donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mahmood Alam Siddiqui
Title :
   Ejaz Rahmani Ka Manzoom Shahkar Salamti Ka Safar Musaddas Rahmani

 

اعجاز رحمانی کا منظوم شاہکار ’’سلامتی کا سفر‘‘مسدس رحمانی
 
محمود عالم صدیقی
 
جناب اعجاز رحمانی کی تصنیف’’سلامتی کا سفر‘‘ منظوم سیرت نگاری ہے جس میں پورے عہدِ رسالت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک شاہکار تخلیق ہے جو بعثت سے وصال تک دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں قبلِ بعثت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوکر نزولِ رسالت اور اس کا دور شامل ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں مدینے آمد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات، ان کے اخلاق و اوصاف کا بیان اور آپؐ کے ارشادات، اور آخر میں خلاصہ کلام پیش کیا گیا ہے۔
 
پہلے حصے میں 652بند یعنی 1956 اشعار اور دوسرے حصے میں 1368 بند یعنی 4044 اشعار ہیں۔ اس طرح یہ ضخیم اور خوبصورت منظوم سیرت نگاری کا شاہکار مجموعہ ہے جس میں چھ ہزار اشعار ہیں جو ایک ہی معروف بحر مضارع میں ہیں۔ روانی اور سلاست میں اعجاز رحمانی کا بحیثیت شاعر جواب نہیں۔ غزلیات‘ حمد ونعت نگاری اور نظموں میں لفظی آہنگ، شعری غنایت، جذبے کی عقیدت اور سچائی، زبان 
کی خوبصورتی اور دلکشی اور بحروں کا صحیح استعمال ان کی شاعرانہ فنکاری سے عبارت ہے۔
 
اردو کی تاریخ میں یہ پہلا منظوم مجموعہ ہے جس میں بھرپور طور پر بعثت، ظہورِ اسلام، حیاتِ طیبہ کے ماہ و سال، تمام غزوات اور اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جناب اعجاز رحمانی اردو کے عصر حاضر کے ایک ایسے منجھے ہوئے اور ممتاز شاعر ہیں جو بیشتر اصنافِ سخن میں اپنی منفرد حیثیت تسلیم کراچکے ہیں۔ جناب اعجاز رحمانی بیسویں اور اکیسویں صدی کے صف اول کے ان شعرائے کرام میں سے ہیں جنھوں نے اپنی نعت و حمد گوئی‘ غزلیات اور خوش گوئی کی بدولت شہرت پائی۔ مطالعہ‘ محنت اور تجربے نے ان کے اسلوب میں مزید نکھار پیدا کردیا ہے۔ دین سے سچی وابستگی اور عشقِ رسولؐ کے جذبوں نے ان کے کلام کو انتہائی پُراثر بنادیا ہے۔
 
حفیظ جالندھری کا ’’شاہنامہ اسلام‘‘ اور مولانا حالی کی طویل نظم ’’مدوجزر اسلام‘‘ بڑے کارنامے تھے۔ شاہنامہ اسلام پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم نے تحریر کیا تھا مگر وہ مثنوی میں لکھا گیا تھا، جس میں بحر کی پابندی ہوتی ہے۔ ایک شعر کے دونوں مصرعوں کا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہونا لازمی ہوتا ہے، مگر ہر شعر اور دوسرے شعر کے قافیے اور ردیف دوسرے ہوتے ہیں۔ کیونکہ مسدس بندوں میں لکھی جاتی ہے اور بند کے تینوں اشعار بلکہ ہر مصرعہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتا ہے اور ایک بند سے دوسرا بند جڑا ہوتا ہے۔
 
مولانا الطاف حسین حالی کی ’’مدو جزر اسلام‘‘ المعروف مسدس حالی ایک بے نظیر اور لاجواب شاہکار ہے، لیکن وہ مکمل تاریخِ اسلام نہیں ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب کی حالت اور ظہورِ اسلام کے بعد کفر کے خاتمے کو خوبصورت علامتی انداز میں رواں بحر متقارب (فعولن چار مرتبہ) میں انتہائی خوبصورت الفاظ میں پیش کیا ہے۔ محترم اعجاز رحمانی صاحب نے نہ صرف طویل ترین اور پہلی منظوم تاریخ اسلام پیش کی ہے بلکہ یہ روانی، سلاست، برجستگی اور معیار کے لحاظ سے بھی منفرد ہے۔ انھوں نے نسبتاً مشکل بحر مضارع میں مسدس کے بند پیش کیے ہیں۔
 
عظیم خلق کے مالک رسول اکرمؐ تھے
غریبوں اور یتیموں کے آپؐ ہمدم تھے
ہر اک بشر کے لیے رحمتِ مجسم تھے
نظر میں شاہِ امم کی‘ تمام عالم تھے
سراپا خیر تھی‘ اخلاق تھی رسولؐ کی ذات
متاعِ انفس و آفاق تھی رسولؐ کی ذات
 
معروف صحافی جناب الطاف حسن قریشی کتاب کے آغاز میں ہی ’’مسدس رحمانی‘‘ کو ایک زندہ جاوید تخلیق گردانتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جناب اعجاز رحمانی کی غزلوں‘ نظموں اور نعتوں کے بارہ مجموعے اہلِ سخن سے تحسین حاصل کرتے رہے ہیں، مگر انھوں نے ’’سلامتی کا سفر‘‘ کے عنوان سے جو گلزار کہکشاں آراستہ کیا ہے وہ ان کی آخرت کا سب سے بیش قیمت زادِ راہ ثابت ہوگا اور ان کی عظمتِ فن کو زندہ جاوید بنادے گا۔ جناب اعجاز رحمانی نے اسلامی تاریخ کو نظم کے رشتوں میں پرونے کے لیے مسدس کا انتخاب کرکے اس صفت کو معراجِ کمال 
تک پہنچا دیا۔ مسدس رحمانی ایک لازوال شاہکار کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو مسدس حالی میں تھیں۔ یہ ایک عظیم شعری کارنامہ ہے جس کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی۔ کتاب کے شروع میں ڈاکٹر عاصی کرنالی نے ’’سلامتی کا سفر‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسے اپنے لیے سعادت قرار دیا، اور اعجاز رحمانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے یہاں مضامین و افکار کا ایک غیر مختتم سلسلہ ہے جو خوبصورت زبان اور دلکش بیان میں ڈھل کر اعجازِ فن بن جاتا ہے۔ مسدس کی صورت میں منظوم تاریخ اسلام لکھنے کا شرفِ اولیت اعجاز رحمانی کے حصے میں آیا ہے۔ چھ ہزار اشعار (دوہزار بند) مسدس کی شکل میں ایسی تاریخی ترتیب اور ایسی جامعیت اور کلیت کے ساتھ پیش کرنا کہ تمام اہم حوالے، واقعات اور کوائف حسن ترتیب اور تاریخی واقفیت کے ساتھ سامنے آجائیں، اعجاز رحمانی ہی کا کارنامہ ہے۔
 
اس منظوم تاریخِ اسلام کو اس روانی اور برجستگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ اس پر خوبصورت اور رواں نثر کا گمان گزرتا ہے۔ نثری قواعد کے سانچے میں ڈھلے ہونے کے سبب یہ شعری مجموعہ نثری جمالیات کا شاہکار بھی ہے۔ برجستگی‘ روانی‘ سلاست اور نفس مضمون کے اعتبار سے ہر بند اپنی مثال آپ ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تحریر کردہ تقریظ میں فرماتے ہیں کہ اعجاز رحمانی نے اپنی اس تیرہویں شاعرانہ تصنیف میں تاریخِ اسلام کو موضوعِ سخن بناکر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ مرثیہ مسدس میں کہا جاتا ہے۔ میرانیس ؔاور دبیرؔ نے اس میں اپنے فن کو کمال تک پہنچایا ہے۔ مولانا حالی کی ’’مدوجزر اسلام‘‘ اور علامہ اقبال کی طویل نظمیں ’’شکوہ‘‘ اور’’ جوابِ شکوہ‘‘ مسدس میں بندوںکی شکل میں لکھی گئی تھیں۔ شعرا حضرات جانتے ہیں کہ مسدس میں لکھتے ہوئے مرثیے اور اس وقت کے اثر سے بچنا کتنا دشوار کام ہے۔ اعجاز رحمانی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے مسدس میں تاریخ اسلام لکھی اور پوری طرح مرثیے کے اثر سے بچ کر لکھی ہے۔ نظموں کے معروف شاعر محسن بھوپالی نے دیباچے میں ’’سلامتی کا سفر‘‘ کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اعجاز رحمانی نے ملکی سیاست، اس کی نیرنگی، غزلوں اور قومی اور سیاسی نظموں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات اور تعلیمات کو بھی نعتوں و نظموں کی صورت میں پیش کرکے اہلِ صدق و صفا اور اربابِ سخن سے یکساں طور پر بھرپور دادِ سخن حاصل کی۔ ان کی شاعری کے یہ مختلف رنگ اور آہنگ ان کے خوبصورت شعری مجموعوں ’’اعجازِ مصطفیٰؐ‘‘ ’’کاغذ کے سفینے‘‘، ’’پہلی کرن‘‘، ’’آخری روشنی‘‘، ’’افکار کی خوشبو‘‘، ’’لہو کا آبشار‘‘، ’’لمحوں کی زنجیر‘‘ اور ’’چراغ مدحت‘‘ اور دیگر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ حب اللہ، عشق رسولؐ اور مذہب سے شیفتگی نے انھیں نہ صرف تاریخی منظوم تاریخ اسلام رقم کرنے پر قائل ہی نہیں بلکہ مامور کیا، بلکہ انھوں نے اس بھاری پتھر کو چوما بھی اور اٹھایا بھی۔ جوانی میں حضرت آمنہ کی بیوگی کا ذکر کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
اس اہتمام سے رت بیوگی کی آئی تھی
قبا سہاگ کی میلی نہ ہونے پائی تھی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد‘ آپؐ کی تبلیغ کے ذکر‘ شب معراج‘ اور سرایوں کے ذکر کے تمام واقعات اور دیگر تاریخی واقعات کو اس خوبی سے نظم کے پیکر میں ڈھالا ہے کہ تقریباً سارے بند و اشعار سلاست‘ روانی‘ بے ساختگی اور شعریت سے مالا مال ہیں۔ ’’سلامتی کا سفر‘‘ بلاشبہ 
ایمان افروز عقیدت اور والہانہ وابستگی کے علاوہ شاعری کے اعلیٰ معیار کا نادر نمونہ ہے۔ معروف نقادڈاکٹر محمد علی صدیقی نے سلامتی کے سفر کو اعجاز رحمانی کے کمالِ فن کا نیا منہاج قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مسدس کی ہیئت اختیار کرتے ہوئے وہ بڑی کامیابی سے اس چیلنج سے عہدہ برا ہوئے ہیں جو اردو شاعری میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
 
پروفیسر محسن احسان زیر نظر منظوم کلام کے بارے میں اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ اعجاز رحمانی کی تازہ تخلیق ’’سلامتی کاسفر‘‘ اپنی اثر آفرینی میں ہر دل کو گداز کرتی ہے۔ تاریخ اسلام کو منظوم کرنا اور شاعری کے حسن کو تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنا نہایت دشوار کام ہے جو اعجاز رحمانی نے بڑی مہارت کے ساتھ سر انجام دیا۔ مسدس کے ہر بند میں شاعر کی فنی گرفت‘ ریاضتِ شعر اور زود گوئی کا احساس ملتا ہے۔ خدائے بزرگ برتر نے جناب اعجاز رحمانی کو سلیقۂ حمد و ثنا بھی عطا کیا ہے اور تاریخ اسلام کا بھرپور شعور بھی بخشا ہے۔ اردو شاعری اعجاز رحمانی کی خدمات کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ مرحوم لکھتے ہیں کہ اعجاز رحمانی اپنے رنگِ سخن میں منفرد ہیں اور تاریخ بیان کرتے ہوئے غزل کا کومل پن اعجاز کی خصوصیت ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور جسے خود آپ نے خیرالقرون قرار دیا ہے، اس دور کا اعجاز کی شاعری میں بیان ہوجانا مسلمانانِ برصغیر کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ ان کے کلام میں عشقِ رسولؐ کے سا تھ ساتھ قرآن و سنت کی باریکیاں اور توحید میں پختگی کا احساس موجود ہے۔ معروف شاعر ناصر زیدی نے بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے اس ضخیم شعری مجموعے کو پڑھا ہے اور اغلاط کی تصحیح کی ہے۔ وہ اپنے ’’حرفِ آخر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اعجاز رحمانی اپنے استاد گرامی قدر استاد قمر جلالوی کے مکتبہ فکر تغزل کے حقیقی وارث ہیں۔ ’’سلامتی کا سفر‘‘ کے بندوں میں اعجاز رحمانی کی قدرتِ کلام اور ندرتِ بیان کے جوہر کھلتے جاتے ہیں۔ تمام کلام بے عیب ہے‘ پُرکشش ہے اور جاذب توجہ ہے، اور شاعری کے طبعی‘ اسلامی رجحان‘ خلوصِ بے پایاں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی عقیدت و محبت کا آئینہ دار ہے۔ اعجاز رحمانی نے اپنے اعتراف میں لکھا ہے ’’میں سلامتی کا سفر پیش کرنے کی سعات حاصل کررہا ہوں جو میرے واسطے ان شاء اللہ سرمایۂ آخرت ثابت ہوگا۔ اور یہ میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے‘‘۔
جب ہم پورے شعری مجموعہ پر نظر ڈالتے ہیں تو محاسنِ فن، خوبصورت شعری جمالیات، جذبۂ ایمانی کی سچائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی عقیدت و محبت کے اثر کا لطیف احساس ہوتا ہے۔ یہ منظوم تاریخ اسلام ایک شعری و ادبی کارنامہ ہے۔ اردو شاعری کا تاریخی سنگ ِمیل ہے۔ ساڑھے آٹھ سو صفحات کے اس مجموعے کے آخر میں اغلاط اور ان کا تصحیح نامہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ پھر بھی کتاب میں کمپوزنگ کی اغلاط موجود ہیں۔ فہرست مضامین میں صفحات نمبر کے لیے اردو ہندسے جبکہ کتاب کے ہر صفحے پر انگریزی ہندسے استعمال کیے گئے ہیں، اگر ایک ہی طرح کے اردو یا انگریزی ہندسے استعمال کیے جاتے تو بہتر تھا۔ برقی کتابت اچھی ہے۔ دوسرے ایڈیشن میں پروف خوانی پر زیادہ توجہ دی جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ بائنڈنگ دیدہ زیب ہے اور سرورق خوبصورت ہے۔ کتاب میں اس کی قیمت درج نہیں ہے۔ یہ منظوم عہد رسالت اور تاریخ اسلام کا ایک ادبی اور علمی شاہکار ہے، ملک کی ہر لائبریری اور دارالمطالعے میں اسے موجود ہونا چاہیے۔ ہر صاحبِ ذوقِ علم و عرفاں کے ذاتی کتب خانے کا وقار اس خوبصورت اوربابرکت مجموعے کے اضافے سے اور سوا ہوجائے گا۔
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 715