donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Malik Nawaz Ahmad Awan
Title :
   Maulana Maududi Beesween Sadi Ke Aham Tareen Nasar Nigar

مولانا مودودی بیسویں صدی کے اہم ترین نثر نگار


نام کتاب:    سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ…بحیثیت نثر نگار

محقق و مصنف:ڈاکٹر جاوید اصغر

صفحات:432     قیمت 425 روپے

ناشر:منشورات، منصورہ ملتان روڈ لاہور 54790

فون نمبر:042-35419520-24, 35434909

فیکس:0092-42-35432194, 35434907

ای میل:

manshurat@gmail.com
manshurat@hotmail.com

manshurat@yahoo.com

موبائل:

0332-0034909
0320-5434909

’’سید ابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت نثر نگار‘‘ ڈاکٹر محمد جاوید اصغر صاحب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نگرانی میں تحریر کیا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور نے اس مقالے پر مؤلف کو 2009ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ اس طرح حیات و افکارِ مودودیؒ کا ایک پہلو روشنی میں آگیا ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری کتاب کے مقدمے میں اردو نثر کے ارتقائی سفر میں سرسید، مولانا محمد قاسم نانوتوی، شبلی، محمد حسین آزاد، حالی، علامہ سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

’’انہی چشموں کے آس پاس بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ایک اور سوت بھی پھوٹی جسے آگے چل کر ایک بڑے دھارے کی صورت اختیار کرنا تھی۔ یہ سوت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نثر تھی جس کا آغاز اگرچہ نیم سیاسی اور نیم مذہبی تحریروں سے ہوا، مگر بہت جلد اس نے علمی دنیا میں ایک نئے لہجے کی صورت اختیار کرلی، ایک ایسا لہجہ جس میں متانت اور معقولیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہی متانت اور معقولیت اس علمی نثر کی بنیاد ثابت ہوئی جسے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی علمی نثر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس علمی نثر کا تنقیدی تجزیہ کم کیا گیا۔ اس کمی کو وہ لوگ شدت سے محسوس کرتے تھے جو اس بات سے آگاہ تھے کہ جدید اردو نثر کی تعمیر و تشکیل میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب کا کتنا کنٹری بیوشن ہے۔ زیرِ نظر مقالہ اس کمی کو بہت حد تک پورا کرتا ہے۔ اس کے مصنف ڈاکٹر جاوید اصغر نے خاصی وسعتِ نظر کے ساتھ موضوع کا حق ادا کرنے کی سعیٔ مشکور کی ہے۔‘‘

’’میری ناچیز رائے میں مولانا مودودیؒ کے اسلوبِ بیان کی سب سے بڑی خوبی یا خصوصیت اس کی ہمواری (Even-ness) ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں خطابت اور شعریت کی بہت اونچی چوٹیاں تخلیق نہیں کرتے کہ ان کے مقابلے میں باقی ماندہ تحریریں بے جان یا بے کیف نظر آئیں۔ ان کی تحریروں کے گراف میں ایک خوش کن ہمواری یا یکسانیت ہے۔ لیکن ایسی یکسانیت جو اکتاہٹ پیدا نہیں کرتی بلکہ نکتہ بہ نکتہ عبارت کو مربوط کرتی چلی جاتی ہے۔ یہاں میں اپنے ایک اور احساس کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میری رائے میں مولانا مودودیؒ کی نثر کا اصل شاہکار ان کی تفسیرِ قرآن ہے جس نے سورتوں کے تمہیدی مباحث اور حواشی پر مشتمل ان کی علمی، لسانی، فقہی، تاریخی، اخلاقیاتی اور دینیاتی تصریحات نے ایک عظیم بیانیہ (A Great Narrative) کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ان تفسیری حواشی میں ایسا اندرونی ارتباط ہے کہ مولانا کے بعض ساتھیوں نے ان کو بعض موضوعات کے حوالے سے مربوط کرکے پوری پوری تصانیف تیار کی ہیں۔ ان تصانیف میں، جو از اول تا آخر مولانا ہی کو تحریروں پر مشتمل ہیں، کہیں بھی جوڑ پیوند کا زیادہ احساس نہیں ہوتا۔ اور اگر ان تفسیری حواشی کے زمانۂ تحریر کے امتداد کو دیکھا جائے تو اور بھی حیرت ہوتی ہے۔ یہاں اتنی بات کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی علمی نثر کے مقابلے میں ان کی انشائی نثر کسی طرح کم اہم یا کم تر نہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ زیرنظر تصنیف میں مولانا کی نثر کے انشائی پہلوئوں سے بھی اعتنا کیا گیا ہے، لیکن اس کا تفصیلی مطالعہ نہیں کیا گیا۔‘‘

’’میری رائے میں زیر نظر کتاب ایک بے حد وقیع کام کی حیثیت رکھتی ہے، جس کا علمی حلقوں میں یقینا خیر مقدم کیا جائے گا۔ متوقع طور پر اس موضوع پر آئندہ ہونے والے تحقیقی اور تنقیدی کاموں کے لیے یہ کتاب بنیادی حوالہ ثابت ہوگی۔ اس سے بڑھ کر کسی تصنیفی کاوش کی اور کیا خوبی ہوسکتی ہے کہ وہ آنے والوں کے لیے رہنمائی کا سنگِ میل بن جائے۔‘‘

کتاب چھ ابواب میں منقسم ہے۔ باب اول ’’سید مودودی: عہد، حیات، شخصیت اور علمی کارنامہ‘‘ کے نام سے ہے۔ باب دوم ’’سید مودودی کی نثر: آغاز و ارتقا‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مترجم، صحافی، مؤرخ، مکتوب نگار اور ادبی نقاد کی جہت سے گفتگو کی گئی ہے۔ باب سوم ’’سید مودودی کی نثر: موضوعاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے ہے۔ اس میں دینی افکار، تہذیبی افکار، سیاسی افکار، معاشی افکار اور ادبی خدمات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ باب چہارم ’’سید مودودی کی نثر: تفسیر قرآن و سیرت نگاری‘‘، باب پنجم ’’سید مودودی کی نثر: اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ اور باب ششم ’’سید مودودی بحیثیت اردو نثر نگار: مجموعی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔

ڈاکٹر محمد جاوید اصغر نے کتاب کا قدرے تفصیلی تعارف اپنے پیش لفظ میں کرایا ہے، وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:

میں نے اس مقالے کو استادِ محترم و مکرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی ہدایات کی روشنی میں چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب کی فصل اول میں سید مودودی کے عہد تک مسلمانوں کے دینی، تہذیبی، سیاسی اور علمی پس منظر کا ذکر کیا گیا ہے، کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں سید مودودی نے اپنا علمی و فکری اور تحریکی سفر شروع کیا اور اپنے لیے داعی و مصلح کا کر دار ہی کیوں منتخب کیا، اور پھر تمام عمر کیسے صبر آزما مراحل سے گزرتے ہوئے اسے نبھایا۔ فصل دوم میں سید مودودی کے حالاتِ زندگی کا تفصیلی ذکر ہے، بظاہر اس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ سید مودودی کے حالاتِ زندگی پہلے بھی بہت سے مقامات پر موضوعِ سخن بنائے گئے ہیں لیکن عہد کے تناظر میں اس کا ذکر اس لیے ضروری تھا، تاکہ قاری کے سامنے سید مودودی کی زندگی کا پورا منظر آجائے اور وہ علمی و عملی تدابیر بھی، جو انہوں نے حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اختیار کیں۔ فصل سوم میں سید مودودی کی شخصی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ فصل چہارم میں سید مودودی کے علمی کارنامے کا ذکر بہت اختصار سے اس لیے کیا ہے کہ ان موضوعات کو اگلے ابواب میں قدرے تفصیل سے زیر بحث لایا گیا ہے۔

باب دوم سید مودودی کی ابتدائی دور کی نثر سے متعلق ہے۔ اس باب کی فصل اول میں سید مودودی کے انگریزی اور عربی زبان سے اردو زبان میں کیے گئے مختلف تراجم کا تذکرہ ہے لیکن ترجمہ قرآن پر اس لیے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ انہوں نے قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے ترجمہ قرآن میں حرکیت، فعالیت اور ادبیت پیدا کردی ہے۔ فصل دوم میں سید مودودی کی صحافتی زندگی کا ذکر ہے لیکن ان کی صحافت اس بات پر شاہد ہے کہ نہ تو وہ روایتی صحافی تھے اور نہ انہوں نے معروف معنوں میں صحافت کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کیا، بلکہ وہ صحافت اور علمیت کے ربط سے ذہنوں کی آبیاری چاہتے تھے۔ ترجمان القرآن کے حوالے سے ان کی صحافت ان کو ایک عظیم، با اصول، نڈر اور بے باک صحافی کے طور پر یاد رکھے گی۔ فصل سوم میں سید مودودی کی تاریخ نویسی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سید مودودی نے تاریخ کی معنویت کو وسعت دے کر اسلامی تاریخ کے ایک اہم باب کا جو تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے وہ انہیں منفرد مؤرخ کے طور پر سامنے لاتا ہے۔ فصل چہارم ان کی مکتوب نگاری سے متعلق ہے۔ سید مودودی نے بلا مبالغہ تمام مشاہیرِ علم و ادب سے زیادہ خطوط لکھے ہیں، جو اپنے اندر جہاں موضوعات کا تنوع رکھتے ہیں، وہیں اردو خطوط نویسی کے اسالیب کے تمام ذائقے بھی ان میں موجود ہیں۔ یہ خطوط نہ صرف مقصدی مکتوب نگاری کی خوب صورت مثال ہیں بلکہ اردو خطوط نگاری کے مطالعے کا ایک نیا رخ سامنے لاتے ہیں۔ فصل پنجم سید مودودی کے لکھے گئے تبصروں، دیباچوں اور تقریظوں کے جائزے پر مشتمل ہے۔ اس ضمن میں سید مودودی کا اندازِ نقد و نظر روایت سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ روایتی دیباچہ نگار، تقریظ نگار یا مبصر نہیں کہ جو قاری اور مصنف دونوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔

باب سوم میں سید مودودی کی نثر کا موضوعاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ فصل اول ان کے دینی افکار کا احاطہ کرتی ہے۔ سید مودودی نے دین کی معنویت کو جس انداز میں وسعت دی اور جدت پیدا کی ہے، وہ انہیں بالغ نظر دینی مفکر کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ فصل دوم میں سید مودودی کے تہذیبی افکار زیر بحث لائے گئے ہیں۔ انہوں نے تہذیب کی معنوی تجدید کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو جس وقار، تمکنت اور فکری بالیدگی کے ساتھ مغرب کے مقابل رکھا ہے، وہ ان کی وسعتِ نظر، جدتِ خیال اور تجزیاتی ذہن کا عکاس ہے۔ فصل سوم میں سید مودودی کے تعلیمی افکار اس لیے موضوعِ بحث بنے ہیں کہ سید مودودی تعلیم کی اہمیت، مقاصد، دائرۂ عمل اور اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ انہوں نے نہ صرف برعظیم میں مروج نظام ہائے تعلیم کا تنقیدی بصیرت سے جائزہ لیا ہے بلکہ ایک ایسے تعلیمی نظام کو وضع کرنے کے لیے رہنما خطوط بھی دیے ہیں جو دین اور دنیا کی دوئی سے بالاتر ہو۔ فصل چہارم سید مودودی کے سیاسی افکار پر مشتمل ہے کیونکہ سید مودودی محض ایک سیاسی فلاسفر ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے فکری طور پر اسلامی ریاست کا نقشہ پیش کیا ہے اور عملی طور پر اس میں رنگ بھرنے کے لیے تحریکِ اسلامی کی بنیاد رکھی ہے۔ فصل پنجم میں سید مودودی کے معاشی افکار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سید مودودی نے اپنے عہد کے مروجہ معاشی نظریات، افکار اور تحریکات کا پوری تنقیدی بصیرت سے جائزہ لے کر مسلمانانِ عالم کو اسلام کے معاشی نظام کے خدوخال سے آگاہ کیا ہے۔ فصل ششم میں سید مودودی کی ادبی خدمات کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کی بدولت اردو نثر میں پہلی بار اسلام کے دینی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور فکری موضوعات کو ادیبانہ انداز میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ بلاشبہ سید مودودی سے قبل بھی یہ موضوعات اردو نثر میں پیش کیے جاتے رہے ہیں، لیکن سید مودودی نے اپنی استدلالی نثر سے پہلی بار انہیں پورے اعتماد اور فکری وسعت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

باب چہارم میں سید مودودی کی نثر کا جائزہ ان کی شہرۂ آفاق تفسیر تفہیم القرآن اور ان کی سیرت نگاری کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ تفہیم القرآن لکھتے ہوئے سید مودودی نے جو اردو نثر لکھی ہے، اس کا زمانی دورانیہ اور پھیلائو ان کی دیگر تصانیف کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے اس تفسیر میں اردو نثر کے جتنے رنگ، پہلو اور اسالیب نظر آتے ہیں اس کی مثال اردو تفسیری ادب میں کم کم ملتی ہے۔ تفہیم القرآن سید مودودی کی نثر کا ہی نہیں بلکہ بیسویں صدی کی اردو نثر کا بھی کامل نمونہ ہے۔ اس لیے اس باب میں سید مودودی کی نثر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ سید مودودی نے سیرتِ سرورِ عالم میں جو نثر تخلیق کی ہے وہ واقعاتی نہیں بلکہ تحریکی ہے۔ تفسیر اور سیرت میں سید مودودی کی نثر ایک ایسا اجتہادی کارنامہ ہے جس پر اردو نثر ہمیشہ فخر کرتے رہے گی۔

باب پنجم میں سید مودودی کی نثر کا اسلوبیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ سید مودودی کے تراجم، مکتوب، تاریخ، صحافت، تنقید اور موضوعاتی مطالعے کے دوران میں بھی اسالیب پر بحث کی گئی ہے لیکن اس میں اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ البتہ اس باب میں ان کی اسلوبیاتی خوبیوں کا اردو نثر کے اسالیبِ بیان کی روایت میں تفصیل کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سید مودودی سے پہلے دینی اور علمی اسلوب کی روایت کا اختصار سے ذکر کیا گیا ہے اور پھر ان کی اس نئی اسلوبیاتی روایت کا جائزہ لیا گیا ہے جو انہوں نے دینی، فکری اور علمی اسالیب کے اشتراک سے پیدا کی ہے۔ یہ باب اس مؤقف کے تجزیاتی مطالعے کو پیش کرتا ہے کہ سید مودودی کی نثر میں اردو اسالیب کے سارے رنگ جمع ہوکر اور زیادہ نکھر گئے ہیں۔

باب ششم میں سید مودودی کا بحیثیت اردو نثر نگار، مقام متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی نثر کا اردو کی نثری روایت میں جائزہ لے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سید مودودی کی نثر اکابرین اور ہم عصر نثر نگاروں سے زیادہ حسین، منفرد، مدلل اور علمی و ادبی ہے۔ آنے والے وقتوں میں ناقدینِ ادب کے لیے یہ ضروری ہوجائے گا کہ اردو نثر کے ارتقائی جائزے میں سید مودودی کی نثر کو وہی مقام دیں جس کی وہ حق دار ہے، کیونکہ اردو ادب میں بیسویں صدی سید مودودی کی نثر کی صدی تھی۔


یوں تو سید مودودی کی بہت ساری فکری جہتیں ہیں لیکن اس مقالے میں میرا ہدف ان کی نثر اور اسالیبِ بیان کی مختلف صورتوں کو نمایاں کرنا ہی رہا ہے، کہ میرے موضوع کا تقاضا یہی تھا۔‘‘
پروفیسر حفیظ الرحمن خان سابق صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کی گراں قدر رائے ہم یہاں درج کرتے ہیں:

’’اردو زبان و ادب کے استاد پروفیسر جاوید اصغر کا گراں قدر مقالہ میرے پیش نظر ہے۔ انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت نثر نگار کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ نوجوان محقق نے شبلی، حالی، نذیر احمد اور اقبال کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ شعر یانثر میں اگر اسلوب و آہنگ کی قدرت موجود ہے تو اس کا شمار اعلیٰ ادب میں ہوسکتا ہے۔ ادبی نقد و نظر کے اس بے لاگ اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ مولانا مودودی کی اکثر تحریریں ادب و انشا کے اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہیں۔ ان کا اسلوبِ بیان نہایت سادہ اور دل نشین ہے۔ اس میں انشا پردازوں کی ایک مؤثر اور سہل روایت جھلکتی ہے اور تفکرو تدبر کی راہیں کھلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جاوید اصغر کی یہ رائے درست ہے کہ سید مودودی کی تصانیف پر آفاقیت، وسعت، جامعیت، استدلالیت اور اثر آفرینی کے اعتبار سے ادبِ عالیہ کا اطلاق ہوتا ہے۔

ان کی تحقیقی کاوش کا اہم ترین حصہ ’’سید مودودی کی نثر کا اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ ہے جس میں انہوں نے مولانا مودودی کے نثری سفر کا ارتقائی جائزہ نہایت تفصیل سے لیا ہے اور مولانا کے اسلوب کے خصائص کا بیان حسبِ ذیل عنوانات کے تحت کیا ہے: مقصدیت، استدلال، اعتدال، سادگی و سلاست، حقیقت نگاری، تنوع، طنز و مزاح، صحتِ زبان، تکرارِ الفاظ، ادبی محاسن، جزئیات نگاری، منظر نگاری، تمثیل نگاری، تشبیہ، استعارہ، محاورات، تراکیب۔ (اور ہر عنوان کی وضاحت ان کی نثر کی مثالوں کے ساتھ کی ہے)۔

اس تحقیقی کاوش کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا مودودی بیسویں صدی کے اہم ترین نثر نگار تھے۔ علامہ اقبال جس نظریۂ حیات کے شاعری میں مبلغ تھے، اسی نظریے کی تبلیغ کا کام مولانا مودودی نے نثر میں کیا ہے۔‘‘

پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی پروفیسر ایمے ریطس شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی جو اس مقالے کے خارجی ممتحن بھی تھے، اپنی رائے یوں دیتے ہیں:

(باقی صفحہ نمبر 41)
“Mr. Muhammad Javed Asghar has read widely about Maulana Maudoodi’s life and times. He has followed an appropreate methodology and has organised his material in an impeccable way. This section makes an intresting reading.

The scholar has looked at the Maudoodi’s charismatic personality with a deep sence of affection and admiration, it appears that he takes him as a role model for humanity.

Maulana Maududi was a Philospher a mentar and a guide for many of his contemporaries and his impact on the succeeding generations is undisputable. There is no doubt about his achievements and distinctions.”

کتاب کا انتساب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام کیا گیا ہے۔

کتاب کے آخر میں اشاریہ دیا گیا ہے۔ اور ضمیموں میں سید مودودی کے والد سید احمد حسن کے لیے جاری کردہ سندِ توصیف کا عکس، سید مودودی کے لیے مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی اور مولانا شریف اللہ کی جاری کردہ اسناد کا عکس، 1947ء میں مہاجرین کی امداد کے لیے کی گئی دست نوشت اپیل کا عکس دیا گیا ہے۔ اس طرح اپنے موضوع پر ایک عمدہ و اعلیٰ تحقیق کا ظہور ہوا ہے۔

کتاب سفید کاغذ پر عمدہ اور خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے اور حسین سرورق سے مزین ہے۔

ملک نواز احمد اعوان

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 827