donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Ham Asar Naat Go


ہم عصر نعت گو


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


تعرفؔ! مشتاب ایں رہِ نعت نہ صحراست
آہستہ، کہ رہ بردم تیغ است قدم را

عرفیؔ نے نعتیہ قصیدے کی تشبیب سے گریز کی طرف مراجعت کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کا فن ہے۔ نعت گوئی کا یہ فن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ نعت گوئی شہادت گاہ الفت میں داخلیت کا راز ہے۔نعت کہنے کامعاملہ نازک اس لیے ہے کہ عقیدت کاغلو شرک کی سرحدوں کو چھونے لگتا ہے جس کے متعلق خود رسول اکرمﷺ نے تاکیداً منع فرمایا ہے۔

نعت گوئی کے انہیں مراحل سے گزرتے ہوئے ضلع کڈپہ کے چار  مشہور  و معروف شعراء نے توصیفِ محمدیؐ میں کلیتاً اپنے عشق کا سرمایا ’’سرورِ کونین‘‘کے نعتیہ مجموعے میں کیا ہے جو سنہ 2012ء کو منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اس مجموعہ کلام کے ترتیب کا سہرا جناب سید شکیل احمد شکیلؔ کے سر جاتا ہے۔ اس نعتیہ مجموعہ میں جناب نور محمد جالبؔ، شیخ محمد ہاشم ؔ شیخ عبدالستار فیضیؔ، سید شکیل احمد شکیلؔ نے اپنے عشق و الفت کا اظہار بڑی ہی عقیدت مندی سے کیا ہے۔ان کی شاعری حقیقی  جذبات و پاکیزہ افکار کی مظہر ہے ۔ الحاج فصیح اللہ خاں نقیبؔ سابق پرنسپل، کے۔ ایم ۔ اکولہ نے اپنے مضمون میں اس طرح نعت کا خلاصہ درج کیا ہے:

’’نعت منشور ہو یا منظوم آپ ؐکے حلیہ مبارک، آپؐ کے اطوار و اعمال صالحہ، آپؐ کے حسن سلوک وخلق عظیم، آپؐ کے اسوۂ حسنہ سے خوشہ چینی کرتی رہے گی۔ آپؐ کی سیرت پاک احادیث، آپؐ کے سلسلہ میں آیاتِ قرآنی، معجزاتِ نبوی، اسوۂ حسنہ پر صحابہ کرام کے اتباع کا انداز ہر نعت گو کے لیے رہنما ے اصول اور واضح خطوط ہیں‘‘۔

یہی احساسات و جذبات رُخ بدل بدل کر ان چار شعراء کے کلام میں ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ان شعراء کے کلام کی اہم خصوصیات یہ ہیں کہ ان کا انداز بیاں منفرد ہے اور اظہار بیاں میں مختلف نوعیت کے اسالیب پائے گئے ہیں۔ ان کا جذبۂ عشق ان کی شفقت و محبت کی عکاسی ہے۔ کون مومن ایسا ہے جو حضورؐ  کے دیدار کی تڑپ نہ رکھتا ہو۔ ان چار شعراء نے حضورؐ کی دیدار کی تمنا رکھتے ہوئے، کبھی خواب میں دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں تو کبھی ان کے دربار میں حاضری دینے کی آرزو لیے، التجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملا حظہ ہوں:

شکیل احمد شکیلؔ:

ایک مدت سے تمنا ہے کہ میں بھی دیکھ لوں
آپؐ کا در آپؐ کا در یا محمد مصطفیؐ
مجھ پر نگاہِ لطف و کرم اتنا کیجیے
آنکھیں یہ کب سے دید کی خواہاں ہیں مصطفیؐ

ہاشمؔ

مجھے توفیق دے مولیٰ بنوں پیارا محمدؐ کا
عطا ہو خواب میں مجھ کو بھی اک جلوہ محمدؐ کا

خواب میں دکھا مولیٰ ماہِ رُخ رسالتؐ کا
میں دھنی تو ہوجائوں دو جہاں میں قسمت کا

جالبؔ

دیدار جس کو آپؐ کا اک بار ہوگیا
ہر دم وہ آپؐ ہی کا طلب گار ہوگیا

ستار فیضیؔ

لاریب اس غلام کا عالم ہی اور ہے
جس کو رسولِ پاکؐ کا دیدار ہوگیا
میری مفلس دل میں جو بیٹھی ہے اندھی آرزو
دیکھنا وہ چاہتی ہے پاک روضہ آپؐ کا

’’شاعر کے تین آوازیں ہیں‘‘ میں T.S.Eliot نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شاعر کبھی اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہے تو کبھی قاری سے مخاطف ہوتا ہے تو کبھی گفتگو کے ذریعہ ڈرامائی کردار کی تصاویر کھینچتا ہے۔ اسی گفتگو سا انداز ان چار شعراء میں پایا جاتا ہے۔ ان کے کلام میںعقیدت کی کیفیت جا بجا نظر آتی ہے ان شعراء کے نوکِ قلم سے عشق کی جلوہ گری، جذبے کی وارفتگی، بیان کی بے ساختگی اور مضمون کی ادائیگی کے جلوے سمٹ کر ان کے سخنِ گفتگو کا سرمایہ بن جاتے ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

شکیل احمد شکیلؔ

آئیے تسمے پہن کر یا محمد مصطفیؐ
دیکھ لیں جی بھر مرا گھرا یا محمد مصطفیؐ
کوہساروں کے طرفدار ذرا مجھ کو بتا
کس کا ہے مرتبہ و رتبہ حرا سے پہلے

ہاشمؔ

کس نے کہا، ہیں آپؐ مدینے میں محو خواب
ہر اُمّتی کے قلب میں پنہاں ہیں مصطفیؐ

ہیں کب سے منتظر ہاشمؔ کی آنکھیں
دکھا دو روئے تاباں یا محمدؐ

جالبؔ

حلیمہؓ تری گود میں آنے والا ہے
وہ ہر گام نور برسانے والا

بادل ترا برسنا ہے کچھ دیر کے لیے
لیکن صدا برستی ہے رحمت رسولؐ کی

فیضیؔ

نعت شریف کہنے کا فیضیؔ الگ ہے فن
کتنا سکون ہے اس میں سخنور سے پوچھئے
بات سچ ہے بغیر نام حضورؐ
لطف  ملتا نہیں ہے جینے میں

عہد حاضر میں نعتیہ شاعری روایتی اسلوب سے ہٹ کرعمدہ و پاکیزہ ملبوس میں جلوہ گر ہوکر ہماری روح کی سرشاری کا سبب بن رہی ہے۔ ساتھ ہی جدید لب و لہجہ میں نعت کے تقدس اور کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے روایتی اور کلاسیکی راہ سے نعت کی تخلیق کی جارہی ہے۔ جس میں تلمیحات و واردات اور مختلف واقعہ شاعری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں مثال کے طور پرحضور کا عرشِ بریں پر جانا اورلوٹ کر آنے کا واقعہ ہمیں کئی روپ میں نعتیہ شاعری میں ملتے ہیں ۔ان کی نعتیہ شاعری انہیں خوبیوں سے وابستہ ہے اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

شکیلؔ:۔

وقت کی رفتار کو خاطر میں لاتا ہی
آپ کا پاکیزہ بستر یا محمد مصطفیٰؐ

ہاشمؔ:۔

پل میں سمیٹ گئے تھے یہ افلاک دیکھیے
کتنا سفر تھا تیز نبیؐ کے رکاب کا

جالبؔ:۔

معراج میں حضور کی رفتار دیکھ کر
پتھرا گئی تھی وقت کی رفتار ہر طرف

فیضیؔ:۔

اپنے بستر سے اٹھے تو لا مکاں میں آگئے
اس سے بڑھ کر دونوں عالم میں کوئی اعجاز ہے؟

نعتِ رسولؐ اکرم میں کئی شعراء آپؐ کے پسینے مبارک کا ذکر کرچکے ہیں۔ جس کے مطالعہ سے روح کی تازگی میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہن و دل معطر ہوجاتا ہے۔ اس کے اظہار کے لیے شاعر کو استعارے اور تشبیہات سے اپنی عقیدت مندی کا اظہارشائستگی، سادگی، توانائی اور خوش فکری کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ اس خیال کو ان چار ہم عصر شعراء نے کس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے سماعت فرمائیے۔

شکیلؔ:۔

عنبر و مشک کے خزانے ہیں
مرے سرکار کے پسینے میں
کوچۂ مدینہ میں رستہ رستہ طیبہ میں
آپ کے پسینے کی عطر و مشک باری ہے

ہاشمؔ  :۔

اک بوند مل گیا ہے پسینہ حضورؐ کا
ہاشمؔ جہاں میں خوشبو کا انبار ہوگیا
چھینٹا بکھر گیا ہے پسینہ حضورؐ کا
ہاشمؔ نچوڑ دیکھ تو گلشن گلاب کا

فیضیؔ  :۔

مشک و عطر کا دریا جس کو کہتے ہیں فیضیؔ
وہ ہمارے آقاؐ کا چپ ذرا پسینہ ہے
یہ بس مرے نبیؐ کے پسینے کا فیض ہے
خوشبو کا سر بلند اگر ہے گلاب کا

ان خصوصیات کے علاوہ ان کی شاعری میں آداب نعت گوئی کا سلیقہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ان کا اندازِ بیاں دلکش و دل نشیں ہے۔ انہوں نے رسول اکرمؐ سے اپنی بے پناہ عقیدت  و محبت کا اظہارمیں کسی بناوٹ یا تصنع سے کام نہیں لیا ہے۔ ان کی شاعری حقیقی جذبات و پاکیزہ افکار کی مظہر ہے۔ توصیفِ محمدیؐ میںذہن کو حاضر اور دل کو گرفت میں رکھتے ہوئے انہوں نے غلو یااغراق سے پہلو تہی کی ہے۔ انہوں نے جس انداز سے آقائے نامدار سے اظہار محبت و عقیدت کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 679