گمراہ نہیں ہونے دیتا ہے جو اچھی بات ہے ۔ یوں بھی کہ پس غبار اہل فضل وہنر کو اجالنے اور قدر شناسی کی تحریک دیتی ہے اور کمالات برقی کی طرف توجہ کھینچتی ہے اسی طرح پاکستان کے شاعر نذیر قیصر پر ہموطن شاعر شہزاد نیر کے اور شہزاد نیر پر جلیل عالی کے مضامین فکر و ذہن کی گڑھیں کھولتے ہیں اور ان سے دونوں ممالک کے پیش منظر میں فکری و فنی پروان کی سطحیں معلوم ہوتی ہیں ۔ وہیں کے شاعر زاہد امروز کی نظم نگاری کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے فیاض احمد وجیہہ نے ’’ بدن جنگل ‘میں نیمن کا پیڑ اور ورہ گیت ‘‘ کے عنوان سے مطالعہ شاعری کی روش کو Turnدیا ہے ۔ انگریزی کے ممتاز شاعر پبلو نرودا کی ایک نظم کی تمثیل میں تشبیہات و استعارات کے پس پردہ اسی نوع کے لسانی کلچر کو نشان زد کرنے کی سعی ہے جو زاہد امروز نے ماحولیات یعنی کائنات کی مظہریت کے طفیل حاصل کی ہے اس طور وجیہہ نے مطالعہ شاعری کا نیا دریچہ کھولنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔

معاصر تحقیقی رویے حقانی القاسمی کا بے باک فکر و قلم لمحہ فکریہ عطا کرتاہے تو ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ڈاکرٹ جمیل احمد جالبی کی ’’ تاریخ ادب اردو ‘‘ کو متعدد تواریخ کے تقابلی تجزیے اور ڈاکٹر جالبی کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت اور ژرف نگاہی کے حوایلے سے مدلل و قطعیت کے ساتھ معتبر و ممتاز ثابت کیا ہے اور ایک دقیق تحقیقی و تنقیدی مبحث کو ’’ کوزہ میں درسیا سمیٹنے کے اپنے ہنر سے چھوٹے سے مضمون میں سمو دیا ہے ۔ عطا عابدی نے ’’ اردو زبان کا دیگر زبانوں سے رشتہ ‘‘ جدید تحقیق کے تناظر میں ظاہر کرکے لسانیات کے طالب علموں کو معقول غذا فراہم کیا ہے ۔ جے ۔این ۔ یو دہلی کے اسکالر شاہد الرحمن نے صفدر امام قادری کے تبصر وں پر مبنی تصنیف ’’ نئی پرانی کتابیں ‘‘ پر زبردست ناقدانہ نظر ڈالی ہے او تبصرے کی روایت کے تناظر میں قادری ی تحقیق و تنقیدی بصیرت کو نہ صرف معقولیت کے ساتھ اجالنے کی کوشش کی ہے بلکہ تبصرے کے میدان میں کتاب کی محض صورت دیکھ کر توصیفی تبصرے کرنے والے شہسواروں کو آئینہ دیکھایا ہے ۔ یہ کاوش دعوت فکر دیتی ہے ۔

مجاہد آزادی مولانا لطف الرحمن پر ڈاکٹر جمیل ارشد ،’’ افسانونی ادب میں شین مظفر پوری ‘‘ کے تحت شاداں پروین ، ’’ قرۃ العین حیدر : افسانہ کیکٹس لینڈ ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر رسم انصاری ، ’’ قرۃ العین حیدر :شحیصت اور فن کے تحت نصرت بانو عظیم وار ’’ تہذیب و ثقافت ، مشاعرے کی روایت اور دربھنگہ کا کل ہند مشاعرہ ‘‘ کے عنوان سے فخر الدین عارفی کے مضامین بھی ذوق مطالعہ کی سیرابی کے لئے معلوماتی نوعیت کے ہیں ۔ ِ

افسانے پانچ ہیں۔ ان میں سیداحمدقادری، ڈاکٹر قیام نیر، پیغام آفاقی، سلیم آغا قزلباش کے بالترتیب خلیج، رازدار، دستخط اور دستکیں، فکروفن کے اعتبار سے معیاری، وقت کے سلگتے مسائل کو ٹچ کرتے اور فکر کو مہمیز کرتے ہیں۔ بقیہ فرخندہ رضوی کے ’وعدوں کی زنجیر‘ اور ترنم جہاں شبنم کے ’گذرے موسم کی تپش‘میں تکنیکی بنت تو قابل لحاظ ہے مگر موضوع اور پیغام کے اعتبار سے گزرے موسم کی تپش کی ہی مثل فن پارے جو ادبی خط کی تسکین کے ساتھ فکرونظر کی ساکت سطح پر لہر پیدا کر جائیں تو اس کے کہا کہنے۔ تاہم ذوق کا معیار جدا جدا ہوتا ہے اس لئے رسالے کو ان کی رعایت کرنی ہی چاہئے۔

شعری حصہ میں ایک کمال کی چیز تو سخنور دوراں پروفیسر عبدالمنان طرزی کی دربھنگہ کے تقریباً دو سو نثرنگاروں کے کمالات اُجاگر کرنے والی منظوم تخلیق ’’نثرنگارانِ دربھنگہ‘‘ کی دوسری قسط ہے جو اتفاق سے راقم کے لئے بیھ کشش اور طمانیت کا موجب ہے۔ حضرت طرزیؔ کی سخن طرازی کی سرمست موجیں تہہ آب سے کیا کیا جلوؤں کو اُچھالیں گی اورکہاں جاکے ساحل سے ٹکرائیں گی واللہ اعلیٰ بالصواب۔ دوسری قابل توجبہ پیشکش ہے جمال اُویسی کی جس میں ندافاضلی کی شعری مجموعہ ’’شہر میں گاؤں‘‘ سے آٹھ غزلیں قاری کے سپردِنظر کرکے دادِ لطف سخن‘‘ دینے کی دعوت دے دی ہے۔ بقیہ علی بابا درپن، نورمحمدعاجزؔ، مشتاقؔ دربھنگوی، سالم سلیم، جمیل اختر شفیقؔ کی غزلیں اور جنیدعالم آرویکی نظم بھی توجہ کھینچتی ہیں۔

اس میں کتابوں پر تبصرے بھی وقیع ہیں۔ شعری مجموعے ندافاضلی کے ’دشہر میں گاؤں‘‘شہریار کے ’’سورج کونکلتا دیکھتا ہوں‘‘ اور تصنیف ’’بہار میں تخلیقی نثر (آزادی کے بعد) از ڈاکٹر قیام نیر، تالیف ’’ماجرا۔دی اسٹوری‘‘ از ڈاکٹرمنصورخوشتر پر جمال اُویسی کے ہی بے لاگ تبصروں کو جگہ ملی ہے۔

مکتوبات میں پاکستان کے ادیب سلیم آغا قزلباش نے جو لکھا ہے کہ گاتا اور لے دوڑی کی روش اور بیشتر ادبی رسائل کے مدیران کے غیرمحتاط رویے سے ادبی تخلیقات کا عمومی معیار فی زمانہ متاثر ہورہا ہے۔ ’’تاہم اچھی اور معیاری تخلیقات بھی لکھی جارہی ہیں جو بالعموم ادبی trush کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہیں… میرے خیال میں ادبی رسائل و جرائم کے مدیران کو چاہئے کہ اچھی تحریروں کو اُجاگر کرنے کے لئے اداریوں میں ان کا ذکر ضرور کریں تاکہ عام قارئین ادب اچھی تحریروں سے فیضان ہوسکیں‘‘ سو ڈاکٹر منصورخوشتر نے ان کی آرا کو سرمہ بنایا ہے۔ یقینا سب کچھ افضل و اعلیٰ ہی ہے ایسا نہیں کہاجاسکتا تاہم خوب سے خوب ترکی جستجو ملتی ہے۔ پیشکش میں پرانے کے ساتھ نئے لوگوں کو شامل کرکے ایسا توازن قائم کیا ہے کہ ہرسطح کے ذوق کو خوراک ملے۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی  بھی ضروری ہے کہ :

نئی ہے پودا سے کچھ نئے اشارے دو
اسی کی شاخ سے پھوٹیں گی زندہ تنویریں

علاوہ یہ کہ اُردو میں عموماً لکھاری ہی قاری ہے۔ بایں صورت نئے لوگوں سے رسائل کو آب و تاب ملاکرتی ہے۔ البتہ معیار کا لحاظ ضروری ہے۔ اس بابت خوشترؔ کے موقف کا موائد اداریہ ہے۔
خوشترؔ نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے اداریہ کو:

اہل محفل ہوں گے کیا اہل بصیرت اے شفیقؔ
میر محفل ہی کو بے فکرونظر پاتا ہوں میں

پرمرکوز کرکے اہل اردو اور ان کی نئی نسل میں زبانِ اردو کی تہذیب سے بے بصیری، تنقید و تحقیق کی بے بضاعتی، فکروفن کی بے مائگی کے راہ پائے جانے کی طرف سے سنجیدہ ومعتبر اہل بصیرت اور صاحبانِ علم و کمال کی مصلحت آمیز خاموشی پر نشتر لگایا ہے تنقیحی جذبے کے ساتھ جس میں درد جھلکتا ہے اور عزم بھی۔ کیوںکہ اپنے اداریہ کے تہہ جام ہی مشمولات کی تنظیم کی ہے۔ اسی لئے ابتداء میں کہا تھا کہ ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ نے الگ ڈگرپکڑی ہے۔ گرچہ ایسی ڈگر بڑی کٹھن ہوتی ہے کہ یہ دائمی توازن، دیرپا تحمل، حسن تدبر، عزم محکم اور انتھک لگن کی متقاضی ہوتی ہے۔ خدا ان کی توفیق دے مدیر گرامی کو، ساتھ ہی : ع ’کھلتے ہیں جس میں پھول وہ آب وہوا بھی ہو‘ انہیں میسر… ہمیں چاہئے کہ : ع ’’شاید کوئی منظر بدلے کچھ دورتو چل کردیکھیں‘ ان کے ساتھ اور دعاء کرتے رہیں کہ : ع ’جس میں کھلے ہیں پھول وہ ڈالی ہری رہے‘

 

ساکن رام نگر، پوسٹ رام نگردھونسی، ضلع دربھنگہ ۔۳۳
موبائل: 985745502

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 540