ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی
طوفان کی زد پر:رضوان احمد
ڈاکٹر رضوان احمد افسانہ نگار اور صحافی ہیں۔ گذشتہ پچاس سال سے وہ افسانے لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے مسدودراہوں کے مسافر ’’۱۹۷۷‘‘فصیل شب’’۱۹۸۲‘‘اورکن فیکون ۱۹۷۷‘‘منصہہ شہود پر آکر مقبول ہوچکے ہیں۔ اب ۲۰۰۹ کی آخری سہ ماہی میں چوتھا مجموعہ منظر عام پر آیاہے۔اس میں اکیس افسانے شامل ہیں۔ خوں آشام، قیامت ابھی نہیں آئے گی، اب یہاں نہیںرہناہے، طوفان کی زد پر گیا، الوداع، شک، رتوندی، کہیں کچھ، شوربہت ہے، پرشکستہ گواہی ، بدھوبن مانس کا آخری کبت پیرو مرشد اور آیئے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی میں زندگی کی پیچیدگیوں اور فرد کے جذب واحساس سے مملوکیفیات کی تہہ داریوںکواپنے خلقی امکانات کی توسیعانہ کردار میں رضوان احمد نے پیش کیا ہے۔ ان کی فلاقیت اپنے عہد کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے تہذیبی اورثقافتی سرمائے کی ثروت میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی فکری رہ گذرکے اندر روشنی کاپرتوہے۔ یہ روشنی مٹی کی خوشبوسے گندھی ہوئی ہے۔ وہ باریک بیں ہیں، تازہ دم ہیں اور وسیع النظر ہیں۔ ان کے تخلیقی عمل میں زندگی کے تجربے کی شدت اورتوانائی ہے۔ اسی لئے ان کے افسانے کی ترجیحات میں اسرارورموز، فنی بصیرت اور لفظیات وتلازمات کوبرتنے کاشعور دیکھاجاسکتاہے۔
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
|