donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Jane Ghazal

 

’’جــانِ غــزل‘‘
 
 شاعرا ت کی غزلیہ شاعری کابیش بہا خزینہ
 
ڈاکٹر مشتاق احمد، پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ
 
اردو شاعری کے باب میں صنفِ غزل ہر عہد میں نمایاں رہی ہے ۔اگرچہ اس پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں اور اس کی گردن زدنی کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن غزل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کتنی سخت جان ہے۔ پروفیسرکلیم الدین احمد نے اگر اسے نیم وحشی صنفِ سخن ثابت کرنے کی کوششِ رائیگاں کی تو پروفیسر عبد المغنی نے اسے اردو شاعری کی محبوب صنفِ سخن کا درجہ عطا کیا۔ بلا شبہ غزل کی سحر آفرینی کبھی کم نہیں ہوئی۔جب کبھی غزل کی تر دامنی پر سوال اٹھایا گیا تو غزل نے اپنا دامن نچوڑ کر یہ دکھلا دیا کہ اس سے کتنے فرشتے وضو کرنے پر مجبور ہیں۔ اور غزل کو یہ ناز کیوں نہ ہوکہ ولیؔ دکنی سے لے کر صاحبِ کتاب مشتاق دربھنگوی تک نے غزل کے پودے کی آبیاری میں اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے اور اسے تناوری بخشی ہے ۔’’جانِ غزل‘‘ جنابِ مشتاق دربھنگوی کی تازہ ترین تالیف ہے۔ 272 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 232شاعرات کی غزلیہ شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کئے گئے ہیں اگر چہ کئی شاعرات کی نظمیہ شاعری بھی شامل ہے۔ مثلاً سحر برنی،شبنم عشائی، شمع اختر کاظمی،عطیہ حسین خاں کی نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ لیکن اکثریت غزلیہ اشعار کی ہے ا س لئے اس کتاب کو اردو شاعرات کی غزلیہ شاعری کا بیش بہا خزینہ کہا جا سکتا ہے ۔مشتاق دربھنگوی جہانِ ادب میں اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں ۔ اس تالیف سے پہلے بھی ان کی نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ موصوف کم وبیش تین دہائی سے پیشۂ صحافت سے منسلک ہیں اور ان دنوں اردو کے مؤقر روزنامہ ’’اخبارِ مشرق‘‘ کلکتہ سے وابستہ ہیں۔ادارہ اخبارِ مشرق کی جانب سے اکثر و بیشتر موضوعاتی کتابیں شائع کی جاتی ہیں اور جنابِ مشتاق دربھنگوی اس ادبی فریضے کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہے ہیں۔ پیشِ نظر کتاب ’’جانِ غزل‘‘ بھی اخبارِ مشرق پبلی کیشنز سے ہی شائع کی گئی ہے۔یہ کتاب بایں معنی ایک اہم ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں اردو کی معروف اور غیر معروف دونوں طرح کی شاعرات کے کلام کو یکجا کیا گیا ہے ۔یوں توعصرِ حاضر میں اردو تحقیق وتنقید کے باب میں نسائی ادب ایک خاص موضوع قرار پایا ہے اور اکثر وبیشتر شاعرات کے کلام پر تنقیدی مضامین اخبار ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک ’’جانِ غزل ‘‘ کا سوال ہے تو میں اپنے محدود مطالعے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری نظر میں اب تک کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں اتنی شاعرات کاغزلیہ کلام متن کی صورت میں موجود ہو۔یوں تو غزل پر ہی یہ الزام رہا ہے کہ اس کا دائرہ زلف ورخسارتک محدود ہوتا ہے اور جب صنفِ نازک کے حوالے سے غزل کا ذکر چھڑتا رہا ہے تو بس یہ کہہ کر اسے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا کہ اس میں حسن وجمال کے ذکر کے سوا اور کیا ہوگا۔لیکن انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اگر اردو شاعرات کی غزلیہ شاعری کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ اردو کی شاعرات نے غزلیہ شاعری کو موضوع اور مواد دونوں اعتبار سے نہ صرف بلند معیار بخشا ہے بلکہ اس کی معنویت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ بالخصوص عہدِ حاضر کی شاعرات نے ان تمام موضوعات کو غزل کے دھاگے میں پرونے کی کوشش کی ہے جن سے زندگی کی ڈور بندھی ہے، اسی لئے شاعرات اور شعراء کی غزلیہ شاعری میں کسی طرح کی تفریق شریعتِ تنقید میں بجا نہیں۔ اس بات کا احساس ’’جانِ غزل ‘‘ کے مرتب مشتاق دربھنگوی کو بھی ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ:
 
 ’’ایسا بھی نہیں کہ ہماری شاعرات کی تخلیقات شاعری کے مزاج، معیار اور فن ورمز پر کھڑی نہیں اترتی ہیں اور ان کے یہاں وہ ادبی شان اور طمطراق نہیں ہے جو ہماری اردو غزلیہ شاعری کی شان اور پہچان رہی ہے ۔میرا تو یہ ماننا ہے کہ پوری اردو شاعری میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ قدم ملا کر آگے بڑھ رہی ہیں، اس لئے جنس کی سطح پر فنکاروں کے مابین کسی بھی طرح کی تفریق مناسب نہیں۔ معیار کے لحاظ سے شعراء اور شاعرات کے درمیان درجہ بندی ادبی دیانتداری کے سخت خلاف ہے ‘‘(ص: ۱۰)
بلا شبہ اگر نام مخفی رکھا جائے اور اشعار سامنے ہوں تو یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ شعر ہمارے شاعر کا ہے یا شاعرہ کا ۔مثلاً عظمیٰ پروین کایہ شعر :
 
بے ساختہ ہے رونے پہ مجبور ایک باپ
بیٹے نے جب سنایا بغاوت کا فیصلہ
یافہمیدہ ریاض کا یہ شعر :
طویل رات نے آنکھوں کو کر دیا بے نور
کبھی جو عکسِ سحر تھا سراب نکلا ہے 
ان دونوں اشعار کے قرأت سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل ہو جاتا ہے کہ شعر میں عورتوں کے احساسات ہیں یا پھر مردو ں کے جذبات کی عکاسی۔ لیکن اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نسائی ادب کی انفرادیت ہی اس بات پر قائم ہے کہ عورتوں کے جذبات واحساسات مردو ں کے احساسات وجذبات سے قدرے مختلف ہوتے ہیں کہ جس موضوع کو پروین شاکرؔ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، زہرہ نگار، زاہدہ زیدی، ادا جعفری وغیرہم نے اپنی شاعری کے سانچے میں پیش کیا ہے اس موضوع کو اس عہد کے ہمارے شعراء پیش نہیں کر سکتے کیوں کہ فطری طورپر عورت اور مرد کے شعور کی سطحیں مختلف ہوتی ہیں۔مثلاً ؔ
 
رضوانہ ارمؔ کا یہ شعر :
سب کرچیاں حیات کی میں چن بھی لوں اگر
جو مسئلے درپیش تھے وہ تو نہ حل ہوئے
یا ڈاکٹر راحت بشیر بدرؔ کایہ شعر :
ہیں نائو مری آنکھیں اس دل کے سمندر میں
وہ نائو میں بیٹھے ہیں آنکھوں پہ فدا ہو کر
یا نغمہ نور کا یہ شعر:
گھر وہ جب تک نہیں آجائے گھٹن ہوتی ہے
کوئی کنگن مجھے بہلائے نہ جھمکا کوئی
 
ان اشعار کی قرأت سے ہی یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ یہ تخلیق کسی عورت کے دل کی آواز ہے ۔اس لئے اب مغربی ادب کی طرح مشرقی ادب میں بھی نسائی ادب کا مطالعہ سنجیدگی سے کیا جانے لگا ہے اور اردو میں بھی اس پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔’’جانِ غزل‘‘ بھی نسائی ادب کے باب میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے ۔’’جانِ غزل‘‘ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری شاعرات نے غزلیہ شاعری کو نہ صرف فکری وسعت دی ہے بلکہ فن وتکنیک کے تقاضوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ تغیراتِ زمانہ پر ان کی نگاہ رہی ہے، پامال ہوتی تہذیبی قدریں اور دم توڑتی انسانیت ان کے احساس وجذبات کا مرکز و محور رہا ہے ۔اگرچہ’’ جانِ غزل‘‘ میں شاعرات کے منتخبہ اشعار ہی شامل کئے گئے ہیں ۔لیکن یہ نمونے کے اشعار ان شاعرات کی ذہنی پختگی کے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ میرے خیال میں مرتب جناب مشتاق دربھنگوی نے ’’جانِ غزل‘‘ کی صورت میں جو ادبی تحفہ قارئین کے لئے پیش کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں اردو غزل کے سنجیدہ قارئین کے لئے ذہنی آسودگی کا سامان فراہم کرے گا اور بالخصوص نسائی ادب پر کام کرنے والے ریسرچ اسکالروں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔دیدہ زیب ٹائٹل اور صاف وشفاف طباعت سے آراستہ اس کتاب کی قیمت 200/-روپے ہے اور اسے مرتب کے پتہ ’’اخبارِ مشرق۔ 12 درگاہ روڈ، کلکتہ۔17‘‘ سے رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
 
…………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1040