donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Farhat Qadri
Title :
   Jane Ghazal......Aik Jayeza

 

جانِ غزل… ایک جائزہ
 
فرحت قادری
 نیوکریم گنج ، گیا  بہار
 
فہم و افکار، تہذیب و تمدن کے آئینے میں جو تصویر ابھرکر سامنے آتی ہے اُسے ہم اپنی زبان میں ریختی کہتے ہیں۔ زبان و ادب کی جو چاشنی ہے وہ ہمارے فنِ تصور کو جلا بخشتی ہے۔ اردو جو ہماری اپنی زبان ہے بہت ہی خوبصورت اور شیریں زبان ہے جس میں علم و حکمت کے خزانے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ یہ وہ جوہر ہے جس کی روشنی پوری دنیا کو روشن کررہا ہے اور شعر و سخن کی جبیں پر چاند بن کر فروزاں ہے۔ جسے ہم شاعری کہتے ہیں وہ دراصل شاعر کے جذبات کا آئینہ دار ہے اور اسی آئینے میں غزل، نظم، منقبت، حمد، نعت وغیرہ عکس ریز ہیں۔ شاعری ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہے۔ یہ قدرت کا وہ عطیہ ہے جو شاعر کے حساس سوچ کو جنم دیتی ہے جسے شاعر اپنے دل و دماغ سے ترتیب دیتا ہے۔ شاعری میں مردوں کا رجحان سب سے زیادہ تو ہے ہی لیکن خواتین بھی اس فن میں پیچھے نہیں ہیں۔ انہیں بھی اس فن میں کافی مہارت حاصل ہے اور شعر و سخن سے کافی حد تک دلچسپی رکھتی ہیں جو شاعری کی افادیت کو آگے بڑھانے میں اور بھی معاون ثابت ہورہی ہے۔
 
اخبار مشرق کے جوائنٹ ایڈیٹر مشتاق دربھنگوی کا ترتیب دیا ہوا قیمتی مجموعہ غزلیات ’’جانِ غزل‘‘ لائق ستائش ہے۔ اس کی عمدگی و رعنائی کو دیکھ کر میں یہ طے نہیں کرپا رہا ہوں کہ کن لفظوں میں اس کی تعریف کروں۔ یہ سرورق سے لے کر آخری صفحہ تک سیکڑوں شاعرات کی تصویروں کے ساتھ جگنوئوں کی طرح اپنی آب و تاب دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہا ہے اور سب سے بڑا کارنامہ اُنہوں نے یہ انجام دیا ہے کہ برصغیر ہندوپاک کی 232 شاعرات کو شعروسخن کے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کردیا ہے اور اردو کے تمام شیدائیوں کو ایک دوسرے سے روشناس کردیا۔ یہ کتاب واقعی ایک دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ یہ ریسرچ کرنے والوں کے لئے مشعلِ راہ کا کام کرے گی جو آنے والی نسلوں کے لئے ایک سرمایۂ افتخار ثابت ہوگا۔
 
اس ضمن میں اُنہوں نے بہار و مغربی بنگال کی شاعرات کا انتخاب بہت ہی غور وفکر کے ساتھ کیا ہے جو قابل تحسین قدم ہے۔ مشتاقؔ دربھنگوی صاحب کی ’’جانِ غزل‘‘ کے باغ میں صنفِ نازک کے فکروفن کے گل بوٹوں کی نگارش ہے جس کی خوشبو سے یقینا شعروادب کی دنیا مہک اٹھے گی۔ اُن کے شعور کی بالیدگی کی چمک شمس و قمر سے کم نہیں ہے جو اپنی آب و تاب سے ساری دنیا کو منور کررہی ہے۔ یہ مشتاق صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اس قوس و قزح کی گنگا جمنی تہذیب کا سہرا یقینا اُنہی کے سر جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنہوں نے اس کا انتساب اردو کی مشہور شاعرہ پروینؔ شاکر کے نام کیا ہے۔ اُن کے قطعہ تاریخ پیدائش سے لے کر قطعہ تاریخ وقات پر جو شعرو ادب کی گلفشانی کی گئی ہے وہ نہایت ہی دل آویز ہے۔ واقعی نسوانی حیات کی روشنی میں وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ’’جانِ غزل‘‘ میں جذباتی اور جمالیاتی اقتدار کی مختلف فکر و فن کے گلوں کی نگارش ہے۔ اس ترتیب کی پیشکش میں ان کی فنکارانہ ہنرمندی، سوجھ بوجھ شامل ہے جس میں خواتین کی فنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اردو کی تحریک، اردو کا فروغ، اردو کی تبلیغ ہی اردو کے گل بوٹوں کو سرسبزو شاداب بنانے میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اردو کے فروغ کے لئے مردو خواتین دونوں کو آگے آنا ہوگا تبھی ہماری اردو کو وہ حق مل سکے گا جس کی وہ مستحق ہے۔ مشتاقؔ دربھنگوی صاحب کی اس بہترین کاوش کے لئے میں اُن کو تہِ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کے کہ وہ آگے بھی اسی طرح ادب کو مالامال کرتے رہیں گے۔ میری دعائیں اور نیک تمنائیں اُن کے ساتھ ہیں۔
……………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 558