donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Do Neem Par Aruzi Tanqeedi Jayeza


’’دو نیم‘‘ پر عروضی تنقیدی جائزہ


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


اردو دوہے کا نام سنتے ہی بعض لوگ چونک جاتے ہیں اور کئی طرح کے سوالات سے حملہ کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں دوہا ، غزل کے ایک ناقص مطلع سے بڑھ کر نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ دوہے کو کسی کے قبول کرنے یا نا قبول کرنے سے ادب میں دوہوں کی ہئیتی تجربات میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ جہاں تک دوہے کا تعلق ہے وہ ایک مخصوص لے اور آہنگ کی بنیاد پر اپنا مقام پاتا ہے۔ ورنہ مخصوص ارکان (جو دوہے کے ارکان  ۱۳+۱۱=۲۴  ماترائوں پر مشتمل ہے) میں ہونے کے باجود لi اور آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے دوہا قابلِ قبول ہونے کی بجاے دل پر گراں گزرتا ہے، راقم الحروف کا کہنا ہے کہ کسی موضوع کو مخصوص یا متیعنہ دوہے کے اوزان میں لکھنے کا نام ہی دوہا نہیں بلکہ دوہے میں جب تک غنائیت، لے اور آہنگ کے لئے الفاظ کی بہترین ترتیب نہ ہوں۔ اس وقت تک وہ دوہے کے سانچے میں کھرا نہیں اترتا۔

بقول ڈاکٹر ساغرؔ جیدی:

’’ دوہوں نے اپنی فطری غنائیت شگفتگی اور وسیع دامنی کے باعث اردو والوں کے دلوں میں ایک نرم گوشہ بنالیا ہے‘‘۔

دوہوں کے اوزان کے تعلق سے مختلف زاویہ نظر سے کئی عروض داں نے اپنے خیالات کا مدلل اظہار کیا ہے۔ برادرم وصی اللہ بختیاری نے ’’ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کے دوہا گوئی کی کتاب میں دوہوں کے مختلف اوزان، ارکان اور ماترائوں کا ذکر بھی کیا ہے تاہم بات ادھوری رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کے دوہوں کو مختلف پہلووں سے پیش تو کیا ہے لیکن ان کے دوہوں کے اوزان کا تنقیدی جائزہ متقاضی کا شکار ہوچکا ہے۔

راقم الحروف ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کے تیسرے مجموعہ کلام (اردو دوہوں کا )’’دو نیم‘‘ کے دوہوں کے اوزان پر اپنا تنقیدی نظریہ پیش کرنا چاہتا ہے۔

’’دو نیم‘‘ میں شامل دوہوں کے اوزان کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر ساغرؔ جیدی نے صرف دوہا چھند کے عام بحر ’’فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع،  فاع فعولن فاعلن، فاع فعولن فاع‘‘ پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ مختلف اقسام کے ارکان کو بھی استعمال میں لایا ہے۔
ان کے دوہوں کے اوزان میں اکثر مندرجہ ذیل بحریں و ارکان جو تیرا گیارہ ماترائوں پر مشتمل ہیں پڑھنے کو ملتا ہے:

    ۱۔      فعول فعلن فاعلن، فعول فعلن فاع
    ۲۔    فعلن فعول فاعلن، فعلن فعول فاع
    ۳۔    فعلن فعل مفاعلن، فعلن فعل مفاع
    ۴۔    فعلن فعل مفاعلن، فعول فاع مفاع
    ۵۔    فاع فعولن فاعلن، فاع فعول مفاع
    ۶۔    فعول فعلن فاعلن، فاع فعولن فاع
    ۷۔    فعول فعلن فاعلن، فعلن فعل مفاع
    ۸۔    فعول فعلن فاعلن، فعول فعل مفاع
    ۹۔    فعول فعلن فاعلن، فاع فعول مفاع
    ۱۰۔    فعلن فعل مفاعلن، فاع فعولن فاع
    ۱۱۔    فاع فعولن فاعلن، فعول فعل مفاع
    ۱۲۔    فاع فاعلن فاعلن، فعلن فعل مفاع
    ۱۳۔    فعول فعلن فاعلن، فاع فعولن فاع

مندرجہ بالا بحروں کی مثالیں اس طرح ہیں:

ہرے بھرے ہیں ہر طرف، مصیبتوں کے کھیت
بحر  : فعول  فعلن فاعلن، فعول فعلن فاع
ماترائیں  :  11=3 + 4 + 4, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر: 20)        

ناکارہ ہے معلمی ناکارہ ہے دماغ
بحر  : فعلن فعول فاعلن، فعلن فعول فاع
ماترائیں  :  11=3 + 4 + 4, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر: 40)      

چاہے عقل وسیع ہو، چاہے دل ہو فراخ
بحر  : فعلن فعل مفاعلن، فعلن فعل مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4, 13=6 + 3 + 4

(صفحہ نمبر: 26)       

کالی رات میں بیٹھ کر، اپنا چھلکا اتار
بحر  : فعلن فعل مفاعلن، فعلن فعل مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4, 13=6 + 3 + 4

(صفحہ نمبر: 76)      

مصلحتوں پر کیا کہوں، سڑ گئے سب کے دماغ
بحر  : فاع فعولن فاعلن، فاع فعول مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 4 + 3, 13=5 + 5 + 3

(صفحہ نمبر: 40)     

ہرے بھرے شہتوت میں، کس نے اتاری میخ
بحر  : فعول فعلن فاعلن، فاع فعولن فاع
ماترائیں  :  11=3 + 5 + 3, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر:26 )    

چمک رہی تھی راہ میں، نیلی پیلی لکیر
بحر  : فعول فعلن فاعلن، فعلن فعل مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر: 64)      

جھکا ہوا تھا دل مرا، جھکی ہوئی تھی نگاہ
بحر  : فعول فعلن فاعلن، فعول فعل مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر:   67    )      

سرائے اپنے وقت کی، جب سے ہوئی ہے ضعیف
بحر  : فعول فعلن فاعلن، فاع فعول مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر: 41)        

ساغرؔ فتنہ فساد کی، جاگ اٹھی ہے روح
بحر  : فعلن فعل مفاعلن، فاع فعولن فاع
ماترائیں  :  11=3 + 5 + 3, 13=6 + 3 + 4

(صفحہ نمبر:58 )       

دالتی ہے کیوں زندگی، وہیں پہ غم کا رباط
بحر  : فعل فعولن فاعلن، فعول فعل مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4,  13=5 + 5 + 3

(صفحہ نمبر:37     )  

میں نے ظلم کی پیٹھ پر، رکھ دی صبر کی زین
بحر  : فاع فاعلن فاعلن، فعلن فعل مفاع
ماترائیں  :  11=4 + 3 + 4, 13=5 + 5 + 3

(صفحہ نمبر:77 )      
پھٹی پرانی ہوگئی، جب سے میری جیب
بحر  : فعول فعلن فاعلن، فاع فعولن فاع
ماترائیں  :  11=3 + 5 + 3, 13=5 + 4 + 4

(صفحہ نمبر:97 )


ڈاکٹر ساغرؔ جیدی نے دوہا چھند کے مقررہ ماترائوں یعنی۱۳+۱۱=۲۴ ماترائوں کے ماتحت مختلف اقسام کے ارکان کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

’’ہر اک زبان کا عروض اسی زبان سے مطابقت رکھتا ہے، لفظوں کی ساخت اور صوتیات مختلف ہوا کرتی ہیں، اس لئے عروضی پیمانے بھی الگ الگ ہیں۔ عروض کی لے ارکان کی مرہون منت ہے۔ مقررہ ارکان سے مجموعی لے بنتی ہے اس کے لئے یہ کافی ہے کہ کلام بحر کے ارکان پر آجائے ، بس ارکان کی تقسیم پر مصرعہ نہیں پڑھتے بلکہ مضمون کی رعایت سے پڑھتے ہیں۔‘‘

(دوہا ایک جائزہ،  از مبارک علی، رسالہ’’ شاعر‘‘(ماہنامہ) 2004؁ئ)

دونیم‘‘ ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کا تیسرا دوہوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں چند عروضی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ویسے تو شاعری سے لاشعوری یا لاپرواہی کے سبب کئی غلطیاں سرزد ہوجایا کرتی ہیں ،جو ایک حقیقت پسند عروض داں کی نظر میں خارج بحر قرار پاتے ہیں، انہیں مراحل سے ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کا گزر ہوا ہے۔

دوہا ہندی صنفِ سخن سے تعلق رکھنے کی وجہہ سے اردو دوہوں میں عربی و فارسی الفاظ کے بر محل استعمال سے پنگل یا عروض میں کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بقول ش۔ک۔نظام:

ہمارا عروضی نظام ملفوظی ہے اور ہندی کا مکتوبی ،ہندی عروض میں بے شمار الفاظ تقطیع کے دوران شمار نہیں کئے جاتے بلکہ الفاظ کی شکست بھی روا سمجھی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کے دوہوں میں عربی و فارسی الفاظ کے استعمال کی وجہہ سے چند دوہے خارج از بحر کے شکار ہوچکے ہیں۔

ماہر عروض بننا جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیں جن کو ماہر ہونے کا دعویٰ ہے، ان میں خود اتنے اختلافات، تضادات ہیں کہ کسی صحیح،  قطعی اور آخری فیصلے پر پہنچنا ممکن نہیں اس کا ایک سبب کہ عروضی قواعد بھی سماجی قوانین کی طرح وسیع المطالب اور لچکدار ہیں بس انہیں موڑ نے اور فٹ کرنے والا دیدہ ور منصف چاہئے۔ 

(بقول نیاز فتح پوری، تفہیم العروض )

اک قاری سے ہی نہیں، شعر و ادب معروض
مجھ سے بھی ناراض ہے، ساغرؔ فنِ عروض
ساغر فنِ عروض بھی، طویل ہے نہ عریض
صحت سے کچھ دور ہے، صنفِ سخن کا مریض

مندرجہ بالا دو ہوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علم و عروض کے سمندر میں غوطے لگانے کے بعد ساغرؔ جیدی کو خود احساس ہوگیا ہے کہ انہوں نے علم عروض کا حق کس حد تک ادا کیا ہے:

بکھرے ہوئے اخلاق کو، کہتی ہے اپنا نصیب
فاحشہ، فاجرہ ہوگئی، اپنی یہ تہذیب
فاعلن فاعلن فاعلن فعلن فعلن فاع
ماترائیں :11=3+4+4  15=5+5+5

اس دوہے کے دوسرے مصرعے کے وشم چرن میں فاحشہ(فاعلن)، فاجرہ (فاعلن) عربی الفاظ ہونے کی وجہہ سے کسی ماترے کو گرایا  یا  ساقط نہیں کیا جاسکتا دوسرے مصرعے کے وشم چرن میں کل پندرہ(15)ماترائیں ہونے کی وجہہ سے یہ دوہا خارج از بحر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دوہا ملاحظہ فرمائیں۔

ہم سے سبقت لے چلے، کس میں ہے اتنی جان
ساغرؔ میری آپ کی، زبان تلے ہیں زبان
فعلن فعلن فاعلن، فعول فعول مفاع
12= 4+ 4 + 4                             

دوسرے مصرعے کے سم چرن میں کل بارہ ماترائیں ہیں۔ اگر سم چرن کے پہلے رکن کے ’’ن‘‘ کو نونِ غنہ کردیا جائے تو دوہا خارج از بحر نہیں ہوسکتا جیسے زباں تلے ہیں زبان کے ارکان فعول فعل مفاع4 + 3 + 4 = 11  

غرض ان  دوہوں کے علاوہ ’’دو نیم‘‘ میں شامل دوہے کل ۱۳+۱۱=۲۴ ماترائوں پر مشتمل مختلف اقسام کے ارکان اور بحروں کو لئے ہوئے اپنی فنی لوازمات کا مظاہرہ کرتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اہلِ سخن و اہلِ عروض ان بحروں و ارکان کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 815