donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Farzul Hasan Fard
Title :
   Qasim Khursheed Aur Ret Pe Thahri Hui Shaam

 

قاسم خورشید اور ریت پر ٹھہری ہوئی شام


فوذالحسن فردؔ    

اوم پبلیشنگ ہائوس پٹنہ۔4

بہار میں اردو نژر و نظم کی آبیاری از ابتدا تا حال جاری ہے اور اپنے مخصوص مزاج آہنگ کے اعتبار سے اس کی شناخت بھی قائم ہے۔ یہ الگ بات کہ اس مزاج و آہنگ کا مطالعہ باضابطہ طور پر منظر عام پر نہیں آیا لیکن خال خال اس کا ذکر متقدمین سے لے کر آج تک ہوتا رہا ہے۔ صرف ایک جملے میں اگر اس مزاج وآہنگ کو پیش کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے فن کا تصوف پسند رہے ہیں۔

قاسم خورشید کے افسانوں کی عمومی فضا بھی اس کا احساس دلاتی ہے اور کہیں کہیں پر تو وہ خالص متصوفانہ خیالات کی پیش کش میں کامیاب نظر ائے ہیں جس وقت قاسم خورشید کا افسانوی سفر شروع ہوا تو بہار میں ان کے ساتھ چلنے والے افسانہ نگاروں کی تعداد اچھی خاصی تھی لیکن ان کے ہم عصروں میں کامیابی صرف تین افسانہ نگاروں کا مقدر بنی اور یہ مثلث آج بھی اردو افسانے کے افق پرتابندہ ستاروں کی مانند بہار کی بہترین نمائندگی کا وقار بحال کئے ہوئے ہے۔
قاسم خورشید کو اپنے ہم عصروں سے جو جہیزیں ممتاز و ممیز کرتی ہیں وہ موضوعات کا انتخاب اور اسلوب کے علاوہ ان کا ہندی ادب سے انسلاک بھی ہے۔ انہوں نے اردو افسانوں کے ساتھ ساتھ ہندی کہانیوں کے ذخیرہ میں بھی اضافے کئے ہیں۔ جن میں ’’تھکن بولتی ہے‘‘ ’’کشن پور کی مسجد‘‘ ’’کوئی ہاتھ‘‘تھارپر زندگی اور ’’گنجاکی نینی‘‘ وغیرہ ایسی کہانیاں ہیں جنہیں قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور جس پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ حالیہ دنوں میں ان کے منتخب افسانوںکا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افروز اشرفی نے ’’Waves‘‘ کے نام سے پیش کر کے ان کے افسانوں کو مزید استحکام عطا کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خورشید کے افسانوں میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو عالمی منظر نامے پر لائی جانے کی مستحق ہیں۔

قاسم خورشید کے تعلق سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ نرے افسانہ نگار نہیں ان کا تعلق صحافت، تنقید اور شاعری سے بھی باضابطہ ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ نثر میں انہوں نے اپنے فن کی اساس افسانہ پر ہی رکھی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ تواتر کے ساتھ ان کے افسانوی مجموعے ’’پوسٹر‘‘ ’’ریت پر ٹھہری ہوئی شام‘‘ اور ’’کینوس‘‘ کی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں۔

میں نے رسالوں میں ان کے کچھ افسانے ضرور پڑھے تھے اور یہ احساس بھی ہوا تھا کہ یہ افسانہ نگار بہت جلد اپنی مستحکم جگہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوگا لیکن اب جبکہ ان کا افسانوی مجموعہ ’’ریت پر ٹھہری ہوئی شام‘‘ کو میں ازاول تاآخر پڑھ چکا ہوں تو وہ احساس یقین کا لبادہ اوڑھ چکا ہے۔

پیش نظر کتاب میںنے افسانوں کے علاوہ ۵ فنی افسانے بھی شامل کئے گئے ہیںاور کتاب کا انتخاب ’’پریم چند اور انتظار حسین‘‘ کے نام ہے۔

قاسم خورشید کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے باربار جن چیز نے متاثر کیا ان میں رواں اسلوب کے ساتھ ساتھ موضوعات کا انتخاب ہے۔ فن کار معمولی حادثے یا افراد کو بھی کہانی کے روپ میں ڈھالنے کا ہنرجانتا ہے اور اس جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے میںکامیاب ہے۔ جسے ہم روز معمولی اور غیر اہم گردانتے ہوئے اگے بڑھ جاتے ہیں۔ میرے خیال میں کرشن چندر نے ’’کالو بھنگی‘‘ کے ذریعہ جس سفر کا آغاز کیا تھا۔ قاسمؔ خورشید نے اسے نہ صرف یہ کہ مزید تقویت عطا کی بلکہ یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ سچی کہانیاں تو اج بھی وہی ہیں جو مشاہدے کی گہرائی وہ گہرائی سے گزرتے ہوئے اعتبار حاصل کر لیتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا افسانہ ’’وہ لڑکی‘‘ اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے اردو افسانے کا اکلوتا افسانہ ہے جس میں قاسم خورشید نے ایک باعزت لیکن مفلوک الحال گھرانے کی ایک حوصلہ مند لڑکی کی حوصلہ شکنی اور اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتے ہوئے شرپسند عناصر کے رویوں کو بھی اس خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے کہ یہ افسانہ پورے معاشرے کو متاثر کر جاتا ہے اور بے بس قاری کی آنکھیں نم ناک ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو روزدہرائی جاتی ہے لیکن ہم اسے روز کا معمول سمجھ کر ٹال جاتے ہیں اور ہمارے اندر احتجاج کی چنگاری سرد ہوتی جا رہی ہے۔ افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے اس پر کئی سوالیہ نشان ثبت کئے ہیں۔

’’میّا‘‘بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے پڑھ کر فن کار کی حساس انکھیں چومنے کا من کرتا ہے، ایسی کئی عورتیں ہیہں جو ہمارے معاشرے کے لئے اہم کردار نبھاتی رہتی ہیں ایک ان کا ذکر شاید کہیںملتا ہے۔ عام طور پر ایسی خواتین قابل اطمینان نہیں سمجھی جاتیں۔ قاسم خورشید نے ’’میّا‘‘ کے کردار میں نہ جانے ایسی کتنی بے لوث خواتین کو زندگی عطا کر دی ہے جو ہمارے معاشرے اور ہمارے گھروں میں کلیدی رول ادا کرتی رہی ہیں اور اس کے باوجود ان کی حیثیت رہی ہے۔

’’ریت پر ٹھہری ہوئی شام‘‘ ریگستانی مزدوروں کی زندگی کا بہترین موقع ہے۔ جہاں صرف اور صرف محبتیں ہیں اس کا اظہار نہیں۔

’’روگ‘‘ میں بھی ایک غریب عورت کی غربت اور بیماری کے ساتھ ساتھ اس کی اعلیٰ ظرفی کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اور یہ غریب عورت ایک بڑے پاکیزہ کردار کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔

’’کوئی ہاتھ‘‘ میں افسانہ نگار نے بڑی ہنر مندی کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اگر آدمی باہر سے برا یا بدنام ہے تو ضروری نہیں کہ اندر سے بھی وہ برا ہو۔ کا ہے راکھے ساکھیاں‘‘ بہترین اور اچھوتا المیہ ہے۔ کنّی کا راج کمار بھی اسی قبیل کی کہانی ہے لیکن اس کی پیش کش میں قاسم خورشید نے مقضیٰ زبان کا ستعمال کر کے اسے مزید خوبصورتی عطا کی ہے۔

’’باگھ دادا‘‘ میں قاسم خورشید نے دریا کو کوزے میں سمیٹنے کی کامیاب کوش کی ہے۔ یہ کہانی خود کلامی کے اناز میں بیان کی گئی ہے جو صرف فرد واحد کا لمیہ نہیں بلکہ ان تمام یتیموں کی کہانی ہے جو کم عمری میں شفقت بدری سے محروم ہوجانے کے بعد بے چارگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کہانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان روایات، نفسیات اور روادی کا یہ کہانی اعادہ کرتی ہے جو باعزت گھرانوں کا وشیرہ ہوا کرتی تھی ساتھ ہی تاریخی حقائق کی شمولیت اس کہانی کے حسن کو مزید دوبالا کرتی ہے۔

کشن پور کی مسجد ’’جڑیں‘‘ اور ’’ٹھیس‘‘ حسب الوطنی کا نیاز اور یہ پیش کرنے میں بہر صورت کامیاب ہیں ۔ 

بحیثیت مجموعی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قاسم خورشید کے مختصر اور منی افسانے نے صالح قدروں کے رفیق ہیں لیکن ان میں واعظ کا بیان نہیں بلکہ ایک مشاق استاد اور ماہر نفسیات کا ہنر پوشیدہ ہے جسے فنی چابکدستی کے ساتھ اپنے مخصوصی ڈکشن کے حوالے سے قاسم خورشید پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔

*****************

Comments


Login

You are Visitor Number : 771