donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Jadeed Doha Nigar Dr Vidya Sagar Anand


جدید دوہا نگار ڈاکٹر ودیا ساگر آنندؔ


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


’’دوہا رنگ‘‘ خالص دوہا چھند پر مشتمل ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کا چھٹہ شعری مجموعہ ہے۔ جس میں اردو دوہے، مردف دوہے، شخصیاتی دوہے، دوہا غزل، دوہا گیت اور دوہا قطعات شامل ہیں۔ اس سے قبل ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کے پانچ مجموعہ کلام (۱) مئے آنند  (۲)کلام نرم و نازک  (۳) بہارِ بے خزاں  (۴) ساگر میں دھوپ  (۵) پانچواں گگن  شائع ہوکر منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ اردو و انگریزی ادبی دنیا میں ڈاکٹر ودیا ساگر آنند شاعر، ادیب، صحافی، مفکر ، مورخ اور ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ اپنی سیاسی و سماجی دنیا میں مصروف رہنے کے باوجود اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان سے دور سات سمندر پار رہ کے بھی آپ نے اردو ادب کی آبیاری کی ہے۔ اپنی ادبی خدمات کی وجہہ سے ہی انہیں ’’محسن اردو،  خادم اردو‘‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ مزید انٹرل کلچرل اوپن یونیورسٹی(IOU)نے موصوف کو ڈی۔لٹ(D.Litt)کی ڈگری سے نوازا ہے۔ موصوف کئی اردو رسائل و جرائید کے سر پرست اور نگہبان بھی ہیں۔

غزل، نظم، رباعی، قطعات، ہائیکو، ماہئے، ماہیا گیت اور اردو دوہے جیسے قدیم و جدید اصناف پر آپ کو کما حقہٗ  عبور حاصل ہے۔ آپ کے تخلیق کردہ تمام دوہے مختلف موضوعات پر محیط ہیں ، سبھی دوہے ایک الگ مخصوص رویے کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں۔ موصوف کے دوہوں میں وقعت تو ہے ہی اختصار میں جامعیت کا زور بھی ہے۔ الفاظ کے موثّر استعمال سے مضمون آفرین کے حُسن میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کا مجموعہ کلام ’’ دوہا رنگ‘‘ جمالیاتی حُسن آمیزی اور معنویت کی بلاغت و ارتفاعیت کے فسوں کاری و سحر خیزی جیسی خصوصیات کا غماز ہے۔ اس مجموعہ میں شامل دوہوں میں مختلف رجحانات و تحرکات پائے جاتے ہیں۔ یوں تو ان کے اکثر دوہے کلاسیکیت، جدیدیت،جمہوریت، اشتراکیت اور علامت نگاری جیسے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ آپ نے فکر و احساس کو اپنے تجربے کے سانچے میں ڈھال کر فنی حُسن و خوبی عطا کی ہے۔ اس لیے ان کے دوہے ایک ذہنی تحریک کے طورپر اخذ کر سکتے ہیں۔ زندگی کے پیچیدہ رویوں اور احساسات کو ظہور میں لانے کے لیے انہوں نے زندگی سے براہ راست رشتہ قائم کیا جس کی وجہہ سے ان کے دوہوں کے دامن میں پیچیدہ مسائل کے ساتھ ساتھ فرد کی اہمیت خوف زدہ ابہام،تنہائی، بیگانگی جیسے مختلف پہلو پائے جاتے ہیں۔ ان کی نظر میںـ’’ تنہائی‘‘ ایک احساس ہے، ایک تجربہ ہے اس نوعیت کے چند دوہے ملاحظہ ہوں   ؎

میرے آنگن میں بھی تھے، کبھی حسین گلاب
اب تو ان کے خواب بھی ،بخشیں مجھے عذاب

نہیں تجھے تو کیا ہوا ،پیار مرا منظور
میں بھی ہوں خود میں مگن ،رہتا ہوں مسرور


کرلی غم سے دوستی، خوشیوں سے تکرار
ہم نے ٹھوکر ماردی،دنیا دی دھتکار
من بغیا کا آج کل، بڑا بُرا ہے حال
گل ہیں مرجھائے ہوئے ،شاخیں پڑیں نڈھال

ڈاکٹر ودیا ساگر کے دوہوں میں اظہار بیان کی آزادی اور زندگی کی داخلی و خارجی حسیّت کی پر کشش آمزش پائی جاتی ہے۔ موصوف نے اپنے جدید طرز اظہار اور انداز بیان سے اپنی شاعری کو نیا رُخ عطا کیا ہے۔ جس کی وجہہ سے دوہوں میں جدیدیت کا پیکر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

میں ندیا کے اس طرف، اور تو ہے اس پار
کھڑی ہوئی ہے بیچ میں، پانی کی دیوار

دل کے گلشن میں اُڑی ،چاروں جانب دھول
کل تک جوتھے شاخ پر ،خاک ہوئے وہ پھول

جب جب تیری یاد سے، لگے گی دل پر ٹھیس
گائوں ترے میں آوں گا، بدل کر اپنا بھیس

آپ نے اپنے دوہوں کو جدید پیکر عطا کرنے کے لیے روایتی الفاظ سے ہٹ کر الفاظ کا کھردراپن، کرختگی، ناہمواری کے ساتھ ساتھ انگریزی الفاظ کو بڑی سلیقگی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ آپ کے دوہوں میں فون(Phone)، ووٹ(Vote)، انگلینڈ(England)،  دی اینڈ(The End)، ڈسپلین(Discipline)، اسٹیج(Stage)، بلڈنگس(Buildings) اور رول(Roll)جیسے انگریزی الفاظ کا استعمال نئے طرز پیکر او رجدید رجحانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں   ؎  

دنیا کے اسٹیج پر، ناٹک کرتے لوگ
کیوں کرتے ہیں رول کو، ڈرتے ڈرتے لوگ

میرے دشمن کو دیا، جان کے تونے ووٹ
جانے کیسے آگیا، تیرے دل میں کھوٹ

چاروں بیٹے بس گئے، بھایا ہے انگلینڈ
رنجیدہ ماں باپ ہیں، کیسا ہے دی اینڈ

مختلف اصناف سخن میں ابتدا سے لے کر آج تک طنز و مزاح کے مختلف پہلو دیکھے جاسکتے ہیں۔ طنز و مزاح صرف ایک مترادف لفظ نہیں ہیں یہ دونوں الگ الگ طرح کے طرز بیان ہیں اور دو الگ الگ طریقوں سے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ سماج کی نا برابری اور ناہمواری پر غم و غصہ کے ادبی اظہار سے ہنسی پیدا کرنے کا نام طنز ہے۔ اسی طرح سماج کی نا برابری اور نا ہم واری کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہنسی پیدا کرنے کا نام مزاح ہے۔ اکثر شعراء طنز و مزاح کو ایک ہی مترادف لفظ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ودیاساگر نے گہرائی و گیرائی کے ساتھ دوہوں میں لطیف طنز کا نشتر چھوڑا ہے۔ جس میں انہو ںنے اپنی زندگی کے مشاہدات و تجربات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر ایک جدیدپیکر عطا کیا ہے۔ جس میں سماج اور معاشرے کے کئی ایسے پہلو جو اصلاح طلب ہیں واضح کیا ہے۔ آپ نے اپنی گہری بصیرت سے سماج کی بے راہ روی اور بے سمتی پر چوٹ کرتے ہوئے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

ان سے کوسوس دور ہے، یہ اندھا قانون
جن کے دامن لال ہیں ،کیے جنہوں نے خون

ہے اندھوں کے واسطے، کانا راجا دیکھ
بہروں کے بھی سامنے، بجتا باجا دیکھ

اپنے ہی ماں باپ کو، تنہا جائیں چھوڑ
جانے کیسے پُتر ہیں، دیتے رشتہ توڑ

موصوف کے دوہوں میں مشاہداتی فضا بھی موجود ہے، انہوں نے سماجی نا برابری اور مزدورکی آہ اور مفلس کے حالات کو بڑی عمدگی سے الفاظ میں ظاہر کیا ہے اوردور حاضر کی مہنگائی او راشتراکیت کاا ظہار کیا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں   ؎

روٹی روزی کی سدا، چنتا صبح و شام
مفلس اور لاچار کو کیسا سکھ آرام

کتنا مہنگا دور ہے، گھر آئے مہمان
خاطر داری کیا کروں، مشکل میں ہے جان

عیش و عشرت کے لیے، کب لڑتے مزدور
اپنے حق کے واسطے، کرتے ہیں ہڑتال

آپ بھارت سے کوسوس دور ہیں ،اس کے باوجود آپ کو یہاں کی مٹی سے گہرا لگائو ہے جو ان کے دوہوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ سات سمندر پار رہ کر بھی بھارت کی شان میں شعر کہنے کا جذبہ رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک سچے ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی فضا اور جمہوریت سے ان کا رشتہ کس قدر گہرا ہے واضح طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے دوہوں میںہندوستانی ماحول اور یہاں کی یکجہتی اور رسم و رواج کی عکاسی پائی جاتی ہے او رانہیں ایک ہندوستانی ہونے پر فخر ہے اور وہ ہندوستان کی خاک کو مشک و عنبر سے تعبیر کرتے ہیں۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں   ؎

بھانت بھانت کے لوگ ہیں، بھارت کی سنتان
بھانت بھانت کی بولیاں، بھارت کی ہیں شان

رکھتے سب ہیں مختلف، ہندو مسلم نام
سوہن، موہن، شیام ہیں، اشرف، اسلم، زید

مشک و عنبر سے سوا، میرے وطن کی خاک
مل دے میرے جسم پر، میرے سر پر ڈال

موصوف کے دوہوں میں ایک طوفانی محبت کا جوش ہجرو وصال کی باتیں اور عورتوں کی نفسیاتی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ گوری کی پتلی کمر کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے جنسیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت کے کئی رنگ و روپ کو لفظوں میں ظاہر کیا ہے۔ اس نوعیت کے چند دوہے ملاحظہ ہوں:

گوری کی پتلی کمر ،جب سو سو بل کھائے
سر سے گگری جل بھری، چھلکی چھلکی جائے

اس کی اک مسکان سے، امرت ٹپکے خوب
جیون میں رس گھولتی، کہتے جس کو نار

آنندؔ وش بھنڈار ہے، کہتے جس کو نار
شعلہ ہے انگار ہے، کہتے جس کو نار

ماں ہے بیٹی اور بہن، پتنی اس کا نام
بنتی ہیر و سوہنی، کہتے ہیں جس کو نار

شاعر ہوکہ ادیب اپنے اسلوب ہی کی وجہہ سے اپنی ایک الگ پہچان بناتا ہے اور ادبی دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ آپ کا اسلوب جداگانہ ہے وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں    ؎

آوازوں سے مختلف، ہے میری آواز
نیا مرا اسلوب ہے، نئے مرے انداز

غرض آپ کی دوہا گوئی ،زندگی کے حالات سے لے کر سماجی، معاشی، سیاسی ، اشتراکی پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے جدید رجحان، طنز، علامت نگاری جیسی خصوصیات کی وجہہ سے معنوی تنوع اور تحیر زار تاثر کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 565