donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Malik Nawaz Ahmad Awan
Title :
   Farogh Urdu Mein Iqbal Ki Khidmat Ka Tahqiqi Jayeza

 

نام کتاب:
 
فروغِ اردو میں اقبال کی خدمات کا تحقیقی جائزہ
 
مصنفہ:ڈاکٹر گلشن طارق
صفحات:320
 قیمت :480 روپے
ناشر و تقسیم کنندہ:
فکشن ہائوس، بک اسٹریٹ 39 مزنگ روڈ لاہور
042-37249218-37237430
فکشن ہائوس: 52-53 رابعہ اسکوائر
حیدر چوک حیدرآباد
022-2780608
فکشن ہائوس: نوشین سینٹر، فرسٹ فلور
دکان نمبر 5، اردو بازار کراچی
021-32603056
ای میل:
fictionhouse2004@hotmail.com
 
’’فروغِ اردو میں اقبال کی خدمات کا تحقیقی جائزہ‘‘ ڈاکٹر گلشن طارق کا ایم فل کا مقالہ ہے جو بڑی محنت، دقت نظری اور تحقیق سے لکھا گیا ہے، اور اب کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے جس میں حیاتِ اقبال کے ایک اہم گوشے پر سیرِ حاصل بحث کی گئی ہے۔ مشہور ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تحریر فرماتے ہیں:
’’اردو زبان میں علامہ اقبال کی شاعری بہ اعتبارِ مقدار اُن کی فارسی شاعری سے کم ہے، مگر اس میں شبہ نہیں کہ علامہ اردو کے بہت بڑے حامی و مداح اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں اور دعاگو رہے۔ وہ اپنی لسانی عصبیت کو دینی عصبیت سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ اس طرح گویا اردو کا فروغ اور استحکام اُن کے نزدیک ایک دینی و مذہبی فریضے کے مترادف تھا۔
 
فروغِ زبانِ اردو کے لیے وہ ہمیشہ مولوی عبدالحق کی کاوشوں کے مویّد رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی اردو شاعری سے اردو زبان اور ادب کو بہت ترقی اور فروغ نصیب ہوا۔ مولوی عبدالحق اعتراف کرتے ہیں کہ ’’بیسیوں لفظ، خاص خاص ترکیبیں اور بعض خاص خیال اور افکار ہندوستان کے اردو ادیبوں اور شاعروں میں محض اقبال کے کلام کی بدولت سکۂ وقت کی طرح رائج ہوگئے تھے۔‘‘
 
علامہ اقبال کی خدماتِ زبان اردو پر متعدد مضامین لکھے گئے، خاص طور پر جناب ممتاز حسین نے اس موضوع کے بعض پہلوئوں پر بہت اچھی روشنی ڈالی، لیکن زیرِنظر مقالے میں اقبالیات کا یہ موضوع پہلی بار تفصیل سے پیش کیا جارہا ہے۔
گلشن طارق صاحبہ نے زیرنظر تحقیقی مقالے میں اردو کے فروغ کے لیے اقبال کی خدمات، اقبال کی تخلیقات کے فنی محاسن اور ان کے اسلوبِ شعر کی خوبیوں کو بہت عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’اردو میں اقبال کا سرمایۂ نظم و نثر اردو کے کسی بھی ادیب اور شاعر سے کم نہیں، اور اردو زبان کو علمی، تہذیبی، تخلیقی اور عالمگیر زبان بنانے میں اقبال کا حصہ تاریخی ہے۔‘‘
 
کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان ہے ’’عہدِ اقبال سے پہلے اردو‘‘۔ اس میں اردو زبان کے آغاز، اردو زبان کا ارتقا، اردو نثر کا آغاز، فورٹ ولیم کالج، تحریک علی گڑھ، انجمن پنجاب، اودھ پنچ جیسے مراحل کو جامعیت لیکن اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دوسرے باب کا عنوان ہے ’’عہدِ اقبال میں اردو۔ اس میں عہدِ اقبال میں اردو زبان کے شعری اور نثری کوائف کا تذکرہ ہے۔ تیسرے باب میں اقبال کی اردو تخلیقاتِ نظم و نثر کا مختصر جائزہ ہے۔ چوتھے باب میں اقبال کا اسلوبِ نظم و نثر زیر بحث ہے۔ پانچویں باب میں فروغِ اردو میں اقبال کی خدمات کا تذکرہ ہے۔
 
جیسا کہ ہم نے بیان کیا یہ محترمہ ڈاکٹر گلشن طارق صاحبہ کا ایم فل کا مقالہ ہے جو کتابی شکل میں طبع ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مولانا عبدالسلام ندوی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ یہ مقالہ بھی زیر طبع ہے۔
 
ڈاکٹر گلشن طارق صاحبہ تحریر فرماتی ہے:
’’اس مقالے کا مقصد اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں اقبال کی خدمات کا جائزہ ہے۔ پہلے باب میں اقبال سے پہلے فروغ اردو کے سلسلے میں ہونے والی کوششوں، اور بعد کے ابواب میں فروغِ اردو کے لیے اقبال کی خدمات کو نمایاں کیا گیا ہے۔
اقبال کا مرتبہ بطور شاعر اردو زبان و ادب ہی میں بلند نہیں بلکہ وہ دنیا کے عظیم شاعروں کے ہم پلہ ہیں۔ اقبال نے اردو شاعری کو نئی جہت اور نئی روایت دی۔ اقبال کی شاعری کا انداز بالکل نیا تھا، اس لیے اقبال کو اپنی شاعری کے لیے نئی زبان وضع کرنا پڑی کیونکہ اقبال جو کارنامہ اردو شاعری میں انجام دینے والے تھے وہ ان سے پہلے کسی اور شاعر نے انجام نہ دیا تھا۔ اقبال کی شاعری بامقصد شاعری تھی۔ وہ ادب برائے ادب کے قائل نہ تھے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو پیغام دینا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری فقط واردات کا بیان نہ تھی، اقبال ایک اجتماعی مشن رکھتے تھے، اس لیے ان کی شاعری کے موضوعات بھی بالکل نئے تھے۔ جب موضوعات نئے تھے تو ان کے لیے زبان اور لب و لہجہ بھی نیا اپنانا پڑا۔
اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز اردو زبان سے کیا۔ اقبال کو اردو زبان سے بہت محبت تھی۔ وہ اسے ہندی مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اردو زبان کا خمیر عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کے الفاظ سے تیار ہوا تھا۔ عربی، فارسی اور ترکی مسلمانوں کی تہذیب کی نمائندگی کرتی تھیں۔ اقبال گاہے بگاہے نجی گفتگو، مضامین اور خطوط میں اردو زبان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے۔ اقبال اردو زبان کو بین الاقوامی زبان بنانا چاہتے تھے۔
 
اقبال کی شاعری میں تمام شاعرانہ لوازمات موجود تھے۔ ان کی شاعری میں شیرینی، شائستگی، نغمگی اور نزاکت تھی۔
اقبال نے اردو شاعری کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا۔ جب ہی رشید احمد صدیقی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اقبال نے فن کے رموز، زبان کی اہمیت اور شاعری میں فکر، جذبہ اور تخیل کے مقامات پہچاننے میں بہت ریاض کیا۔ اور پھر شاعری نے اقبال کو اقبال بنانے میں اپنی ساری آزمائشیں ختم کردیں، اور اس کے بعد اپنی ساری نعمتیں بھی تمام کردیں اور اردو شاعری کا دین اقبال پر مکمل ہوگیا۔
 
اقبال نے اردو نظم کو نیا جنم دیا اور غزل کو پرانے موضوعات سے نجات دلائی۔ اقبال نے شاعری میں نئے موضوعات داخل کیے تو اس کے لیے انہیں نئے ذخیرۂ الفاظ کی ضرورت ہوئی۔ انہوں نے اس کے لیے نئے الفاظ تلاش کیے۔ اس کے لیے انہوں نے عربی اور ترکی سے استفادہ کیا۔ پرانے لفظوں کو نئے مفاہیم عطا کیے۔ موضوعات کے اعتبار سے نئی نئی تشبیہات بنائیں۔ پرانی تشبیہات و استعارات کو نئے انداز میں پیش کیا۔ قرآن و احادیث اور تاریخ سے تلمیحات کو شاعری میں لائے۔ تلمیحات کو موضوعات کے مطابق انوکھے انداز میں پیش کیا۔ نئی نئی تراکیب وضع کیں۔ فارسی اور عربی کی تراکیب کا ترجمہ کیا اور اردو شاعری میں لا کر اردو کا حصہ بنا دیا۔ صنائع بدائع سے کلام کو چار چاند لگائے۔ اردو شاعری کے دامن کو نئی علامتوں سے مالا مال کیا۔ پرانی علامتوں کو نئے مفاہیم کا لباس پہنایا۔ شاعری کے لیے آسان، سادہ اور عام فہم زبان استعمال کی۔ اس سے ان کے کلام میں روانی اور برجستگی پیدا ہوئی۔
 
اقبال نے اردو شاعری میں ایسا اسلوب اپنایا کہ جس کی مثال پہلے نہ تھی۔ الفاظ اور معنی کا رشتہ پائیدار بنیادوں پر استوار کیا۔ روزمرہ اور محاورہ، فصیح اور غیر فصیح کا خیال رکھا۔ الفاظ کی ترتیب، قافیہ، ردیف اور بحور و عروض نے ان کی شاعری میں نغمگی، موسیقیت اور غنائیت پیدا کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ اقبال کے تجربات، مشاہدات اور شاعرانہ تخیل نے ان کی شاعری کو لازوال بنا دیا۔ اقبال کو تنقیدِ شعر کا خاص شعور تھا۔ انہوں نے غالب کی طرح اپنی بہت سی شاعری کو خود ہی قلم زد کردیا، اور بہت سے اشعار میں ترمیم کی۔
 
اقبال کی شاعری سے اردو شاعری کا کینوس وسیع ہوا۔ انہوں نے شاعری کے پرانے سانچے کو تبدیل کیا۔ انہوں نے شاعری میں نئے نئے موضوعات شامل کیے۔ تشبیہات و استعارات میں اضافہ کیا۔ انہوں نے تلمیحات کو نئے معنی دیئے۔ اقبال نے ترجمہ کرکے انگریزی شاعری کو اردو کے روپ میں پیش کیا۔ اس سے اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوا۔ اقبال نے اردو شاعری کو نیا آہنگ و اسلوب دیا۔
 
اقبال نے نظم کے ساتھ اردو نثر کے ذریعے بھی اردو زبان کو وسعت دی۔ اگرچہ انہوں نے نثر میں کم لکھا مگر جو بھی لکھا وہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر فلسفیانہ، تاریخی، مذہبی، لسانی، معاشرتی اور علمی مضامین لکھے۔ انگریزی سے مضامین کا اردو میں ترجمہ کیا۔ معاشیات کے موضوع پر ایک کتاب لکھی، اردو زبان میں اس سے پہلے معاشیات کے موضوع پر کسی نے ایسی مربوط کتاب نہ لکھی تھی۔ اقبال نے اس کے لیے اردو میں معاشی اصطلاحات وضع کیں اور دوسری زبانوں سے اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اقبال نے کتب کے دیباچے لکھے۔ انہوں نے سینکڑوں خطوط دوست احباب کو لکھے، جن کی اردو ادب میں الگ سے ایک اہمیت ہے۔ ان خطوط سے اقبال کی شخصیت کے خطوط متعین ہوتے ہیں۔ اقبال کے بعض خطوط انشا پردازی کے بہترین نمونے ہیں۔ اقبال کے مقالات و مضامین، تقاریر اور خطوط سے اقبال کی اردو نثر کا اسلوب متعین ہوتا ہے۔ اقبال چونکہ مقصدی ادب کے قائل تھے جو قوم اور معاشرے کے لیے مفید ہو، جس سے کچھ بہتر نتائج بھی حاصل کیے جا سکیں، اس لیے انہوں نے اردو نثر میں علمی نوعیت کے موضوعات کا چنائو کیا۔ اس کے لیے انہیں زبان اور اسلوب بھی علمی اختیار کرنا پڑا۔ ایسے اسلوب میں تشبیہات و استعارات وغیرہ کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ ایسا اسلوبِ بیان لطیف ہونے کے بجائے خشک ہوتا ہے۔ مگر اقبال کا اسلوب خشک نہیں، سادہ اور باوقار ہے، اور ایک عالمانہ شان رکھتا ہے۔ ان کا اسلوبِ بیان حالیؔ اور سرسید کی طرح روکھا پھیکا نہیں اور نہ ہی آزادؔ کی طرح رنگین و پرکار ہے، بلکہ سادہ اور سلیس ہے۔ اقبال کی نثر کے موضوعات کا تقاضا تھا کہ وہ سادہ اسلوب اپنائیں۔
 
اقبال کی شاعرانہ تخلیقات ’’بانگِ درا‘‘، ’’بالِ جبریل‘‘، ’’ضربِ کلیم‘‘ اور ’’ارمغانِ حجاز‘‘ سے اردو شاعری اور اردو زبان نئی رفعت و تجلی سے آشنا ہوئیں۔ اقبال کی نثری تخلیقات، مضامین و مقالات، تقاریر اور خطوط وغیرہ سے اردو زبان کو فروغ ہوا، اور اردو ایک ایسی زبان بن گئی جس میں ہر طرح کے علمی و ادبی، سائنسی، تاریخی، نفسیاتی اور فلسفیانہ مضامین و موضوعات بیان کیے جا سکیں۔‘‘
 
شخصیت ِاقبال کے ہزار پہلو ہیں۔ ہم بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہمارے اندر اقبال جیسا دیدہ ور، حساس دل کا دانشور، فلسفی، شاعر پیدا ہوا جس نے ملت ِاسلامیہ کے اندر حیاتِ نو اور جوش و جذبہ کو بیدار کیا۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو سمجھیں اور اس کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔ عالمِ بے خودی سے جہانِ خودی کی طرف بڑھیں اور اپنا اصل مقام حاصل کریں۔
 
کتاب مجلّد ہے، نیوز پرنٹ پر چھاپی گئی ہے۔
 
ملک نواز احمد اعوان
 
+++++++++++++++++
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 801