donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Paikar Husne Fun - Khaufnaq - Aik Tajziya


پیکرِ حُسنِ فن ’’خوفناک‘‘  ایک تجزیہ


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


نقشبند قمر نقوی صاحب سے میری ملاقات ادبی رسائل و جرائید میں ہوتی رہتی ہے۔ ادبی رسائل و جرائید میں ان کی تخلیقات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف بیک وقت شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ موصوف کا کمال یہ ہے کہ وہ جس صنف کو بھی اپنا تے ہیں خواہ وہ افسانوی ادب ہو کہ غیر افسانوی ادب یا کہ شاعری اپنے فن کا سکہ بٹھا دیتے ہیں۔ سنہ2010ء میں شائع شدہ ناول ’’خوفناک‘‘ نقشبندی قمر نقوی کی ایک بہترین تخلیق کہا جاسکتا ہے۔ یہ ناول آزادی سے پہلے ہندوستانی خصوصاً دکنی جغرافیائی، تہذیبی و ثقافتی معاشرے کی احاطہ بندی کرتا ہے۔ ناول میں جنگلات او رجنگلات کے قریب بسنے والے قبیلے اور قریوں کے ذریعے وہاں کے خوشگوار ماحول کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خوشگوار ماحول کے رہنے والوں میںکس طرح خوف کا ماحول برپاہوجاتا ہے اس کا واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

یہ ناول کُل تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ ناول کی شروعات پلّم گٹّی سے گزرتی ہوئی ایک ندی سے ہوتی ہے جو پلم گٹّی علاقے میں رہنے والوں کی تمام ضروریات کا ذریعہ ہے۔ مگر پینے کے پانی کے لیے دوکنویں گائوں میں موجود ہیں۔ پلم گٹی اور نارکٹ پلی کا درمیانی فاصلہ سولا (۱۶)میل ہے۔ ان دوعلاقوں میں رونما ہونے والے واقعات کو بڑی فنی چابکدستی سے موصوف نے بیان کیا ہے۔ پلم گٹی کے پُر سکون ماحول میں ایک آدم خور شیر کا حملہ اس قدر ہوشیاری کے ساتھ ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ شیر ایک طلسماتی درندہ ہے جو محیر العقول کارنامے انجام دے رہا ہے۔ ابتدائی ابواب میں گاوں کی اندھی عقیدت ظاہر ہوتی ہے ،جس میں  ’’بھلگا‘‘ اور’’ ڈھلنی‘‘ جیسی پاک صفت عورتوں کو دیوی قرار دیتے ہیں او ران کے کردار کو پاکیزہ، عبادت گزار، کم خوراک، سادہ مزاج او رکم سخن قرار دیا ہے اور ان دیویوں کی دوا اور دعا پر بڑا اعتماد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعد کے ابواب میں یہ عورتیں بھی آنکھ سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔

شیر ایک شکار کے بعد اس علاقہ سے اتنا دور ہوجاتا ہے اور اتنا وقفہ  لیتا ہے کہ جہاں واردات ہوچکی ہوتی ہے وہاں کے لوگ اس واقعہ کو تقریباً بھول ہی جاتے ہیں پھر شیر دوسرا حملہ کرتا ہے۔ آدم خور سے چھٹکارا پانے کے لئے گائوں کا مُکھیا  اور دوسرے لوگ تھانے پر رپورٹ لکھواتے ہیں۔ تھانے دار اسی بہانے گائوں میں آکر عیش و عشرت کرکے چلے جاتے ہیں۔

پیراں حسینی صاحب جو ایک جاگیردار اور نہایت با اثر شخص ہیں ان تک گائوں والے شکایت لے جاتے ہیں اور پیراں حسینی صاحب اپنے اثر و رسوخ سے افسراعلی اور قیصر یا ر صاحب سے مشورہ کرکے لاہور سے ایک شکاری’’ میاں صاحب ‘‘کو بلایا جاتا ہے اسی باب میں کینتھ اینڈرسن(ایک انگریز شکاری) کے بارے میں بتاتے ہوئے آزادی سے قبل دکن کے جنگلات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ’’میاں صاحب ‘‘پوری تیاری کے ساتھ جیسے ہی پلم گٹی آجاتے ہیں شیر کے واردات انسان پرہرگز نہیں ہوتے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیر بہت چالاک ہے یا یہ کہ شیر کو انسانوں پر حملہ کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ علاوہ ازین اس ناول کی ایک اور اہم خصوصیت ہے کہ اس میں شکار کرنے کے مختلف پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ شیرباربار نظر آتا تو ہے پھر آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس آدم خور شیر کو مارنے کے لیے کئی تدابیر اختیار کیے جاتے ہیں ،وہ سب کے سب بے کار ثابت ہوجاتے ہیں۔ آخر کار ندی کے اس پار سے شیر میاں صاحب پر ناکام حملہ کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔ اس طرح آدم خور شیر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

شیر کے تعلق سے جو کہانی کہی گئی ہے۔ وہ سنی سنائی تو ہے ہی مگر پیش کرنے کا انداز اور ہر واقعہ کو بیان کرنے کا طرز بڑا ہی اچھوتا ہے۔ درمیان میں حیات و کائنات کی کئی انمول باتیں بتائی گئی ہیں۔ اس طرح کے اقتباسات ،جس میں فلسفیانہ رنگ غالب ہے۔ چند سطر ملاحظہ ہوں۔

’’زندگی توایک دائرے میں رواں دواں ہے اس دائرے میں چلنے والوں میںسے کچھ چلتے چلتے تھک کر گرجاتے ہیں، دوسرے چلنے والے اپنی راہ پر چلتے رہتے ہیں اور گرنے والے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔  ۔   ۔  ۔  ۔ جو گرا ۔  ۔  ۔  ۔ وہ گیا۔  ۔  ۔ گویا کتاب زندگی سے حذف ہوگیا!‘‘۔

پلاٹ  :

ناول کا پلاٹ اکہرا ہے شروع سے آخر تک ایک ہی قصہ پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے قاری اور مصنف دونوں کے لیے اسے گرفت میں لینا آسان ہوجاتا ہے۔ ناول کی ابتدا پر ندی اور گائوں والوں کی گفتگو کا منظر پیش کرتے ہوئے قاری کو متوجہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔  کہانی میں ہندوستان کے دکنی جنگلات اور یہاں بسنے والے دیہی لوگوں کا تذکرہ کیا ہے۔ پلم گٹی ایک گائوں جہاں خوشگوار ماحول کو خوفناک بنانے کے لیے ایک آدم خور شیر نمودار ہوجاتا ہے۔ گاہے گاہے واردات قائم کرتا ہے، اس سے بچنے کے لیے اہلِ قبیلہ مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں مگر ناکام اور مایوس ہوتے ہیں ابتدائی ابواب میں گائوں میں بسنے والے لوگوں کی عقائد کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

شکاری میاں صاحب اپنے شکار کے دوران اپنے مختلف تجربات و واقعات کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے قاری کو شکار اور شکاری کے درمیان رونما ہونے والے واقعات سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔

کردار نگاری:

کہانی اور پلاٹ کے بعد ناول کے اجزائے ترکیبی میں تیسرا اہم جز کردارہے ۔ کردارکے بغیر نہ کہانی بیان کی جاسکتی ہے نہ پلاٹ کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ قمرنقوی نے اپنے ناول میں بیک وقت اک رخے  اور  دو رخے کرداروں کو بڑی فنکاری کے ساتھ نبھایا ہے۔ اس ناول میں بھلگا، نلنی، ڈھلنی کرداروں میں ڈھلنی دو رخے کردار ہے جو گائوں والوں کو نظروں میں دیوی کا روپ ہونے کے باوجود عام انسانوں کی طرح’’ روی‘‘ کی بیوی کی موت کے بعد اس سے شادی کرلیتی ہے۔ آخر یہ دونوں بھی آدم خور شیر کے حملے سے بچ نہیں پائے۔ دوسرا اہم کردار ڈومیلاہے۔ شیر پر ایک مرتبہ حملہ کرکے گائوں والوں کی نظر میں ہیرو بن جاتا ہے مگر اس کے بعد والے ابواب میں اس کا کہیںتذکرہ تک نہیں ہوتا۔ گائوں کے اہم کرداروں میںگائوںکامکھیا بھیما ہے جو ہمیشہ گائوں والوں کی خیر و عافیت کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ پیراں حسینی صاحب اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے آدم خور شیر کو مارنے کے لیے حکومت کی اجازت سے لاہور سے میاں صاحب کوبلواتے ہیںجو ایک باہنر تجربہ کار شکاری ہیں۔  دیگر کرداروںمیں مختاربنام ولبھ، عظیم الدین، روشی، احسن بھائی شکیلہ، جمیلہ، کینتھ امینڈرسن، رفعت زمانی، جمعہ خان، مرلیا، ٹنچن بیدی

اسکول ماسٹر، مولوی صاحب ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار میاں صاحب کاہے جو حضرت مولانا الحاج سید ضیاالدین حسین نقوی بخاری نقشبندی کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میاں صاحب ایک متقی، پرہیزگار، نمازی، شاعر، نثر نگار اور شکاری کی حیثیت سے قاری کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل اقتباسات سے پتہ چلتا ہے۔

بحیثیت شاعر:

’’رات تو ویسی ہی تھی جیسی سب راتیں ہوتی ہیں، لیکن ایسی راتیں بھی زندگی میں آتی ہیں جو بہت زیادہ طویل ہوتی ہیں۔ مچان پر رات طویل ہوتی ہے کسی کے انتظار کی رات تو نجانے کتنی لمبی ہوتی ہے۔ شعراء اکرام طول شب فرقت کا ماتم بھی اکثر کرتے ہیں میں نے بھی ابتدائی کلام میں کبھی کبھی شب فرقت کا شکوہ کیا ہے۔‘‘

( ص:  148،149)

’’ میں نے یہ غزل شارجہ کے قیام کے دوران کہی تھی اور کئی مشاعروں میں بہت کامیاب رہی‘‘

(ص:93)

بحیثیت نثر نگار:

’’عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ میری امریکہ ’الاسکا‘ میں ریچھ کے شکار کے قصے پر مبنی ایک مکمل ناول شائع ہونے کو ہے،  ایسا ناول جس میںواحدکردار میں ہی ہوں‘‘۔      

 (صفحہ نمبر  :164 )

بحیثیت شکاری

’’ میں نے مور شکار کیا ،تو ایک ہرن مارا تو اچھا بڑے سنگوں والا کالا، چیتل مارا تو ہمیشہ ایک عمدہ نر، شیر مارا تو آدم خور، یا عنقریب انسانی جانور کو خطرہ بننے والا شیر یا بہت بڑا شیر‘‘۔            

(صفحہ نمبر:64 )


بحیثیت شکاری اور شاعر:

’’میں شاعر ہوں، حُسن و جمال کا شیدا ہونے کی وجہ سے میں ہر شئے میں حُسن دیکھنا چاہتا ہوں،  محبت میرا مسلک ہے انسان ہو یا جانور مجھے سب سے محبت ہے لیکن میں شکار کا عاشق ہوں، شکار میری زندگی کا سب سے اہم مسرت اور تسکین خاطر ہے‘‘۔      

 (صفحہ نمبر:65)

نمازی:

      ’’میں نے ابھی تک عشاء کی نماز نہیں ادا کی تھی دیر ہورہی تھی ، میں نے رائفل رکھی اور اندازہ قبلہ ہوکر نماز کی نیت باندھ لی، دو رکعت قصر ہی ادا کرنا ہوتی تھی، نماز کے بعد میں نے رائفل پھر اٹھائی‘‘۔

(صفحہ نمبر:134)       

اس ناول کی تکنیک میں کردار نگاری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایسے کردار پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جیسے وہ حقیقی دنیا سے لیے گئے ہیں ان پر اصلیت کا دھوکا ہوتا ہے کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کردار فرضی ہیں اور محض مصنف کی جنبشِ قلم سے وجود میں آئے ہیں۔ موصوف نے کرداروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے وہ اپنی زندگی آپ جی رہے ہیں، اسی وجہہ سے یہ کردار متاثر کن بھی ہیں اور انفرادیت کی حامل بھی۔

منظر نگاری:

منظر نگاری کی وجہہ سے ہی قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ صرف دلچسپی ہی نہیں بلکہ قاری متاثر بھی ہوتا ہے۔ خوفناک ماحول میں بھی ناول نگار نے قدرت کے کئی ایسے مناظر پیش کئے ہیں کہ قاری تھوڑی دیر کے لئے ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ ان حسین مناظر کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول نگارنے اس حسین مناظر کے ذریعے قدرت کے کئی کارناموں اور نظام کو استعاروں ، اشاروں اور کنایوں میں پیش کیا ہے۔

گائوں کا منظر:

’’مویشی حسبِ معمول ڈکرا رہے تھے، بکریاں ممیا ر ہیں تھیں، بچے غل کیے تھے اور ان میں کبھی کبھی ایک دوکتے بھی آوازیں ملا دیتے، مرغیاں کڑکڑاتیں تو ان کے ساتھ کوئی مرغ بھی اذاں دے دیتا،  یہ گائوں کی صبح تھی، وہاں ہر صبح ایسی ہی ہوتی تھی‘‘۔

(صفحہ نمبر:75)

صبح کا منظر

’’صبح صادق کا وقت بھی کیسا نازک، حسین و حسرت انگیزحدتک دلکش ہوتا تھا۔ خواہ وہ گرمی کا زمانہ ہو یا سردی کا، پہلے تو اندھیرے کا لباس پہنے رات کی سیاہی میں ایک سفید لکیر سی نمایاں ہوتی ہے جو بتدریج وسیع ہوتی ہے، سیاہ دھاگا، سفید دھاگے سے جدا ہوجاتا ہے سیاہی غائب ہونے لگتی ہے اس کی جگہ سفید کرۂ ارض پر محیط ہوکر ماحول کو روشن کردیتی ہے‘‘۔

(صفحہ نمبر:85)

شام کا منظر:

’’وہی شام کے دلکش و رنگین مناظر، حیرت یہ ہے کہ میں ان مناظر کو دیکھتا رہتا ہوں۔  ہر جگہ شام ایک جیسی ہوتی ہے۔ جہاں جو فرق ہوتا ہو سورج نہایت تیزی سے مغرب کی گہرائیوں میں اترتا ہے اور سارے مغربی ماحول کو مرچ بلکہ گلابی رنگ کا خلعت پہنا دیتا ہے‘‘۔

(صفحہ نمبر:146)


شب کے آخری وقت کا منظر:

’’ حسینۂ شب رخت سفر اٹھا کر مغرب کی جانب جانے کی نیت کرتی ہے، تو جنگل کا نقشہ بدلنے لگتا ہے۔ ساری رات خواہ کیسی بھی رہی ہو صبح کاذب سے پہلے کس قدر خوش گوار خنکی یا فرحت بیزی پیدا ہوجاتی ہے۔ ہوا میں بھی نہایت مہکتی ہوئی سبک خرامی آجاتی ہے‘‘۔

اسلوب:

زبان کے استعمال کا وہ طریقہ جس کے ذریعے ادیب یا شاعر اپنے دلی جذبات و احساسات کو اپنے مخصوص انداز میں لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ادیب ہوکہ شاعر اپنے منفرد اسلوب ہی کی وجہ سے ادب میں اپنا مقام بناتا ہے۔ موصوف کی تخلیق میں کہیں سادہ اسلوب کے ساتھ ساتھ مقفیٰ اسلوب بھی پایا جاتا ہے۔

’’ آدم خور کے جنگل میں پتہ کھڑکا اور بندہ بھڑکا‘‘۔

(صفحہ نمبر: 67)

ناول کے مطالعہ کے دوران قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے علمی اسلوب کو اخلاقیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ علمی اسلوب وہ ہے جس میں علمی حقائق بیان کیے گئے ہوں اور کسی بات کو دلائل سے ثابت بھی کیا ہو۔

’’کامل سکوت جیسے کائنات کی حرکت ہی ٹہرگئی ہو، میری سماعت اس قدر مرکوز تھی کہ اس وقت کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔نگاہیں بالکل ایک جگہ پر لگی ہوئی اس قدر کامل اور شدید توجہ کہ میں ساری کائنات بھول    چکا ہوں‘‘۔              

(صفحہ نمبر:170)

ناول نگار نے موضوع کی مناسبت سے محاوروں، استعاروں، کنایوں اور تشبیہوں کا استعمال کیاہے جس سے ناول میں ادبی اسلوب پیدا ہوگیا ہے۔ اس نوعیت کے چند سطور ملا حظہ ہوں۔

’’صاف ظاہر تھا کہ راستے کی قسمت مزید غفلت کی نیند سوگئی ہے، اس راستے پر تو پتھروں، نالوں اور ندیوں کا ایسا جال بچھ گیا تھا کہ گاڑی ایک قدم بھی سیدھی اور ہموار راہ تو چلی ہی نہیں‘‘۔

(صفحہ نمبر:43)

’’کائنات کے کسی نا معلوم گوشے سے نہایت خوشگوار اور فرحت بیز ہوا کے معطر انبساط انگیز جھونکے جن میں تند قطعی نہیں ہوتی سبک رفتاری سے ایسے چلنے لگتے ہیں جیسے کسی شبستان میں کوئی حسینہ دلربا دبے قدموں وارد ہوجائے‘‘۔            

(صفحہ نمرب:85)

ان تمام فنی لوازمات کے ساتھ ساتھ ناول نگار نے اپنے اس ناول میں آدم خور شیر کی فطرت اور چالاکی کو صرف معلوماتی غرض سے اظہار خیال ہی نہیں کیا بلکہ جنگل کے تمام چرندوں اور پرندوں پر شیر کی وجہہ سے جو خوف طاری ہوجاتا ہے اسے بھی ظاہر کیا ہے۔ یہی نہیں شکاری کے مختلف تجربوں سے شکار کے عملی حکمت سے بھی آگاہ کروایا ہے اس کے ساتھ ساتھ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے شیخ سعدی، حسرت موہانی کے اشعار سے بھی قاری کو محظوظ کیا ہے۔


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 627