donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. T. R. Raina
Title :
   Afsanwi Majmuya Panchhi Jahaz Ka

افسانوی مجموعہ:’’پنچھی ؛جہاز کا‘‘

 

ڈاکٹرٹی۔آر۔رینا

    تاریخ اورافسانے میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ تاریخ میںسنہ درست ہوتے ہیں، واقعات نہیں۔جب کہ افسانے میںواقعات درست ہوتے ہیں،سنہ نہیں۔

    افسانہ نگار اپنے زمانے کا فرد ہوتا ہے۔وہ اس سے اچھے برے(اچھے کم برے زیادہ)اثرات قبول کرتا ہے۔جس ماحول میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے،جو کچھ وہ اُس سے حاصل کرتا ہے،وہ اُسے ری فائنڈکرکے واپس کرتاہے۔اصل میںافسانہ نگاراپنے معاشرے کانبّاض ہوتاہے۔بیماری کی تشخیص کرتاہے۔جہاں وہ گندہ اورغلیظ موادپاتاہے، وہیں نشترلگاتا ہے،ایک ماہرسرجن کی طرح۔اُس کے آپریشن کے آلات اُس کا اسلوب اور زبان وبیان ہوتے ہیں۔

    ادبی تحریر کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں،جن کو یہاںگِنوانا مناسب نہیں۔ہاں اُن میں سے ایک تحریرافسانوی تحریر ہوتی ہے۔افسانہ چاہے دس صفحات کاہویاپانچ کا،تین کاہو یا دوکا،ایک کا ہویاآدھے کایاپھردوسطری،وہ پورامزہ دے ۔حنیف سیّد کی تحریرایسی ہی ہے۔

    اچھے افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اُس کا پلاٹ اور کردار حقیقی ہوں۔وہ ہمارے ذہن کے کمپیوٹر چِپ میں اِس طرح محفوظ ہوجائیں کہ اُس کی سطح پر  تاحیات گردش کرتے رہیں۔

    افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس میں کہانی پن ہو۔جب تک ہم اُس کے مطالعے میں منہمک ہوں تو وہ ہمارے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں رکھے،اُسے کہیں سے بھی راہِ فراراختیار نہ کرنے دے۔افسانہ ختم ہونے پر وہ ہمیںسوچنے پر مجبور کر دے۔یہ خصوصیت حنیف سیّد کے افسانوں میںبدرجہ اُتم پائی جاتی ہے۔

    ہمارے ادب کی ہرصنف میںایک وباسی پھیل چکی ہے کہ جب ہم کسی ادیب، شاعر،ناول نگاریاافسانہ نگارپر کچھ لکھنے لگتے ہیں تو اپنی علمیت کی تشہیرکے لیے اُس کا مقابلہ مغربی ادب کے بڑے بڑے ادیبوں،شاعروں،ناول نگاروںاورافسانہ نگاروں سے کرتے ہیں،جن میں اُس کی اصل شخصیت دب کر رہ جاتی ہے۔ہم اِس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اُن حضرات کاجغرافیائی،معاشرتی اور تہذیبی نظام ہم سے بالکل مختلف ہے۔ ہمیں یہ دیکھناچاہیے کہ ہمارے ادباوشعراکن تہذیبی حالات سے گزرے ہیںاور گزر رہے ہیں؟ اُنھوں نے اپنا مقام ومرتبہ کیوں کر مرتب کیا ہے؟اُس نے اپنے ماحول کو کن آنکھوںسے دیکھا ہے؟اُس کا تجزیہ کس طرح کیااور اُس نے کیا پیش کیاہے۔۔؟ حنیف سیّد ایسے ہی ایک افسانہ نگارہیں۔تب ہی تو وہ اپنی ایک منفرد پہچان بنائے ہوئے ہیں۔جس کے لیے اُنھیںکسی سرٹی فیکٹ کی ضرورت نہیں۔اُنھیں اپنے قلم پر پوری گرفت ہے۔ افسانوی زبان استعمال کرنا جانتے ہیں۔اُن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ موجودہے۔ تشبیہوں اور استعاروں سے وہ مناسب کام لینا جانتے ہیں۔اُن کی تحریر میںاردوکے ساتھ ہندی اورانگریزی الفاظ کی پیوند کاری بڑی ہنر مندی سے کی گئی ہے،جس سے عبارت میں کھردرے پن کا نہیں،بل کہ ریشمی پن کا احساس ہوتا ہے،جوذہنی طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

    حنیف سیّد کا جنم ایسے وقت میں ہواجب ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی اور ملک بٹوارے کے بعدآزادیِ صبح دیکھنے کا منتظر تھا۔جب انھوں نے افسانوی میدان میں قدم رکھاتوترقی پسندی زوال پذیرہوچکی تھی اور جدیدیت اپنے پیرپھیلا رہی تھی۔اپنے عہدشباب پر پہنچ کریہ تحریک بھی زوال پذیرہوئی اورمابعدجدیدیت نے جنم لیا۔پھراپنے اثرات فن کاروں پر چھوڑنے شروع کیے۔بہت سے شاعر،ناول نگاراور افسانہ نگاراُن کے اثرات سے ایسے متاثر ہوئے کہ اپنا راستہ بھٹک گئے اور ادبی سطح سے ایسے غائب ہوئے کہ آج تک اُن کا نام ونشان تک باقی نہیں ہے۔ لیکن حنیف سیّد نے اپنے کوان اثرات سے محفوظ رکھا۔کسی بھی تحریک کالیبل ان پر نہیں لگایاجاسکتا۔ان کے افسانوں کے پلاٹ ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔اُن کے کردار عام انسانوں کی طرح چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔وہ ویسی ہی زبان بولتے ہیںجس طبقے سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔اپنے اسلوب کے ذریعے حنیف سیّدنے اپنے افسانوں میں ایسی منظر کشی کی ہے کہ واقعات کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔

    حنیف سیّدکے اس افسانوی مجموعے کے پہلے اور دوسرے افسانے میں عورت کی لاچارگی،بے بسی،کمزوری،مظلومیت،معصومیت،ذہنی اورنفسیاتی کشمکش کوبڑی خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔عورت اپنی مجبوری،بے بسی اورلاچارگی کے سامنے ہتیار ڈال دیتی ہے۔اپنی جوانی اور بڑھاپا تک بیچ ڈالتی ہے۔پیٹ کے تندور کی آگ کوٹھنڈا کرنے کے لیے،اُس کا ضمیر،اُس کی شرم وحیا،اُس کی شرافت،اُس کی عزت اوراُس کی خودداری سب جل کر بھسم ہو جاتی ہے۔۲۲؍سالہ جوانی،۸۰؍سالہ بوڑھے ۔اورنوخیزکلی، ایک آنکھ والے کالے کلوٹے کی مجبوراًاور ضرورتاًنذر ہو جاتی ہے۔

    یہ وہی عورت ہے جس نے بڑے بڑے رِشی مُنی،پیر وپیغمبر پیدا کیے،دنیا کے گھٹیا سے گھٹیا انسان پیدا کیے،اور اُنھیں کے ہاتھوں نے اُس کے دامن کوتار تار کر ڈالا۔اُس کے ایک ایک انگ کوجھنجوڑاور مسل ڈالااوروہ خاموش پڑی سب کچھ سہتی رہی۔

    ’’ تجدید؛سہاگ رات کی‘ ‘میں عورت کی صورت بدل جاتی ہے۔وہ ہیبت ناک ہوجاتی ہے،وہ اپنی شرافت اپنی شرم وحیا،اپنی معصومیت،اپنی مظلومیت،اپنی بے بسی،اپنی لاچارگی کویک سر اُتار پھینکتی ہے۔وہ طاقت میں مرد سے آگے نکل جاتی ہے،مرد کو مروڑ کر رکھ دیتی ہے،اُس کے پر کاٹ کر بے بس پنچھی کی طرح تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔اُس پر مردانگی کا ایسا نشہ چھا جاتا ہے کہ اُسے اپنے آگے مرد کچھ نہیں دکھائی دیتا۔یہ جنون،یہ پاگل پن اُس کو اصل مقام سے بھٹکا دیتا ہے۔اُس کا سارا ذہنی سکون لُٹ جاتا ہے۔مرد کو تو وہ بیرونی طور پر تڑپاتی ہے۔مگر اندر سے وہ خود ایسی آگ میںجلتی ہے جس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اُس کو اُسی مرد کی آغوش کی ضرورت ہوتی ہے۔جب اُس کے ذہن سے پاگل پن کا پردہ ہٹتا ہے تو وہ ایک گھائل پنچھی کی طرح اُسی مرد کی آغوش میں آگرتی ہے۔

    ’’چمچے؛اسٹیل کے ‘‘میں حنیف سیّد نے موجودہ دور کی سیاسی عورت کے ذہن کا نقشہ کھینچا ہے کہ وہ اعلا رتبے پر پہنچ کر مردوں سے انتقام کی آگ میںعورتوں کو مردانے اور مردوں کوزنانے کپڑے پہنوا کر زنان خانے میں قید کروا دیتی ہے۔

    ’’باغی رُوحیں‘‘خوب صورت افسانہ ہے۔جس میںرُوحیں انسانی جسم میں جانے کے بجاے جانوروں کی جسموںمیں جانے کے لیے تیارہیں۔وہ خدا کے سامنے محض اس لیے بغاوت پر آمادہ ہیںکیوں کہ جانوروں کی بہ نسبت دنیامیں انسانوں کے اندربے شمار برائیاں موجودہیں۔

    ’’اشرف المخلوقات،گدھا اور سونامی لہر‘‘میں حنیف سیّد نے گدھے کے مُن￿ہ سے وہ مکالمے کہلوائے ہیں کہ اشرف المخلوقات کو نیچادکھادیاہے،اُس میں اتنی حِس ہے کہ وہ قدرتی آفات کے آنے سے قبل اُس کے اثرات محسوس کر لیتا ہے۔انسانوں میں یہ حِس نہیں پائی جاتی۔

    ’’دان￿و ؛اپنے اپنے‘‘میں حنیف سیّد نے نئی تہذیب پر خوب چوٹ کی ہے۔ مغربی تہذیب ہندوستانی تہذیب میں مل کرتیزی سے اُسے کھوکھلا کر رہی ہے۔آج کی نئی نسل اور اُونچے طبقے کے لوگ اِس کا شکار ہو رہے ہیں۔

    ’’لکیر؛ سان￿پ کی‘‘میں حنیف سیّد نے درس دیا ہے کہ عورت کی عمرچاہے کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے اُسے مردکی دوری کا احساس ہوتا رہتا ہے۔یہ فطری عمل ہے کسی ایک کا دوسرے کی زندگی سے الگ ہوجانا،دوسرے کے لیے نفسیاتی اور سماجی مشکلیں پیدا کر دیتا ہے۔یہی صورتِ حال اس افسانے کے نسوانی کردار کی ہے۔جب وہ اُن کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

    ’’اِس ہاتھ دے ؛اُس ہاتھ لے‘‘اللہ تبارک تعالا بڑا انصاف پسند ہے۔اس دنیا میں انسان جیسا کرتا ہے ،ویسا ہی بھرتا ہے۔فیاض نے اپنی سالی کی عزت لوٹ کربیوی کے خاندان کورسوااور برباد کیا،بیوی نے پرویز کے ذریعے فیاض کی بیٹی کی عزت لُٹوا کربھرے سماج میں اپنی عزت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شوہر کورسوا کر کے حساب برابر کر لیا۔

    ’’آن￿سو؛عقیدت کے ‘‘میں افسانے کے وہ تمام عناصر موجود ہیں،جو ایک اچھے افسانے میں ہونے چاہیں۔افسانے میں سرتاج کا کردار مثالی کردارہے،جو سماج کی بھولی بھالی لڑکیوں کی عزت ،خود بیچ میں مخل ہوکرمنچلے نوجوانوں سے بچا تے ہوئے ، اُنھیںسماج کے اچھے لڑکوں کے ساتھ شادی کرواکرحقیقی زندگی شروع کرنے کے مواقعے فراہم کرتا ہے۔

    ’’چابی‘‘آج کل سماج میںرونما ہونے والے واقعات پر مبنی ہے ایک شخص روپے کے لالچ میں اپنی پہلی پتنی کوزندہ جلاکر دوسری شادی کرلیتا ہے۔مزید لالچ میں وہ تیسری شادی کرنے کی تیاری میں دوسری کوبھی زہر دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن پہلی پتنی کی یاد ؛رُوح کی صورت میںآکر اتنا ڈرا دیتی ہے کہ وہ دوسری کو زہر دینے سے باز رہ کر اُسی کی زلفوں میں سکون محسوس کرتا ہے ۔

    ’’چوراہا‘‘خوب صورت افسانہ ،دو کرداروں پر مشتمل ہے، ایک کردار کٹّرمذہبی ہے جو دوسرے مذہب والوں کو گن گن کر نشانہ بناتے ہوئے لاشوں کے ڈھیر لگاتا ہے۔یہاں تک کہ ایک کتا جب غیرمذہب والے کی لاش پرلپکتا ہے ،تو اُسے پیارا لگنے لگتا ہے، لیکن وہی کتا جب اُس کے مذہب والے کی لاش پر لپکتاہے، تب ہی وہ اُس کو نشانہ بنا دیتا ہے۔ کوّا جب غیر مذہب والے کے یوکلپٹس پر بیٹھتا ہے، تووہ اُس کوّے کو بھی غیر مذہبی تصور کر کے موت کے گھاٹ اُتاردیتا ہے۔مگردوسرا کر دار جو ہر مذہب کو مانتا ہے، جس کو یہ ڈھونگیااوربہروپیا قرار دے کرآج موقع کے تحت موت کے گھاٹ اُتار دینے پر آمادہ ہے، محض اِس لیے نہیںمار پاتا کہ وہ کہیں اُس کے ہی مذہب کا نہ ہو۔ افسانہ نگار نے اس افسانے میں یہ درس دیا ہے کہ آج کے اس بربریت کے دور میں محض وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو ہر مذہب کا احترام کرتا ہو۔اِس افسانے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پورے افسانے میں یہ کہیں بھی پتا نہیں چل پاتا کہ دونوں کردار ہیں کس مذہب کے۔۔۔؟
    اِسی افسانے کے ایک اقتباس میںحنیف سیّد نے ایک انوکھی تشبیہہ کااستعمال کس خوبی سے کیا ہے ۔ غور فرمائیں:

    ’’سامنے کی گلی میں کتامیرے مذہب والی لاش کاخون چاٹنے لگا۔میں نے فوراًرائفل اُس کی طرف کر کے فائر کر دیا۔وہ ’’کیوں کیوں‘‘ کی آواز کے ساتھ اِس طرح ڈھیر ہو گیا،جیسے: مکھّی صابن کے جھاگ پر بیٹھ کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔‘‘

    افسانہ’’انسان‘‘اورافسانوں سے ذرا ہٹ کر ہے۔افسانے کا مرکزی کردار ایک ایسا انسان ہے،جو خدمتِ خلق کواپنا مذہب سمجھتاہے۔جیسا کہ خدا چاہتا ہے،اُس نے دنیا تو سبھی کے لیے بنائی ہے۔سرحدوں کی لکیریں تو انسانوں کی کھینچی ہوئی ہیں۔

    حنیف سیّد کے افسانوں میں ایک بات مشترک ہے کہ اُن میں ایک کہانی کا احساس ہوتا ہے جو ذہنی سطح پردیر تک نقش رہتی ہے۔گو کہ حنیف سیّد نے افسانوی ادب میں کسی نئی طرز کا آغاز نہیں کیالیکن اُنھوں نے قدیم روش سے انحراف بھی نہیں کیا۔بل کہ اُنھوں نے پریم چند،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسین منٹو کے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی کو منفرد تکنیک ،لہجے اور اسلوب سے مزید رنگا رنگ جِلا بخشی۔مجھے امید ہے جب تک اُن کے قلم میں سیاہی رواں ہے نئے نئے افسانے صفحۂ قرطاس پربکھر کرافسانوی ادب کومنورکرتے رہیں گے۔

٭٭٭٭٭

رہاڑی کالونی،جموکشمیر

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 738