donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Jadeed Labo Lahja Ka Shayar Suhail Akhtar


جدید لب و لہجہ کا شاعر سہیل اختر


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


کھلے اسی پہ نہ مفہوم کیا کیا جائے
مرا کلام ہے منظوم کیا کیا جائے

سہیلؔ اختر


سہیل اختر کا پہلا شعری مجموعہ ’’کاغذ پہ صحرا‘‘ سنہ2008ء میں منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ موصوف کی شاعری میں جدید طرازی کا عنصر جابجا نظرآتا ہے۔ موصوف نے اپنے افکار و خیالات اور تجربات کو شعر و سخن میں ڈھال کر آپ بیتی کو جگ بیتی بنایا ہے۔ مجموعہ کلام کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان تجربات سے ضرور اس کا بھی گزر ہوا ہے۔

’’کاغذ پہ صحرا‘‘ تقریباً ایک سو چالیس غزلوں پر مشتمل مجموعہ کلام جاذب النظر اور کاغذ و طباعت بہت قیمتی اور عمدہ ہے۔موصوف نے نئے اسلوب کے ساتھ اشعار ہی نہیں کہا ہے بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ انہیں صفحۂ قرطاس پر لاتے ہوئے اس کی طباعت کی حُسن آرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

سہیل اختر کے مجموعہ کلام کا ہر شعر جدید رجحانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔موصوف کے ہر شعر میں نئے اسلوب ، نئے طرز کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ہر شاعر یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کی شادابیوں سے قاری کو مثبت طریقے سے اپنی طرف راغب کرے، لیکن موصوف نے ایک نیا طریقہ اپنایا ہے مجموعہ کلام کا نام ’’کاغذ پہ صحرا‘‘ رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ انہوں نے زیست کی تلخیوں اور حقیقتوں کو شاعری کا عملی جامہ پہنایا ہے اور مزید موصوف نے اس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ ان کا جنون ہی انہیں صحرا کو کاغذ پر سمیٹنے پر آمادہ کیا ہے۔ شاعری میں کئی طرح کی رکاوٹوں کے باوجود موصوف نے شاعری کا دامن نہیں چھوڑا۔  اس سے دو باتیں اخذ کئے جاسکتے ہیں ،ایک یہ کہ شاعر بنتا نہیں پیدا ہوتا ہے، دوسری یہ کہ سہیل اختر فطرتاً شاعر ہیں اسی وجہہ سے شاعری کے سلسلے میں رکاوٹیں پیدا ہونے کے باوجود موصوف نے شاعری کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنا رکھا ہے جو فطرتاً شاعر ہے وہ کسی بھی حالت میں شاعری ترک نہیں کرسکتا۔ اگر وہ جان بوجھ کر ترک شاعری کررہا ہے تو اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی طبیعت پر ظلم کر رہا ہے۔ اسی زاویۂ نظر کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

بے حسی شرط ہے جینے کے لئے دنیا میں
اور ہم لوگ کو احساس کی بیماری ہے

سہیل کے مجموعہ کلام میں انگریزی الفاظ جا بجا پائے جاتے ہیں، موصوف نے انگریزی الفاظ کو ترسیل کا ذریعہ بنایا ہے۔ موصوف کی شاعری میں فون(Phone)، ٹن(Tin)، شد(Shed)، ایٹم بم(Atom bomb)، بالکنی(Balcony) کیکٹس(Cactus) ،اسٹیج(Stage) وغیرہ انگریزی الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

سہیل نے اپنے خیالات وجذبات کا اظہار کرتے ہوئے ممکن حدتک مشکل الفاظ کا سہارا نہیں لیا ہے۔  بعض شعراء شیخی مارنے کی غرض سے کئی مشکل الفاظ کا سہارا لیتے ہیں جس سے شاعری کارنگArtificial(بناوٹی) ہوجاتا ہے ۔سہیل کی زبان عام فہم ہونے کے باوجود استعارے اور کناے ہمیں ان کی شاعری میں پڑھنے کو ملتی ہیں، بقول سعید رحمانی:

’’سہیل استعارہ سازی کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ درخواب، موم کا پیکر، زمینِ حقیقت، تصور کا جسمانا، تالاب یقین، سنگ الفاظ، ندامت کی کیل خواہشات کی مرغیاں جیسے خوبصورت تراکیب کے وسیلے سے انہوں نے پرانے لفظوں کو نئے مفاہیم سے آشنا کیا ہے‘‘۔

کس کو فرصت ہے رمز و اشارہ سمجھے
صاف کہنا ہے ہمیں ’’نا‘‘ کہ ہو ’’ہاں‘‘ اب کی بار

سہیل اختر کے کلام میں لفظ و معنی کے تعلق سے کئی اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں لفظ و معنی کے تعلق سے شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ :

’’ لفظ جسم ہے اور مضمون روح ہے۔ دونوں کا ارتباط باہم ایسا ہے جیسے روح اور جسم کا ارتباط کہ وہ کمزور ہوگا تو یہ بھی کمزور ہوگی۔ اگر معنی میں نقص نہ ہو اور لفظ میں ہوتو شعر میں عیب سمجھا جائے گا۔ جس طرح لنگڑے یا لہجے میں روح موجود ہوتی ہے لیکن بدن میں عیب ہوتا ہے. . . اگر مضمون بالکل لغو ہو اور الفاظ اچھے ہوں تو الفاظ بھی بیکار ہوں گے جس طرح مردہ کا جسم کو یوں دیکھنے میںسب کچھ سلامت ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی نہیں‘‘۔
چند شعر ملاحظہ ہوں:

رہائی قید معانی سے لفظ پا نہ سکے
میں چاہتا ہوں بہت پر کہا نہیں جاتا

وہ کرب روح معانی نہ کرسکے محسوس
گو زخم زخم لفظوں کے تبصرے بھی ہوئے

بغاوت پر ہیں لفظ آمادہ یارو
کہو معانی سے اب ہوشیار ہو لیں

سہیل اختر کی شاعری میں زیست کی تہہ داری اور عصری حسیّت کا پیکر نظر آتا ہے وہ اپنے وجود کے تعلق سے کہتے ہیں کہ :

ہم ہیں بے وزن بھٹکتے ہوئے آوارہ وجود
اپنا مرکز اور نہ کوئی محور یارو

اختر کی شاعری میں جا بجا مکالمے کا رنگ پایا جاتا ہے۔ سہیل باتوں ہی باتوں  میں شعرکہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ سننے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ موصوف نے شعر کہہ ڈالا ہے چند شعر ملاحظہ ہوں:

نہیں آئے تو پھر خاموش رہنا
میاں! کیا ضروری ہے شعر کہنا

جواب اپنے سوالوں کے نہیں جب
انہیں پھر پوچھ کر شرمانا کیسا

چلو اس جانِ محفل سے بھی مل آئیں
سنا ہے اب وہ تنہا ہوگیا ہے

موصوف کی شاعری میں یاس، تنہائی، امید، جنون و عشق، غم آوارگی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سہیل اپنے آپ کو تنہائی سے گھبراتے ہوئے دیکھا ہے، تو کبھی اپنے دل کو لایعنیت کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے ،تو کبھی درد کو بم کی مانند پھٹتے ہوئے دیکھا ہے، تو کبھی اپنے اشکوں کے سمندر سے پار ہونے کے لئے امید کے پتوار پر بھروسہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ایسی تنہائی کہ دل ڈوبنے لگتا ہے سہیلؔ
اور ہم کو کسی تنکے کا سہارا بھی نہیں


یہ درد بارود بن چکے ہیں
میں شدت غم سے پھٹ رہا ہوں

جنون عشق آوارگی شاعری
نہ راس آئی اخترؔ یہ املاک چھوڑ

پار کر جائیں گے اشکوں کا سمندر اک دن
ہم نے امید کو پتوار بنا رکھا ہے

مندرجہ بالا اشعار سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سہیلؔ، اختر ؔدو  دو   تخلص کے مالک ہیں ۔موصوف نے موقعہ و محل کے اعتبارسے کبھی سہیلؔ متخلص اپنایا ہے تو کبھی اخترؔ۔

سہیل اختر تصور کی دنیا کو باغِ ارم سمجھتے ہیں اوران کو اسی دنیا میں سیر کرتے ہوئے اپنے مقصد کی طرف گامزن ہونا اچھا لگتا ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:

ہم حقیقت کے جہنم میں مگر
اک تصور کا ارم ہے اب تک

میں روز خواب کے پیکر بنا کے توڑتا ہوں
مگر یہ فکر جو تجسیم ہونا چاہتی ہے

چاند اور چاند کی تنہائی پر مختلف شعراء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، لیکن موصوف کا طرز بیان سب سے جداگانا ہے۔ ’’انجم‘‘ اور ’’انجمن‘‘ میں صرف ’’ن‘‘ کی اضافت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چاند کو موضوئے سخن بنایا ہے:

اکیلا کیوں نہ چاند جمگھٹے کے باوجود ہے
کہ انجمن بغیر حرف نون دے دیا اسے

سہیل اختر کی شاعری کا سفر مجموعی طور پر جدیدیت کی طرف گامزن ہے۔ موصوف کا اظہار بیان جداگانہ اسلوب میں جدت ہونے کے باوجود چند خامیوں کا احساس ہوتا ہے اکثر شعراء طرز بیان کی جدید طرازی کے چکر میں کھوجاتے ہیں اور غیر فطری طور پر شعر تعقیدِ لفظی کا شکار ہوجاتا ہے۔ تعقیدِ لفظی کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ افعال کے ٹکڑے ہوکر ایک دوسرے سے دور جا پڑنا دوسرا یہ کہ متصل الفاظ کا دور دور ہوجانا اس کی ایک مثال سہیل اختر کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔

کہانی ختم ہوئی لفظ لفظ لوٹا دے
رہے ہماری ترے پاس اب کتاب ہی کیوں

اہل عروض نے چند ایسے قافیے کو جائز قرار نہیں دیا جو آہنگ کے اعتبار سے کسی نہ کسی حدتک قوافی تو معلوم ہوتے ہیں لیکن صوتی اعتبار سے الگ ہی نظر آتے ہیں مثلاً احتیاط کا قافیہ بات وغیرہ موصوف نے بھی ایسی ہی غلطی کی ہے جو اہلِ عروض کے نزدیک عیب ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:

اترا کب معیار پہ کوئی میرا مصرعہ
آپ سے ہے شرمندہ کتنا مصرعہ مصرعہ

الغرض ان چند عیوب کے علاوہ سہیل اختر کا مجموعہ کلام قابلِ رشک ہے امید ہی نہیں یقین ہے کہ موصوف آگے چل کر اجنبی اور نامانوس الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں گے۔ ہماری نیک تمنائیں ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں۔

(مطبوعہ  :  ماہنامہشاندار اعظم گڑھ ،  فروری ۲۰۱۰؁ئ، صفحہ نمبر:۲۶)


*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 701