donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Malik Nawaz Ahmad Awan
Title :
   Asri Adba Wa Shora Ke Kalam Ka Tajziyati Mutalya

 

عصری ادبا وشعرا کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ
 
…ملک نواز احمد اعوان…
 
نام کتاب:’’روشناس‘‘…مطالعاتِ نظم و نثر
مصنف:ڈاکٹر زاہد منیر عامر
صفحات:264
    قیمت 200 روپے
ناشر:کلیہ علوم شرقیہ بہ اشتراک مسندِ ظفر علی خان (علامہ اقبال کیمپس)پنجاب یونیورسٹی لاہور 54000
فون نمبر042-99210837
ای میل:dean.ol@pu.edu.pk
ڈاکٹر زاہد منیر عامر ادیب، دانشور، شاعر، استاد، بحیثیت انسان اخلاقِ فاضلہ سے متصف فاضل شخصیت ہیں۔ ’’روشناس‘‘ ان کی تازہ علمی و ادبی کتاب ہے جس کے مطالعے سے قاری سچی مسرت سے روشناس ہوتا ہے۔ اس میں نظم و نثر پر تیس گراں قدر مضامین ہیں۔ اس طرح یہ ایسی کتابِ ادب ہے جس کو تیس پھولوں کا گلدستہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اہلِ علم و ادب کی آرا ہم پیش کرتے ہیں۔
 
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈین فیکلٹی آف اسلامک لرننگ، پنجاب یونیورسٹی کی رائے ہے:
’’ڈاکٹر زاہد منیر عامر عصرِ حاضر کی ایک ایسی جواں فکر شخصیت ہیں جو فکری پختگی، گہرائی اور گیرائی کی خداداد صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ انہیں عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے فطری مناسبت اور دنیا کے مختلف ممالک میں قیام کے سبب فکری وسعت کی نعمت بھی حاصل ہے۔ ان کی تصانیف اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کی موجودہ کاوش ’’روشناس‘‘ عصری ادبا و شعرا کے کلام کے تجزیاتی مطالعے پر مبنی ہے۔ معاصر اہلِ علم کی علمی و ادبی نگارشات کا تجزیاتی جائزہ لینا بڑا نازک کام ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے یہ اہم اور نازک کام اس سلیقے اور احتیاط سے انجام دیا ہے کہ ان ادبا و شعرا کے کلام اور ان کے اسلوب کے تمام محاسن کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ کتاب میں اختصار و جامعیت کا پہلو اپنے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ زبان کی سلاست کے ساتھ ساتھ کتاب کا ادبی معیار قابلِ رشک ہے۔ یہ کتاب جو اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے، اہلِ علم کے لیے سرچشمۂ ادب و فن ثابت ہوگی۔‘‘
 
پروفیسر ڈاکٹر محمد زکریا ذاکر، ڈین فیکلٹی آف بیہیویورل اینڈ سوشل سائنسز، پنجاب یونی ورسٹی لاہور تحریر فرماتے ہیں:
 
’’عمرانیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کسی ملک کے لوگوں کے اندازِ فکر سے حقیقی واقفیت چاہتے ہوں تو آپ کو اس خطے میں لکھی جانے والی شاعری اور ادب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی نئی کتاب ’’روشناس‘‘ ہمیں پاکستان میں لکھی جانے والی شاعری اور نثر کے جدید رجحانات سے آگاہ کرتی ہے، یوں یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کے ذریعے ہم پاکستانی معاشرے کی سوچ اور فکری رویوں سے واقف ہوسکتے ہیں۔ میری نظر میں یہ کتاب ہمارے ادبی ہی نہیں، سماجی اور تاریخی شعور میں بھی اضافہ کرتی اور اسے گہرائی عطا کرتی ہے، جس سے ادب اور سماجیات کے قارئین یکساں طور پر مستفید ہوسکتے ہیں۔ آج کے لمحہ لمحہ بدلتے سوشو  پولیٹیکل اور سوشو ٹیکنالوجیکل منظرنامے میں ہمارے اجتماعی رویوں اور عمومی رجحانات سے آگاہی کے لیے یہ کتاب ایک آئینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں یہ کتاب سماجی سائنسدانوں، عام قارئین اور پاکستانی سماج کے معاشرتی اور ادبی رجحانات سے آگاہی کے خواہش مند تمام لوگوں کے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کی مسند ظفر علی خان کے چیئرمین کی حیثیت ڈاکٹر زاہد منیر اس کتاب میں بھی مولانا ظفر علی خان کو نہیں بھولے اور انہوں نے اس میں مولانا ظفر علی خان کی ادبی اور قومی خدمات کے بارے میں نہایت قیمتی معلومات سے بھرپور مضامین شامل کیے ہیں۔‘‘
 
مشہور ادیب، شاعر، نقاد، دانشور اور ہماری ادبی روایت کے امین معروف ماہر اقبالیات جناب احمد جاوید نائب ناظم اقبال اکیڈمی لاہور تحریر فرماتے ہیں:
 
’’روشناس کا مسودہ دیکھ کر مجھے پہلی خوشی یہی ہوئی کہ عزیزی زاہد منیر عامر ہماری ادبی روایت کو سکڑنے اور بانجھ ہونے کے ممکنہ خطرات سے خبردار کرنے یا بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے زیرنظر مضامین یوں لگتا ہے کہ اس اصول کو مزید اطلاقات فراہم کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں کہ درخت کو جدید مگر بیج کو قدیم ہونا چاہیے۔ وہ شعلہ کس کام کا جو دوسرے شعلوں کا ہم اصل ہوتے ہوئے ان سے ممتاز نہ ہو۔
 
اس کتاب کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں شاعری کے معنوی دروبست کو قرار واقعی اہمیت دی گئی ہے اور معنی کی جمالیاتی تشکیل کے بعض بہت اہم مگر قدرے مخفی عناصر کو ایسی عمدگی اور سہولت کے ساتھ کھولا گیا ہے کہ اوسط درجے کا ذہن بھی زاہد صاحب کے اٹھائے ہوئے نکات کو ضروری حد تک سمجھ لینے اور انہیں اپنے لیے ایک خلاقانہ سطح پر مفید بنانے میں کوئی بڑی دشواری محسوس نہیں کرتا۔ یہاں میں ایک مثال عرض کرتا ہوں… وقت یا زمان کا مسئلہ وجودِ حقیقی اور شعورِ اصلی کے مابین اس پل کی حیثیت رکھتا ہے جسے گرا دیا جائے تو وجود کے تمام اصول اور شعور کے سارے احوال اگر نابود نہیں تو کم از کم ناقابلِ شناخت ضرور ہوجائیں گے۔ اس اہم ترین مبحث کو دورِِ جدید کے شاعروں میں کارفرما دکھاتے ہوئے فاضل دوست نے زمان اور زمانیت کے کچھ ایسے گوشے بھی کم و بیش اُجال دیے جن پر صدیوں سے اثرات اور ابہام کی دھند چھائی ہوئی تھی۔ انہوں نے فلسفے اور طبیعات سے خود کو مکمل طور پر بے نیاز رکھتے ہوئے وقت کو جو ایک ٹھیٹھ جمالیاتی تناظر میں سمو کر دیکھا اور دکھایا ہے، اس سے کوئی تربیت یافتہ قاری جمالیاتی شعور پر اپنے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال ہوتا ضرور محسوس کرے گا۔ اس کتاب کا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں شاعرانہ معانی و تصورات کو عقل وغیرہ کی عینک سے نہیں دیکھا گیا، بلکہ ان کی جمالیاتی معنویت کو شعور کی تمام اقسام کے لیے موجبِ تسکین بناکر دکھایا گیا ہے۔ میرے خیال میں کسی ادبی نقاد کی ایک بنیادی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ جمالیاتی شعور کی آزادی کا اثبات کرے، اسے محفوظ رکھے اور اسے بارور بناتا رہے۔ یہ اتنا ضروری کام ہے کہ اس کی طرف سے غفلت اختیار کرلی جائے تو آدمی اور تہذیب اپنے ضمیر کی انتہائی گہرائیوں میں ایک ویرانی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ جو لوگ اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کو اپنا تخلیقی اور ادبی مقصود بنا لیتے ہیں وہ صرف شعر و ادب کی دنیا کو روشن و شاداب رکھنے کا کام نہیں کررہے ہوتے بلکہ اس سے بڑھ کر تہذیب کی انفسی ساخت اور آفاقی اسٹرکچر کے تحفظ اور توسیع کا کارنامہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ جمالیاتی شعور کو اس کی خلقی تازگی کے ساتھ مجموعی شعور سے ہم آہنگ اور ہم کار رکھنا انسان کی ایسی روحانی ضرورت ہے کہ اس کا دینی و اخلاقی وجود بھی اس کی تکمیل پر منحصر اور موقوف ہے۔ حسِ جمال سُن ہوجائے اور، مثال کے طور پر، مذہبی شعور اور طرزِ احساس بیدار رہ سکے    ؎
ایں خیال است و محال است و جنوں
 
مجھے یہ دیکھ کر ایک سرشار کردینے والی مسرت محسوس ہوتی ہے کہ برادرم زاہد منیر عامر کا قلم ایک ایسی لوح پر رواں ہے جس پر مرقوم عبارت مٹائے نہیں مٹتی۔ ادبی معانی و احوال کو انسان کی فطری اور تقدیری تلاشِ حقیقت سے جوڑ دینا، ظاہر ہے کہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ زاہد صاحب نے اس کتاب میں دراصل یہی کیا ہے کہ کسی شعر یا عبارت سے برآمد ہونے والے سرسری مفہوم اور عام سی کیفیت کو بھی معنی خیزی اور احوال انگیزی کی مستقل اقدار سے ایک نامیاتی نسبت سے بھرا ہوا دکھا دیا جائے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک تجدیدی عمل ہے جو خزاں کو چاہے معدوم نہ کرے، اسے بہار سے مغلوب ضرور رکھتا ہے۔ ’’روشناس‘‘ میں ایک بات اور ہے جو علمی و نظری ہونے کے ساتھ یقینا اخلاقی ہے۔ اخلاقی بھی اپنی اصیل معنویت کے ساتھ۔ وہ بات یہ ہے کہ زاہد منیر عامر نے بہت سی چنگاریوں کو خاکسترِ فراموش کاری سے نکال کر پھر سے چمکا دیا ہے، اور یہ چمک ان کی اپنی چمک سے زیادہ ہے۔ اس کتاب میں بہت سے مضامین ایسے لوگوں پر ہیں جن کے نام شعر و ادب کے ایک مستعد اور پُرشوق قاری کے بھی حافظے سے قریب قریب نکل چکے ہیں، ایسے بھولے ہوئے ستاروں کو پھر سے آسمانِ ادب پر ضوفشاں کردکھانا، رسمی ناقدانہ بصیرت سے زیادہ ایک خالص انسانی کمال کا اظہار ہے۔ اچھا ادیب و نقاد بننا آسان ہے مگر جوہرِ آدمیت کو پروان چڑھا کر ایک لائقِ اعتبار جگہ تک پہنچا دینا بہت دشوار ہے۔ مجھے ان کے ذوقِ یادآوری پر رشک بھی آیا اور ان کے ساتھ اپنے تعلقِ خاطر میں اضافہ بھی محسوس ہوا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو وجود کو غالب رکھتے ہیں شعور پر۔ سعید ہیں وہ روحیں جن کے احوال زیادہ خالص اور کامل ہیں ان کے تصورات سے۔
 
دل نے ہم کو مثال آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
(خدائے سخن میر)‘‘
 
جناب معین نظامی پروفیسر فارسی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور نے ’’روشناس‘‘ کا منظوم خیرمقدم کیا ہے۔ ’’استقبال‘‘ کے عنوان سے ان کی رشحاتِ حُب و فکر درج ذیل ہیں:
استقبال
 
مجموعۂ ہنر ہے بہ اجماعِ اہلِ دل
وہ خوش کلام شخص کہ جوہر شناس ہو
میزانِ اِنتقاد میں رکھتا ہو سیمِ نقد
مقیاسِ اِعتبار میں اہلِ قیاس ہو
نقاد، جس پہ رُوحِ معانی ہو منکشف
خلاّق، جس کو لفظ کی حرمت کا پاس ہو
تقریر، صاف جس میں نہ ابہام ہو کوئی
تحریر، پاک جس میں نہ کچھ اِلتباس ہو
مبحث میں اِختلال سے رہتا ہو مجتنب
لائے دلیل جو بھی وہ محکم اساس ہو
حشو و زوائد اس کے نوشتے سے دُور ہوں
ہر باب، اِختصار میں جوں اِقتباس ہو
تنقید بھی کرے تو وہ مبنی ہو عدل پر
اور اِس پر مستزاد سخن کی مٹھاس ہو
لہجے میں نور پاش ہوں اُمید کے چراغ
بین السطور میں بھی نہ موضوعِ یاس ہو
جس پر بھی لکھے اس پہ نہ احسان کچھ دھرے
بلکہ یہ ہو کہ آپ سراپا سپاس ہو
خود اس کتاب کے لیے ہے باعثِ شرف
ایسے کمالِ ذوق سے جو ’’روشناس‘‘ ہو
کروائے ’’روشناس‘‘ وہی نظم و نثر کو
جو ایسے مرحلوں کا حقیقت شناس ہو‘‘
 
ڈاکٹر زاہد منیر عامر ’’روشناس‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’یہ راقم کے مضامین کا تیسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے دو مجموعے ’’جہات‘‘ اور ’’چلچراغ‘‘ پنجاب یونیورسٹی کے کلیہ علوم شرقیہ سے بالترتیب 2000ء اور 2007ء میں شائع ہوچکے ہیں۔ گزشتہ مجموعوں کی طرح اس مجموعے کے مضامین کا زمانی دائرہ بھی گزشتہ ربع صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ زیرِنظر مجموعے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل مضامین جدید اردو شاعری اور نثر کے میلانات سے روشناس کرواتے ہیں اور کچھ قابلِ توجہ تخلیقات، تحقیقات اور تراجم کے مطالعے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، ان کے محاسن کا اعتراف کرتے ہوئے ان میں رہ جانے والی کمیوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ یوں سابق مجموعوں میں اگر تحقیق کا عنصر غالب تھا تو زیرنظر مجموعہ تنقیدی جہت کا آئینہ دار ہے جو حسبِ سابق بغیر کسی ادعا کے خوانندگان کرام کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ان مضامین میں مشہور و مقبول عنوانات کو موضوعِ سخن نہیں بنایا گیا ہے بلکہ وہ فنکار اور فن پارے یا فن پاروں کے وہ پہلو مرکزِ توجہ ہیں جو نقادوں کے التفات سے محروم رہے یا انہیں کماحقہٗ توجہ نہیں دی جاسکی۔
اپنی ابتدائی صورتوں میں یہ مضامین مختلف کتب و جرائد میں نذرِ قارئین ہوئے تھے۔ موجودہ صورت میں پیش کرتے ہوئے ان کی اوّلین اشاعتوں پر یہاں وہاں قلم لگا دینے میں مضائقہ نہیں سمجھا گیا، بعض صورتوں میں ضروری اضافے بھی کردیے گئے اور کچھ مضامین کے آخر میں تکملے بھی ایزاد کردیے گئے ہیں۔ کتاب کے ایک تہائی مضامین غیر مطبوعہ ہیں اور پہلی بار شائع ہورہے ہیں۔ امید ہے موجودہ صورت میں ان تحریروں کی رسائی کا دائرہ وسیع ہوگا اور شعر و ادب میں نئی دنیائوں کے جویا قارئین انہیں معلومات افزا اور مفید پائیں گے۔‘‘
 
شعری مطالعے میں جو مضامین شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں:
 
مجید امجد کی شاعری میں زمانی عناصر، چہکتی چھاگل سے بہتا وقت (وزیر آغا کی شاعری)، اوشا کے بازو کا کنگن (پروفیسر غلام جیلانی اصغر کی نظمیں)، جستجو کا نقشِ اوّل (ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری)، طلب اور ترکِ طلب کے درمیاں (معین نظامی کی شاعری)، بے سہارا امید اور مسلح یاس (سلیم طاہر کی شاعری)، تمثال و تجرید (واصف علی واصف کی شاعری)، دوہے میں غزل یا غزل میں دوہا (پرتوروہیلہ کی شاعری)، ایک تہذیب بھی اک عہد بھی غرقاب ہوا (اختر لکھنوی کی شاعری)، زمان و مکاں کی صلیب (آصف کی شاعری)، جینے کی تمنا مرے سینے میں ہے زندہ (صوفی فقیر محمد کی شاعری)، آدھی شب اور پورا چاند (اورنگ زیب نیازی کی شاعری)۔
 
نثری مطالعے کے تحت درج ذیل مضامین ہیں:
 
کیا تاریخ سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے؟، ابنِ خلدون… ایک حقیقت، اردو کا ابتدائی زمانہ… ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو، فنِ تاریخ گوئی… ایک مطالعہ، میر انیس کی قلم رو، دیدۂ بے خواب میں کسی اور زمانے کا خواب، زندگی… ایک کتاب ایک دستاویز، خریدارانِ یوسف، تاریخ اور سیرت، ایک درخورِ غور رودادِ حیات، مولانا ظفر علی خان کی آپ بیتی، اردو کی ادبی تحقیق و تنقید میں خواتین کا حصہ، امید کا چراغ، جدید اردو شاعری، دیہاتی رومان، نام و نسب، صحت کا سفر۔
 
’’بادۂ دیرینہ‘‘ کے عنوان سے یہ مضامین ہیں:
 
مولانا ظفر علی خان کی پیکر تراشی، دردؔ … صوفی شاعر یا کچھ اور؟
کتاب کے آخر میں جناب حیدر رضا کا مرتبہ اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے جس میں آیات، اشخاص، اماکن، ادارے، کتب و جرائد اور مصاریع و منظومات کے علیحدہ علیحدہ اشاریے ہیں۔
 
+++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 840