donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Malik Nawaz Ahmad Awan
Title :
   Tabserae Kutub

 

تبصرۂ کتب
 
ملک نواز احمد اعوان
 
 
نام کتاب:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
پیغمبر ِعہد ِرواں
مؤلفہ:
کیرن آرمسٹرانگ
ترجمہ:
نعیم اللہ ملک
صفحات:
172۔ قیمت: 300 روپے
ناشر:
نشریات۔ الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور
فون:
0321-4589419
کیرن آرمسٹرانگ کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ ان کی کتابِ
سیرت Muhammed: A Biography of The Prophet کا اردو ترجمہ جناب نعیم اللہ ملک کے قلم سے ’’محمدؐ پیغمبر اسلام کی سوانح عمری‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور اس کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اب انہوں نے موصوفہ کی دوسری کتاب Muhammed: The Prophet For our Time کا ترجمہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرِ عہدِ رواں‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ نعیم اللہ ملک صاحب پرانے صحافی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کے مضافات میں اپنے قصبے مراکیوال میں سکونت پذیر ہیں اور علمی و دینی خدمت میں مصروف ہیں۔ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کے عنوان سے انہوں نے اپنا دل نکال کر صفحۂ قرطاس پر رکھ دیا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
 
’’ایک ایسی شخصی زندگی، جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے۔ اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو تو سلطانِ عرب کا حال پڑھو، اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو، اگر فاتح ہو تو بدرو حنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑائو، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سے عبرت حاصل کرو، استاد اور معلم ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلّم مقدس کو دیکھو، اگر شاگر ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جمائو، اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار و مددگار نبیؐ کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے، اگر حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمن کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو، اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو، اگر یتیم ہو تو عبداللہ اور آمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو، اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو، اگر جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو، اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے سالارِ کارواں کی مثالیں ڈھونڈو، اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجرِ اسود کو کعبے کے ایک گوشے میں کھڑا کررہا ہے، مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظرِ انصاف میں شاہ وگدا اور امیرو غریب سب برابر تھے، اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہر کی حیاتِ پاک کا مطالعہ کرو، اگر اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپ اور حسنؓ اور حسینؓ کے نانا کا حال پوچھو، غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ہماری سیرت کی درستی و اصلاح کے لیے سامان، ہمارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کبریٰ کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے، اس لیے طبقہ انسانی کے ہر طالب اور نورِ ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔ جس کی نگاہ کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اس کے سامنے نوح و ابراہیم، ایوب و یونس، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سب کی سیرتیں موجود ہیں۔
 
جس کا ذکر خدا نے بلند کردیا ہے، جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں، جسے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے، جس کے شہر کی قسم خدا نے کھائی ہے، جس کی عمر کی قسم خدا نے کھائی ہے، امید ہے کہ اس ذاتِ بابرکات کا تذکرہ میری نجات کا وسیلہ بنے گا۔‘‘
مؤلفہ کتاب کیرن آرمسٹرانگ کتاب کے تعارف میں لکھتی ہیں:
 
’’رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی متنوع اور متضاد شخصیت میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ یورپ کے لوگوں کے لیے بھی اہم سبق موجود ہیں اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے، آپؐ کی پوری زندگی جہاد سے عبارت تھی۔ اصل میں لفظ ’’جہاد‘‘ کا مطلب ’’مقدس جنگ‘‘ نہیں ’’جدوجہد‘‘ ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر جنگ سے تباہ حال عرب میں امن قائم کرنے کی غرض سے عمر بھی انتھک جدوجہد کی، اور آج ہمیں بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو یہ کام کرنے کو تیار ہوں۔ آپؐ کی پوری زندگی لالچ، بے انصافی اور غرور و سرکشی کے خلاف جہدِ مسلسل تھی۔ حضورؐ نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ دنیائے عرب انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے اور قدیم اندازِ فکر جدید ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں، لہٰذا آپؐ نے نئے مسئلوں کا حل دریافت کرنے کے لیے تخلیقی کوششیں شروع کردیں۔11 ستمبر کے بعد ہم تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں، اور ہمیں بھی ایک مختلف اور نیا نقطہ نظر اختیار کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔
 
یہ ایک عجیب بات ہے کہ ساتویں صدی میں عرب میں جو واقعات ظہور پذیر ہوئے، آج ہمارے اپنے عہد میں بھی اسی قسم کے واقعات رونما ہورہے ہیں، ہمیں ایسے واقعات اور ان کی اہمیت سے سبق سیکھنا چاہیے اور سیاست دانوں کے دامِ فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ رسول کریمؐ مذہب کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کررہے تھے۔ آپؐ کو علم الٰہیات میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی بلکہ آپؐ لوگوں کے دلوں اور دماغوں کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ آپؐ اپنے عہد کے اندازِ فکر کو جاہلیت سے تعبیر کرتے تھے۔ مسلمان عام طور پر ظہورِ اسلام سے پہلے کے دور کو زمانہ جاہلیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں، لیکن حالیہ ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضورؐ جاہلیت کی اصطلاح کو کسی تاریخی دور سے نہیں، اس مخصوص ذہنی کیفیت کے لیے استعمال کرتے تھے جو ساتویں صدی کے عرب میں تشدد اور دہشت کا باعث تھی۔ میں تو یہی کہوں گی کہ آج مغرب اور عالم اسلام دونوں جاہلیت کا شکار ہیں۔
 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کے نقوش بظاہر مدھم پڑگئے ہیں کیونکہ آپؐ کی جڑیں اپنے عہد میں پیوست ہیں، لیکن ہمیں اس پُرآشوب دور میں آپؐ کی کامیابیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپؐ کن برائیوں کے خلاف نبرد آزما تھے؟ آپؐ کی ذاتِ اقدس سے فیضان پانے کے لیے ہمیں اس المناک دنیا میں داخل ہونا چاہیے جس نے کوئی چودہ سو سال پہلے آپؐ کو نبوت کے منصب پر فائز کیا۔ ہمیں اپنی چشم بصیرت سے اس شخص کا مشاہدہ کرنا ہوگا جو مکہ کے مقدس شہر کے باہر ایک پہاڑ کی چوٹی پر تن تنہا کھڑا ہے۔‘‘
مستشرقین کی لکھی کتابوں کا مطالعہ محتاط اور چوکنے ہوکر کرنا چاہیے۔ کتاب کا ٹائپ بہت باریک ہے۔ اگلے ایڈیشن میں جلی کرنا چاہیے۔ کتاب مجلّد اور سادہ رنگین سرورق سے مزین ہے۔
 
نام کتاب:
سیرت ِخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
(رابطہ عالم اسلامی ایوارڈ یافتہ)
مؤلف:
ڈاکٹر ماجد علی خان
صفحات:
512… قیمت500روپے
ناشر:
دارالنوادر۔ الحمدمارکیٹ۔ اردو بازار، لاہور
فون:0300-8898639
ڈسٹری بیوٹرز:
کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔فون042-37320318
ای میل:
kitabsaray@hotmail.com
فضلی بک سپرمارکیٹ ،اردو بازار، کراچی
فون:021-32212991
021-32629724
 
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر سال بے شمار کتابیں، تحقیقات،مقالات منظرعام پر آتے ہیں، اور یہ بے شمار زبانوں میں ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہماری اردو زبان میں طبع زاد اور دوسری زبانوں سے مترجمہ کتابیں کثرت سے شائع ہوتی ہیں۔ یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و الفت کا عملی مظہر ہے۔ زیر نظر کتاب ڈاکٹر ماجد علی خان کی گراں قدر انگریزی تالیف”Muhammed The Final Messenger” کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر ماجد علی خان رام پور یوپی کے رہنے والے ہیں۔ تعلیم ان کی ایم۔ ایس۔ سی۔ بی ایڈ، ایم ٹی ایچ، پی ایچ ڈی، ڈی ٹی ایچ (علیگ) مولوی فاضل، فاضل درس نظامی (دارالعلوم میرٹھ)، ای ایف ڈبلیو (لندن) ہے۔ ایک فاضل عالم اور تدریس کے پیشے سے وابستہ محترم شخصیت ہیں۔ دو درجن سے زیادہ کتب تحریر فرمائی ہیں جو زیادہ تر انگریزی زبان میں ہیں، اور تقریباً اسّی تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بحیثیت استاد شعبہ اسلامک اسٹڈیز 1976ء سے تاحال مصروف ِکا رہیں۔
مولانا پروفیسر سعید احمد اکبر آبادیؒ کتاب کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں (پیش لفظ انگریزی کتاب پر لکھا گیا جس کا یہ اردو ترجمہ ہے):
 
’’اس کتاب کو رابطۂ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ (سعودی عرب) کی طرف سے منعقد کرائے گئے سیرت کے تحقیقی مقالات کے عالمی مقابلے میں اعلیٰ انعام حاصل کرنے کا امتیاز حاصل ہے۔ اس کا فیصلہ عالم اسلامی کے چوٹی کے عرب اور غیر عرب علما پر مشتمل ایک اعلیٰ کمیٹی نے کیا تھا، اس لیے اب اس کتاب کے مزید تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اور کارناموں پر انگریزی میں لکھی گئی کتابوں کی کمی نہیں ہے، لیکن ان کتابوں میں عام طور پر دو نقص ہیں۔ جو کتابیں غیر مسلم مصنفین نے لکھی ہیں چاہے ان کا دانش ورانہ معیار کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، وہ حقیقت سے دور ہیں، جبکہ انگریزی میں مسلمانوں کی لکھی ہوئی اکثر کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے سیرت نگاروں کی اس جماعت کے خیالات کی ترجمانی نہیں کی گئی ہے جو راسخ العقیدہ ہے۔
 
یہ کتاب ان دونوں نقائص سے پاک ہے، اس لیے انگریزی زبان میں موجود سیرت کے وسیع ذخیرے میں ایک بیش قیمت اور وقیع اضافہ ہے۔ اس کتاب کی چند خوبیاں حسب ذیل ہیں:
 
1۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں پیش آنے والے واقعات کا تسلسل کے ساتھ صرف تاریخی بیان ہی نہیں ہے بلکہ یہ کتاب مدینہ منورہ کے معاشرے کے سماجی و اقتصادی مسائل پر بھی پُرمغز بحث کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کیا حل پیش کیا۔
2۔ یہ کتاب مغربی مصنفین کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے گئے مختلف غلط الزامات، بہتانات اور ان کے ذریعے پیدا کی گئی غلط فہمیوں کی مدلل طریقے سے اور استدلالی قوت کے ساتھ تردید کرتی ہے۔
3۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو ایسی ٹھوس بنیادوں پر ثابت کیا گیا ہے کہ جس میں شک و شبہ کا کوئی شائبہ بھی باقی نہیں رہتا۔
 
4۔ اس کتاب میں ’’غزوات‘‘ کو جدید تحقیقی طرز پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا اس سے یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوجائے گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی جارحانہ قدم نہیں اٹھایا، بلکہ آپؐ کا ہر قدم اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کی روشنی میں دفاعی ضروریات کے تحت اٹھتا تھا۔
5۔ اس کتاب کے بنیادی مآخذ قرآن مجید، کتب احادیث اور سیرت کی ابتدائی کتابیں ہیں۔
6۔ اس کتاب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و سیرت کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، نہ کہ ایک مصلح کی حیثیت سے۔ ہمارے زمانے کے کچھ نمایاں سیرت نگار بھی سیرت کے اس پہلو کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے۔‘‘
کتاب نیوز پرنٹ قبیلے کے کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد اور سادہ لیکن رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔
 +++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 953