donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Dr Faraz Hamdi Shakhsiat Aur Fun


ڈاکٹر فراز حامدی شخصیت اور فن


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش

a ) شاعرِ عزمِ مصمم  ڈاکٹر فراز حامدی:

گلشنِ ادب میں مہکتا ہوا ایک گلاب، دبستانِ شاعری کو زرخیزی عطا کرنے والا ایک ماہتاب، اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے مختلف اصناف کو روز روشن کی طرح چمکانے والا ایک آفتاب، صنف ماہیا نگاری کے افق کا ایک ستارہ، جدید فکر و فن کا مالک، مختلف ہیئات کا خالق ، سہ مصرعوں میں علمی، ادبی، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، جذباتی، روحانی پیغام دینے والا شاعروں کا امام قابلِ احترام ڈاکٹر فراز حامدی کا مجموعۂ کلام ’’ماہیا رنگ‘‘ سنہ ئ2008 جون کو منظرِ عام پر آکر اردو شعر و ادب کو ایک نیا رخ عطا کردیا ہے۔

ڈاکٹر فراز حامدی کی تخلیقی خدمات پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ موصوف کے پروازِ تخیل کا اندازہ لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، موصوف ہمہ جہت فنکار، ہمہ جہت تخلیقی صلاحیت کے قائل ہیں۔ مغربی شعری ہیئات و اصناف پر مختلف اقسام کے موضوعات سمودینا ان کی قابلیت کی دلیل ہے۔ قدیم روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جدید رُخ اختیار کرناموصوف کی شاعرانہ صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان کی ماہیئوں میں گیتوں کی مدھرتا، دیہاتی مٹی کی خوشبو، بدلتے موسموں کی مسکراہٹ، ندرت الفاظ، لطیف تشبیہات و استعارات کے ساتھ ساتھ جدید اظہار کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے ان کے ماہیئوں کی خصوصیات پر حیدر قریشی (جرمنی) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’ان کے ماہئیوں میں ایک طرف ہندی گیت کی روایت کی مٹھاس ملتی ہے تو دوسری طرف راجستھانی لوک روایت کی نغمگی گھل مل گئی ہے‘‘۔

(ماہیا رنگ،  از:  فراز حامد،  صفحہ نمبر: ۳۱)

یوں تو ’’ماہیا‘‘ تین مصرعوں پر مشتمل پنجابی شاعری کی ایک مخصوص صنف ہے ۔ ’’ماہیا‘‘ ایک ایسی گیت کا نام ہے جو پنجاب کے ہر علاقے سائیکی، ملتانی، گوجری، ڈوگری، ہندکو، پوٹھوہاری، ماجھی، لہندری اور بار کے لہجوں اور بولیوں میں گایا، سمجھا اور پسند کیا جاتا ہے بحیثیت لوک گیت ماہیا ہرکس و ناکس کے ذہن و دل کی گہرائیوں میں اتر چکا ہے۔

لفظ ’’ماہیا‘‘ کے لغوی معنی ہیں اے ماہی، اے ساجن، اے معشوق، اے محبوب وغیرہ کیوں کہ یہ ماہی کے ساتھ الف ندائیہ ملا کر بنایا گیا ہے ماہئے کے تمام فنی لوازمات کو   بروے کار لاتے ہوئے ڈاکٹر فراز حامدی نے نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ ’’ماہیا رنگ ‘‘کو اہلِ ارباب ذوق کے حوالے کیا ہے خود ان کی زبان میں اپنی صلاحیت اور  ماہیا گوئی کے فن پر دو ماہئے ملاحظہ کیجئے:

چشمہ ساا بلتا ہے            میں سب سے الگ تنہا

ماہیا گوئی میں            راہ جدا گانہ

جب فن مرا ڈھلتا ہے            ہے طرز مری یکتا

ان کی شاعرانہ بصیرت انہیں ایک نئی راہ دکھاتی ہے اور انہیں ایک نئی کائنات سے آگاہ کراتی ہے اور ان کو گلشن تخیلات کی سیر کراتی ہے وہاں وہ پھولوں اور خوشبوؤں سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور نئے موسموں کے ساتھ نیا پیغام لاکر الفاظ کے سانچوں میں ڈھالتے ہیں چند ماہئے ملا خط کیجئے  :

خوشبو کی کہانی ہوں            شبنم کی نمی بودیں

دن میں نہیں کھلتی            آو کہ دھرتی پر

میں رات کی رانی ہوں            پھولوں کی ہنسی بودیں

            یادوں کو جگا یا کر
            روز کتابوں میں
            پھولوں کو سجایا کر

شاعری کا اسلوب دراصل اس کے لب و لہجے، لفظیات، ردیف و قوافی کے انتخاب و استعمال، صنائع و بدائع اور دیگر وسائل، حُسنِ بیان پر کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام خصوصیات کو ڈاکٹر فراز حامدی کی شاعری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان خصوصیات کے علاوہ ان کے کلام میں سادگی، سلاست، بے ساختگی، برجستگی، روانی، صفائی، شفافیت اور سہل و عام فہم پیرائے بیان جابجا دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے ہاں تخیلات و جذبات ایک جان و قلب ہوجاتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھنے ہی میں دل آویز محسوس نہیں ہوتی بلکہ دلوں میں اترجاتی ہے حافظے میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ انہیں خصوصیات کی وجہہ سے ڈاکٹر فراز حامدی کو اردو ادب میں ایک امتیاز مقام و مرتبہ حاصل ہے ان کے اسلوب کے تعلق سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی لکھتے ہیں کہ:

’’ماہئے کے اسلوب میں ان کے یہاںنادرہ کاری ملتی ہے اور اظہار میں کرب پوشیدہ ہوتا ہے اس کرب سے پیدا ہونے والی فکری لہر پر غور کیا جائے تو کئی طرح اسباب کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔

(کتاب مذکور،  صفحہ نمبر: 15)

ڈاکٹر فراز حامدی کے ماہئیوں میں ماں کی دعائیں، صداقت کا پیغام، مظلوم کی آہ، لہجے کی کھنک، کانٹوں کی حکومت، غمناک اندھیرے، دل کے جزیرے جیسے اچھوتے خیالات و ترکیبِ الفاظ کی بھرمار دیکھی جاسکتی ہیں۔ چند ماہئے اسی نوعیت کے ملاحظہ ہوں:

ہر سو ہیں حسیں منظر            مظلوم کی آہوں میں
دل کے جزیرے پر            لاوا ابلتا ہے
یہ کون بسا آکر            نفرت کی نگاہوں میں

           
                    شیتل سی گھنی چھایا
            ماں کی دعائوں میں
            امرت کا مزا آیا

              مائیوں کا مجموعہ ’’ماہیا رنگ‘‘ میں مختلف موضوعات و تجربات کا نچوڑ دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر فراز حامدی نے مختلف تجربات و ہئیات کے سمندر کو سہ مصرعی کوزے میں سمودیا ہے۔ ’’ماہیا رنگ‘‘ میں ماہئے کے ساتھ ساتھ ترجماتی ماہئے ( جوقرانی آیات کی ترجمانی ، ماہئے میں کی گئی ہے) ماہئے کے تینوں مصرعوں میں قافیے کا التزام بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ تخلص والے ماہئے، تضمینی ماہئے، کُرجاں پرماہئے، ماہیا نظم، ماہیا گیت بیک مشت پڑھنے کے لیے ملتے ہیں، ڈاکٹر فراز حامدی کے یہ ہیئتی تجربات اردو ادب کے مستقبل کو آراستہ کرنے کے لیے ایک اہم رول ادا کرتے ہیں۔

b)کثیر الجہت فنکار ڈاکٹر فراز حامدی:

 باغبانِ گلشن سخن، آسمانِ علم و فن، گلشنِ اصنافِ شاعری کا آزاد پرندہ، کاروانِ تخیل و تحقیقی کائنات کا شہزادہ ، ذہنِ جدید کا دل دادہ لوح و قلم کا فنکار، اہل اربابِ ذوق کا دل دار، نئے اسلوبیاتی تخلیق کا ر ڈاکٹر فرازؔحامدی  کا ہائیکو کا مجموعہ ’’یادوں کی سوغات‘‘ جو اردو ادب کی جدید شاہراہ کا اک سنگ میل منظر عام پر آکر اہل فکر و فن کی داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔

ڈاکٹر فراز حامدی کی تخلیقی صلاحیت اظہر من الشمس کی طرح روز روشن ہے۔ ہر ایک ادیب، نقاد ومحقق ان کی ادبی خدمات سے اچھی طرح واقف ہے اور دل و جان سے انہیں چاہتا بھی ہے یہ اور بات ہے کہ قدامت و رجعت پسند انہیں قابل بے اعتنا سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں ۔موصوف کا یہ مجموعہ ٔ ہائیکو صرف اردو میں نہیں بلکہ انگریزی ترجمے کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے ۔ان کے ہائیکو کو محمد حسین نے بڑی فنکاری کے ساتھ ردیف و قافیہ کا اہتمام کرتے ہوئے ترجمہ کیا ہے۔ موصوف کے ہائیکوز میں مختلف موضوعاتی خصوصیات پائی جاتی ہیں چند کا ذکر مندرجہ ذیل میں ہورہا ہے۔

تصوّرِ محبوب:

ڈاکٹر فراز حامدی کے اس مجموعہ کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا محبوب ایک پیکر حسن و شباب اور نسوانی محاسن کا مجموعہ ہے ۔وہ اپنی چاہت کو ہونٹوں سے انکار، آنکھوں سے اقرار کرتے ہوئے نظر آتا ہے ،تو کبھی محبوب کی جدائی سے بے چین نظر آتا ہے، تو کبھی محبوب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو قدرتی انعام سمجھتا ہے ۔غرض ہجرو وصال کی تمام کیفیات موصوف کے ہائیکو میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ چند ہائیکو ملاحظہ ہوں:

چاہت کا اقرار            کہدوں دل کی بات
آنکھوں سے ہوتا رہا            ان کی فرقت میں کٹی
ہونٹوں سے انکار            کروٹ کروٹ رات

قدرت کا انعام             حیرت کی کیا بات
وہ ہم دونوں کا ملنا            آنکھیں کہتی آئی ہیں
باغ میں صبح و شام            دل کی ہر اک بات

حُبُّ الوطنی:

ڈاکٹر فراز حامدی کے ہائیکو میں اپنے وطن کی چاہت اور دھرتی کی خوشبو پائی جاتی ہے۔ ان کے تمام ہائیکو میں مشاہداتی فضا موجود ہے۔ ان کے ہائیکو میں ٹیپو سلطان کی بہادری کا ذکر بھی پایا جاتا ہے، موجودہ دور کے فتنہ و فسادات کی عکاسی بھی ملتی ہے اور موصوف اپنے آبائی وطن پر ناز کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، بہتے ہوئے دریا کی روانی کا ذکر بھی پایا جاتا ہے اسی نوعیت کے چند ہائیکو ملاحظہ ہوں:

فخر ہندوستان            ایسا موسم آئے
علم و ادب کا گہوارہ            بارش ہو چاروں پہر
ٹونک کی یہ پہچان            راجستھان نہائے

انگریزوں کی آن             نیارا  میرا  دیش
تونے آخر توڑ ہی دی            دنیا بھر کے دیشوں سے
اے ٹیپو سلطان            پیارا میرا دیش

علامت نگاری:

لفظ کے اندر وسعت پیدا کرنے کی غرض سے ایسے لفظ کا استعمال کرنا جس کے اندر لغوی معنوں کے علاوہ مزید معنی پیدا ہوجائیں اس کو علامتی انداز کہتے ہیں۔ تشبیہہ میں جبکہ دو لفظوں کے درمیان موازنہ کے امکانات پائے جاتے ہیں لیکن علامت نگاری میں کسی قسم کا موازنہ نہیں ہوگا یہ ایک حسین پیکر تراشی ہے ۔ڈاکٹر فراز حامدی کے ہائیکو میں ساگر خود پیاسا نظر آتا ہے، سنّاٹوں کی بستی میں مور  ناچتے ہوئے نظر آتے ہیںبِن بادل برسات بھی ہونے لگتی ہے، تصویریں گاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور حویلی ناچتی ہوئی نظر آتی ہے چند ہائیکو ملاحظہ ہوں۔

بچوں کی حرکات            اونچے ہیں کچھ لوگ
دل بہلانے کے بجائے        پربت کی اونچائی سے
بھڑکائیں جذبات            یہ بھی ہے اک روگ
پھولوں کا احساس            کیسا ہے یہ روگ
پت جھڑ کے موسم میں بھی        مجھ کو پاگل کہتے ہیں
جھوٹی ہے یہ آس            بستی کے سب لوگ

ان خصوصیات کے علاوہ موصوف کے کلام میں نئے الفاظ کی تراکیب بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ جیسے سوچوں کی خوشبو، خوابوں کا سنسار، یادوں کی برسات، سناٹوں کی بستی، یادوں کا درپن، موسم کی سوغات، خوابوں کا لشکر اور ممتا کی چھائوں جیسے الفاظ سے آگاہ ہونے اور لطف اندوز ہونے کا زرین موقعہ ڈاکٹر فراز حامدی نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ان کی شاعرانہ کمالات کا اندازہ ان کے تمام مجموعوں کے مطالعہ سے لگایا جا سکتاہے۔

c)فراز حامدی کی دوہا نگاری صنعت کے آئینہ میں :

دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین ہئیت کی وجہہ سے دوہے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ دوہے میں بانکپن پیدا کرنے کے لیے معنوی تہہ داری اور برجستہ کلامی کا پایا جانا ضروری ہے۔ مضمون میں دلکشی و ندرت خیال کے عوض دوہے میں ایک پر کیف تاثر پیدا کیا جاسکتا ہے ۔دورِ حاضر کے ایک ممتاز و منفرد شاعر ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں کے مطالعہ سے ان تمام فنی لوازمات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ موصوف اردو دوہوں کے مختلف تجربات کی راہ سے گزرکر کامیابی کی منزل حاصل کرچکے ہیں۔ دوہا چھند میں موصوف کے مختلف تجربات کا تجزیہ دو حصوں میں کیا جاسکتا ہے۔

پہلا حصہ حمدیہ دوہے، نعتیہ دوہے، مردف دوہے، معریٰ دوہے، شخصیاتی دوہے، اردو دوہے پر مشتمل ہے۔

دوسرے حصے میںحمدیہ دوہا  غزل، نعتیہ دوہا غزل، دوہا گیت، دوہا نظم، دوہا ترائیلہ، دوہا سانیٹ، دوہا معریٰ نظم، دوہا معریٰ مثلت، دوہا مثلث، دوہا مثلثی، دوہا قطعات، دوہا دوبیتی،’’ کرجاں‘‘ پر دوہے وغیرہ پر مشتمل اخترعات و ایجادات سے تعلق رکھتا ہوا ایک مکمل پراجکٹ ہے۔

موصوف کے دوہا چھند کی چند اہم خصوصیات اور فنی محاسن کا جائزہ لینے سے پہلے استاذِسخن علامہ شارق ؔجمال ناگپوری مرحوم کی زبانی اردو دہا نگاری میں موصوف کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ آئیے معلوم کریں۔

’’اردو دنیا میں جتنے بھی دوہا نگار ہیں ان میں پاکستان کے دوہا نگاروں میں جمیل الدین عالی اور بھارت میں بھگوان داس اعجاز ہیں لیکن آج سب دوہا نگاروں کے امام ڈاکٹر فراز حامدی ہیں۔ آئندہ جو شاعر اس طرح کی اختراعی کوشش دوہا جگت میں لے کر ابھرے گا وہ آپ کا مقلد ہوگا‘‘۔

ہر تخلیق کارکی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تخلیقات اردو ادب اور اربابِ سخن کے لئے ایک مشعل راہ بنے جس کی روشنی میں ادب کی راہ ہموار ہوجائے ۔اسی سوچ و چار کے قائل ڈاکٹر فراز حامدی اپنے دعائیہ دوہوں میں خالقِ کل سے التجا کرتے ہیں کہ ان کے دوہوں میں تاثیر، گیتوں میں آہنگ اور فکر میں ساتوں رنگ موجود ہوں جس کی دلکش فضائوں میں قاری کا ذہن سیراب ہوسکے۔ موصوف کے حمدیہ دوہوں میں وحدت کا پیغام ، انعام و اکرام، تعظیم و تکریم کا اظہار ہرشئے میں رب جل جلالہٗ کی شان و شوکت و قدرت کا اظہار و اقرار پایا جاتا ہے۔ ان کے حمدیہ دوہوں کے مطالعہ سے روح کو تازگی اور ایمان میں پختگی عنایت ہوتی ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

ہر دم غور و فکر سے، رکھا میں نے کام
ذرے ذرے سے ملا، وحدت کا پیغام

جب کھولی مٹھی بھری، ہوا ہمیں عرفان
ہر ذرے نے کی بیاں، یارب تیری شان

سرورِ کونین محمدؐ  کی ذات و صفات پر حشر تک جتنا بھی لکھا جائے کم ہے ڈاکٹر فراز حامدی نے آقائے تاجدار کے اوصاف، عادات و اطوار کو نعتیہ دوہوں میں بیان کرتے ہوئے آپؐ کی ذات کو آئینہ بنا کر پیش کیا ہے۔ موصوف کے نعتیہ دوہوں کے مطالعہ سے ان کی عقیدت اور ایمان کامل پر یقین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سبز گنبد کے سائے میں جو راحت میسر ہوتی ہے ان کا نعتیہ دوہوں میں انہوں نے تذکرہ کیا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

گبند جس کا سبز ہے، جالی سونا روپ
کتنی راحت بخشی ہے،  اس روضہ کی دھوپ

سب سے اعلیٰ آپ کے، عادات و اطوار
سر تا پا سرکار کی، آئینہ ہے ذات

اکثر دوہا نگار ہندی عروض پنگل سے ناواقف ہونے کی وجہہ سے اردو میں دوہے کو اس کی فنی لوازمات کے ساتھ پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور ان کے دوہے قابلِ بے اعتنا سمجھے جاتے ہیں۔ صنف دوہا کو سادھوئوں، سنتوں، مرشدوں اور درویشوں نے اپنایا۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ صوفیانہ تخیلات کو عوام الناس تک پہنچائے ۔اس کے لئے صرف دوہا موزوں صنف قرار پایا۔ انہوں نے حیات و کائنات، نصیحت آموز، عبرت آموز حقائق اور سچائی کو صنف دوہا کے ذریعے نقاب کشائی کی اور زندگی کے تلخ سچائیوں کو تھیکے اور نکیلے انداز میں بیان کیا۔ ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں پند و نصیحت آمیز خیالات اور صوفیانہ رنگ جابجا پایا جاتا ہے۔ ظہیر غازی پوری موصوف کی فنی صلاحیت کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ

’’فکری، فنی، معنوی اور ہئیتی تجربے ذہن و خیال کے نئے دریچے کھولتے ہیں اور ہوا کی تازگی کے ساتھ نئی روشنی کی تاب و تب سے ہمکنار ہونے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس زاویۂ نظر سے دیکھیں تو ڈاکٹر فراز حامدی کا دوہا رنگ اورشعری تجربات مثالی اور اثر انگیز معلوم ہوں گے‘‘۔
آپ کے  دوہوں میں صوفیانہ رنگ و آہنگ نظر آتا ہے مثلاً یہ دوہے دیکھئے   ؎

مجبوری اک وہم ہے، مت لے اس کی آڑ
رفتہ رفتہ کھیت کو، کھاجاتی ہے باڑ

حرکت کو برکت سمجھ، جاری رکھ ہر کام
حرکت سے تیرا بدن، پائے گا آرام

لاکھ تجھے گھاٹا ملے، پیار کا کر بیوپار
دل میں نفرت پال کر، جیناہے بے کار

دوہوں کے لیے ایک مخصوص لیے اور آہنگ کا پایا جانا ضروری ہے۔ الفاظ کی ترتیب اور لئے و آہنگ کے امتزاج سے دوہوں میں غنائیت پیدا کی جاسکتی ہے ۔تبھی تو دوہا ہرکس و ناکس کے ذہن و دل میں گھر کر جاتا ہے ۔ورنہ دوہا قابل قبول ہونے کے بجائے ہر ایک دل پر گراں گزرتا ہے ۔آپ کے دوہوں میں صرف بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب ہی نہیں بلکہ غنائیت، ندرت خیال اور عصری مزاج، جذبات و تجربات کا ایک بحر بے کراں پایا جاتا ہے ۔  عشرت ظفر اور مختار ٹونکی نے ان ہی خصوصیات کی وجہہ سے ڈاکٹر فراز حامدی کو دوہا نگاری کا شہنشاہ ٹہرایا ہے۔  بقول سید مختار ٹونکی:

’’فراز حامدی کے دوہے اپنے آہنگ سے کانوں میں سنگیت رس گھولتے ہیں۔طرزِ ادا سے دل کے پردے کھولتے ہیں اور نفس مضمون سے ذہن میں دائمی نقش چھوڑتے ہیں بے شک اور لوگوں نے دوہے کی دھوتی پھاڑ کر رومال کیا ہوگا مگر ایں جناب نے اس چھند کے وسیلے سے کمال کیا ہے کہ اردو کے دامن کو مالا مال کیا ہے پھر فراز جدت طراز جو ٹہرے ہئیتی تجربات ان کی پرانی ہابی ہے‘‘۔

اردو شاعری کی زبان بڑی حد تک استعاراتی ہوتی ہے۔ ہر استعارہ تشبیہہ کے مختلف علاقے رکھتا ہے، جنہیں تلازمہ کہتے ہیں۔ شعر میں مختلف مفاہیم پیدا کرنے کی غرض سے ایک ہی استعارے کو مختلف تلازموں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ مثلاً آئینہ اردو شعر و شاعری کا ایک مقبول استعارہ ہے، صفائی، حیرانی، آنکھ وغیرہ جیسے مختلف تلازموں کو استعمال میں لایا گیا ہے ۔فراز حامدی نے بھی تلازمہ آئینہ کو مختلف معنوی پہلوئوں میں استعمال کیا ہے۔    ان کے دوہوں میں آئینہ کسی کے ہونے کا احساس دلاتا ہے، تو کبھی آئینہ نردوش بن جاتا ہے، تو کبھی شیشہ کی علامت میں استعمال ہوتا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

آنکھیں حیراں کر گیا، جلووں کا احساس
مجھ سے پہلے کون تھا، آئینے کے پاس

آئینے کی سطح پر، اشکوں کی سوغات
پانی میں ہونے لگی، تاروں کی برسات

کل تک رگ رگ میں مری، بھرا ہوا تھا جوش
لیکن اب ہوں جس طرح، آئینہ نردوش

ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں جہاں سماجیاتی اقدار اور اخلاقیات کا نیا دستور پایا جاتا ہے ،وہیں معاشرے کے زوال پذیر حالات ظلم و زیادتی، نا انصافی و نابرابری کو دوہوں کا روپ دیا ہے۔ ان کے اس مزاج و آہنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ایک مضمون میں لکھتے ہیں  :

’’ فراز حامدی نے دیگر اصناف سخن کی طرح دوہے میں بھی عقل و آگہی کے نئے باب کھولے ہیں، نئی اخلاقیات کا الگ دستور سماجیات کی مختلف قدریں، مختلف مسائل اور موضوعات کی لچکساتی مثالیں ان کے دوہوں میں دیکھی جاسکتی ہیں‘‘۔

موصوف کے دوہوں میں زوال پذیر معاشرے کے حالات، مظلوموں کی آہ اور سماجی مسائل اور الجھے ہوئے حالات سے آگاہ ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:

لب پر باتیں امن کی، ہاتھوں میں تلوار
بھارت ماں کے جسم پر، ایسا کاری وار

کس کو ہم مجرم کہیں، کس کو دیں الزام
آپس کی اس جنگ میں، اک اکبر اک رام

بہووں کے انجام پر، رویا جب اخبار
میری بیٹی نے کیا، شادی سے انکار

ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں جمہوریت کار نگ جابجا پایا جاتا ہے۔ ہندوستانی تہواروں جیسے ہولی، عید، سری کرشن اور رادھا، راکھی، بیساکھی وغیرہ موضوعات کا سرمایا ان کے دوہوں میں پایا جاتا ہے۔ دوہوں کا عنوان ’’ہندوستان‘‘ میں ایک ہندوستانی کو اپنے ملک سے جو عقیدت و الفت ہے ظاہر کیا گیا ہے ۔ مزید ہندوستانی رہنمائوں جیسے مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور ادباء و شعراء کے نام ،شخصیاتی دوہے تخلیق کرکے ایک ہندوستانی ادیب ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:

رنگوں کا تہوار ہے، سجنے دے ہر رنگ
گوری اپنی مانگ میں، بھرلے ساتوں رنگ

تو کتنا دھنوان ہے، ہو کر ایک فقیر
گاندھی تیرے نام کی، شہرت عالمگیر

سارے ملکوں سے حسیں، میرا ہندوستان
سب سے بہتر بالیقیں، میرا ہندوستان

کرتے تھے نوخیز بھی، نہرو کی تعظیم
بچوں میں وہ پیار کو، کرتے تھے تقسیم

ڈاکٹر فراز حامدی نے اپنی محبوبہ کے لیے تانیث کا صیغہ واضح طور پر استعمال کیا ہے اور برملا انداز میں اسے ’’گوری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان کی یہ محبوبہ تصوری یا خیالی پیکر نہیں بلکہ اسی عالم رنگ و بو میں رہنے والی گوشت پوست کی مادی اور مجازی محبوبہ ہے۔  وہ اپنے دوہوں میں محبوب سے پیار کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں اور خوابوں میں اس کا اظہار کرتے ہیں، تو کبھی اپنی محبوبہ ’’گوری‘‘ تلخ سچائی کہنے سے روکتے ہیں تو کبھی گوری کے گائوں کی تعریف طنزیہ انداز میں کرتے ہیں تو کبھی گوری کی نازکی کو پھول سے اور چال کو دریا سے مشابہت کرتے ہیں۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:

گوری تیرے روپ کا، آنکھوں دیکھا حال
پھولوں جیسی نازکی، دریا جیسی چال

گوری تیرے گائوں پر، یہ بھی ہے الزام
مہوے کے ہر شاخ سے، ٹپکے ہے بادام

گوری تیرے سامنے، کیا کرتے گفتار
خوابوں میں کرتے رہے، جی بھر کر اظہار

ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں دلکشی، شگفتگی و رنگینی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے جذبات و احساسات کو مختلف پیرایوں میں مختلف طریقوں سے قاری تک پہنچاتے ہیں اور لفظ و معنی کی خوشبو سے ذہن و دل معطر کردیتے ہیں۔ ان کے دوہوں میں صنائع و بدائع کے مختلف پہلوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ صنعت تکرار ، صنعت قلب، صنعت تضاد اور صنعت ذوالقافتین وغیرہ جیسے تمام خصوصیات و محاسن ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چند دوہے ملاحظہ ہوں:

(۱) صنعت ذ والقافتین:

 ایک شعر میں دویا دو سے زیادہ قافیے کے استعمال کو ذوالقافتین کہا جاتا ہے۔ اس صنعت کو ذوالقوافی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ موصوف کے دوہوں میں یہ محاسن بخوبی پایا جاتا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:

بن مانگے ملتی رہی، موسم کی سوغات
پت جھڑ میں ہوتی رہی، پھولوں کی برسات

ذہنوں کے تالے کھلے، علم ہوا بیدار
گائوں میں آنے لگے، شہروں کے اخبار

آئینے کی سطح پر، اشکوں کی سوغات
پانی میں ہونے لگی، تاروں کی برسات

(۲) صنعت طباق(تضاد:

شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال ایک ساتھ کیا جائے جس میں بہ اعتبار معنٰی تضاد پایا جائے ،جیسے آگ او رپانی، عرش اور فرش وغیرہ یہ تضاد اسم، فعل ، حرف اور دوسرے اجزائے کلام کے مابین بھی ہوسکتا ہے۔ موصوف نے دوہوں میں بہت ہی فنی باریکی کے ساتھ اس صنعت کو عملی جامہ پہنایا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

کس کو اب مسکن کروں، جائوں کس کے پاس
صحرا صحرا آس ہے، دریا دریا پیاس

سوکھی سوکھے پائوں میں، گیلی گیلی ریت
بیچوں میں ہلچل ہوئی، لہرائیں گے کھیت

پھولوں کے بیوپار میں، رکھتا کون خیال
کانٹے ہم سے ایک دن، چل جائیں گے چال

(۳) صنعت قلب:

دونوں لفظوں کے حروف ترتیب میں یکساں ہوں مگر حروف کی تقدیم و تاخیر میں اس طرح فرق کردیا جائے کہ جو حرف پہلے لفظ میں مقدم ہو وہ دوسرے لفظ میں موخر مثلاً رات اور تار، بارش اور شراب وغیرہ موصوف کی ایک مثال دوہے کے ذریعے ملاحظہ ہوں:

رک کر پیدا کیجئے، لوگوں سے پہچان
انسانوں کے بھیس میں، پھرتے ہیں شیطان

(۴) صنعت تکرار(تکریر:

دوایسے الفاظ جو ایک معنی رکھتے ہوں شعر یا مصرعوں میں برابر جمع کرنا صنعت تکریر کہا جاتا ہے ۔موصوف نے لفظوں کی تکرار کی مدد سے ایک لے، ایک جھنکار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور دوہوں میں موسقیت و نغمگی کا احساس پیدا کیا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

رونے سے کیا فائدہ، غم کا کیا احساس
ہنسنے کا ابھیاس کر، ہنسنے کا ابھیاس

ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی، بھیگی بھیگی رات
یادیں بس میں ہوں اگر، جب چاہوں برسات

گھر آنگن جب ایک تھے، رہتی تھی تکرار
رفتہ رفتہ اٹھ گئی، جگہ جگہ دیوار

علم بیان میں تشبیہہ کے معنی ہیں باہمی مشابہت کے، جب کسی مشابہت کے باعث ایک چیز کو دوسری چیز سے مشابہ قرار دیا جائے تو اسے تشبہہ کہتے ہیں۔آپ کے دوہوں کی خصوصیات کی یہ بھی ایک اہم خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب کی نازکی کو پھولوں سے اور چال کو دریا سے تشبیہہ دی ہے ایک دوہا ملاحظہ ہو:

گوری تیرے روپ کا، آنکھوں دیکھا حال
پھولوں جیسی نازکی، دریا جیسی چال

موصوف کے دوہوں میں عصری حسیت، واردات قلب کا اظہار زندگی کی تلخ سچائی کے ساتھ ساتھ تاریخی سچائیوں اور اخلاقی رفعتوں کا ترجمان ہے۔ ان کی زبان سادہ و سلیس ہے جو عام بول چال کی زبان سے مشابہت رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک گیت نگار ہونے کے باوجود مختلف مغربی اصناف سخن پر کئی طرح کی ہئیتی تجربات سے اپنا گہرا نقش چھوڑ چکے ہیں ۔اردو میں جو کوئی ان اصناف و ہئیات پر اشعار تخلیق کرے گا وہ آپ کا مقلد ٹہرے گا،  راقم الحروف کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎

چھوڑ کر اپنے مقلد ہم یہاں سے جائیں گے
ہم نہ ہوں گے حوصلوں کا سلسلہ رہ جائے گا

ساقیؔ

الغرض ان کے کلام فکر کی تنوع او رتازگی کے اظہار کی بنا پر اردو دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 807