donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Aik Ba Kamal Shayar Hafeez Anjum


اک باکمال شاعر حفیظ انجم


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


سنہری دھوپ کی چادر بچھی ہے
جہاں سارا سنہرا ہوگیا ہے

حفیظ انجم کریم نگری کا چوتھا مجموعہ کلام ’’سنہری دھوپ‘‘  ۲۰۰۷؁ء میںا شاعت پذیر ہوا۔ یہ موصوف کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں حمد، نعت، غزلیں، نظمیں، گیت، رباعیات، قطعات ، دوہے، آزاد نظم اور جاپانی اصناف کاتا، اوتا، تانکا، رینگا، سیڈول، چوکا، ہائیکو جیسے مختلف اصناف شامل ہیں۔ فن کی سنہری دھوپ سے نکلی ہوئی شعائیں کائنات ادب کو منور کرنے اور شعر و ادب کی پرکیف فضائیں فراہم کرکے اردو کے مستقبل کو ضو فشاں کرنے میں حفیظ انجم کریم نگری نے کامیابی حاصل کی ہے۔

حفیظ انجم دور حاضر کے ایک با کمال شاعر ہیں۔ وہ اپنے جذبات و خیالات کو ظاہر کرنے کے لئے لفظوں کی آرائش میں لگ جاتے ہیں ۔اسی لئے ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’لفظ کا پیراہن‘‘ شائع ہوکر سامعین و قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ موصوف کبھی کبھی اپنے افکار کو عقیدت بھرے لفظوں کے سمندر میں وضو کرکے حمد و ثنا اور آقائے تاج دار کے اوصاف بیان کرنے کی لگن میں لگادیتے ہیں۔ ان کا دوسرا مجموعۂ کلام جو حمد و نعت پر مشتمل ’’طلوع سحر‘‘ علم و فن کے آسمان پر جگمگاتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی موصوف تصورات کی کائنات سے ہٹ کر ہر کس و ناکس کو حقیقت بیان کرنے کے لئے مخاطب ہوجاتے ہیں۔ ان کا تیسرا مجموعۂ کلام اسی طرز بیان کی عکاسی کرتا ہوا ’’مخاطب ہوں آپ سے‘‘ منظرِ عام پر آچکا ہے۔

’’سنہری دھوپ‘‘ ان کا چوتھا مجموعۂ کلام ہے یوں تو سنہری دھوپ سے نکلنے والی ہر کرن صحت کے لئے مفید اور ایسے موقعہ پر جو فرحت بخش ہوائیں چلتی ہیں طبیعت میں روانی پیدا کردیتی ہیں۔ یہی سنہری دھوپ اگر کائنات ادب میں چھاجائے تو اس سے علم و ادب اور شاعری کی زمین زرخیز ہوجاتی ہے، جس کی بدولت اردو کے گل بوٹے مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور لفظوں کے پرندے چہچہانے لگتے ہیں۔

مجموعۂ کلام ’’سنہری دھوپ‘‘ کے مطالعہ کے بعد یہ بات دلیل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ حفیظ انجم بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں روایت سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود ان کی مخصوص مزاج کی وجہہ سے نئی راہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور موصوف ندرت خیال اور اچھوتے نظریات کا سرمایا لئے ایک نئی سمت کی طرف گامزن ہیں۔ شام، آنکھیں، پرندے، پتھر اور چہرہ جیسے قوافی کو موضوئے سخن بنایا ہے ۔چہرہ دل کی کتاب ہے ۔دل کی کیفیات چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں ایک شعر ملاحظہ ہو۔

لب کشائی کی کیا ضرورت ہے
حالِ دل سب بتا دیا چہرہ

شاعر اپنے اطراف و اکناف کے حسین مناظر کا سہارا لئے اپنے ذہنی میلانات و قلبی واردات سے لفظوں میں تصویر کشی کرتا ہے۔ جسے نیچرل شاعری کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس کے تحت فطرت کی کیف سامانیاں اور رنگینیاں بیان کی جاسکتی ہیں۔ اسی نوعیت کے چند اشعا ر  ملاحظہ ہو:

اپنا لباس پھر سے بدلنے لگی ہے شام
وہ آرہے ہیں اور سنبھلنے لگی ہے شام
ہلکا سا اک لبوں پر تبسم لئے ہوئے
سو سو طرح سے رنگ بدلنے لگی ہے شام

اندھیرے کانپ جاتے ہیں اندھیرے مات کھاتے ہیں
تم اپنے علم کی انجمؔ متاعِ روشنی رکھنا

الفاظ کے استعمال سے شاعر کی پہچان بنتی ہے اور اس کے استعمال سے ہی شاعر کی زبان دانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے زبانوں پر عبور رکھتا ہے اور ان زبانوں کے ادب و تہذیب سے کتنا واقف ہے۔مجموعۂ کلام ’’سنہری دھوپ‘‘ میں جا بجا سنسکرت اور ہندی الفاظ کا پایاجانااس بات کی دلیل ہے کہ موصوف پر علاقائی بولی اور مختلف زبانوں کا اثر سر چڑھ کر بولتا ہے۔ موصوف نے ’’بھکشیا، مان، مکھیا، سگندھ‘‘ جیسے سنسکرت الفاظ کے ساتھ ساتھ ’’ابھیاس، لگان، کرتوت، منتر، مائی‘‘ وغیرہ جیسے ہندی الفاظ اور ’’بلڈنگ، بینک، لاکر، ہٹلر، ڈالر‘‘ جیسے انگریزی الفاظ کو بھی بڑی فنکاری کے ساتھ استعمال کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ رامائن اور مہابھارت کے واقعت کو اشعار کا روپ عطا فرمایا ہے۔ چندا شعار ملاحظہ ہوں:

ہر طرف ہے چھڑی مہا بھارت
بھیشم لیٹا ہے رائیگاں لکھنا

کرشن کے رن میں آنے آنے تک
کیا بچے گا یہ کارواں لکھنا
یوں ہی سیتا نہ ہاتھ آئے گی
اس دھنش کو توڑنا ہوگا

جہاں رامائین اور مہابھارت کے واقعات کو موضوئے سخن بنایا ہے وہیں قرآن اور احادیث کی روشنی میں کئی اشعار کہے ہیں ۔ ماں کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

تمہاری ،میری بھی جنت ہے ماں کے قدموں میں
ہر ایک بیٹے کو ماں کی دعا ضروری ہے

دو دوہے ملاحظہ ہوں:

ماں کی لوری یاد ہے، نیم کی ٹھنڈی چھائوں
ننھی کٹیا گھاس کی، اور وہ میرا گائوں

ماں بچے کو پالنے، دے دیتی ہے جان
بوجھ کہے گا بچہ اسے، ہوجاتے ہی جوان

موصوف کی شاعری میںعصرِ حاضر کے سارے پیچ و خم، ساری پیچیدگیاں سموئی ہیں۔ ان کے کلام میں زندگی کی نبض دھڑکتی ملتی ہے۔ موصوف کی شاعری میں زندگی کی تنہائی بھی ہے، حُسن محبوب کی تذکرے بھی ہیں او ر  رودادِ حیات کی دھڑکن بھی مل جاتی ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:

ہوائیں گنگناتی پھر رہی ہیں
ترا چندن بدن مہکا ہوا ہے

کچھ نہیں چاہئے اے حُسن ازل حسن ابد
آرزو ہے کہ مجھ دید کی جنت دی جائے

آج بچوں پہ میں اتار دیا
جو بھی غصہ تھا میرے دفتر کا

جب شاعر فن کے سمندر میں غوطے لگاتا ہے تو کئی موتی و گوہر ہاتھ لگ جاتے ہیں، جو اس کی محنت و کدوکاوش اور حوصلہ کا انعام ہوتا ہے۔ کبھی کبھی شاعر کے ہاتھ چند ایسے گوہر آجاتے ہیں جسے شاعری کی اصطلاح میں صنائع و بدائع سے پہچانے جاتے ہیں ایسے ہی حفیظ انجمؔ کے بیشتر اشعار قلب، صنعت ردالعجزعلی الصدر، صنعت تجنیس تام جیسے صنائع و بدائع پائے جاتے ہیں چندا شعار  تشریح کے ساتھ ملاحظہ ہوں:

صنعت تجنیس تام:

شعر میں دو ایسے الفاظ لائے جائیں جن کا تلفظ ایک ہو لیکن معنی مختلف ہوں جیسے موصوف کے شعر میں ’’پیا‘‘ محبوب اور فعل (پینے) کے معنی میں استعمال ہوا ہے:

پیا کا پیالہ پیا ہی نہیں
تری زندگی میں مزا ہی نہیں

صنعت تکرار  یا  تکریر:

شعر میں لفظ مکرر لائے جائیں۔ لفظوں کی تکرار سے اصوات کی بھی تکرار ہوتی ہے اور شعر میں نغمگی پیدا ہوتی ہے چند شعر ملاحظہ ہوں:

آج کے دور کا آدمی
کیا سے کیا، کیا سے کیا ہوگیا

کر انتظار ذرا اور، ذرا اور، ذرا اور
میں مانگ بھروں گا تری ستاروں سے

کبھی اچھا، کبھی اچھا نہیں ہے
مرا دل بھی مرا سنتا نہیں ہے

صنعت قلب :

اس صنعت میں دو لفظ ایسے لائے جاتے ہیں جس کی الٹنے سے دوسرا  لفظ بنتا ہے:

رسم الفت وہ جانتا ہی نہیں
اس لئے ہے عجیب سا چہرہ

سانسوں کی تو خوشبو باندھ
سن کا ہر اک پہلو باندھ

صنعت ردالعجز علی الصدر:

شعر کے دونوں مصرعوں کو تین تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ صدر....حشو...... عروض، ابتدا.......حشو.......عجز جو لفظ عجز میں آئے وہی صدر میں بھی ہوتو اس صنعت کو ردالعجز علی الصدر کہتے ہیں۔موصوف کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

برا دوسروں کو میں کہتا بھی ہوں
کوئی مجھ سے بڑھ کر برا بھی نہیں

مذکورہ خوبیوں کے علاوہ صنف رباعی میں بڑی فنکاری کے ساتھ اس کا حق ادا کیا ہے۔ حق تعالیٰ سے اپنے احوال سنا کر تقدیر بنانے والے شاعر کی داد دئیے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ایک رباعی ملاحظہ ہو:

اللہ سے احوال سنا لیتا ہوں
بگڑی ہوئی تقدیر بنا لیتا ہوں

رو رو کے میں تنہائی میں اکثر انجم ؔ
کچھ اور مزہ اور مزہ لیتا ہوں

موصوف کی شاعری میں طنز کے نشتر بھی پائے جاتے ہیں اور موسیقی کے ساتھ سُر بھی سنائی دیتے ہیں ایک رباعی ایک شعر ملاحظہ ہو:

ہیں لوگ یہاں علم و ہنر سے خالی
اخبار بھی ہیں دیکھ خبر سے خالی

اس حال پہ ہوتا ہے تعجب انجم ؔ
ہیں دیکھ کئی جسم بھی سر سے خالی

دیکھ مجھے بھی چھوکر تو
سات سُروں میں بجتا ہوں

جنوبی ہند کا ایک معتبر شاعر حفیظ انجم کریم نگری کی شاعری میں کئی طرح کی رنگینیاں پائی جاتی ہیں۔ ہر شعر دل پہ دستک دے کر سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے او رفن کے معیار کو بڑھانے کا کام انجام دیتا ہے۔ انہیں کے اس شعر کے ساتھ میں اختتام پر پہنچتا ہوں۔

دل پہ دستک ہے تیرے شعروں کی
تیرے  فن    کا   کمال    اچھا   ہے

 


(مطبوعہ دو ماہی ادبی محاذ مارچ ،اپریل  ۲۰۰۹ ؁  صفحہ نمبر ۱۸)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 624