donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Arif Hussain
Title :
   Bihar Me Urdu Sahafat : Simto raftar Par Aik Nazar

’بہار میں اردو صحافت :سمت ورفتار‘پر ایک نظر

 

 محمد عارف حسن

 ریسرچ اسکالر،بہاریونیورسٹی،مظفرپور

 رابطہ:7654443036

******************************************************************************************

یہ کتاب بہارکی اردو صحافت کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔بہت سار ی معلومات جو ہمیں سالوں سال تک لائبریریوں میں بیٹھ کر اخبارات و رسائل کی فائلیں پلٹنے سے حاصل ہوتیں وہ یکجا مل جاتی ہیں۔ مجھے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس موضوع کے تحت یونیورسٹیوں میں پی ایچ۔ڈی رجسٹریشن کا کام بھی ہوتا نظرآنے لگے گا

*********************************************************************************************************************************************
    ڈاکٹر منصورخوشتر کی مرتب کردہ تازہ ترین کتاب’بہار میں اردو صحافت:سمت ورفتار‘حالیہ دنوں اخبارات و رسائل کی سرخیوںمیں ہے۔کتاب اس قابل ہے بھی کہ اس کا مطالعہ کیا جائے ،اس سے استفادہ کیا جائے اورپھر مرتب کتاب کے حوصلہ افزاقدم کی ستائش کی جائے۔میں بھی برادرم منصورخوشترکی اس کامیاب کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اورانہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

    مذکورہ کتاب کے مشمولات میں تنوّع ہے۔بہار میں اردو صحافت کا جائزہ (ماضی سے حال تک)مختلف پہلوؤں سے پیش کیا گیا ہے۔بیش ترمضامین تحقیق و تنقید کے مشقت طلب مرحلوں سے گزرکرلکھے گئے ہیں۔ان میں سے بعض تحریریں ان اہل قلم کی ہیں جو ادب وصحافت کے حوالے سے معتبر مانے جاتے ہیںاوربعض نئے لکھنے والے بھی ہیں جن کے مشاہدات اورخیالات متاثر کرتے ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے پہلے فہرست مضامین پر ایک نظرڈال لی جائے۔مشتاق احمد نوری کی تعارفی تحریر’بہارمیں اردوصحافت :سمت و رفتار۔ایک تاثر‘اورعرضـ ِمرتب کے تحت منصورخوشتر کی تحریر کے بعد کتاب میں کل ۲۷مضامین شامل ہیں۔اردو اخبارات اورقومی یکجہتی(ڈاکٹرعبدالحنان سبحانی)،بہارمیںاردوصحافت:سمت ورفتار(ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی)،بہارکی اردوصحافت آزادی کے بعد(ڈاکٹرسید احمد قادری)،صحافت ،صارفیت اورصہیونیت (حقانی القاسمی)،بہار میں اردوصحافت(صفدرامام قادری)،بہارمیں اردوصحافت:آزادی کے بعد(انوارالحسن وسطوی)،سول معاشرہ:اردومیڈیاکاکرداراورذمہ دارکون؟(ڈاکٹرریحان غنی)،بہارمیںاردوصحافت کے خدوخال(ڈاکٹرشمیم قاسمی)،بہارمیں اردوصحافت :مسائل اورامکانات(ڈاکٹرقیام نیر)،ادبی صحافت کے اغراض ومقاصد(عطاعابدی)،بہارمیں اردو صحافت:۱۸۵۷سے ۱۹۱۴تک(ڈاکٹراقبال حسن آزاد)،اردومیڈیا :اعتبارومعیار(شکیل احمدسلفی)،بہارمیں اردوصحافت کاعصری منظرنامہ (شاہدالاسلام)،دربھنگہ ٹائمزکی خدمات(ڈاکٹرمجیراحمدآزاد)،بہارمیں جرائد نسواں :صحافت کا ایک گمشدہ باب(جمیل اختر)،بہارکی موجودہ اردوصحافت(عبدالمتین قاسمی)،بہارمیں اردو صحافت:آغاز وارتقائ(ڈاکٹراحسان عالم)،متھلا کے پانچ رسائل:ایک جائزہ(سلمان عبدالصمد)،جدید اردو ادب کے روشن مستقبل کا استعارہ:دربھنگہ ٹائمز(ڈاکٹرآصف)،اردواخبارات کو درپیش مسائل (محمدعبدالرحمان ارشد)،کلام حیدری کی اداریہ نگاری(سمی اقبال)،بہارمیں اردو صحافت :منظرپس منظر(صفی اختر)،اردوصحافت کی تاریخ نویسی میں بہار کا حصہ(نورالسلام ندوی)،بہارمیں اردوصحافت :مسائل ،حل اورامکانات(کامران غنی)،بہارکے اردواخبارات کارول (فردوس علی)،بہارمیں اردو صحافت:سمت و رفتار(شمس تبریز قاسمی)،اوربہار کی اردو صحافت کی زبان کا معیار(محمدفہام الدین)۔

    ’بہار میں اردو صحافت :سمت ورفتار‘کے مضامین کو ہم مجموعی طورپر تین خانوں میں منقسم کرسکتے ہیں۔اوّل وہ مضامین جن میں بہار کی اردو صحافت (ماضی سے حال تک)کے واقعات کوتاریخی حوالوں کے ساتھ سلسلے وارسمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہاں پر لکھنے والوں نے تحقیق کا کام عرق ریزی سے کیا ہے۔دوم وہ مضامین ہیں جن میں تحقیق و تنقید شانہ بشانہ چل رہی ہے۔سوم ایسے مضامین ہیں جن میں آج کی بہار کی اردو صحافت کی نبض ٹٹولنے کی ہمّت جٹائی گئی ہے اورتازہ ترین صورتحال کو آئینہ دکھانے کا کام کیا گیا ہے۔ذاتی طورپر مجھے تیسرے زمرے کے مضامین زیادہ پسند آئے ہیں،کیونکہ ان میں حق گوئی و بے باکی ہے۔ایسے مضامین میں شاہدالاسلام کا مضمون’بہارمیں اردو صحافت کا عصر ی منظرنامہ‘عبدالمتین قاسمی کا مضمون’بہار کی موجودہ اردو صحافت ‘اورمحمد فہام الدین کی تحریر ’بہار کی اردو صحافت کی زبان کا معیار‘کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ان کے علاوہ کچھ دیگر تحریروں میں بھی بہار کی موجودہ اردو صحافت کی تازہ ترین صورتحال کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔یہ وہ تحریریں ہیں جنہیں پڑھ کر ہم اپنی ریاست کی اردو صحافت کے معیار تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں۔مرتبِ کتاب نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایسے مضامین کو کتاب کے درمیانی صفحات سے لے کر آخری صفحات تک جگہ دی ہے۔اب قاری ابتدائی صفحات سے ماضی کی روشن روایات (کمپوزنگ وطباعت کو چھوڑکر)کوپڑھتے ہوئے عہد حاضر کے منظرنامے تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے وہ یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے کہ ہمارا معیار بہترہوا ہے یا ۔۔۔۔؟چندمثالیں پیش ہیں:

    ٭’’ علاقائی دفاتر کے برخلاف جو ایڈیشن اورجو صفحات پٹنہ کے مرکزی دفتر میں تیار کیے جاتے ہیں ان میں زبان کی فاش غلطیاں عموماً کم ہوا کرتی ہیں،مگر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ پٹنہ میں تیار ہونے والے صفحات میں غلطیاں نہیں ہوتیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو نامہ نگارخبرنگاری کی ذمہ داری نبھارہے ہوتے ہیں،ان میں سے اکثر اچھی اورمعیاری زبان نہیں جانتے۔اگرکوئی اتفاق سے معیاری زبان استعمال کرنے والا شخص اس شعبہ میں وارد ہوتا ہے تو اسے خبرنگاری کے فن سے واقفیت نہیں ہوتی۔چنانچہ یہ اخبارات کی ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ زبان پر فن کو ترجیح دے یعنی اچھی زبان جاننے والا ناتجربہ کار شخص پیچھے چلا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس غیر فصیح اورغیر معیاری زبان استعمال کرنے والا تجربہ کارصحافی بازی مارلیتا ہے۔‘‘

(بہارمیں اردو صحافت کا عصری منظرنامہ:شاہدالاسلام‘ص:۱۶۶۔۱۶۷)

    ٭ ’’زبان کی سطح پر تنزلی کی ایک بنیادی وجہ اردو اخبارات میں اخباری عملہ کے بیچ حفظ مراتب کا خیال نہ رکھنا بھی ہے۔عام طورپر معیاری اخبار ات میں الگ الگ کاموں کے لیے اس کی مناسبت سے لیاقت رکھنے والے افراد لگائے جاتے ہیںاوران کے بیچ مراتب ومراعات کا فرق رکھا جاتا ہے۔اس کے برعکس اردو اخبارات (بطورخاص ریجنل اخبارت)میں اس کلیہ کوکوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔نتیجہ کے طورپر معمولی خبرنویس بھی خود کو تجربہ کارصحافی کے ہم پلہ شمارکرتا ہے۔اس کی نظیرآئے دن اردو اخبارات میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔کئی بارایسا ہوتا ہے کہ نچلی سطح کا نمائندہ خبرلکھ کر ،بے تکی سرخی جڑکر،کمپوزشدہ خبربراہ راست ڈسک پر بھیج دیتا ہے اورادارتی عملہ آنکھ موند کر بغیرکسی تصحیح وترمیم کے اسے من وعن شائع کردیتاہے۔ایسی خبروں میں نہ تو جملے درست ہوتے ہیں،نہ املا کا خیال رکھا جاتا ہے۔سرخی اورذیلی سرخی بھی کم تردرجے کی ہوتی ہے،اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات فاش غلطیاں پوری خبرکو مسخ کردیتی ہیں۔‘‘         

(بہارکی موجودہ اردوصحافت:عبدالمتین قاسمی۔ص:۲۱۴)

    حقانی القاسمی کا مضمون’صحافت،صارفیت اورصیہونیت اس کتاب کا ایک ایسا مضمون ہے جوکتاب کے عنوان سے میل نہیں کھاتا ہے۔یعنی اس تحریر میں بہار کی اردو صحافت پرکوئی بحث نہیں کی گئی ہے۔لیکن یہ وسیع دائرے میں لکھی گئی تحریرہے۔ اس کا تعلق عالمی سطح کی صورتحال سے ہے۔صارفیت اورصہینونیت کے زیراثر پوری صحافت پر کیسا زوال آیا ہے اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے:

    ٭’’صارفیت اورصہیونیت کی وجہ سے صحافت کا وہ چہرہ مسخ ہوگیا ہے جو کبھی عام انسانوں کے لیے ایک مشعل راہ اورمینارئہ نورکی حیثیت رکھتا تھا جسے جمہوریت میں چوتھے ستون کا درجہ نصیب تھا۔اسے واچ ڈاگ بھی کہا جاتا تھا مگراب وہی صحافت واچ ڈاگ کے بجائے لیپ ڈاگ بن چکی ہے اورانسانی احساسات اورمسائل کی ترجمان ہونے کی بجائے جدید صارفیت کا آلئہ کاربن کررہ گئی ہے۔‘‘  

(صحافت،صارفیت اورصیہونیت:حقانی القاسمی۔ص:۷۰)

 

    اس امر سے انکار کی گنجائش نہیں کہ صارفیت اورصہیونیت معاشرے کے اخلاقی گراوٹ میں کلیدی رول ادا کررہی ہے ۔لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ناموافق حالات میں بھی اردو اخبارات آج بھی یک طرفہ طورپر قومی یکجہتی کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیںاورانیکتا میں ایکتا کی مثا ل پیش کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔فسطائی طاقتوں کو دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پروپگینڈہ کی شکل میں جس ہولناک انداز میں شہہ دی جارہی ہے اس سے ایک خاص مکتبہ فکر کے لوگوں کو باخبرکرنے اور دانشمندی کے ساتھ ان حالات سے نبردآزماہونے کا سلیقہ بہت حد تک اردو اخبارات کے ذریعہ ہی دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحنان سبحانی نے اپنی تحریر’اردو اخبارات اورقومی یکجہتی ‘میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے،اورارد واخبارات سے مستقبل میںقوی امیدبھی رکھی ہے:

    ٭’’امید یہی کی جانی چاہیے کہ جوں جوںقومی شعور میں اضافہ ہوگا اردو اخبارات اپنی زبان کے بنیادی مقاصد اورروایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا فرضِ منصبی کو زیادہ جوش اورخلوص سے ادا کریں گے اوراس حقیقت کو فراموش نہ کریں گے کہ ہندوستان کے اتحاد،یکجہتی اورترقی میں ملک ے سارے باشندوں کا فائدہ ہے۔اس وقت چونکہ بعض قوتیں قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں مصرو ف ہیں،اس لیے اردو اخبارات کی ذمہ داری کافی بڑھ جاتی ہے۔اردو صحافت کی روایت ہی قومی یکجہتی ہے۔‘‘      

 (اردواخبارات اورقومی یکجہتی:ڈاکٹر عبدالحنان سبحانی۔ص:۴۱)

    یہ کہنے اورلکھنے کی ضرورت نہیں کہ صحافت کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ زندگی کا کوئی ایسا شعبئہ نہیں جوصحافت کے دائرہ کار سے باہر ہو۔ایک صحافی کے لیے یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر اپنی رائے موضوع و مواد کے اعتبار سے پکّی روشنائی میں قائم کرسکتا ہو۔ہرچند کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح Specialization کا تصوّر اب صحافت میں بھی عام بات ہوکر رہ گیا ہے۔اب  شاید اردو کے ایسے صحافی انگلیوں پر گنے جا سکیں جو بیک وقت ادب،سیاست،مذہب،سائنس،معیشت،فلم واسپورٹس وغیرہ پر اپنی دوٹوک رائے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

    بہر صورت یہ کتاب بہارکی اردو صحافت کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔بہت سار ی معلومات جو ہمیں سالوں سال تک لائبریریوں میں بیٹھ کر اخبارات و رسائل کی فائلیں پلٹنے سے حاصل ہوتیں وہ یکجا مل جاتی ہیں۔ مجھے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس موضوع کے تحت یونیورسٹیوں میں پی ایچ۔ڈی رجسٹریشن کا کام بھی ہوتا نظرآنے لگے گا۔

٭٭٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 721