donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Nishate Dawad Nishat


نشاطِ داود نشاط


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


شعر و سخن اور ادب کے فکری رجحانات کی شادابیوں کو ملحوظ رکھنے والا شاعر، ایک اور خوش گلو اور لحنِ داودی کا شہنشاہ داود نشاط کی پیدا ئش   ۱۹۲۹؁ء  میں ہوئی۔ حضرت ابر حسن گنوری اور طرفہ قریشی جیسے اساتذۂ فن سے اکتساب سخن کا زرین موقع عطا ہوا۔ کڈپہ کی ادبی محفلوں میں دائود نشاط کا ایک ادبی مقام ہے۔

انہوں نے اپنے خون جگر سے فکر و فن کے چراغ کو جلانے اور فکری رجحان عطا کرنے کی ممکن حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ وہ ادب برائے ادب نہیں ادب برائے زندگی کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ:

خون دل سے فکر و فن کی جب بھی جلتے ہیں چراغ
تب کہیں ڈھلتا ہے جاکر شعر اک تاثیر کا

غم کی کائنات سے یوں تو ہر شاعر کا گزر ہوتا ہے ۔اکثر شعراء  نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن چند شعراء ایسے ہیں جو مایوسی اور لا یعنیت کے شکار ہوچکے ہیں۔لیکن دائود نشاطؔ کے غم میں نشاطِ نغمگی پائی گئی ہے، اور غم سے حوصلوں کو بلند کرنے کے تدابیر پائے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ دل، دل نہیں جو غم کا کوئی گوشہ دیکھا نہ ہو۔

بقول پروفیسر سلیمان اطہر جاوید:

’’ دائود نشاط غم سے بیزار نہیںہوتے  غم تو ان کے لئے وجہہ نشاط ہے،  حاصلِ حیات ہے، جان کائنات ہے، معراجِ بشر ہے کہ وہ غم کے ماتھے پر شکن بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ انہیں وہ زیست پسند نہیں جس میں غم نہ ہو‘‘۔

فکرِ سخن کے واسطے غم چاہئے نشاطؔ
جب تک کہ دل میں درد نہ ہو شاعری نہ ہو

غم حاصل حیات ہے غم جان کائنات
وہ دل ہی کیا نشاطؔ جسے غم ملا نہیں

دائود نشاطؔ ایک خوددار طبعیت کے مالک ہیں ان کی خود دار طبعیت کا تقاضہ ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:

میری خوددار طبعیت کا تقاضہ ہے یہی
آشیاں پھونک دیا برق و شرر سے پہلے

دائود نشاط کبھی اپنے وجود کے احساس پر رشک کرتے ہیںتو کبھی اپنے وجود کی تلاش و جستجو کرتے ہیں، کبھی مایوس ہوجاتے ہیں تو کبھی شیرازۂ وجود کو منتشر پاتے ہیں۔ چند متفرق اشعار ملاحظہ کیجئے:

مرا وجود سمندر نہیں میں قطرہ ہوں
ہر ایک موج کی آغوش میں مچلتا ہوں


وہ کون ہے جو مرا ہمسفرہے برسوں سے
نہ اس کا جسم نہ اسکا چہرہ دکھائی دیتا ہے

یہ کس مقام پر لائی ہے جستجو تیری
نہ کوئی موڑ نہ کوئی رستہ دکھائی دیتا ہے

شاید ہی منتشر ہے ابھی شیرازۂ وجود
کیوں ورنہ آدمی سے گریزاں حیات ہے

کوئی شاعر زندگی سے مایوس ہوکر دنیا سے پناہ مانگتا ہے تو کوئی شاعر دنیا سے مایوں ہوکر زندگی سے پناہ مانگتا ہے لیکن دائود نشاط زندگی سے گھبراکر مرنے کے بعد آنے والی زندگی سے پناہ مانگتے ہیں۔ شعر کے دوسرے مصرعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شاعر ایمان کے دائرے سے ہٹ رہا ہے:

گھبرا گیا ہوں زیست کی تلخی سے اس قدر
اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہ ہو

تعلّی ہر شاعر کی فطرت ہے مگر اسی فطری رجحان کو دائود نشاط کچھ الگ انداز میں ظاہر کرتے ہیں:

میں مشتِ خاک ہوں مگر گرد و غبار جیسا ہوں
تمام وسعتِ عالم پہ پھر بھی چھایا ہوں
تیرا ہر اک لفظ تہذیب وفا ہے اے نشاطؔ
اس لئے ہے دہر میں چرچہ تری توقیر کا

دائود نشاط کے انتقال کے ایک سال بعد سنہ1993؁ء میں محمود شاہد اورسعید نظر کی کدو کاوش سے ان کا شعری مجموعہ ’’عالم نشاط‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آکر اربابِ سخن سے داد  و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ یوں تو ’’عالمِ نشاط‘‘ کے چند شعر نظر ثانی کے متقاضی ہیں اگر دائود نشاط اسے ترتیب دیتے تو فن کی باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اشعار میں نکھار پیدا کرکے منظرِ عام پر لا سکتے تھے۔

شاعر کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے۔ اسی لیے شاعری سے ہم اس دور کے تہذیب و ادب اور اس عہد کے تقاضوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ دائود نشاط کہتے ہیں کہ:

اڑائیے نہ ہوائوں میں میری باتوں کو
صدائے وقت ہوں میں وقت کا تقاضہ ہوں

بہر کیف دائود نشاط کا مجموعہ کلام ’’نشاطِ عالم‘‘ میں اپنے عہد کی آواز ہے، اس لئے یہ قابل داد و تحسین ہے۔


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 446