donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Ashraf Kamal
Title :
   Darbhanga Times Ka Novel Number

ڈاکٹر محمد اشرف کمال

صدر شعبہ اردو: گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بھکر، پاکستان

 

دربھنگہ ٹائمز کا ناول نمبر  ناول کی تاریخ میں ایک اہم اور تاریخی دستاویز

    دربھنگہ ٹائمز کا شمارہ اپریل تا جون ۲۰۱۶ء ناول نمبر اس لیے اہمیت کاحامل ہے کہ برصغیر میں اردو ناول کے حوالے سے یہ ایک اہم دستاویز کی صورت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور حوالے کے طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔

    اس ناول نمبر میں کئی تخلیقی زاویے موجود ہیں۔شروع میں ناول کی تاریخ سے متعلق مضامین، اس کے بعد مختلف ناولوں اور ناول نگاروں پر تنقید، چند زیر طبع ناولوں کے ابواب، مختلف ناول نگاروں سے ناول کے حوالے سے انٹرویو، ،متعدد کتابوں پر تبصرہ اور قارئین کے تاثرات شامل ہیں۔ناول کے حوالے سے بات کرتے ہوئے منصور خوشتراداریہ میں ’’کہنے کی بات‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’ناول پر گفتگو کرتے ہوئے آج دو باتیں بڑی شدت سے اٹھائی جاتی ہیں تاہم ان پر بیدار مغزی اور توسیع پسندانہ ذہنیت سے بات نہیں ہوتی ۔وہ ہیں، زبان مین تخلیقیت اور ناولوں میں فلسفہ کی شمولیت ۔‘‘(ص۸)
    مضامین میں عبدالصمد کا مضمون اردو ناول کے ساتھ دوچار قدم، مشرف عام ذوقی کا’’ اردو ناول کی گم ہوتی دنیا‘‘ اور پیغام آفاقی کا اردو ناول کی تجدید اور غضنفر، شہاب ظفر اعظمی کا اکیسویں صدی میں اردو ناول،اردو ناول کی تاریخ وارتقا کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔

    ڈاکٹر شاہد الرحمن نے سید محمد اشرف کے ناول’’ نمبردار کا نیلا ‘‘پر تنقید وتبصرہ کرتے ہوئے اسے عہد حاضر کا ایک ایسا ناول قرار دیا ہے جس نے اس دور کے مسائل اور سیاسی وسماجی تناظر کو نیلا کی علامت میں پیش کیا ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ سید محمد اشرف نے اپنے اظہار کے لیے علامت کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا ہے ۔سید محمد اشرف نے اظہار کے متعدد اسالیب سے فائدہ اٹھاکر عصری تناظر کی تاریخ رقم کی ہے۔فنی سطح پر انھوں نے قواعد کی گردان کو بہت ضروری نہیں سمجھا ہے ۔بلکہ اس ناول کی ایک آزادانہ شعریات وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔

    حقانی القاسمی نے پیغام آفاقی کے ناول ’’پلیتہ‘‘  کا تجزیاتی مطالعہ کرکے اس کی کئی گرہیں کھولی ہیں اور اسے ایک ایسا ناول قرار دیا ہے جو کہ اکیسویں صدی کا مؤثر بیانیہ ہے۔

الماس فاطمہ نے مشرف عالم ذوقی کے ناول’’ نالہ شب گیر‘‘ میں عورتوں کے استحصال کی کہانی کو بیان کرتے ہوئے اسے تانیثیت کے حوالے سے ایک اہم کڑی قرار دیا ہے۔نوجوان ناول نگار سلمان عبدالصمد کے ناول لفظوں کا لہو کے حوالے سے لکھا گیا امتیاز انجم کا مضمون اس ناول کو وسیع تناظر کا ناول قرار دیتا ہے۔ جس میں ایک مرد کی دو بیویاں دوست بن کر زندگی گزار رہی ہیں۔

    ڈاکٹر پرویز شہریار کامضمون عباس خاںکی ناول نگاری میں ان کے ناول ’’زخم گواہ ہیں‘‘ پر بحث کی گئی ہے ، اس ناول کا موضوع عدلیہ ہے، چونکہ عباس خاں کا تعلق عدلیہ سے رہا اور وہ ایک جج کے طور پر کام کرتے رہے لہٰذا انھوں نے اس ناول میں عدلیہ کے کردار کی بات کی ہے کہ آدمی مرجاتا ہے مگر اس پر مقدمہ ختم نہیں ہوتا اور یہ مقدمہ بازی اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے، یہ عدلیہ کا ایک ایسا منفی پہلو ہے جس کی وجہ سے سماج میں ناانصافی اور انتشار کو فروغ ملتا ہے۔

    اردو کی پہلی ناول نگار رشید النساء کے پہلے ناول اصلاح النساء کے بارے میں لکھا گیا ڈاکٹر زرنگار کا مضمون اس دور کے ناولوں میں سماجی اصلاح کے پہلو کو سامنے لے کر آتا ہے۔

    سلمان فیصل کا مضمون ’’کہانی کوئی سناؤ متاشا ‘‘صادقہ نواب سحر کے ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والے ناول ’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘پر تنقید وتبصرہ ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار متاشا ہے جو کہ ایک ایسی عورت ہے جو خود پر ہونے والے ظلم وستم کی داستان بیان کرتی ہے جس کے سہارے ناول آگے بڑھتا ہے۔اس میں جس طرح عورت کے دکھ درد،مسائل اور المیے کو پیش کیا گیا ہے قاری اس سے متاثر ہوتا ہے۔

    سید احمد قادری کا مضمون سرغزالی کا ناول ’’دوسری ہجرت ‘‘اہمیت کا حامل ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ناول میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرجانے والے لوگوں کا دکھ اور کرب بیان کیا گیا ہے۔ہجرت کا یہ غم برسوں گزرنے کے بعدبھی کم نہیں ہوتا۔اس ناول کے محرک کے بارے میں سرور غزالی کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی ایک افسانے لکھے جس میں انہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کو موضوع بنایا۔ لیکن ان کی تشفی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ وہ مشرقی پاکستان کے گمنام شہیدوں کو بھی کسی نہ کسی طرح  یاد رکھنا چاہتے تھے۔ اور اسی لیے انہوں نے اس ناول کو ان سے منسوب کیا ہے۔  وہ ایک خاندان کی مثال دیکر ایسے بہت سارے خاندان جو ہجرت کا درد سینے میں لیے بیٹھے ہیں ، اس ناول کے ذریعہ سے ان کا دکھ درد بانٹنا چاہتے ہیں اور آنیوالی نسلوں کو باور کرانا چاہتے ہیں ہجرت کا کرب کیا ہو تا ہے۔ آج کا انسان ہجرت کے کرب غیر محسوس طریقے سے نبرد آزما ہے۔

    اس ناول کا ایک اہم کردار سید سفیرالدین خاندانی طور پر رئیس تھے جو کہ گیا کے رہنے والے تھے اور ارد گرد کے کئی علاقوں میں ان کا اثرورسوخ تھا۔انہوں نے کئی شادیاں کیں۔ مگر بیویوں کے داغِ مفارقت نے انہیں سچی خوشی سے محروم رکھا۔ پہلی بیوی سے ایک لڑکا ناصر تھا۔ دوسری سے ان کی اولاد وںمیں راحت ،فرحت اور اطہر تھے۔امجد صاحب بھی اس ناول کے ایک اہم کردار ہیں جوکہ سید سفیرالدین کی دوسری بیوی کے بھائی تھے اور ان دونوں کی آپس میں گہری قرابت تھی دوسری بیگم فوت ہوجانے کے بعد سفیرالدین نے امجد صاحب کی بیٹی آسیہ کو اپنے بیٹے اطہر سے بیاہ کر رشتے کو اور مضبوط کردیا۔

    اس ناول میں تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کے حالات بیان کیے گئے ہیں کہ وہی ہندو مسلم جو کہ بھائیوں کی طرح رہتے تھے کس طرح ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے۔

    کتابوں پر تبصرہ میں رحمان عباس کے ناول روحزن، مشرف عالم ذوقی کے نالۂ شب گیر اور مستنصر حسین تارڈ کے ناول پیار کا پہلا شہر پر تبصرہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

    اس رسالے میں جن ناول نگاروں کے انٹرویو پیش کیے گئے ان میں شموئل احمد، عبدالصمد، غضنفر، احمد سہیل، مشتاق احمد نوری،مشرف عالم ذوقی، سرور غزالی، مناظر عاشق ہرگانوی، نعیم بیگ، جمال اویسی، عطا عابدی ،سید احمد قادری، شہاب ظفر اعظمی، نسترن احسن فتیحی، فیاض احمد وجیہہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں اردو ناول کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب اردو ناول کی ترقی کے حوالے سے کئی امکانات کو روشن کرتا ہے۔

    رحمان عباس کے ناول’’ روحزن‘‘۲۰۱۶ء میں شائع ہوا۔اس ناول میں عشق اور جنون کی کشمکش کو بیان کیا گیا ہے۔جنسی عمل کو روحزن کا علاج ثابت کرنے کے حوالے سے یہ ناول جنسی حوالے سے اہمیت کاحامل ہے۔روحزن کے حوالے سے ناول نگار لکھتے ہیں:

’’روحزن بطور سالم لفظ ایک ذہنی ، جذباتی اور نفسیاتی صورت حال کو پیش کرتا ہے ۔ ناول اس کیفیت کی پیشکش کے ساتھ ایک نئے لفظ کو صورت عطا کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

(روحزن،دہلی، عرشیہ پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ئ،ص۳۵۵)

    اس کا مرکزی کردار روحزن کا شکار ہے اور وہ اس روحزن کا علاج متواتر جنسی عمل سے کرتا ہے۔ اس ناول میں کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف مفکرین کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے رحمان عباس جنسی عمل کو ہی حقیقی خوش اور انبساط کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔یہ ناول شعور کی رو کی تکنیک کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ا س کے کلیدی کرداروں میں اسرار، مس جمیلہ، حنا ہیں جن کے گرد یہ کہانی گھومتی ہوئی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔

    حسین الحق، شوکت حیات، صغیر رحمانی، ابرار مجیب ، سلمان عبدالصمد ، کے زیر طبع ناولوں کے مختلف ابواب بھی شامل کیے گئے ہیں۔ 

    اس رسالے میں اکیسویں صدی میں لکھنے والی جن نئی خواتین ناول نگاروں اور ان کے ناولوں سے تعارف ہوتا ہے ان میںنشاط پیکر کاناول شمع ہر رنگ میں جلتی ہے،نصرت شمسی کا اوڑھنی ،نسرین ترنم کا ایک اور کوسی ،نعیمہ جعفری پاشا کا نازش جنوں،زاہدہ زیدی کا چیری کا چراغ،ساجدہ زیدی کا مٹی کے حرم،فرح دیبا کا کڑوا سچ،قمر جمالی کا آتش دان، ترنم ریاض کا برف آشنا پرندے، ثروت خان کا محبت کا طلسمی فسانہ، فردوس حیدر کا مردم گرویدہ،صغریٰ مہدی کا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لوں،عبیدہ سمیع الزماں کا چمن کو چلئے،شہناز کنول غازی کا وقت کا مسافر،انور نزہت کا درد کا رشتہ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

    دیگر مضمون نگاروں میں ابوبکر عباد، ڈاکٹر قمر جہاں، ڈاکٹر واحد نظیر، خورشید حیات، ڈاکٹر قیام نیر،ڈاکٹر پرویز شہریار،ڈاکٹر کہکشاں عرفان، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، یاسمین رشیدی، ڈاکٹر عشرت ناہید، ڈاکٹر احسان عالم، نوشاد منظر، عرفان احمد، محمد علام الدین،محمد وصی اللہ حسینی کے نام قابل ذکر ہیں۔
    دربھنگہ ٹائمز کے اس ناول نمبر میں اردو ناول کی ڈیڑھ سوسالہ شاندار روایت کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مدیران اور مضمون نگاروں نے اردو ناول کا اکیسویں صدی کے عصری تناظر میں تجزیہ اور مطالعہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور موجودہ دور میں ناول کی صورت گری میں زندگی کے مسائل کو کہانی کی شکل میں پیش کرنے کی اہمیت کا جائزہ لیا ہے۔

    دربھنگہ ٹائمز کا ناول نمبر بلا شبہ ناول کی تاریخ میں اپنی جگہ ایک اہم اور تاریخی دستاویز ہے۔اس ناول نمبر میں جس بات کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔۔۔وہ ہے ۔۔۔اس نمبر میں پاکستان کے ناول نگاروں اور ناول پر تنقید کرنے والوں کے کئی اہم ناموں کا شامل نہ ہونا۔ اگر اس نمبر میں پاکستانی ناول نگار اور نقاد بھی شامل کر لیے جاتے تو یہ موجودہ صورت سے بھی زیادہ اہم دستاویز بن سکتی تھی۔مگر اس بات سے اس کی اہمیت میں کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا۔کیونکہ اس نمبر میں بھارت سے تعلق رکھنے والے بیشتر ایسے نام شامل ہوگئے ہیں جنھیں پہلے ناول کی دنیا میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔مگر اب دربھنگہ ٹائمز کے توسط سے وہ ناول کی تاریخ میں اپنی جگہ بنالینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    اس کامیاب نمبر کی اشاعت پر میں مدیر منصور خوشتر، مدیر اعزازی شگفتہ عائشہ ہاشمی، معاون مدیر کامران غنی ، نظر عالم، ڈاکٹر انتخاب ہاشمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کہ ان کی شب وروز کی محنت اور کاوش اس نمبر کی کامیاب اشاعت کا باعث بنی۔

 

*************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1035