donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Nudrate Khayal Ka Ghamaz : Mirza Rafiq Shakir


’’ندرت خیال کا غمّاز‘‘  مرزا رفیق شاکر


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


مرزا رفیق شاکرکی تخلیقات میںدو طنز و مزاحیہ مضامین ’’بنئے کا دھنیا‘‘ اور ’’جھنجھٹ کی شادی‘‘ منظر عام پر آکر ادب نواز و ادب شناس سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔طنز و مزاحیہ مضامین پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ کہوںتو بے محل نہ ہوگا کہ مرزا رفیق شاکر ایک استاذ سخن ہیں ان کے شعری مجموعے بھی شائع ہوکر اہلِ ارباب سخن سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ایک شخص جو طنز و مزاح اور سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ نثر پارے پر بھی عبور رکھتا ہو اسے ہمہ جہت فنکار اور اس کی شخصیت کو ہمہ جہت شخصیت نہ کہیں تو ادب پر سراسر ظلم ہوگا۔ ایسے فنکار آج کل بیک وقت سنجیدگی کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کی قابلیت رکھتے ہوں بہت کم ملیں گے۔ میںنے موصوف کے تمام تصانیف کا بغور مطالعہ کیا ہے اور ہر زاویہ نظر سے دیکھا ہے۔ ان کی فنکاری میں ہمہ جہت پہلو نظر آتے ہیں۔مرزا رفیق شاکر کے طنز و مزاحیہ مضامین پر تبصرہ کرنے سے قبل طنز و مزاح کے معنی و مفہوم اور اس کی ضرورت و اہمیت جان لیں تو بہتر ہوگا۔

طنز و مزاح پر ایک نظر  :

طنز و مزاح غیر افسانوی ادب کا ایک جز ہے اور اس کی روایت بہت قدیم ہے اس کی جھلکیاں اردو کی سب سے پہلی داستان ’’سب رس‘‘ میںدیکھی جاسکتی ہیں۔ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ خوشی کے دائرے میں رہے۔ اس کے بر خلاف جب اس پر غم طاری ہوجاتا ہے تو ہو مایوس کن حالات سے دوچار ہوجاتا ہے اور اپنی ناگواری اور ناکامیابی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہنسی کا سہارا لیتا ہے۔ اس طرح مزاح کے ذریعے انسان زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرتا ہے۔ ہنسی دل کی کیفیت کا اظہار ہے اور یہ کیفیت کسی بھی طرح کی عجیب حالات سے پیدا ہوسکتی ہے، ہنسی کو ایک متعدی بیماری بھی کہا گیا کیوں کہ ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ کر دوسرا شخص بھی ہنستا ہے ۔اس طرح ہنسنے کے عمل سے انسان کچھ لمحوں کے لیے الجھنوں سے چھٹکارا پاسکتا ہے۔ سنسکرت کے عالموں نے انسانی جذبات کو نورسوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک رس ’’ہاسیہ رس‘‘ہے جسے زندگی کا ایک اہم جز مانا جاتا ہے۔ طبیعت میں شگفتگی اور زندہ دلی کی بنیادی عنصر سے مزاح پیدا ہوتا ہے۔ مزاح میں توازن و شگفتگی کا ہونا ضروری ہے ۔اگر یہ دو علامتیں نہ ہوںتو مزاح پکھڑپن سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے بقول مولانا الطاف حسین حالی:

’’مزاح جب تک مجلس کا دل خوش کرنے کے لئے کیا جائے: ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ،ایک سہانی خوشبو کی لپٹ، جس سے تمام پژمردہ دل باغ باغ ہوجاتے ہیں۔ ایسا مزاح ،فلاسفر اور حکماء بلکہ اولیاء و انبیاء نے بھی کیا ہے۔  اس سے مرے ہوئے دل زندہ ہوجاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لئے تمام پژمردہ کرنے والے غم غلط ہوجاتے ہیں‘‘۔

مزاح کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مزاح کے ذریعے انسان کی شخصیت کو سنوارا جاسکے اور اس کی خامیوں کو دور کیا جاسکے۔ اسی لئے ادب میں مزاح نگار کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، کیوں کہ وہ اپنے فن کے ذریعے سماج کو بدلنے اور صحیح راہ دکھانے کی کد و کاوش میں رہتا ہے۔ کسی بھی زبان یا ادب میں موجود مزاحیہ ادب کے مطالعہ کے ذریعے اس دور کے سماجی، سیاسی، تمدنی و معاشی، ثقافتی، علمی و ادبی حالات سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔ مزاح کے ذریعے ہنسی کے ساتھ ساتھ زندگی کے حقائق کی طرف رغبت پیدا کیا جاسکتا ہے۔

زندگی کے تلخ حقائق کو چبھتے ہوئے انداز میں پیش کرنے کے عمل کو طنز کہا جاتا ہے طنز تنقید کا کام کرتی ہے۔ طنز و مزاح ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ مزاح ہنسی کے فوارے بکھرتی ہے تو طنز نشتریت کا کام انجام دیتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ طنز و مزاح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شروع شروع میں سوداؔ کا قصیدۂ تضحیک، غالبؔ کے خطوط اور اکبر الہ آبادی کی شاعری کے ذریعے طنز و مزاح کو اعلیٰ مقام حاصل ہوا ہے۔ اودھ پنچ نے بھی اس ضمن میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

طنز و مزاح کی مختلف قسمیں ہیں جن میں ’’ہجو‘‘ طنز و مزاح کی ایک قسم ہے۔ اس کا بنیادی مقصد جلے دل کے پھپولے پھوڑنا اور دکھ پہنچاکر اپناد ل ٹھنڈا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی شخص جماعت قوم یا واقعے کی محض مزمت کرنا ہے۔ ہجو گو احساس برتری کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو ان تمام عیوب سے پاک سمجھتا ہے۔

ہنسی ہنسی میں کسی کامزاق اڑاکر انتقام کے احساسات کو اجاگر کرنا ’’تضحیک و تمسخر‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں انسانی درد و رحم کی آفاقی قدروں کا فقدان پایا جاتا ہے۔

’’ہزل‘‘  یا ’’پھکڑپن‘‘ طنز و مزاح کی ایک ایسی قسم ہے جس میں عامیانا، عریانی اور غیر معیاری و غیر ادبی الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ کسی چھوٹے واقعے کو ظرافت کی چاشنی کے ساتھ ایسے انوکھے انداز میں پیش کیا جائے جس میں تعجب خیز باتوں کے ذریعے انسان ہنس پڑے ’’لطیفہ‘‘ کہا جاتا ہے اس کی ایک اہم صفت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے رونے والے کو ہنسایا جاسکتا ہے۔
استہزا، آئرنی، فن ٹاسی، پیروڈی، فقرہ بازی وغیرہ اس کی اہم قسمیں ہیں یعنی طنز و مزاح کی مختلف قسمیں ہیں۔

 ’’بنئے کا دھنیا‘‘ کا ایک اجمالی جائزہ :

مرزا رفیق شاکرکا طنز و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ سنہ1994ء کو منظر عام پر آیا ۔ اس میں آپ نے اپنے جداگانا اسلوب اور طرز بیان کی ندرت سے قارئین کے ذہن و دل کو معطر ہی نہیں کیا ہے بلکہ سماجی و معاشرتی حالات کی عکاسی کی ہے۔ ان کی نثر میںنظم کا اسلوب پایا جاتا ہے، اور وہ اپنے شاعرانا مزاج میں ہر بات کہہ جاتے ہیں ان کے طنز و مزاحیہ مضامین میں جا بجا ذو معنی الفاظ و جملے پائے جاتے ہیں۔ ایسا اسلوب ایک کامل استاد فن ہی اختیار کرسکتا ہے۔ موصوف نے اپنے مضامین میں بڑی فنکاری اور چابکدستی کے ساتھ ریاضی ضوابط سے کام لیا ہے۔ چند جملے ملاحظہ ہو:

’’ہمارا گنجہ پن پہلے کی بہ نسبت (x + 2)2  گنا زیادہ ہوگیا ہے‘‘۔

(فارغ البال)

’’تنخواہ کا A-1/8  حصہ رقم وِگ بنانے والی کمپنی کو روانہ کردی‘‘۔

(گنجے سے گنجے تک)

اپنی تنخواہ کا PxNxR/100   حصہ ماہانا دوائیوں پر خرچ کرتے رہے‘‘

موصوف کا تعلق درس و تدریس سے بھی رہا ہے اس لئے انہوں نے کئی ایک واقعہ کو طنز و مزاح کا پیکر عطا کیا ہے اور اپنے تجربات اور حالات حاضرہ کی عکاسی لفظوں میں کی ہے ’’قطرے کا گہر ہونے تک‘‘ میں انہوں نے مدرسین کی قابلیت پر طنز کا نشتر چھوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’پہلے زمانے میں مدرسین حضرات گدھے کو بھی پڑھا لکھا کر انسان بلکہ جونپور کا قاضی تک بنا دیتے تھے لیکن آج کل مدرسوں میں انسان نہیں، مرغا بنایا جاتا ہے‘‘۔

آپ کے اسلوب میں سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں مقفٰی و مسجٰی عبارت بھی پڑھنے کو ملتی ہے، جو کسی شاعرانہ انداز سے کم نہیں ہے یہ عبارت ملا حظہ ہو:

’’خاں صاحب کو رہنمائے جنس و جاں، شاعر خوش بیاں، قوال آہ فغاں، مقرر شعلہ بیاں  اور نہ جانے کیا کیا کچھ بنادیا‘‘۔

’’ بنئے کا دھنیا‘‘ میں مضامین کے عنوانات کا انتخاب مختلف شعراء کے اشعار سے کیا گیا ہے مثلاً مومن ؔکے اس شعر سے مضامین کے دو عنوانات کا انتخاب کیا گیا ہے، عنوانات ’’میں الزام اس کو دیتا تھا  اور قصور اپنا نکل آیا‘‘۔شعر ملاحظہ ہو   ؎

یہ عذرِ امتحانِ جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

مومنؔ

عنوان ’’مجھ زؤؤود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ غالبؔ کے اس شعر سے انتخاب کیا گیا ہے۔

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

غالبؔ

عنوان ’’قطرے کا گہر ہونے تک‘‘ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ غالب کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

غالبؔ

غرض مرزا رفیق شاکر کی تخلیقات قابلِ رشک ہیں۔ ان کے مضامین کے مطالعہ سے قارئین کو تھوڑی دیرکے لئے زندگی کے کشمکش الجھنوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور طبیعت میں شگفتگی و زندہ دلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

 

(مطبوعہ  :  دو ماہی  ادبی محاذ ،  جولائی ،اگست  ۲۰۱۲؁ئ، صفحہ نمبر:۴۱)


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 496