donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Ubharta Hua Afsana Nigar Tahir Anjum Siddiqui


ابھرتا ہوا افسانہ نگار طاہر انجم صدیقی


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


عزیزم طاہر انجم صدیقی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بلاک اینڈ وائٹ‘‘(Black & White) چھبیس افسانوں پر مشتمل ظلم اور مظلوموں کی آہ سے بھرا، مذہبی عقائد سے مملو، فتنہ و فسادات کی عکاسی کرتا ہوا افسانوی مجموعہ کا غماز ہے۔

’’بلاک اینڈ وائٹ‘‘ نام سے ہی ظاہر ہے کہ سیاہ و سفید ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔ سیاہ ناامیدی، مایوسی، شکست کی علامت ہے اور سفید امید، امن، روشنی، جیت کی علامت ہے۔ جیت اور شکست کے مابین طاہر انجم صدیقی کے تصورات بے چینی اور مایوسی کے ساتھ انسانیت کا بوجھ لئے ہمدردی کی راہ میں بھٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ موصوف کے افسانوں میں ہندو مسلم کے درمیان مذہبی فتنہ و فسادات، مذہبی نعروں اور مکالموں کا تسلسل دیکھا جاسکتا ہے۔

عموماً طاہر انجم صدیقی کے افسانے امن و امان کے متقاضی ہیں اسی نسبت سے کبھی سرحدوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی مذہبی تقاضوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی لئے افسانہ ’’لائن آف کنٹرول‘‘ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے درمیان ’’مونا‘‘ (جو امن کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے)۔ کسی قسم کے فرق کو محسوس نہ کرتے ہوئے تفکر و تحیر کا شکار ہوجاتی ہے۔

 ــ’’  ’’مونا‘‘  اپنے سفید بالوں پر دین محمد کے خون کے چھینٹے لئے لائن آف کنٹرول پر چیختی ، چلاتی اِدھر ادھر بھاگنے لگی‘‘۔

طاہر انجم صدیقی ایک باہنر افسانہ نگار ہیں۔ وہ اپنے مشاہدات و تجربات کو موزوں الفاظ کا جامعہ پہنانے کا ہنر رکھتے ہیں، افسانہ وہی ہے جو زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کو اختصار کے ساتھ قاری تک پہنچانے کا وسیلہ بنے ۔ افسانہ بغیر کسی تعقید کے اپنے احساسات پڑھنے والے تک پوری طرح پہنچائے۔

اسی زاویہ نظر سے مسیح الزماں افسانے کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں کہ:
’’ افسانہ زندگی کی تفسیر ہے اس میں زندگی کا ایسا نقشہ پیش کیا جاتا ہے جس پر حقیقت کا دھوکا ہوسکے وہ زندگی کی تعبیر بھی ہے اور تصویر بھی اور اسی کے ساتھ افسانے میں مصنف کا ایک نقطۂ نظر بھی ہونا ضروری ہے‘‘۔

افسانے کے اجزائے ترکیبی میں زماں و مکاں ایک ایسا جز ہے، جس میں منظر نگاری کی عکاسی کی جاتی ہے طاہر انجم صدیقی نے اپنے افسانوں میں منظر نگاری کو اس سلیقے سے تراشا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لئے اس منظر کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے۔ افسانہ ’’ہمدردی‘‘ میں گرمی کی شدت کا منظر دیکھئے۔

’’گرمی بڑی شدت کی تھی، سورج کی تپش نے جانوروں کو سائے میں بیٹھنے پر مجبور کردیاتھا۔ پرندے اپنے گھونسلوں کے آس پاس شاخوں پر بیٹھے تپش کم ہونے کے منتظر تھے۔ دھوپ کی تمازت نے بچوں کو گھروں میں دبکا رکھا تھا‘‘۔

اسی طرح افسانہ ’’بگولوں کے درمیان‘‘ میں ہوا کے بھٹکنے کا منظر دیکھئے۔
’’سر پر چمکتے سورج کی تپتی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لئے ہوا کے جھونکے ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے تھے۔ کسی جھونکے کا گزر بستی سے دور چٹیل میدان میں کھڑے پیپل کی طرف ہوتا تو اس کی رفتار بڑھ جاتی اور وہ بھنبھناتا ہوا سر چھپانے کے لیے کسی دوسری جگہ کی تلاش میں بھاگنے لگتا‘‘۔

طاہر انجم صدیقی وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جو اپنے افسانوں کے کرداروں کا تبصرہ’’ کالو بھنگی ‘‘کا سہارا لیے ہوئے افسانہ ’’ابھی انسان زندہ ہے‘‘ میں کرچکے ہیں۔

اپنے فن اور اپنی تخلیقیت کی فضاء میں کبھی گم نظر آتے ہیں۔ آخر کار اپنی بنائی ہوئی تخیلاتی دنیا سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ابھی انسان زندہ ہے‘‘ کے افسانے کے چند سطور ملاحظہ فرمائیں۔

’’میرے اپنے ذہن کی دنیا میں افسانوں کے ان گنت کردار موجود ہیں باپو کاکا ہیں۔ وہ اپنی گاندھیائی مسکراہٹ کے ساتھ ’’ اہنسا پارک‘‘ کی بد سطور رکھوالی کر رہے ہیں. . . پلانے ہے. . . اپنی ہوٹل کائونٹر پر بیٹھا لوگوں کے آرڈر سن کر اپنے نوکروں کو ان کے احکام کی تکمیل کے لئے حکم دے رہا ہے. . . . دیں محمد لائن آف کنٹرول کے آس پاس اپنی بکریاں چرا رہا ہے. . .  انور جمال اپنے تھیلے کو کھینچے جا رہا ہے . . . خور شید ہے جو اپنی بلاک اینڈ وہائٹ نظروں سے دنیا کی رنگینی کو دیکھ رہا ہے کرنل شاہد خان ہے جو اپنے خاندان پر مظالم کے انتقام میں سزا کاٹ رہا ہے،  نظیرہ ہے جو اپنے بیان بدلنے پر مجبور.‘‘. .  .

غالباً افسانوں میں طاہر انجم صدیقی نے ہندومسلم کے فرقہ وارانہ فسادات کو الگ الگ انداز میں مختلف زاویہائے نظر سے پیش کیا ہے اور خصوصاً مسلمانوں کو مظلوم ٹہراتے ہوئے گفتگو کی ہے۔

افسانہ ’’ کمال‘‘ میں سیاسی چال و چلن کی عکاسی کی گئی ہے۔’’خوف‘‘ اور ’’آخری آدم زاد‘‘ ایسے افسانے ہیں جس میں ہر انسان کے ضمیر کی آواز پوشیدہ ہے۔

’’بائیں طرف کا منظر‘‘، روشنی کی تلاش یہ دو افسانے تمثیلی افسانے ہیں ،جن سے افسانہ نگار کے تخیلات کی پرواز اور اچھوتے خیال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور موصوف نے ایک نئے طرز سے اپنے فن کا لوہا منوانے میں ممکن حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔

غرض ہر افسانے میں سوز و گداز کے ساتھ ساتھ اخلاق و اقدار کا سرمایہ پایا جاتا ہے۔ دعاگو ہوں کہ برادرم طاہم انجم صدیقی ادبی دنیا کے افق پر شمس و قمر بن کر چمکیں ۔ آمین۔


(مطبوعہ :  ماہنامہ آندھرا پردیش ، حیدرآباد ، جولائی2008؁ئ، صفحہ نمبر:28)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 739