donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Hussain Mushahid Razvi
Title :
   Akbar Ki Shayari

اکبر کی شاعری
 
محمد حسین مشاہدرضوی
 
    اکبرؔ کو شاعری کا ملکہ قدرت سے عطا ہوا تھا۔ انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس زمانے میں ایک طرف تو شرفا میں شعر و شاعری کا بہت چرچا تھا۔ اکثر لوگ شاعری کو ایک دلچسپ مشغلے کے طور پر اختیار کرتے تھے مگر اسی کے ساتھ یہ خیال بھی تھا کہ جس کو  شعر و شاعری کا چسکا لگا وہ کسی کام کا نہ رہا۔ اسی لئے جب اکبرؔ کے چچا سیّد وارث علی کو یہ معلوم ہوا کہ یہ شعر کہتے ہیں تو یہ دیکھنے کے لئے کہ ان میں کس حد تک شعر کہنے کی صلاحیت ہے انھوں نے ایک مصرعہ دیا کہ اس پر دوسرا مصرع لگائو۔ مصرع یہ تھا    ؎
بتوں کا عشق ہے عشق مجازی بھی حقیقت میں
    اکبرؔ نے فوراً اس پر یہ مصرع لگایا    ؎
یہ مصرعہ چاہیے لکھنا بیاضِ چشم وحدت میں
    ان کے چچا بہت خوش ہوئے اور انہیں اندازہ ہو گیا کہ اکبرؔ کو شعر کہنے کا ملکہ قدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح اکبرؔ اب باقاعدہ شعر کہنے لگے اور الہ آباد کے مشہور شاعر غلام حسین وحیدؔ سے اپنےشعروں میں اصلاح لینے اور ان کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ نوجوانی کا زمانہ تھا۔ طبیعت میں رنگینی تھی۔ گانے کا شوق تھا۔ اکبرؔ مجروں میں شرکت کرتے تھے۔ ارباب نشاط سے دلچسپی رکھتے تھے۔ اس زمانے میں ان کے کلام میں رنگینی ہے، شوخی ہے، غزل کے روایتی لب و لہجے میں محبوب کے ہجر و وصال کا بیان ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غزل عبارت تھی لطف بیان، زبان کے چٹخارے، قافیہ پیمائی۔ یہی خصوصیات اکبر کی اس دور کی غزلوں میں نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ رعایت لفظی کا اہتمام، دور از کار تشبیہات جن سے شاعری میں گنجلک پن پیدا ہو گیا ہے۔
جماتی ہے لب نازک پہ ان کے رنگ اپنا
یہ شوخیاں تو ذرا دیکھو سرخیِ پان کی
    یا پھر عشقیہ جذبات کا بیان ہے۔ جس میں گہرائی نہیں ہے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے    ؎
جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق اپنا
عشق کس چیز کو کہتے ہیں محبت کیسی
    اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی دور میں اکبرؔ نے اپنی شاعری میں جن جذبات و احساسات کا ذکر کیا ہے وہ عمومی ہے مگر خیالی نہیں ان کے دلی جذبات کی ترجمان ہے۔ ان کے اس دور کے شعر داغؔ کی شاعری یاد دلاتے ہیں۔
    غزل کا سب سے بڑا وصف تغزل ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جن جذبات کا اظہار کیا جائے وہ فطری ہوں۔ ان کو بیان کرنے میں شاعر ایک خاص تہذیب اور ضبط و نظم کو ملحوظ رکھے۔ شعر میں لطافت اور دردمندی ہو۔ اس دور میں ہمیں اکبرؔ کے یہاں اس قسم کے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں تغزل ہے۔ جیسے    ؎
پروانہ جل کے خاک ہوا شمع رو چکی
تاثیر حسن و عشق جو ہونا تھا ہو چکی
    تصوف ابتدا ہی سے غزل کا موضوع رہا ہے۔ سبھی شاعروں نے کم یا زیادہ تصوف کے اشعار کہے ہیں۔ اکبرؔ کے یہاں بھی ابتدا سے ہی تصوف کے شعر ملتے ہیں۔
ہم نے مخلوق میں خالق کی تجلی پائی
دیکھ لی آئینہ میں آئینہ گر کی صورت
    اکبرؔ کے یہاں اس دور میں ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں طنز کا پہلو نمایاں ہے اور ان کے وہ طنزیہ و مزاحیہ اسلوب جو انھوں نے آگے چل کر اختیار کیا، اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جیسے    ؎
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
    پھر وقت کے ساتھ ساتھ اکبرؔ کی شاعری کا رنگ بدلنے لگا۔ ان کو یہ احساس ہوا کہ شاعری صرف اپنے جذبات کو آسودہ کرنے کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے وہ کہتے ہیں۔
غزل ایسی پڑھو مملو ہو جو اعلیٰ مضامین سے
کرو اب دوسرے کوچے میں اے اکبرؔ گذر اپنا
    اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا یہ شعر ایک طرح سے اسی بات کا اعلان ہے کہ انکی شاعری کا رنگ اب اور ہوگا۔
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 632