donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Nazar Ki Nazar


نظر کی نظر


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


نظرؔ کی نظر تیز رفتار است
بہ فنکار از فن گفتار است

ساقیؔ

نظرایٹوی صاحب کا پہلا شعری مجموعہ ’’سیپ‘‘ فن کے سمندر کی گہرائی سے نکل کر منظر عام پر آتے ہی شمس تنقید کی شعائوں سے جگمگانے لگا ہے۔

’’سیپ‘‘ کی ہر غزل موتی کی مثل ہر نظر کو تھوڑی دیر رکنے اور لطف اندوز ہونے پر مجبور کردیتی ہے، بالخصوص اسی طرح’’سیپ‘‘ کے مطالعہ سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ ہر شعر دل کی گہرائیوں میں اتر کر وادئی دل کو سر سبز و شادات بنا دیتا ہے۔

’’آئینہ ‘‘غزل کا ایک خاص موضوع ہے۔ اس تلازمے کو ہر شاعر اپنے اپنے انداز میں پیش کرتا ہے۔ آئینہ کا ایک خاص تلازمہ حیرت بھی ہے۔ آئینہ ایک ایسی آنکھ بھی ہے جو کبھی پلک نہیں جھپکتی۔  اس زاوئیے کے کئی اشعار مجموعہ کلام میں ملیں گے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:

میری محفل سے ابھی اُٹھ کے گیا ہے کوئی
صاف ظاہر ہے یہ آئینوں کی حیرانی سے

صوتی تکرار میں حسن اور نغمگی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اہل فن نے اس کیفیت کو ’’صنعتِ تکرار‘‘ کا نام دیا ہے۔ الفاظ کے تکرار سے خیال کا طلسم کدہ تعمیر کرنا مقصوص ہوتا ہے، جس سے غنائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:

ذکر جس کا نظر نظر ہے نظرؔ
اس نظر پر نظر ہماری ہے

یہ مشغلہ سفر کا وسیلہ بنالیا
سائے کو جسم، جسم کو سایہ بنالیا

سمندر ، گہرائی ، موج، طوفان، پانی، کنارے جیسے الفاظ کو غزل کے شعرانے مختلف انداز میں استعمال ہی نہیں بلکہ غزل کی روح کو تلاش میں بھی لایا ہے۔

یہ موج کہاں مجھ کو طوفاں سے بچالائی
اِس پاس بھی گہرائی، اُس پار بھی گہرائی

نظرؔ ایٹوی غمِ جاناں غمِ دوراں، مفلسی اور جدائی کے غم کو اپنے ذہن و دل میں زیادہ دیر تک پنپنے نہیں دیتے بلکہ انہیں بے ساختہ طور پر غزلانے کے عادی ہوجاتے ہیں۔

قہقہے بھی کمال کرتے ہیں
آنسوئوں سے سوال کرتے ہیں

اس مجموعہ کلام میں چند ایسے شعر ہیں جن سے شائستگی ، جدت اور لطف اندوزی کا احساس ہوتا ہے۔

فاصلے کتنے فاصلے پر ہیں
ان کی قربت سے پوچھتا ہوں میں

جب شہر کے ہنگامے خاموش نہیں رہتے
پھر کیسے مخاطب ہو تنہائی سے تنہائی

سُستی اورکاہلی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ وہ بھی اس دور میں جو کاہل ہے اُسے جینے کا کوئی حق نہیں ،  اسی خیال کو شاعر نے اپنے انداز میںیوں کہا ہے:

اس صدی سے نکال دو اس کو
کوئی لمحہ اگر کرے تاخیر

جس ’’سیپ‘‘ میں دُرِ نایاب ہونے کی صلاحیت موجود تھی، اس نے قطرۂ نیساں سے اعراض اور پہلو تہی کی ، نتیجتاً شاعر پختگی کے باوجود مبتدیوں میں کھڑا نظر آتا ہے، اور فن عروض میں کم علمی کا احساس ظاہر ہوتا ہے بہت سارے شعرأ فارسی کے مشہور شاعر مولانا روم کا یہ شعر کہہ کر اپنی عروض دانی پر اکتفا کرلیتے ہیں کہ:

من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
شعر می گویم ازقند و نبات

(مولانا روم)

میں نے اپنے زاویۂ نظر سے ’’سیپ‘‘ کے آئینہ پر چند اغلاط جیسے   خارج از بحر،تقابل ردیفین  اور شتر گربہء  زمانی کے گردو غبار کو محسوس کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ناچیز کا یہ مشاہدہ ناقص اور اپنی نظر کے باعث ہو اور شاید پڑھ کر بہت سے لوگ چراغ پا بھی ہونگے لیکن مجھے صرف اپنے تاثرات پیش کرنا ہے۔

مجموعہ کلام کا از ابتداء ’’حمد‘‘(بحر رجز مربع سالم) تا آخری غزل(بحر رمل مثمن مخبون ابتر) تمام بحروں کا مطالعہ کیا اور آخر میں ان کے نام درج کیا ہے۔

 جب بات  ’’حمد‘‘ سے شروع ہوئی تو میں بھی اپنے خیال کو حمد سے ہی شروع کرنا چاہتا ہوں’’ حمد‘‘ کے آخری بندمیں پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ خارج از بحر ہے کیوں کہ لفظ’’کلمہ‘‘ کا تلفظ (کَ،لِ،مہَ) فَعِلُن کے وزن پر ہے جبکہ شاعر نے فعلن(کَلْ مَہ) کے وزن پر استعمال کیا ہے۔غلط العام صحیح الزباں تو نہیں ہو سکتا۔ اس حساب سے یہ شعر خارج از بحر ہوا۔ اسی غلطی کو نعت کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں دہرایا گیا ہے۔

معائب سخن شعری ہیت کو مجروح کردیتے ہیں۔ انہیں معائب سخن میں شترگربۂ زمانی ایک ایسا عیب ہے کبھی کبھی شاعر انجانے میں اس عیب کو کر بیٹھتا ہے۔ اس نوعیت کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

خود کو دیکھا جب اپنی آنکھوں سے
قہقہے گر گئے ہیں ہونٹوں سے

اس شعر میں دیکھا(جس میں تھا محذوف ہے اور صیغہ ماضی ہے) گر گئے ہیں(دوسرے مصرعہ میں ’’ہیں‘‘ صیغہ حال ہے) دو الگ زمانی صورتیں ہیں جن کا اجتماع صحیح نہیں ہے۔

مجموعی طور پر صاحب سیپ مبارکباد کے قابل ہیں کہ انہوں نے اپنے افکار کو اس سیپ سے مشابہ قرار دیا ہے، جو عنقریب گہر ہونے والا ہے۔دیکھیں کہ’’ کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک‘‘۔ توقع ہے کہ اگلا مجموعۂ کلام یقینا گوہر(گہر) کے نام سے ہم مشتاقانِ نظرؔ کو نظر نواز کرے گا۔

۱؍   بے خیالی بنارہی تھی لکیر            (بحر خفیف مسدس مخبون مقصور)

۲؍   عشق میں جو قصور ہوتا ہے        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۳؍   راستہ فرار کا یوں نہ اختیار کر        (بحر مدید مخبون سالم)

۴؍   جن سے معصوم خطائیں بھی نہیں ہوتی ہیں    (بحر رم رمل مثمن ابتر)

۵؍   تیرے لئے زحمت ہے میرے لئے نذرانہ    ( بحر ہزج مثمن اخرب)

۶؍   جانے کس نے مجھے سنبھالا تھا        ( بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۷؍   حقیقتوں کو فراموش کرگئے حالات        (بحر مجتث مثمن مخبون مقصور)

۸؍   قہقہے بھی کمال کرتے ہیں            ( بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۹؍   تونے چاہا نہیں حالات بدل سکتے تھے    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۱۰؍  ان کی یادوں کا جشن جاری ہے        ( بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۱۱؍  دنیا تو بھٹکی ہے دن رات اندھیرے میں    (بحر ہزج مثمن اخرب)

۱۲؍  یہ میرا مشغلہ ہے میں نئے منظر بناتا ہوں    (بحر ہزج مثمن سالم)

۱۳؍  سفر کا فرض نبھانے کوئی نہ آئے گا        (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۱۴؍  دورتک نگاہوں میں حسن مسکراتا ہے        (بحر ہزج مثمن اخرب)

۱۵؍  مرتبہ یہ مجھے دعا سے ملا            (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۱۶؍  ہم خود کو نہ بدلیں گے لمحات بتاتے ہیں    (بحر ہزج مثمن اخرب)

۱۷؍  گرتی دیواروں کے منظر کی طرف کیا دیکھوں    (بحر رمل مثمن مخبون ابتر)

۱۸؍  اس نے ہنس کر نظر جھکالی ہے        ( بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۱۹؍  کس تصور میں، کس گمان میں ہے        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۲۰؍   یہ کون ابھی آکے گیا ہے مرے گھر سے    ( بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف)

۲۱؍   تم خود کو بدل نہیں سکتے            (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۲۲؍  میں نے صحرائوں میں حاصل کیا آسانی سے    ( بحر رمل مثمن مخبون ابتر)

۲۳؍   اب کوئی میرا ہم زبان نہیں        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۲۴؍   نہ مسجدوں میں نہ اب بتکدوں میں ملتے ہیں    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۲۵؍   پوچھو نہ شب ہجراں کس طرح بتائی ہے    ( بحر ہزج مثمن اخرب)

۲۶؍   جب پکارا ہے تجھے، اپنی صدا آئی ہے    ( بحر رمل مثمن مخبون ابتر)

۲۷؍   دھوپ کو چھائوں میں پرویا ہے        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۲۸؍   ہم نے جہاں بھی جیسا مناسب ہوا کیا    (بحر مضارع اخرب مکفوف محذوف)

۲۹؍   آپ نے سچ کہا نہیں بدلا        (  بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۳۰؍   کن درختوںمیں آگیا ہوں میں        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۳۱؍    ہر سمت محبت کے موسم نظر آتے ہیں    (بحر ہزج مـــثمن اخرب)

۳۲؍   ہر ایک سمت    تقاضہ ترے مکان کا ہے    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۳۳؍   بیچ دی اس نے اپنی خودداری        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۳۴؍   مجھ کو حیرت سے دیکھتے ہیں امیر        ( بحر خفیف مسدس مخبون مقصور)

۳۵؍   اس طرح ہمیں کب تک زندگی بتانی ہے    (بحر ہزج مثمن محذوف)

۳۶؍   لوٹ کر آیا مجھے یہ گھر کے رکھوالے ملے    (بحر رمل مثمن محذوف)

۳۷؍   آدمی کی قسمت میں صرف غم اُٹھانا ہے    ( بحر ہزج مثمن ابتر)

۳۸؍   مسیحا بھی جس غم سے بیزار تھا        (بحر متقارب مثمن محذوف)

۳۹؍   حادثوں کی نذر وہ اکثر ہوئے        (بحر رمل مسدس محذوف)

۴۰؍   یوں بھی ہم زندگی بتائیں گے        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۴۱؍   مسلسل آج پتھر رو رہے ہیں        (بحر ہزج مسدس محذوف)

۴۲؍   ٹھوکروں کی گرد بھی رکھی ہے سرپر دھوپ میں    (بحر رمل مثمن محذوف)

۴۳؍   جذبات اشاروں کے جس وقت جواں ہوںگے   ( بحر ہزج مثمن اخرب)

۴۴؍   خود کو دیکھا جب اپنی آنکھوں سے        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۴۵؍   یہ موج کا کہاں مجھ کو طوفاں سے بچالائی    ( بحر ہزج مثمن اخرب)

۴۶؍   ترا دل ہے کہ پتھر سوچتے ہیں        ( بحر ہزج مسدس محذوف)

۴۷؍   پرائے شہر میں اپنے نکل ہی آتے ہیں    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۴۸؍   زندگی میں کچھ ایسے دن آئے        ( بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۴۹؍   ہونٹوں پہ خموشی ہے آنکھوں میں اداسی ہے    (بحر ہزج مثمن اخرب)

۵۰؍   تم راز زمانے پر کیوش عشق کو کھولو ہو    ( بحر ہزج مثمن اخرب)

۵۱؍   کس نے وعدۂ فراداپہ ٹال رکھا ہے        ( بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۵۲؍    پھر بھی نہیں بک پائے اس بات کا رونا ہے    ( بحر ہزج مثمن اخرب)

۵۳؍   ہر لمحہ جستجو میں ہر پل اڑان میں           (بحر مضارع اخرب مکفوف محذوف)

۵۴؍   مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں        (بحرمتقارب مثمن محذوف)

۵۵؍   وقت بدلا نہ وقت کی آواز        (بحر خفیف مسدس مخبون مقصور)

۵۶؍   قافلہ جس کے اشارے پہ لٹا ہے یارو    (بحر رمل مثمن مخبون محذوف ابتر)

۵۷؍   عشق میں ہم اسیر ہوجاتے        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۵۸؍   بدن اس کا امانت کی طرح تھا        (بحر ہزج مسدس محذوف)

۵۹؍   بے سہاروں سے سہارا نہیں مانگا جاتا    (بحر رمل مثمن مخبون محذوف ابتر)

۶۰؍   مجھ میں ڈھونڈو تم اپنا، اپنا پن        (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۶۱؍   اے نہ سمجھ جہاز تجھے یہ خبر نہیں           (بحر مضارع اخرب مکفوف محذوف)

۶۲؍   مرے چراغ کی لوہی اسے مٹائے گی    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۶۳؍   نئے غموں سے تعارف کرانے آیا تھا    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۶۴؍   گھر میں اگر تنہائی ہوگی            (بحر متدارک مثمن مقطوع)

۶۵؍   انہیں کرنا تھاکیا، کیا کر رہے ہیں        (بحر ہزج مسدس محذوف)

۶۶؍   یہ مشغلہ سفر کا وسیلہ بنالیا              (بحر مضارع اخرب مکفوف محذوف)

۶۷؍   آوارہ خیالوں کو گرفتار کیا جائے        (بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف)

۶۸؍   بوجھ سر سے اتار کر گھر کا            (بحر خفیف مسدس مخبون ابتر)

۶۹؍   حدیثِ دردِ محبت کا انتخاب ملے        (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۷۰؍   اک دوسرے کے ساتھ میں ضم کردئے گئے   (بحر مضارع اخرب مکفوف محذوف)

۷۱؍   تری نگاہ سے دل میں اتر گیا ہوں میں    (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۷۲؍   سوال یہ نہیں میں تیرا انتخاب نہ تھا        (بحر مجتث مثمن مخبون ابتر)

۷۳؍   راہ کے جسم سے کچھ بوجھ تو گھٹ جانے دو    (بحر رمل مثمن مخبون محذوف ابتر)



(مطبوعہ: ماہنامہ قرطاس ناگپور، اپریل 2006؁ئ،  صفحہ نمبر: 121)


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1014