donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rahat Mazahri
Title :
   Aik Lafz Ki Talash Ke Ayine Me Sted Shoaib Raza Fatmi



ایک لفظ کی تلاش کے آئینے میں سید شعیب رضا فاطمی

(تنقیدی جائزہ)


  ڈاکٹرراحتؔ مظاہری


ترقی پسند ادیب ،فلمی دنیاکے عظیم نغمہ نگار، ناآسودہ زندگی کی پرچھائیوں اورتلخیوںکے شاعر مرحوم ساحرؔلدھیانوی نے کسی موقع پر اپنی شاعری کاتجزیہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ
’’اچھی شاعربھلے ہی کسی مخصوص نظرئیے پرپوری نہ اترتی ہو،لیکن اس کی عظمت پرکوئی اثرنہیں پڑتا، ڈاکٹراقبال سے شدید ترین نظریاتی اختلاف کے باوجود میں ان کی شاعرانہ عظمت کامعترف ہوں، لکھتے وقت ادیب کو اپنی شخصیت کے ساتھ سچارہناچاہیئے،جوکچھ بھی کہاجائے اس میں ضمیرکی شرکت ضروری ہے،یعنی اندرسے بھی کچھ ایسالگتاہو توان کہی بات اندر ہی اندرگولہ بن جائے گی،جوتکلیف دے گی،شعرکہنے کے بعد اس پرکونسالیبل چسپاں کیاجائے گا،یہ ادیب کی نہیں لیبل فروشوں کے سوچنے کی بات ہے،ادب اورحقیقت شخصیت کے اظہارکانام ہے،یہ ایک نفسیاتی عمل ہے،اگروہ اپنے مزاج کے خلاف کسی لیبل کے لئے لکھتاہے تواسے کوئی تسکین نہیں ہوگی،،

ساحر کے ان بیش بہا جملوں کے بعد اس مجموعے کے خالق سیدشعیب رضا فاطمی کے مندرجہ جملے پڑھئے توخود آپ کو شعیب رضاکے فکری معیارو منازل کا اندازہ ہو جائے گا،، کہ انھوں نے نظم کادامن صرف اپنے کسی ذاتی شوق وتسکین کے لئے نہیں تھاما ۔بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک عظیم فلسفہ ہے اور وہ ہے شعیب رضا کے اندر بیٹھا وہ تخلیق کار کہ جوکہ ان کو ا ن کے مافی الضمیرکواندرسے باہر لانے کیلئے مہمیز لگاتا رہا، اسی لئے وہ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے الفاظ ومعانی کو خون دل پلاتے ہیں جیساکہ اقتباس  ہٰذا سے عیاںہے،

،،میرے لئے اسکرپٹ لکھنا ہو ،یامقالہ،یاکسی بھی کتاب کاپیش لفظ لکھناہویااخبارکااداریہ یاکالم،یاکسی ادبی کتاب پرتبصرہ کرناہویاکسی مذہبی عالم کے لئے تقریر قلم بند کرنا،سب کچھ ایک جیسالگتاہے،اورآج بھی تقریباََ ہرروز اس مشینی اندازمیں یہ سب کرتاہوں لیکن ایک ایک نظم کو میں نے خون دل پلایاہے،اسے مہینوں اورکبھی کبھی برسوں ذہن کے نہاں خانے سے باہرنہیں آنے دیا،،

اس سے معلوم ہوتاہے کہ شعیب رضا نے آزاد نظم ،جس کے وہ بلاکسی مبالغہ ودریغ بے تاج بادشاہ ہیں صرف اس لئے اختیار نہیں کیا، کہ جس طرح مشہور ہے کہ جولوگ پابند نظم کہنے کاحوصلہ نہیں رکھتے وہ اس صنف سخن کو اپناکر باقاعدہ شاعروں کی فہرست میں اپنااندراج کرالیتے ہیں، حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اردوشاعری میں آزاد نظم کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں، بقول جناب شمیم احمد،،آزادنظم مغرب سے آئی ہوئی یہ شعری ہیئت اردومیں بہت مقبول ہے،انگریزی میں اس کا نام ،فری ورس، ہے انگریزی اصطلاح کا لفظی ترجمہ کرکے اردومیں اس کانام ،آزادنظم ، رکھا

(درس بلاغت:150)

 مذکورہ تشریح کے بعد یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس کی ایجاد انگریزی ،فرنچ اوراسپینش زبانوں کی تقلید میں میراجی نے کی، البتہاس صف نظم کو انگریزی سے لیاگیا اورمیراجی کواردومیں اس کا پہلا شاعر قراردیاجاتاہے ، میراجی کے بعد اردوزبا ن میں اس صنف کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی جیساکہ اس سلسلے کے مشہور شاعروں میں سجاد ظہیر کانام بڑانمایاں ہے ، آزادنظموں کاان کا پہلا مجموعہ ،پگھلانیلم ،ہے جو کہ 1964میں پہلی بارشائع ہوا،جیساکہ نثری نظم کے ایک ہم عصر شاعر ڈاکٹرمحمدعارف خان،المتخلص بہ عارف نجمیؔ نے اپنی تازہ ترین تخلیق،اردومیںنثری نظم کاآغازوارتقا،میں تحریرکیاہے،

اب ایک سوال یہاں بھی پیداہوسکتاہے کہ سیدشعیب رضافاطمی نے اس صنف نظم کیوں اپنایاجس پر غیرموزوں وغیرشعری فطرت کی شاعری کاالزام ہے توا س بارے میں میرے سوچنے کاانداز عام ناقدین سے ذراکچھ مختلف ساہے کیونکہ ہم لوگ جس دورمیں جی رہے ہیں یہ دوراپنی لاکھ ترقیات کے باوجود رجعت پسندی کادورہے ،آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انسان نے اپنی رہائش کے لئے سب سے پہلا جوتصورایک آشیانہ کی تعمیر کاکیا تھاوہ صرف سرچھپانے والی جھونپڑی سے تعبیر ہے،آگے اس میں حسب ضرورت واستطاعت مزید آرائش وزیابائش شامل ہوتی رہیں،
 اگرہم آج کے ڈبہ بند مکانوں یعنی فلیٹ کلچر کاتصور کریں تویہ تجربہ اس قدیمی تصور سے کچھ زیادہ مختلف نہیں،جوکہ انسانی مکان کا پہلاخاکہ و ہیولیٰ تھا،

 اسی طرح اگرہم شعروادب کی وہ قدیم تعریف وہ تاریخ دیکھیں کہ جس میں کفار عرب نے قرآن کریم کو شاعری سے تعبیرکیاتھا توان عناصر کی روشنی وتصور سے یہ واضح ہوتاہے کہ جہلائے عرب کے تصور میں شعرہراس کلام کو کہاجاسکتاتھاجو کہ مسجع، مقفیٰ ودلوں پراثراندازی کی صلاحیت وکیفیت اپنے اندررکھتاہو،

تواسی طرح ہم جدیدنظم جس کو نثری نظم یاآزادنظم کا نام دیں اس میں بھی بدرجہ اتم یہی صفت پائی جاتی ہے کہ دلوں کو متأثر کرنے والی اور گرمانے کی اس کے اندر بخوبی صلاحیت ہے ، اسی لئے اس کو انگریزی ادب میں اعلیٰ مقام حاصل ہو اور اب اردو میں بھی اس کو کافی مقبولیت حاصل ہورہی ہے جیساکہ ہمارے عہد کے اس زمرے کے شعرامیں محمدعلوی،ن م راشد ،ش ک نظام وغیرہ سیکڑوں نام گنائے جاسکتے ہیں تو سید شعیب رضافاطمی کا نام بھی آزاد نظم کے حوالے سے ایک معتبرنام ہے ،

میں یہ بات  بڑے فخرسے کہہ سکتاہوں، جیساکہ منجملہ دیگرنظموں کے ان کی نظم،الٹراساؤنڈ ہے ، ،ابھی وہ نطفہ/وجودپانے کے مرحلے سے گذررہاتھا/بگڑرہاتھا،سنوررہاتھا /

کہ اک جھماکے کی روشنی سے /نہاگیااس کا کل سراپا /وہ کلبلایا،وکسمسایا /کہ روشنی کی تپش سے اس کا  وجودجوتھالرزگیاتھا /اسے خبربھی نہیںتھی اس کی /کہ یہ توپہلا ہی مرحلہ ہے /ابھی یہ تفتیش ہورہی ہے /کہ ہ ادھوراوجود /بننے کے بعد پورا /رہے گاکیسا /یہ ابن آدم بنے گا؟/یاپھر۔۔۔۔۔!/بنے گا آخر بنت حوّا /اگریہ ثابت ہواکہ اس کو/ ہے اپنی ماں سے ہی خاص نسبت  /توخیرسے یہی نہیں رہے گی /تما م آلات سائنسی سے /مسلّح ہوکر یہ ڈاکٹرخود /کرے گااس کو فنا /کہ جس کو وجود /بننے کے مرحلے سے گذررہاہے /بگڑرہاہے، سنوررہاہے۔

  چونکہ اس وقت عالمی طورپرہرانسان جن اہم مسائل سے دوچار ہے ان پر ایک صحافی ہونے کے ناطے شعیب رضاکی بھی گہری نظر ہے اسی لئے تو اپنی نظموں کے سہارے وہ دورجدید کے غیرمہذب اوردشمن انسانیت نظریات پرنہ صرف گہرا وارکرتے ہیں بلکہ اپنی قدرت کلام سے اس کے وجود کے تانے بانے کو بھی تارتار کردیتے ہیں، جیساکہ ان کی نظم،اسلام، کے یہ بند ملاحظہ ہوں،اور۔۔۔۔!بوڑھے شکاری کو آرام ہے /شاخ مخصوص سے تاک کر / جب ضرورت  ہوئی/ جس پرندے کو چاہا  /اُسے / دام میں لے لیا۔آپ غورکیجئے کہ وطن عزیز ہویاکہ مسلم ممالک۔ بین الاقوامی طورپر امت مسلمہ ا ن ہی حالات وحوادثات سے دوچارہے کہ صیہونی طاقتیں یکے بعد دیگرے عرب ممالک اور مسلم عوام وسربراہوں کواپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں، مگرمسلمانوں کو ابھی اس کا شعور ہی نہیں کہ اگرآج تمہارے حریف کو تختہ دارپر چڑھایاگیاہے توخوشی کے تازیانے بجانے کے بجائے فکر فرداکرو،،اسی طرح ابن الوقت پارٹیوں اور عناصر نے ہندوستانی مسلمانوں کو فرقوں اور ذاتوں میں بانٹ رکھاہے جس کی بنیاد پروہ مسلم ووٹوں کی تفریق یا حمایت کے سہارے ملک پر حکومت کررہے ہیں ، مگر مسلمان ہے کہ غیروں کے جھنڈے اٹھانے میں اپنے لئے فخر محسوس کرتاہے،اسی طرح ان کی نظم ابوریشن،۔۔۔ بھی ہے۔

شعیب رضا صحافی بڑے ہی یاشاعر، اس کو تو میں نے کبھی جانچنے یاپرکھنے کی کوشش نہیں کی البتہ مجھے تو یہ لگا کہ وہ شکاری بڑے ہیں کیونکہ جہاں بھی دیکھا ان کے نخچیر میںاخلاق ومحبت کے دوچار شکاریا اسیرہمارے جیسے ضرور پڑے جیساکہ ان کی میری پہلی ملاقات میرے کرم فرما ڈاکٹرزین العابدین صاحب کے ایماپر اس وقت ہوئی تھی کہ جب انھوں نے اپنا ایک دیدہ زیب ومعیاری رسالہ ماہنامہ،،صدّیق ،، نکالا، جس کی کاپی لے کر موصوف میرے کلینک میں اس میں تخلیقی تعاون کے مقصد سے تشریف لائے تھے ، رسالے کا تو غالباََ دوسراشمارہ میرے سامنے نہ آسکا البتہ شعیب رضا برابر تب ہی سے میرے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات اوراپنی خاندانی شرافت کو بنھا رہے ہیں ،

مشہورادیب ونقاد ڈاکٹرجمیل جالبی نے اپنے ایک مضمون میںکسی دانشورکاقول نقل کیاتھا کہ ،،شاعری مسائل حیات کا نام ہے ،توہم بھی مذکورہ قول کی روشنی میں سیدشعیب رضا فاطمی کی شاعری اور،،ایک لفظ کی تلاش کو اگردیکھیں تومعلوم ہوتاہے کہ شعیب رضا بھی مسائل حیات سے مبراہیں اور نہ کوئی دوسراادیب۔ اور چونکہ ادب اپنے زمان ومکان کا عکّاس ہوتا ہے ا س لئے یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کا یہ مجموعہ بھی مسائل حیات سے لبریز ،عہدحاضر کا ترجمان،ان کی بالغ نظری اورعلمی شعورکا جیتا بییّن اورجاگتاثبوت ہے ، طب یونانی میں ادویۂ مفردہ کی طرح اس سے سیدشعیب رضا فاطمی کی شاعری اور ادب میں ان کی درجہ بندی کامعیار بھی مقررکیاجاسکتاہے،

ان ہی الفاظ کے ساتھ میری ان کو بہت بہت مبارکباد اور میری ڈھیرساری نیک خواہشات سید شعیب رضافاطمی کے ساتھ، اللہ حافظ،

emil id:rahatmazahiri@gamil.com

09891562005

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 676